اوّل تو موازنہ بنتا ہی نہیں ہے۔آفت یا قدرتی آفت اور مذہبی جنگ کی نفسیات مختلف ہی نہیں انتہائی مختلف ہے۔ دیگر یہی کہ عام لوگ دنیا کے کسی بھی کونے میں ظالم طبیعتیں ہوتی ہی نہیں ہیں بلکہ منفرد نوعیت کے بہترین احتجاج اور رنگا رنگ میلے بھی پردیس میں ہی دیکھنے کو ملتے ہیں جو عام لوگوں کے موہون منت ہے۔ غالباً ایک مقامی قومی ایشو جسے پڑوس سے بھی آشیرباد نہ ملی چونکہ وہ خود بقا کے لیے کھڑے ہیں اور جو خدا نخواستہ کسی بھی وقت دندناتے ہاتھیوں کے ہتھے چڑھ جائیں گے ،کو بین الاقوامی تقویت دینے والے یہی عام لوگ ہیں جو پیدا ہوئے بی اے کیا نوکر ہوئے شادی کی اور مرجایا کرتے ہیں لیکن ایک آگاہی دے جاتے ہیں اور دنیا کو پیشن گوئیوں کے تحفے دے جاتے ہیں۔
یہ دنیا کسی قوم یا مخصوص سانچوں یا زبان والوں یا زبان درازوں کی نہیں ہے۔ سب انسانوں کی ہے۔ کائنات تسخیر ہی انسانوں کے لیے ہوئی ہے تاکہ غور و خوض جاری رہے اور ترقیاتی منصوبے چلتے رہیں۔ یہ لکیریں اور قومی عصبیتیں ثقافتی و تاریخی و جغرافیائی و سیاسی پس منظر رکھتی ہیں اور انتظامیہ کی کوشش کاوش ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ ظالموں نے بچوں بوڑھوں خواتین اور ان کے جگر گوشوں کے کلیجے تک چبھا لیے ہیں لیکن دنیا بہرحال سب کی ہے اور تقسیم اور حکمرانی بہرحال ظالموں کا وطیرہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ تقسیم ہی دراصل کاروبار ہے وگرنہ عام شخص کو کیا پڑی ہے کوئی کیسے لفظ ادا کر رہا ہے یا کوئی اجرک پہنتا ہے یا پوشاک چڑھاتا ہے! عام لوگ تو خدمت ہی کرتے رہتے ہیں۔ عام انسان تو انس کا پیکر ہے۔ دراصل تو ظالم طبیعت نسیان میں پڑ گئی ہے اور عام انسانوں کو استعمال کرتی ہے وگرنہ کوئی کیوں کسی جنگ میں خاندان چھوڑ کے کودے گا؟

دنیا کی اس صورتحال کی ذمہ دار مشترکہ انسانیت ہے البتہ شریف اشرف رذیل ارزل اسفل سافلین کی تقسیم بہرحال موجود ہے! دنیا میں تمام جنگوں کا حل ٹیبل ٹاک ہی ہے لیکن اگر ٹیبل ٹاک ہی ہے تو ایک بار ہی تطہیر کیوں نہیں ہو جاتی؟! ایسا مشکل ہے چونکہ ظرف کا معاملہ ہے۔
Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں