The World as Will and Idea
“Arthur Schopenhauer”
شوپن ہاؤر (1788ء تا 1860ء) کو انگلینڈ میں پیدا ہونا تھا لیکن اس کی ماں کے ارادے ناکام ہوئے اور اسے پورٹ آف Danzig میں پیدا ہونا پڑا۔ اس کے باپ ہائنرخ کو بنگنگ اور ٹریڈنگ کے سلسلے میں وہاں جانا پڑا تھا۔ شوپن ہاؤر کی ماں ایک ناول نگار اور مصنفہ تھی : 1806ء کے بعد وہ ایک سیلون چلانے لگی جہاں گوئٹے بھی کئی بار گیا ۔ 32-1831ء میں جب اس کی تصانیف کا مجموعہ شائع ہوا تو وہ 24 جلدوں پر محیط تھا؛ وہ ایک اچھی مصنفہ نہیں تھی مگر زیادہ بری بھی نہیں تھی ۔ وہ سفر کرنا چاہتی تھی اور یوں اس کے بیٹے کی ولادت گھر میں ہی ہوئی۔ لگتا ہے کہ شوپن ہاؤر کو پیدائش کے دن سے ہی اپنی ماں پر غصہ تھا۔ وہ 1814 ء سے لے کر 1838 ء میں اپنی وفات تک کبھی اس سے نہ ملا۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے اور آپس میں اس قدر حسد کا شکار تھے کہ اکٹھے نہیں رہ سکتے تھے۔ شوپن ہاؤر کی ایک چھوٹی بہن 1796 ء میں پیدا ہوئی۔
1793 ء میں Danzig کی بندرگاہ کا پروشیاؤں کے ساتھ الحاق ہو گیا اور ہائنرخ کو ہیمبرگ منتقل ہونا پڑا۔ وہ 1805ء میں خودکشی کرنے تک وہیں رہا۔ اس کا خیال تھا کہ آرتھر بھی تجارت کا پیشہ اختیار کرے گا۔ اسے اپنی یہ خواہش پوری ہوتی نظر آئی تھی ، لہذا اس نے اپنے بیٹے کو بخوشی سفر کرنے کی اجازت دے دی۔ آرتھر دو سال پیرس میں رہا اور چند ماہ لندن کے قریب ومبلڈن میں بھی گزارے۔ شوپن ہاؤر کی تند خوئی (بالخصوص ہیگل کے خلاف ) کی بڑی وجہ اس پروشیائی قوم پرستی اور توسیع پسندی سے نفرت تھی جو دو عالمی جنگوں کا باعث بنی ۔ وہ خود اس برائی سے کلیتاً پاک تھا۔
شوپن ہاؤر نے اپنے باپ کی موت کے بعد ایک تاجر کے پاس اپرنٹس کی نوکری بڑی ایمانداری کے ساتھ جاری رکھی ، لیکن 1807ء میں اپنی ماں کے کہنے پر وہ گونٹجن یونیورسٹی میں داخل ہوا۔ پہلے اس نے طب کا مطالعہ کیا مگر پھر فلسفہ کا مضمون اختیار کر لیا۔ اسے برلن میں The Fourfold Root of the Principle of Sufficent Reason” پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی۔ ماں نے یہ کہہ کر اسے ستایا کہ یہ مقالہ ماہرین نباتات کے لیے لکھا گیا تھا۔ اس کی شاہکار تصنیف ” The World as Will and Idea” کا پہلا ورژن 1818 ء میں شائع ہوا۔ اس وقت کسی نے اس کا نوٹس نہ لیا اور نہ ہی اس کے 1844ء کے ایڈیشن پر خاص توجہ دی گئی۔ لیکن شوپن ہاؤر کو برلن میں ایک اسٹنٹ کی ملازمت مل گئی ۔ اس نے 1820ء میں ہیگل کے مقابلے پر لیکچر دینے کی راہ منتخب کر کے اسے چیلنج کیا اور بے توقیر ہوا؛ فرانسیسی ناول نگارستاں دال کی طرح وہ بھی اپنے عہد میں نظر انداز کیا جاتا رہا۔ وہ منتظر تھا کہ دنیا کب اس پر توجہ دے گی ۔
آخر اس کی زندگی کے آخری عشرے میں یہ موقع بھی آ گیا۔ ہیگل کے لیے مہلک ثابت ہونے والی ہیضہ کی وباء (1831ء) کے بعد شوپن ہاؤر Frankfurt am-main میں سکونت پذیر ہوا اور بقیہ ساری زندگی وہیں گزاری۔ اپنے محبوب کانٹ کی طرح اس کی زندگی بھی بڑی منظم اور بالترتیب تھی ۔ وہ روزانہ لنڈن ٹائمنر پڑھتا اور چہل قدمی کرتا تھا ۔
شوپن ہاؤر نے زندگی کے کافی ابتدائی دور میں ہی اپنا فلسفہ تشکیل دے لیا تھا۔ اس کی شاہکار تصنیف کا 1844 ء والا ایڈیشن محض ایک توسیع ہے۔ اسے دونوں ایڈیشنوں سے کوئی ادبی مقبولیت نہ ملی لیکن 1851 ء میں جب اس کے کہاوتی قسم کی مجموعہ ہائے مضامین Comments and” “Omission کی دو جلدیں شائع ہوئیں تو اس نے اچانک خود کو مشہور و معروف پایا ۔ جلد ہی The World as Will and Idea” کے تراجم کی جانب توجہ دی جانے لگی اور وہ اپنی زندگی کے آخری عشرے میں مشہور ہو گیا۔ البتہ اس کی شہرت فلسفیانہ میدان میں ہیگل جیسی پر اثر نہ تھی۔
کسی بھی شائستہ قنوطیت پسند کی طرح اس نے بھی ایک مزے کی زندگی گزاری ، اچھا کھایا پیا، دوسروں کو خوش رکھا اور جنسی اشتہا کی تسکین کی اور یقیناً وہ بے قدری کی پریشانیوں اور احساسات کا بھی شکار تھا۔ اپنی پیاری ماں کے ساتھ مفاہمت پیدا کرنے میں ناکامی اس کے لیے شدید صدمہ بن گئی۔ یوں لگتا ہے کہ وہ اپنے پالتو جانوروں ( ڈاگ ) کے سوا کسی سے بھی ٹوٹ کر محبت نہ کر سکا۔
شوپن ہاؤر کا فلسفیانہ قضیہ کانٹ سے مستعار لیا ہوا ہے: کہ مظاہر کی قابل معلوم دنیا اور نا قابل ادراک دنیا کے درمیان ایک فرق موجود ہے۔
شوپن ہاؤر مظہر فطرت (thing-in-itself) کو ارادے (will) کے ساتھ شناخت کرتا ہے لیکن اس کے ہاں یہ لفظ خصوصی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
اس کے دوسرے قضیے کی بنیاد ظلم کے لیے اس کی نفرت اور خوف میں ہے ۔ وہ اخلاقیات کے موضوع پر اپنے مضمون میں لکھتا ہے کہ انسان کی پہلی اور اولین خوبی ایک مہیب انا پرستی ہے جو انصاف کی حدود کو پھلانگنے کے لیے تیار اور مشتاق ہے ۔ اس کی بدترین خاصیت دوسروں کی تکالیف سے مزا لینا ہے۔ شوپن ہاؤر نے اسے رشک و حسد کی مزید مسخ شدہ صورت خیال کیا ۔ وہ اپنے اندر اور دوسروں میں اس پر غور و فکر کرنے کی زحمت نہ کر سکا۔
شوپن ہاؤر کا نا قابل ادراک کی جانب بڑھنے کا انداز زندہ جسم کی جانب بڑھنے جیسا ہے ۔ وہ یقین رکھتا ہے کہ ہم مظہر فطرت میں دیکھ سکتے ہیں ۔ ہم جسموں کا تجربہ محض ایک مظہری انداز میں کرتے ہیں، لیکن یہ مظہر فطرت کے طور پر بھی ہمارے تجربے میں آتے ہیں۔ یعنی ہم اپنے افعال کا تجربہ دو طریقوں سے کر سکتے ہیں: داخلی اور خارجی لحاظ سے ۔ آپ مجھے روٹی کھاتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں کیونکہ میں بھوکا ہوں ؟ اور میں خود کو بھی یہ کام کرتے دیکھ سکتا ہوں ، لیکن میں اصل میں صرف روٹی کھانے سے ہی آگاہ ہو سکتا ہوں ۔ لہذا میں ” اپنے ارادے کا ایک خصوصی علم رکھتا ہوں ۔ چنانچہ شو پن ہاؤر کی نظر میں ارادہ زندہ رہنے کا عزم اور تحریک ہے۔ اس کے آغاز میں ہی اس کا اختتام ہے، کیونکہ یہ محض تکلیف سے چھٹکارا پانے کی ہی خواہش کرتا ہے۔ گوئٹے نے شو پن ہاؤر کو ہندوستانی فلسفے اور پھر رومانوی نقاد ایف ڈبلیو Schlegel سے بھی متعارف کروایا۔ اس نے اپنشدوں کا ایک نا کافی مگر مددگار ترجمہ بھی پڑھا۔ ہندومت اور بدھ مت نے شوپن ہاؤر کے فلسفے کو کافی متاثر کیا کیونکہ وہ انفرادی ارادے کو ساری کائنات کے ارادے کا ایک جزو سمجھتا تھا۔ بدھ کی طرح وہ کہتا ہے کہ ہم خود کو ایک کچی معدومیت (نروان نما) کے سپرد کر دیتے ہیں۔
چنانچہ بدھ کی طرح وہ بھی ایک ملحد تھا، مزید کچھ بھی نہیں۔ وہ ہسپانوی ڈرامہ نویس کالدیرون کے ایک قول کی توثیق کرتا ہے: ”انسان کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ اس نے جنم لیا۔
بدھ کی طرح شو پن ہاور کی دنیا بھی اندھی اور غیر استدلالی ہے۔ آرٹ اور موسیقی راحت دیتے ہیں لیکن اتنا ہی کافی نہیں ۔ تیاگ واحد راہ ہے۔
نفسیات کے نقیب شو پن ہاور نے اپنے سے پہلے کے کسی بھی فلسفی کی نسبت سیکس پر زیادہ توجہ دی ۔ وہ بڑے دلچسپ انداز میں ”محبت“ کو شہوت پر ترجیح دینے سے انکار کرتا ہے۔ اس کے خیال میں محبت خود کو سماوی اور ماورائی انداز میں پیش کرتی ہے لیکن اس کی جڑیں صرف جنسی جذبے میں ہیں ۔“ اس نے یہ بیان کرتے ہوئے ایک عمیق نکتہ پیش کیا کہ کس طرح جنسی خواہش، ایک موضوعی ضرورت ماہرانہ انداز میں معروضی تعریف و تحسین کا کردار اختیار کر کے ہمارے شعور کو دھوکا دیتی ہے۔ یہ بات ہمیں Pareto کی یاد دلاتی ہے جس کا اثر بھی بہت گہرا ثابت ہوا لیکن صاف گو شو پن ہاور اس امکان سے صرف نظر کر گیا کہ جنسی سرگرمی محض شہوت سے ماخوذ ہونے کے باوجود ایک اور عنصر کی حامل ہو سکتی تھی : زندگی کی ایک منفرد بڑھوتری ۔
در اصل شو پن ہاور کانٹ کے ناقابل ادراک کے اندر راہ ملتے ساتھ ہی ایک قطعی مختلف سمت اختیار کر سکتا تھا۔ لیکن اس کے محبوب اس کے اس کے پالتو جانور تھے، عورتیں نہیں تھیں۔ لگتا ہے کہ جیسے وہ جان بوجھ کر ایک اداسی بھری راہ اختیار کر رہا تھا اور الوہی ہستی کے لیے جستجو کو بھی نظر انداز کر گیا ۔ اس کا مخاطب پروفیشنل فلسفیوں کی بجائے عام اہل قلم تھے۔ مگر چند ایک کی ہی نظر میں اس کا یہ نکتہ جاندار ہے کہ جسم ہی نا قابل ادراک کی جانب جانے کا راستہ ہے۔ اُس نے اس بات سے انکار کیا کہ خودکشی تیاگ حاصل کرنے کا ایک کارآمد راستہ تھی کیونکہ یہ بھی تو ارادے کی ہی توثیق تھی ۔ تاہم ، وہ بودھیوں کے نظریہ تناسخ ارواح کا حامی نظر نہیں آتا ۔ آپ یہ بھی سوچتے ہیں کہ اس نے خودکشی کی افادیت کو اس لیے مسترد کیا کیونکہ ایک قنوطیت پسند کے طور پر اس کا کیریئر بہت مسرت بخش ثابت ہوا تھا۔
1848 ء کے ناکام یورپی انقلابات نے کافی مایوسی پھیلائی اور قنوطیت پسندی کو مقبول اور فیشن ایبل بھی بنا دیا۔ قارئین کے فوراً شو پن ہاور کی جانب راغب ہو جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ شو پن ہاور دوسروں کے لیے ہمدردی کے جذبات سے عاری تھا۔ لیکن یہ بات درست نہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں