صرف بالغوں کے لیے/ڈاکٹر نوید خالد تارڑؔ

“میں بہت مشکل میں ہوں، مجھے آپ سے بات کرنی ہے”

ایک انجان آئی ڈی سے فیس بک پہ میسج آیا تھا۔
میں نے کچھ گھنٹے بعد دیکھا تو جواب دیا کہ “جی کہیے، کیا بات کرنی ہے؟”

کچھ دیر گزری تو دوسری طرف سے اگلا سوال آیا
“کیا آپ ڈاکٹر ہیں؟”

میں نے ہامی بھری تو درخواست آ گئی
“میری بات کو راز رکھیے گا اور مجھے اس مسئلے کا کوئی سائنسی حل بتائیے گا، مذہبی حل نہیں”

“میں جو آپ کو بتانے جا رہا ہوں، وہ بتاتے ہوئے مجھے شدید شرمندگی ہو رہی ہے، عین ممکن ہے میری بات سن کر آپ کو مجھ سے گھن آنے لگے یا آپ میری بات سن کر مجھے بلاک ہی کر دیں لیکن میں اتنا مجبور ہو چکا ہوں کہ میرے پاس کسی سے مدد مانگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔”

میں نے اس کا حوصلہ بندھایا اور اس سے کہا کہ جو بھی ہو کھل کے کہہ لو، ہم ڈاکٹرز کو ہر طرح کی بات سننے کی عادت ہوتی ہے اور مریض کی ہر بات ہمارے پاس امانت ہوتی ہے۔ اس لیے تمھارا راز کبھی افشاں نہیں ہو گا۔

“مجھے سمجھ نہیں لگ رہی کہ میں اپنی بات کہاں سے شروع کروں اور کیسے کہوں ، یہ سب بتاتے ہوئے بھی مجھے اپنا آپ گندگی میں گھرا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر صاحب میری عمر پچیس سال ہے اور میں کئی دفعہ خودکشی کی کوشش کر چکا ہوں لیکن شائد موت بھی مجھے زندگی کی سختیوں سے بچانے کو تیار نہیں، اس لیے ہمیشہ بچ جاتا ہوں۔

میں پچھلے کئی ماہ سے شدید کرب میں ہوں۔ بس ہر وقت بیماروں کی طرح پڑا رہتا ہوں، کوئی کام نہیں کر سکتا، کسی سے بات کرنے کو دل نہیں کرتا۔ میں دو ڈاکٹرز کے پاس گیا تھا لیکن ان کا رویہ دیکھ کر مجھے لگا کہ میں اگر ان سے اپنی بات کہوں گا تو وہ میرا مذاق اڑائیں گے، اس لیے کچھ بھی کہے بنا واپس آ گیا”

اس کے بعد اس کا کافی دیر تک کوئی میسج نہیں آیا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ اسے حوصلے کی ضرورت ہے، وہ سب کہنے کے لیے جو وہ کہنا چاہتا ہے۔ اسے اپنا بوجھ بانٹنے کے لیے سہارا چاہیے۔ میں نے اسے اگلے کچھ میسجز میں حوصلہ دیا تو اس نے اپنی کہانی سنانی شروع کر دی۔

” میں انتہائی شرمیلا اور کم گو ہوں۔ میں کبھی زیادہ دوست یا تعلق نہیں بنا پایا۔ میرا بچپن سے ایک ہی بہت قریبی دوست ہے، اتنا قریبی کہ میرے گھر والے بھی جانتے ہیں کہ وہ میرا بیسٹ فرینڈ ہے۔ ہماری دوستی کو تقریباً پندرہ سال ہو چکے ہیں۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ ایک واقعہ سے سب کچھ بدل گیا۔ تقریباً پانچ چھ سال پہلے کی بات ہے کہ ایک روز ہم کسی مشترکہ دوست کی شادی پہ گئے ہوئے تھے تو وہاں بستر کم ہونے کی وجہ سے ہم ایک ہی چارپائی پہ سو گئے۔ رات کو میری آنکھ کھل گئی کیوں کہ میرا دوست میرے جسم پہ اپنا ہاتھ پھیر رہا تھا۔

مجھے بہت عجیب لگا لیکن میں نے اسے کچھ نہیں کہا اور نہ ہی یہ ظاہر کیا کہ میں جاگ چکا ہوں۔ اس کا ہاتھ ایسے ہی میرے جسم پہ گھومتا گھومتا نازک حصوں کی طرف بڑھ گیا اور پھر اس کی دست درازی بڑھتی گئی۔ میں اسی طرح دم سادھے دوسری طرف منہ کیے لیٹا رہا۔ مجھے ڈر بھی لگ رہا تھا کہ اگر میں بولوں گا یا اسے کچھ کہوں گا تو کسی اور کو پتا چل جائے گا اور بہت بدنامی ہو جائے گی یا شائد میں بھی دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے۔

میرا خیال تھا کہ وہ ابھی کچھ دیر میں رک جائے گا لیکن اس کی دست درازی مزید سے مزید بڑھتی چلی گئی۔ اس نے میرے کپڑے اتارے اور ہر حد پار کر دی۔ مجھے شدید تکلیف ہوتی رہی لیکن میں بس ڈرا ہوا چپ چاپ پڑا رہا۔ وہ جانتا تھا کہ میں جاگ رہا ہوں۔ وہ جانتا تھا کہ مجھے تکلیف ہو رہی ہے لیکن اس نے اپنی طلب پوری کی۔

اس رات کے بعد بہت عرصہ تک ہم یہ ظاہر کرتے رہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ہم نارمل انداز میں ملتے جلتے رہے۔ پھر کافی عرصے بعد ایک روز ہم گھر میں اکیلے تھے تو اس نے پھر سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی۔ میں نے ہلکا سا روکنے کی کوشش کی لیکن وہ کہنے لگا کہ دوستوں میں تو یہ سب ہوتا ہے۔ اور اس کی چھیڑ چھاڑ بڑھتی گئی۔ وہی سب پھر سے دہرایا گیا اور میں نے اسے کچھ نہیں کہا۔

پھر یوں ہوا کہ یہ سب معمول میں باقاعدگی سے ہونے لگا اور میں اس سب کو انجوائے کرنے لگا۔ دن بہ دن مجھے اس سب کی عادت ہوتی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ میں بھی اس سب سے لذت کشید کرنے لگا۔ پھر یوں بھی ہونے لگا کہ میں خود اُسے تنہائی میں اپنی طرف راغب کرتا اور اس کے التفات سے مزے لیتا۔

وہ میرے بدن کی تعریف کرتا تھا، میری خوبصورتی کو سراہتا تھا اور مجھے یہ اچھا لگتا تھا۔ میں اپنی مزید تعریف سننے کے لیے، اس کی مزید محبت پانے کے لیے اس کی ہر بات ماننے لگ گیا۔ مجھے لگنے لگا تھا کہ میں شائد اسی لیے بنا ہوں، اس لیے مجھے ایسے ہی سب کچھ چلنے دینا چاہیے۔

ڈاکٹر صاحب پتا نہیں ایسا کیوں ہوا لیکن مجھے اس سب عمل میں، اس تکلیف میں لذت محسوس ہونے لگ گئی تھی۔ میں آہستہ آہستہ اس سب کا بہت بری طرح عادی ہونے لگ گیا تھا۔ اور وہ میری صورت حال کو سمجھتا تھا اس لیے وہ میرا بھرپور فائدہ اٹھاتا تھا، مجھ سے عجیب عجیب فرمائشیں کرتا تھا۔ ایسی باتیں جنھیں سوچ کر بھی اب گھن آتی ہے لیکن تب میں اس کی ہر بات مانتا چلا گیا۔ وہ لذت کشید کرنے کے لیے مجھ پہ ہر طرح کے تجربات کرتا رہا کبھی اپنی شرمگاہ میرے منہ میں ٹھونس دیتا، کبھی مجھے وہاں سے خارج ہوئے مادے پینے کو کہتا کہ اس سے ہماری آپس کی محبت بڑھے گی۔
مجھے معاف کر دیں ڈاکٹر صاحب میں کیسی کیسی گھٹیا باتیں کر رہا ہوں آپ کے ساتھ۔ آپ کو یقیناً یہ سب سن کر کوفت ہو رہی ہو گی۔ میں معافی چاہتا ہوں لیکن میرے اوپر بہت بوجھ ہے، اس لیے سب کچھ بتا کر اپنا بوجھ کم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔”

ڈاکٹر صاحب چار مہینے پہلے اس کی شادی ہو گئی ہے۔ اور اس نے مجھ سے کہا ہے کہ میں اس سے دوبارہ کبھی نہ ملوں تاکہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ تعلق میں مخلص رہ سکے۔ وہ. میری زندگی سے الگ ہوا ہے تو مجھے ہوش آیا ہے کہ میں کیا بن گیا تھا۔ میں اپنے آپ سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہا۔ میں اپنی عادت کی وجہ سے اب بھی اسے یاد کرتا ہوں، اس کی کمی محسوس کرتا ہوں لیکن اب میری آنکھیں کھلی ہیں تو شرمندگی کے مارے اپنے منہ پہ تھپڑ بھی مارتا ہوں۔ میں نے خودکشی کی کوششیں کیں تو میرے گھر والے مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئے لیکن میں ڈاکٹروں کو کچھ نہیں بتا سکا۔

اب میں بہت مشکل میں پھنسا ہوا ہوں۔ میں اس عذاب سے نکلنا چاہتا ہوں۔ میں اس عادت سے جان چھڑانا چاہتا ہوں، میں اس کے ساتھ موجود تعلق کو بھول کر نارمل ہونا چاہتا ہوں۔ ایک طرف میرے اندر شدید خواہش جاگتی ہے کہ وہی سب پھر سے ہونے لگے اور دوسری طرف انتہا کی خواہش ہے کہ میں دوبارہ کبھی ایسا نہ کروں۔ میرے اندر شدید ٹوٹ پھوٹ ہو رہی ہے، میں اندر سے بالکل تباہ ہو چکا ہوں۔ مجھے ایسا لگ رہا جیسے جنگ میں ہوں۔ اپنے آپ سے شدید لڑائی لڑ رہا ہوں۔

میں ایسا نہیں تھا ڈاکٹر صاحب، مجھے لڑکوں میں کبھی دلچسپی محسوس نہیں ہوئی تھی لیکن یہ سب شروع ہوا تو اب مجھے لگتا ہے میری دلچسپیاں ہی بدل گئی ہیں۔ مجھے لگتا ہے میں کبھی شادی نہیں کر پاؤں گا۔ مجھے کسی نے مشورہ دیا تھا کہ کسی لڑکی سے تعلق بناؤں لیکن مجھے کوئی ایسی لڑکی مل ہی نہیں رہی جس سے میں تعلق بنا سکوں۔

میں مذہبی اعتبار سے دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے میرا ٹھکانہ بس جہنم ہے۔ اللہ کبھی مجھے معاف نہیں کرے گا، میں نے بہت زیادہ گناہ کر لیے ہیں۔ میں نے سنا تھا ایک مولوی صاحب کہہ رہے تھے کہ ایسا کام کرنے والوں کو کبھی معافی نہیں مل سکتی۔ میری زندگی بھی برباد ہو گئی ہے ڈاکٹر صاحب اور میری آخرت بھی برباد ہو گئی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں لگتی میں کس دیوار میں ٹکر ماروں۔ ایک تو جو ہو چکا ،اس کا افسوس اور اس سب کے غلط ہونے کی تکلیف کم نہیں ہو رہی، اور دوسری طرف وہی سب دوبارہ سے کرنے کی خواہش میرے جسم و جان کو بری طرح روند رہی ہے”

وہ چپ ہو گیا تھا، مجھے لگا دل کی بھڑاس نکال چکا تھا تو شائد اب سر ہاتھوں میں دیے رو رہا ہو گا۔

میں نے بات شروع کی
” جو ہو چکا وہ ٹھیک نہیں ہوا، یہ احساس بھی چھوٹی چیز نہیں ہے۔ ہر انسان غلطی کرتا ہے لیکن اس غلطی کا احساس ہر انسان کو نہیں ہوتا۔ آپ نے جو کچھ کیا، آپ کو اس پہ افسوس ہے اور آپ اس سب سے نکلنا چاہتے ہو تو یہ بھی ایک نعمت ہی ہے۔

اس کے علاوہ آپ کو یہ سمجھنا پڑے گا پسند، رجحان یا شوق کوئی ٹی وی کا بٹن نہیں کہ جب چاہا دبا کر آن کر لیا اور جب چاہا دبا کر بند کر دیا۔ یہ رجحان اگر آپ نے مسلسل عادت سے اپنے اندر پیدا کر لیا ہے تو اسے ختم کرنے کے لیے بھی مسلسل کوشش ہی کرنی ہو گی۔ جو عادت پیدا ہونے میں اتنا وقت لے گئی ہے، اس سے جان چھوٹنے میں بھی وقت لگے گا۔

اور یہ بھی یاد رکھیں کہ آپ نے اگر اب کسی دوسرے فرد سے تعلق بنایا تو یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جائے گا۔ آپ کو اگر اس سے بچنا ہے تو آج اور ابھی ہی اس سب کو روکنا ہو گا۔ ورنہ یہ سب معاملہ کسی دلدل کی طرح ہوتا جائے گا، آپ اس میں دھنستے ہی چلے جاؤ گے اور ایک وقت آئے گا کہ آپ کے پاس باہر نکلنے کا کوئی رستہ نہیں رہے گا اور آپ کے اندر اس سب کے غلط ہونے کا احساس بھی مر جائے گا۔

مذہبی حوالے سے دیکھا جائے تو آپ سے گناہ ہو چکا ہے لیکن خدا ہمیں اپنی ذات سے مایوسی نہیں سکھاتا۔ یہ سمجھنا کہ اب وہ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا، درست رویہ نہیں ہے۔ خدا سے مایوس نہیں ہوتے، وہ ستر ماؤں سے بڑھ کر پیار کرنے والا ہے۔ اس سے رو پیٹ کر اپنی بات منوا لیتے ہیں، اپنی غلطی کی معافی مانگ لیتے ہیں۔ ہم اس کے بندے ہیں، وہ ہمیں واپس اپنی طرف آنے پہ تنہا نہیں چھوڑے گا۔

جو ہو چکا، وہ بدل نہیں سکتا۔ اس پہ افسوس ہونا چاہیے لیکن اس سب کو اپنی آنے والی زندگی پہ حاوی نہیں کرنا چاہیے۔ اپنے اوپر بہت ظلم کر چکے ہو، اپنی جان پہ مزید ظلم نہ کرو۔ اپنے آپ کو کم تر نہ سمجھو۔ اپنے ماضی کی وجہ سے اپنا مستقبل برباد مت کرو بلکہ ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر انھیں مستقبل میں نہ دہرانے کا عزم کرو۔ تاریک ماضی سے نکل کر روشن مستقبل کی طرف بڑھو۔

کوئی دوسرا آپ کی صورتحال سے نہیں گزرا، اس لیے کوئی دوسرا آپ کے جذبات کو نہیں سمجھ سکتا۔ دوسروں سے یہ امید رکھنا کہ وہ چیزوں کو آپ کے مطابق دیکھیں گے، فضول ہے۔ دوسروں سے ایسی امید نہ رکھیں اور خود اپنے آپ کو بہادر بنائیں کہ اکیلے ان سب حالات کا مقابلہ کر سکیں۔

جسمانی طلب اور اس سے منسلک خواہشات تو ہم انسانوں کے ساتھ رہنی ہی ہوتی ہیں لیکن ہمیں انھیں کنٹرول کرنا آنا چاہیے۔ ہمیں انھیں اپنے تابع کرنا ہے، خود ان کا تابع نہیں ہونا۔ آپ کے اندر کی خواہشات ختم نہیں ہوں گی لیکن آپ کو اتنا مضبوط ہونا پڑے گا کہ آپ ان پہ قابو پا سکو۔

دنیا میں کوئی بھی سکون سے نہیں جی رہا۔ ہر کوئی اپنی جنگ لڑ رہا ہے۔ آپ کی جنگ یہی ہے اور یہ جنگ آپ کو خود ہی لڑنی ہے۔ ہم انسان بڑے مضبوط ہوتے ہیں، ہم کوشش کر کے اپنی عادات، اپنا مزاج بدل لیتے ہیں۔ آپ بھی ایسا کر سکتے ہو، یہ سب آسان نہیں ہو گا لیکن انسان کی مضبوطی کا پتا تو مشکل میں ہی چلتا ہے نا اس لیے بس ڈٹے رہنا ہے، کوشش کرتے رہنا ہے۔اس مشکل سے گزر کر ہی آسانی ملے گی۔

ہم مضبوطی کے باوجود کمزور لمحوں میں پھسل جاتے ہیں لیکن ہم اپنے اوپر قابو پا کر ہی دوبارہ اپنے آپ کو پھسلنے سے روکتے ہیں۔زندگی خدا کی نعمت ہے، اسے ماضی کے افسوس میں ضائع نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کی زندگی میں ابھی بہت کچھ آئے گا۔ بس اپنے آپ سے اور اپنے رب سے مایوس نہیں ہونا”

اس کا جواب آیا
” آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے اتنا وقت دیا، میری بات سنی۔ وہ سب بھی تحمل سے سنا جسے سن کر کوفت ہونے لگے۔ میں آپ کی باتیں سمجھ رہا ہوں، میں ان پہ عمل کرنے کی کوشش کروں گا اور وقفے وقفے سے آپ سے مدد لیتا رہوں گا۔

میری آپ سے ایک اور درخواست ہے کہ آپ میری شناخت چھپا کر میری کہانی کو تحریر کی صورت میں لکھیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اگر کوئی ایسے چنگل میں پھنسا ہوا ہے تو اسے احساس ہو سکے کہ اسے بروقت اس چنگل سے نکلنا ہے۔ کوئی پھنس گیا ہے تو اسے پتا چل سکے کہ اب بچنا کیسے ہے۔ جو باتیں میں اب سمجھ رہا ہوں شائد کوئی بروقت سمجھ جائے۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

میں نے اس سے تحریر لکھنے کا وعدہ کیا تھا اور اب وہ وعدہ پورا کرتے ہوئے یہ تحریر لکھ چکا ہوں۔ اگر کوئی ایسے کسی مسئلے کا شکار ہو اور دل کی بھڑاس نکالنے کو کوئی میسر نہ ہو تو وہ مجھے اپنا حال بتا کر اپنا بوجھ ہلکا کر سکتا ہے، کوئی مشورہ کوئی مدد لے سکتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply