ایکسپلیننگ پوسٹ ماڈرنزم/مبصر: جاوید رسول

کتاب :Explaining Postmodernism: Skepticism and Socialism from Rousseau to Foucault
مصنف: اسٹیون آر-سی -ہُکس
ترجمہ: شرح مابعد جدیدیت: تشکیکیت اور سوشلزم؛ روسو تا فوکو
مترجم: ڈاکٹر نذیر آزاد
مابعد جدیدیت پر کئی  اہم مضامین دوران پی ایچ ڈی حیدرآباد میں پڑھے تھے۔اس وقت مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ اسٹیون آر سی ہُکس نے اس عنوان سے کوئی  کتاب لکھی ہے۔یہ تو تب پتہ چلا جب نذیر آزاد صاحب نے ہُکس کی کتاب کا اردو ترجمہ کیا۔چونکہ میں آزاد صاحب کے ادبی مزاج سے واقف تھا اور جانتا تھا کہ انہوں نے کوئی سنجیدہ بحث دیکھ کر ہی کتاب کا ترجمہ کیا ہوگا اس لیے فوراً انگریزی کے ایک آدھ  باب  کا مطالعہ کیا۔اس وقت میں نے اس کتاب کے حوالے سے جو رائے قائم کی تھی وہ آج اردو ترجمہ پڑھنے کے بعد مزید استوار ہوئی۔میری رائے کیا ہے اور کن بنیادوں پر قائم ہے یہ سب آپ کو آگے معلوم ہو جائے گا۔

“شرح مابعد جدیدیت” پڑھنے کے دوران آپ کو جگہ جگہ اس بات کا احساس ہوگا کہ ہُکس اپنا مقدمہ اس مفروضے پر قائم کررہا ہے کہ مابعدجدیدیت روشن خیالی،اشتراکیت اور انفرادیت کی ناکامی کے نتیجے میں سامنے آنے والا کوئی ازم ہے جو باقی ازموں کی طرح خود بھی ناکام ثابت ہورہا ہے۔ہُکس اپنے اس مفروضے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے فلسفیانہ تاریخ کی تعبیر جس زوایہ نگاہ سے کرتا ہے وہ ظاہر ہے اینٹی پوسٹ ماڈرنسٹ ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ ہُکس کو اگر ایسا کرنا ہی مقصود تھا تو اس نے رومانیت پسندوں، عقلیت پسندوں ،وجودیوں اور سوشلسٹوں کے تجزیے پر وقت ضائع کیوں کیا، وہ چاہتا تو سیدھے لیوتارڈ سے بھی تو شروع کرسکتا تھا، روسو اور کانٹ سے شروع کرنے  کی کیا ضرورت تھی؟ دراصل ہُکس کو یہ ثابت کرنا تھا کہ کانٹ کے بعد آنے والے سبھی فلسفی کانٹ کے محض چیلے تھے جن کی فلسفیانہ اساس کانٹ کے فلسفے پر قائم ہے اور یہ کہ جدیدیت ہو یا مابعد جدیدیت ،کانٹ ہی کے فلسفہ کی توسیع ہے۔ایسا نہیں ہے کہ ہُکس کانٹ کا معترف ہے یا اس کا معتقد ہے بلکہ اس کے نزدیک کانٹ کے بعد پیدا ہونے والی تمام تر تشکیکی صورت حال کا بنیادگزار کانٹ ہے۔مثلاً کانٹ کو اپنے فلسفے میں انسانی علم و فہم کی محدودیت کو دکھانا مقصود تھا کیونکہ اس کا ماننا تھا کہ ہماری عقل نظر آنے والی حقیقت کا محض کسی حد تک ہی ادراک کرسکتی ہے جبکہ اصل سچائی تک ہماری عقل کی رسائی ناممکن ہے۔اس فرق کو مزید واضح کرنے کے لیے وہ دو اصطلاحیں وضع کرتا ہے۔ Phenomenal World اور Noumenal World۔ اول الذکر سے کانٹ کی مراد وہ دنیا ہے جس میں ہم جیتے ہیں اور جس کا ہم تجربہ کرتے ہیں یا یوں کہیں کہ عقل کے ذریعے تجزیہ کرتے ہیں۔اس کے برعکس ثانی الذکر سے کانٹ کی مراد اس ظاہری دنیا کی وہ حقیقت ہے جو ہمارے ادراک اور علمی فریم ورک سے بالکل آزاد (ماورا)ہے۔ کانٹ کا استدلال ہے کہ ہم کبھی بھی اس حقیقی دنیا کو نہیں جان سکتے کیونکہ ہم اپنی ذہنی ساخت کے ذریعے حقیقت کا تجزیہ کرتے ہیں اور یہ ساخت زمان و مکان کی پابند ہونے کے سبب بہت محدود ہوتی ہے۔چونکہ ہُکس کو کیسے بھی کرکے مابعد جدیدیت کے ڈانڈے کانٹ کے فلسفے میں ملادینے تھے اور حقیقت تک نارسائی کا یہ تصور اس کے زاویہ نگاہ میں بہ آسانی فٹ بیٹھتا تھا اس لیے اس نے کانٹ کے اس تصور کو تشکیکیت کے نقطئہ آغاز سے تعبیر کیا۔ہُکس جب معروض اور موضوع کے درمیان خلیج کی بات کرتا ہے تو وہ دراصل Phenomenal World سے معروض اور Noumenal World سے موضوع مراد لے کر اپنے لیے جواز پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔چنانچہ وہ لکھتا ہے:
“مابعد کانٹ فلسفے کے تین وسیع میلانات ابھر آئے۔موضوع اور معروض کے درمیان خلیج، جس کے بارے میں کانٹ نے کہا تھا کہ یہ خرد کے ذریعہ ناقابل عبور ہیں، ہر میلان کے حامیوں نے سوال کیا کہ ہم کیا کریں؟” (ص61)
یہیں سے بقول ہُکس بیسویں صدی میں ساختیات اور مظہریات وجود میں آئے۔چنانچہ وہ لکھتا ہے؛
“دراصل ساختیات پسند موضوعی نومینان تصورات کی تلاش میں تھے جبکہ مظہریت پسند فینومینان کو بیان کرنے پر مطمئن تھے۔”(ص62)

اتنی سی بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ مابعد جدیدیت کا بنیادی مقصد موضوعی حقیقت (Subjective Truth) کی تلاش ہے جو کہ مابعد جدیدیوں کے بقول معاشرے /کلچر سے تشکیل پاتی ہے۔ظاہر ہے یہ دعویٰ  تو بالکل صحیح ہے لیکن ہُکس اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے جو دلیل پیش کرتا ہے وہ غلط ہے۔دراصل ہُکس سے ایک بڑی غلطی یہ ہوئی ہے کہ اس نے موضوعی حقیقت کو کانٹ کے Nominal World سے تعبیر کیا جبکہ کانٹ کا تصورِ موضوعی حقیقت اور تصورِ نامینل ورلڈ بالکل دو مختلف تصورات ہیں۔موضوعی حقیقت سے کانٹ کی مراد وہ حقیقت ہے جو انسانی تجربے اور مشاہدے سے تشکیل پاتی ہے۔اگر ہُکس محض اسی تصور پر اکتفا کرتا اور خوامخواہ نامینل کی اصطلاح کو بیچ میں نہ لاتا تو اس کا دعوی اور دلیل دونوں صحیح ہوتے، کیونکہ مابعد جدیدیوں کا بھی بہرحال یہی ماننا ہے کہ یہ جس موضوعی حقیقت کی تلاش میں ہے وہ معاشرے سے تشکیل پاتی ہے۔لیکن ہُکس نے اسے نامینل کے ساتھ ملا کر تضادات اور غلط تعبیرات کو جنم دیا جبکہ کانٹ صاف طور پر نامینل ورلڈ کو شئ بذات خود (Thing In Itself) یا دنیا بذات خود (World in itself) کہتا ہے جس تک رسائی بقول کانٹ ناممکن ہے۔پھر یہ تو محض ایک مثال تھی، ایسی کئی  مثالیں آپ کو ہُکس کی اس کتاب میں ملیں گی جہاں وہ کانٹ کو جبراً فٹ کرنے کی کوشش میں غلط تعبیرات کو راہ دیتا ہے۔اس ضمن میں ہیگل، نطشے،کرکیگارڈ، ہائڈیگر وغیرہ سے متعلق ابواب کو دیکھا جاسکتا ہے۔حتی کہ ہُکس نے ایک باب کا عنوان ہی “مابعد جدیدیت کانٹیائی ایپسٹومولوجی کا حتمی نتیجہ رکھا ہے۔” اسی باب میں ہُکس ہائڈیگر کو مابعدجدیدت کا پیش رو کہتا ہے، لیکن بجائے اس کے کہ ہُکس اس بات کی وضاحت کرتا کہ کیسے ہائڈیگر نے مابعدجدیدیت کے لیے راہیں ہموار کی تھیں وہ سیدھا مابعد جدیدیت کی نتھی ایپسٹومولجی اور مابعد الطبیعات سے کرنے لگتا ہے اور ہائڈیگر بےچارہ دور کھڑا حاشیہ پر یہ تماشہ دیکھ رہا ہوتا ہے۔ہائڈیگر کے ساتھ کتاب کے آخری باب میں دو اور لوگ محو تماشہ ہوتے ہیں، میکاولی اور کرکیگارڈ۔

مابعدجدیدیت کے حوالے سے ہُکس کا ایک موقف یہ بھی ہے کہ یہ نیا لیفٹ یا نئی سوشزلزم ہے جس کا احیاء یونی ورسٹیوں میں ہوا۔چنانچہ وہ میثل فوکو، لیوتارڈ، ژاک دریدا اور رچرڑورٹی پر یہ کہہ کر سوال اٹھاتا ہے کہ آخر یہی چار لوگ مابعد جدیدیت کے رہنما کیوں ہیں؟ ہُکس کا ماننا ہے کہ چونکہ ان چاروں کا تعلق کمیونسٹ پارٹی سے تھا اور چاروں مختلف جامعات سے وابستہ رہے لہذا ان کی سوچ میں مماثلت تھی جس کا مقصد دراصل نئی لبرلزم کا احیاء تھا۔ھکس لکھتا ہے؛
یہ چاروں پوسٹ موڈرنسٹ سات سال کی مدت کے دوران پیدا ہوئے۔چاروں کی فلسفے کی تربیت بہترین اسکولوں میں ہوئی تھی۔ ان سبھوں نے 1950 کی دہائی میں اپنے اکیڈمک مشاغل کا آغاز کیا۔ سب لیفٹ سیاست کے ساتھ مضبوطی سے وابستہ تھے۔ سب سوشلزم کی نظری اور عملی تاریخ کی پوری جانکاری رکھتے تھے۔ یہ سب 1950 اور 1960 کی دہائیوں کے سوشلزم کے بحران میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ اور 1960 کے اواخر اور 1970 کے اوائل تک چاروں کا اپنے پیشہ ورانہ اکیڈمک شعبوں اور دانشورانہ لیفٹ میں اعلیٰ مقام تھا۔” (ص250-251)

ظاہر ہے ہُکس کے تمام تر مقدمات اس کے ذاتی نقطئہ نظر اور تعصب پر مبنی ہیں، ورنہ مابعد جدیدیت کو جس تشکیکی زاویے سے ہُکس دیکھتا ہے وہ سراسر جانبدارنہ ہے۔ ہُکس کا معاملہ یہ ہے کہ جو چیز اس کے دائرہ کار میں فٹ نہیں بیٹھتی یا اس کے ذاتی نقطئہ نظر سے ہٹ کر ہوتی ہے، وہ اسے قطعی پسند نہیں کرتا اور اسے محض پروپیگنڈا ثابت کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی دلیل ضرور پیش کرتا ہے، پھر ان دلائل میں منطقی ربط ہو یا نہ ہو کوئی ضروری نہیں۔

بہرحال! یہ چند معروضات تھے جو ہُکس کی کتاب کا ترجمہ پڑھتے وقت میرے ذہن میں آئے۔مجھے یہ کتاب کافی دلچسپ لگی، باوجودیکہ اس میں اختلافات کی گنجائش بہت زیادہ ہے اور شاید یہی چیز اسے دلچسپ بنادیتی ہے۔جہاں تک ترجمے کا تعلق ہے تو میں کافی مطمئن ہوا۔ڈاکٹر نذیر آزاد صاحب چونکہ اردو محاورے سے بخوبی واقف ہیں اس لیے ترجمے میں ترسیل و ابلاغ کا کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا بلکہ انہوں نے نثر کو واضح اور آسان بنائے رکھنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے۔حالانکہ چند ایک معاملات میں ان سے شکایت ضرور رہے گی، جیسے کہ وہ بعض انگریزی اصطلاحات کا اردو متبادل ہونے کے باوجود انگریزی کا استعمال کرتے ہیں۔مثلاً وہ Negative development کا ترجمہ “منفی ڈیولپمنٹ” کرتے ہیں جبکہ اس کا ترجمہ “منفی پیش رفت” بھی ہوسکتا تھا۔اسی طرح وہ Left کا ترجمہ “بائیں بازو” کرسکتے تھے جو کہ مستعمل بھی ہے لیکن وہ “لیفٹ” استعمال کرتے ہیں۔کہیں کہیں پر آزاد صاحب عجلت پسند بھی معلوم ہوتے ہیں، مثال کے طور پر شروعات کے ابواب میں آزاد صاحب “مابعد الطبیعات” لکھتے ہیں لیکن پھر آخر میں کئ جگہ “میٹافیزیکس” لکھا ہے۔

julia rana solicitors

میں جانتا ہوں کہ قاری کو ان سب چیزوں سے مطلب نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے ترسیل زیادہ اہم ہوتی ہے لیکن پھر بھی ایک مترجم کے لیے ان امور کا لحاظ رکھنا اصولی نہ سہی اخلاقی شرط ضرور ہوتی ہے۔ترجمے میں املے کی کئی ایک غلطیاں بھی ہیں جنہیں دوسری اشاعت میں دور کیا جاسکتا ہے۔بحیثیت مجموعی آزاد صاحب کا یہ ترجمہ اردو میں مابعد جدیدیت کے باب میں نیا اضافہ ہے جو اس موضوع میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے لائقِ مطالعہ ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply