پریشان حال لوگ/محمد عامر حسینی

جنوری 2024ء کا تیسرا ہفتہ ہم سب اہل خانہ کی یادوں کا انمٹ جزو رہے گا۔ یہ شدید دباؤ، تناو، تشویش اور خطر کا ہفتہ تھا جس میں وہ ہونی ہوکر رہی جس کا دھڑکا ہم سب کو تین سالوں میں ہر گزرتے دن اور رات لگا رہا۔ ہم سب کی نیند اچاٹ تھی ۔ اداسی جیسے ہمارے گھروں کی منڈیر پہ بال کھولے آکر بیٹھ گئی تھی ۔
مجھ جیسے مادیت پرست کو چھوڑ کر گھر کا ہر فرد صاحب یقیں تھا اور کسی کا جھگڑا حقیقت الحقائق کہلانے والے سے نہیں تھا تو وہ سب اسی کی طرف لو لگائے ہوئے تھے اور اس پہ راضی بہ رضا نظر آتے تھے۔

مجھے یہ سخت ناانصافی لگ رہی تھی۔ میری بے یقینی اور بڑھ گئی تھی ۔ میرے سامنے وہ شخص مفلوج بستر پر پڑا تھا جس نے ساری عمر نہایت سادہ غذا کھائی ، کبھی نہ سگریٹ پی ، نہ حقے کی نال سے تمباکو کے کش کھینچے ، نہ دختر انگور سے شغف رکھا۔ جس نے کبھی فاسٹ فوڈ سے حظ اٹھایا نہ کبھی کیمیکل ملے مشروبات کو منہ لگایا ۔ آخر اس کے جگر پہ اتنی گلٹیاں کیسے بنیں ؟ لبلبہ کیسے سرطان کا شکار ہوا ؟
جس نے ساری عمر بدن توڑ مشقت کی۔ خوب پسینہ بہایا ۔ صحت مند رہنے کی ساری شرائط جس نے پوری کیں ۔
کوئی تہجد نہ چھوڑی، نماز پنجگانہ جس کی عادت رہی ، جس نے فرض روزوں کے ساتھ پابندی سے نفلی روضے رکھے۔ انفاق فی سبیل اللہ کو شعار بنایا ۔ خلق خدا کی مقدور بھر داد رسی کی ۔
وہ کیسے طبعی اور آسان موت کا حقدار نہیں ہوا اگر قبض روح کا اختیار “حقیقت الحقائق ” کے پاس تھا تو؟

وہ کسی معرکہ حق و باطل میں لڑتا ہوا موت کا شکار ہوا ہوتا اور اس کی لاش پہ قاتلوں نے جشن منایا ہوتا تب بھی میں شکایت نہ کرتا اور اس موت پہ فخر کرتا۔ لیکن یہ کیا کہ اسے آہستہ آہستہ ایک انتہائی تکلیف دہ موت سے ہمکنار ہونا پڑا جس کا کوئی جواز میری سمجھ سے بالاتر تھا ۔
مگر جو شخص اس تکلیف میں مبتلا تھا وہ مجسم صبر و شکر بنا ہوا تھا ۔ اپنی موت سے چند سیکنڈ پہلے حالت نزاع میں اس سے میرے بھائی نے پوچھا، کیسے ہیں؟ اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور گم ہوتی گویائی کے ساتھ آہستہ سے زیر لب کہا، ٹھیک ہوں۔

ایک گھنٹہ پہلے اس نے میری بہن سے کہا کہ اللہ کا مال ہے زندگی ، اس نے واپس لینی ہے ۔ موت بس ایک بار آتی ہے پھر حیات جاودانی ہے۔ مجھے اس وقت شدید غصہ آیا اور میں نے بمشکل ضبط سے کام لیا اور کچھ کہنے سے گریز کیا ۔ اسی لمحے انھوں نے میری طرف دیکھا اور لبوں پہ مسکان آئی ، شاید وہ میرے ضبط کو سمجھ گئے تھے ۔ اور کہنا چاہتے ہوں، کامریڈ! جو بھی حقیقت کو طریق پیداوار سے جانچنے کی کوشش کرتا ہے اسے مابعدالطبعیات گورکھ دھندا لگتی ہے پھر یہ مظلموں کی آہ اور سہارے کے لیے ایک افیون لگتی ہے ۔ یہ مارفین کا انجکشن ہے جو احساس درد کو مٹاتا ہے ناکہ درد کو ۔

ہمارے زمان و مکاں کبھی ایک نہیں رہے تھے اور ہم کبھی بھی “حقیقت الحقائق” کے سوال کو لیکر ایک پیج پر نہیں تھے ۔ وہ سراپا یقیں تھے ۔ میں سراپا تشکیک و ریب تھا۔ وہ ایمان بالغیب کے قائل تھے اور میں جدلیاتی مادیت کو کشاف الحقائق سمجھتا تھا ۔ وہ تصوریت پسند تھے اور میں مادیت پرست تھا ۔ وہ عبدیت کو مقام انسانیت میں حریت کا سب سے بڑا درجہ سمجھتے تھے اور میں غلامی کی کسی بھی شکل کو انسان کے شایان شان نہیں سمجھتا تھا چاہے وہ کسی مادی مظہر کی ہو یا کسی وجود مطلق کی ۔

میں ان سے اپنی محبت کو اور تعلق خاطر کو بائیولوجیکل اور اس سماجی رشتے کی دین سمجھتا تھا جس میں ہم دونوں جڑے ہوئے تھے ۔ لیکن یہ طے تھا وہ بھی مجھے عزیز رکھتے تھے اور میں انھیں عزیز رکھتا تھا ۔ وہ سادہ دل تھے اور میں ان کی سادگی پر مرتا تھا ۔ وہ ایمانداری کے ساتھ جینا چاہتے تھے اور چھل کپٹ سے دور تھے اور مجھے وہ اسی لیے اچھے لگتے تھے۔

میں نے کبھی ان کے یقین کو اپنی تشکیک سے شکست دینے کی کوشش نہیں کی تھی۔ میں کبھی اس یقین سے جڑے لوازمات کے ساتھ وابستہ نہیں ہوا جنھیں وہ میرے دونوں چھوٹے بھائیوں کو اپنانے کی تلقین کیا کرتے تھے لیکن داد انھیں بھی دینی پڑتی ہے کہ انھوں نے بھی کبھی میری تشکیک پر اپنے ایمان و یقین سے حملہ نہیں کیا تھا ۔
ایک روز وہ میرے کمرے میں آئے ، میں کوئی کتاب پڑھ رہا تھا ۔ میرے کمرے میں دروازے کے عین سامنے لگی کچھ پورٹریٹ میں سے ان کی نظریں کارل مارکس کی پورٹریٹ پر گڑی تھیں ۔ تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے مجھ سے کہنے لگے ، یہ کس کی تصویر ہے ؟

میں نے ان کے تصوف سے لگاؤ کا خیال کرتے ہوئے ان کے جذبات کا استحصال کرنے کی کوشش کی اور کہا یہ ایک عارف کامل کی تصویر ہے جو خدا کے بندوں میں عدم مساوات ختم کرنے کے لیے کوشاں رہا ۔ یہ سب کہتے ہوئے نجانے مجھے کیوں یہ خیال نہ آیا کہ میری لائبریری میں ان سے جو کتابیں مجھے ملیں ان میں “کلیات اقبال” کا ایک نسخہ بھی شامل ہے جس کے ہر صفحے پر ہائیلائٹر سے مصرعے نشان زد اور کتاب کے شروع کے خالی دو صفحوں پر حاشیوں کی بھرمار ہے ۔
وہ میری بات سن کر زیر لب مسکرائے اور بس اتنا کہا، ہاں ٹھیک کہتے ہو،
“پیغمبر نیست ولے در بغل دارد کتاب”
یہ کہہ کر وہ میرے کمرے سے رخصت ہوگئے ۔ میں ان کی بات سن کر سخت شرمندہ ہوا ۔

اس بات کو کئی روز گزر گئے ۔ ایک روز انہوں نے مجھے بلایا، میں نے دیکھا کہ ایک اٹیچی کیس جس میں انھوں نے اپنی کئی چیزیں سنبھال کر رکھی تھیں اسے کھولے بیٹھے تھے اور جب میں پہنچا تو مجھے پاس بٹھایا اور ایک بیج نکالا جو پی پی پی کے ترنگے جھنڈے جیسا تھا اور اس پہ تلوار بنی تھی ۔ اور اسی کیس سے ایک کتابچہ نکالا ؛ میں دیکھ کر حیران ہوا، وہ پی پی پی کی تاسیسی دستاویز تھی ۔ کہنے لگے، انھیں پیپلزپارٹی کی بنیادی رکنیت کے کارڈ، بھٹو کے دستخطوں سے لکھے خط کے ساتھ یہ موصول ہوئی تھی ۔

پھر وہ یادوں میں کھوئے کھوئے سے کہنے لگے کہ وہ اور ان کے کئی ایک دوست زور و شور سے پی پی پی کی کمپئن میں مصروف تھے جب 113 مولویوں ، پیروں اور مشائخ عظام کے دستخطوں کے ساتھ ایک فتوی پی پی پی کے خلاف جاری ہوا جس میں کچھ نام ایسے تھے جنھیں وہ سخت عقیدت اور محبت سے دیکھتے تھے ۔ بس پھر یہ ہوا کہ ہم نے رکنیت کارڈ، بھٹو کا خط اور شہاب و نصرت کے کئی شمارے چوک سنگلہ والہ میں جلائے اور وہ جمعیت علمائے پاکستان میں شامل ہوگئے ۔ یہ بیج اور دستاویز جلنے سے اس لیے بچے رہے کہ وہ کہیں میگزین کے انبار میں دب گئے تھے اور بہت بعد میں صفائی کے دوران ملے جب بقول ان کے “نہ جنوں رہا ، نہ پری رہی ” اور وہ سیاست میں ملاوں کے کردار کو دیکھ کر سیاست سے دستبردار ہوگئے تھے ۔

مجھے کہنے لگے کہ وہ اس ملک کے ان تمام بڑے سیاست دانوں اور دانشوروں کو جانتے ہیں جو تمہارے “عارف کامل” کے ارادت مند ہیں ۔ اور اس شہر میں اس “عارف کامل” کے جتنے خلفائے مجاز ہیں ، ان سے بھی وہ واقف ہیں ۔ یہ کہتے ہوئے وہ ہنس رہے تھے۔ پہلے ان کا خیال تھا کہ میں ایک فیز سے گزر رہا ہوں جو جلد ختم ہوجائے گا ، جیسے انھوں نے اپنے ایک دوست کی جانب سے میری روش کی نشاندہی کے جواب میں کہا تھا جسے میں نے بیٹھک کے پاس سے گزرتے ہوئے سن لیا تھا ۔

انھوں نے مجھ سے کبھی اس معاملے پر گفتگو نہیں

کی اور مجھے میرے حال پر چھوڑے رکھا ۔ مجھے نہیں معلوم جب میرا فیز ختم ہونے کو نہیں آیا تو وہ کیا سوچتے تھے اور کیا سمجھتے تھے ۔ لیکن ان کے ہاں میں نے کوئی سختی نہیں دیکھی نہ بے زاری ۔ وہ صحیح معنوں میں صوفی مست الست تھے اپنی دنیا میں مگن ۔ عرصہ دراز سے جب وہ سیاست سے اوب گئے تھے اور مکمل طور پہ صوفی المشرب ہوئے تو انہوں نے اپنا سارا سماجی سرکل ختم کردیا تھا۔ گھر سے کمیشن شاپ پر اور وہاں سے گھر تک بد یہی ان کا روز کا معمول تھا ۔ اکثر وقت وہ صفائی ستھرائی میں گزارا کرتے تھے جس کا انھیں جنون تھا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ؛تحریر کا عنوان فیسبک پالیسی کے تحت تبدیل کیا گیا ہے

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply