سیاسی مقدمات کے ذریعے کسی حکمران یا رہنما کو پابند کرنا اور پھر اس پر خوشی کا اظہار کرنا کسی بھی باشعور شخص کا عمل نہیں ہو سکتا۔ تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ایسے مقدمات کے نتائج ماضی میں کیا رہے اور وہ انجام کو کیسے پہنچے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی قیدیوں کو سنائی گئی سزا کبھی مکمل طور پر لاگو نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس سیاسی انتقام کے تحت بنائے گئے مقدمات وقت کے ساتھ فراموش کر دیے گئے اور تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو گئے۔ ایسے مقدمات کے خلاف لوگ طاقت اور حکمرانی حاصل کرتے رہے ہیں، یہی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا المیہ ہے۔
کل 17 جنوری 2025 کو عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں 14 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی، جبکہ بشریٰ بی بی کو سات سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی گئی۔ یاد رہے کہ بشریٰ بی بی ضمانت پر تھیں، لیکن آج انہیں عدالت میں سزا سنانے کے بعد جیل بھیج دیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسز کب اور کس کی ایما پر بنائے گئے؟ جب عمران خان کی حکومت تھی تو نیب اور ایف آئی اے جیسے ادارے خوابِ غفلت کا شکار تھے۔ لیکن جیسے ہی انہیں اقتدار سے الگ کیا گیا، انہی اداروں کو اچانک ہوش آیا اور کرپشن، کرپٹ پریکٹسز اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے مقدمات سامنے لائے گئے۔
یہ سوچنے کی بات ہے کہ عدالتوں کو بھی اس وقت ہوش کیوں آتا ہے؟ یہ سب کس کے اشارے پر ہوتا ہے؟ پاکستان میں عدالتی نظام کے اندر بھی ایسے عوامل کارفرما ہیں جو صرف کمزوروں پر زور آزمائی کرتے ہیں، جبکہ بااثر افراد اور طاقتور شخصیات کو کھلی چھوٹ دی جاتی ہے۔ اس سب کے پیچھے ایک مخصوص چھتری کے نیچے کھیل کھیلا جاتا ہے۔
یہ سوال بے حد اہم ہے کہ اربوں روپے کی کرپشن کا فائدہ آخر کون لے رہا ہے؟ کون سے ادارے اور شخصیات ان سے مستفید ہو رہی ہیں؟ نیب، ایف آئی اے اور حتیٰ کہ اعلیٰ عدلیہ بھی بعض اوقات کسی بااثر قوت کے زیرِ سایہ اپنے اختیارات کا استعمال کرتی ہیں۔
بدقسمتی سے اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ جھوٹے اور من گھڑت مقدمات کے ذریعے کسی کو سزا دلوانا ممکن تو ہو سکتا ہے، لیکن اس سزا پر عمل درآمد انتہائی مشکل ہوتا ہے، خصوصاً جب ایک شخص کے پیچھے لاکھوں کروڑوں عوام کھڑے ہوں۔
ریاست میں سیاست کا عمل دخل صرف اعلیٰ ایوانوں تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اس کا گہرا اثر ملک کی معیشت، صنعت، زراعت، تعلیم اور صحت جیسے اہم شعبوں پر بھی پڑتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام کا براہ راست اثر امن و امان پر بھی ہوتا ہے، اور اس تمام عمل میں سب سے زیادہ نقصان عوام کو پہنچتا ہے۔
یہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اقتدار کے مراکز میں وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جن کے دل میں نیکی یا بدی کا کوئی احساس نہیں ہوتا اور جو محض طاقتور حلقوں کے گماشتے بن کر کام کرتے ہیں۔
عدت، 9 مئی اور القادر ٹرسٹ جیسے جعلی مقدمات میں عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور حکومت نے طے کر لیا ہے کہ خان صاحب کو کسی بھی صورت باہر نہیں آنے دینا۔ اب تو نو مئی کے مقدمات میں ان کا ملٹری ٹرائل کرنے کا منصوبہ بھی بنایا جا رہا ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما اپنے عہدوں پر پہنچ کر سُکون کی نیند سو رہے ہیں۔ کام اور جدوجہد تو دور کی بات، ان کی خاموشی ان کی بے حسی کو عیاں کرتی ہے۔ کبھی کبھار ہلکی پھلکی آوازیں اٹھا کر یہ اپنی موجودگی کا ثبوت دینے کی کوشش کرتے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ وہ لوگ جو خان صاحب سے وفاداری کے وعدے کرتے تھے، وہ کہاں ہیں؟ خان صاحب، جو ڈیڑھ سال سے جیل میں ہیں، ان کے لیے وعدے کرنے والے اب کیوں غائب ہو گئے ہیں؟
کہاں گئی تحریک انصاف کی “ریڈ لائن”، حقیقی آزادی کا نعرہ اور ریاست مدینہ کا بیانیہ؟
سوال تو بنتا ہے، اور سوال ہوگا تو جواب بھی آنا چاہیے۔ لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مزاحمت کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں بچا۔ مقتدرہ کو قانون کے دائرے میں رہنا ہوگا، ورنہ عوام کا اعتماد بحال کرنا ممکن نہیں۔ تحریک انصاف کے “ٹروتھ اینڈ ریکنسیلیشن کمیشن” کا کیا ہوا؟
یہ حقیقت ہے کہ عمران خان کسی ڈھیل یا ڈیل کے خواہاں نہیں ہیں اور نہ ہی وہ اپنے مؤقف پر سمجھوتہ کریں گے۔ ان کا مقصد واضح ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ریاست بھی لچک دکھانے کو تیار نہیں۔ عمران خان اس وقت حق پر ہیں اور وہ آئندہ نسلوں کی بہتر زندگی کے لیے قربانی دے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کا حق ہے کہ وہ ان کے لیے آواز بلند کریں۔ جو شخص “ایاک نعبد و ایاک نستعین” سے خطاب شروع کرتا ہے، اس کو کسی خوف کی ضرورت نہیں۔ یہ زندگی دو دن کی ہے، اور عوام کے حقوق، قانون کی حکمرانی اور جمہوری اصولوں کے تحفظ کے لیے کھڑا ہونا ہوگا۔
کیا ہم اب بھی خان صاحب کے لیے گھر بیٹھ کر دعائیں کرتے رہیں گے؟ تحریک انصاف کو اب جاگنا ہوگا اور ہر جانب سے آواز بلند کرنی ہوگی۔
اب سوال یہ ہے کہ سیاسی اور قانونی محاذ پر یہ جنگ کیسے جیتی جا سکتی ہے؟ میری رائے میں اس کے لیے مؤثر تنظیم اور مخلص افراد کی ضرورت ہے جو جمہوری اصولوں کے پابند ہوں، پارٹی کے مقاصد کو سمجھتے ہوں، اور کسی ذاتی مفاد کے بغیر پارٹی کے لیے خدمات انجام دینے کا جذبہ رکھتے ہوں۔
پی ٹی آئی کا مقصد ہے: جمہوریت کا تحفظ، سول سپرمیسی کا قیام، اور قانون کی بالادستی۔ یہ وقت ہے کہ کرپٹ اور خودغرض قیادت سے سوال کیا جائے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ کا اتنا خوف ہے تو پارلیمنٹ میں عوام کے حقوق کے لیے آواز کیسے اٹھائی جا سکتی ہے؟
یہ سب لکھتے ہوئے دل افسردہ ہو جاتا ہے۔ نہ کسی کو تحریک انصاف کی فکر ہے، نہ اس کی تنظیموں کی، اور نہ ہی جمہوریت کی۔ سب اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی سے اپنے تعلقات مضبوط کرنے میں لگے ہیں۔ پارٹی کا مفاد ثانوی بن چکا ہے، اور ذاتی مفاد ہی ترجیح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے اندر گروپ بندی اور اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں۔
عوام نے پارلیمنٹیرینز کو اس امید پر ووٹ دیا تھا کہ وہ عمران خان کی رہائی کے لیے جدوجہد کریں گے، لیکن یہ قیادت اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹتی دکھائی دیتی ہے۔ واحد راستہ مزاحمت ہے، چاہے اس میں جیل جانا پڑے یا موت ہی کیوں نہ آئے۔ اس کے بغیر آزادی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ عوام کی خدمت تو دور کی بات، یہ لوگ اپنے وعدے نبھانے سے بھی قاصر ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں