معراج پبلی کیشنز
20-C Sunset Commercial Street,2 Phase IV D.H.A Karachi .
Ph : +92-21-35888981-2
E-mail:mairajpublications@hotmail.com
نام کتاب : یوں آئے گی جمہوریت
مصنف : اعظم معراج
لے آؤٹ : سرفراز ثاقب
قانونی مشیر : رضی احسن ایڈوکیٹ (ہائی کورٹ)
اشاعت اول : اگست 2024ء
ناشر : معراج پبلی کیشنز
قیمت : 1100روپے (10ڈالر)
سافٹ کاپی مفت
جملہ حقوق بحق مصنف محفوظ
ISBN:978-969-770813-0
زیر اہتمام
اس کتابچے کا کوئی بھی حصہ معراج پبلی کیشنز /مصنف سے باقاعدہ تحریری اجازت کے بغیر کہیں بھی شائع نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا کوئی بھی مطبوعہ حصہ دوبارہ نقل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی تقسیم کیا جا سکتا ہے اس پرکسی بھی قسم کاپروگرام بنانے یا اس کی آڈیو، ویڈیو ریکارڈنگ کرنے کیلئے ہر حال میں پبلی کیشنز/مصنف سے پیشگی تحریری اجازت لینی انتہائی ضروری ہے بصورت دیگر ادارہ اور مصنف قانونی کارروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
Mairaj Publications
20-C Sunset Commercial Street,2 Phase IV D.H.A Karachi .
Ph : +92-21-35888981-2
E-mail:mairajpublications@hotmail.com
انتساب
جمہوریت کے لئے قربانیاں دینے والے دنیا کے ہر انسان کے نام
فہرست
سنہری ققنس
1 اس کتاب کا ارتقائی سفر
2 اقلیتوں کے انتخابی نظام کا پس منظر اور اس سے متعلق اعداد و شمار۔
3 اقلیتوں پر آزمائے3انتخابی نظاموں کی خوبیاں اور خامیاں
4 این جی اوز کے اقلیتوں کیلئے پیش کردہ انتخابی نظام کا جائزہ
5 اقلیتوں کے لئے دوہرے ووٹ کا لائحہ عمل
6 دوہرے ووٹ کے مطالبے پر اقلیتوں کا ردعمل
7 خواتین کی مخصوص نشستوں کے انتخابی نظام کے ماضی وحال کا جائزہ
8 خواتین کی مخصوص نشستوں کو ووٹ سے مشروط کرنے کا لالحہ عمل
9 خواتین کی مخصوص نشستوں کی آئینی ترامیم کی سفارشات پر ممکنہ اعترضات اور انکے جواب
10 آئین پاکستان کا ارتقائی سفر اور سینٹ کے موجودہانتخابی نظام کی خامیاں
11 سینٹ کے انتخابی نظام میں ترامیم کی سفارشات
12 سینٹ کے انتخابی نظام میں ترامیم کی سفارشات پر ممکنہ اعترضات اور انکے جواب
13 ریاست کے آئینی ستونوں کے رکھوالوں کو لکھے گئے خطوط
14 حرف تمنا
15 نغمہ شناخت
سنہری قُقنس
اعظم معراج
(حمزہ توف اور امرتا پریتم کی نظموں سے ماخوذ)
اے وطن عزیز کے محروم و بے شناخت بچو!
اپنے سماج سے بیگانو!
دھرتی سے اپنی نسبت سے لاعلم دھرتی واسیو!
اس ارضِ پاک کو بنانے
سنوارنے ۔۔سجانے
اور بچانے میں اپنے اجداد کے کردار سے بے بہرہ معصومو!
اپنے آباء کی سرزمین پر اجنبیوں کی طرح رہتے اور
نفرت انگیز سماجی رویوں کے وار سہتے
اپنے روشنی کے میناروں کو
اپنی محرومیوں کے اندھیروں میں ۔۔گُم کرتے خاک نشینو!
خود رحمی، احساس کمتری و برتری کی
چکی کے پاٹوں میں پسے ہوئے راندہ درگاہ
ہم وطنو
ہزاروں لوگ
تمہاری ان محرومیوں کا نوحہ کہتے۔۔اور سینہ کوبی کرتے ہیں
تمہاری ان کمزوریوں اور پستیوں کو بیچتے ہیں
بے شک اس ظلمت شب میں
اُمید کے دیے جلانے والے
تمہیں دھرتی سے نسبت بتانے والے
اور یہ منترہ
تمہیں رٹانے والے
کہ تم بھی وارث ہو اس سرزمیں کے
اور اس ارض پاک کو
اپنے خون پسینے سے سینچنے والے وطن کے معماروں
اور روشنی کے میناروں سے
تمہارا ناطہ جوڑنے والے
شہدائے وطن کے پاک لہو کے رنگ سے
تمہاری بے رنگ روحوں میں
رنگ بھرتے مرد قلندر
بہت سے صبح نو کی نوید سنانے والے ہوں گے
یاد رکھنا
ان بہت سوں میں سے ایک میں بھی ہوں
لیکن اگر
کبھی لمبی اندھیری رات کے سیاہ گُھپ
اندھیروں سے گھبرا کر یہ دیوانے
صرف چند بھی رہ گئے تو
ان چند میں ایک میں بھی ضرور ہوں گا
پھر اگر
اُمید سحر میں ان میں سے صرف ایک بچا
تو وہ
یقینا میں ہی ہوں گا
لیکن اگر
گھنے پیڑوں کے جھنڈ میں سے
سورج کوچُھوتے درختوں پر
اُمید حیات نو میں نغمہ مرگ گاتے ہوئے
قُقنسوں کے مہک دار شاخوں سے بنے گھونسلوں میں سے
سنہری ٹھنڈی ہوتی ہوئی آگ میں سے
کئی نوجوان
سورج کی طرح چمکتے
قرمزی سنہرے قُقنس
اپنی ہزاروں سال کی پستیوں، ذلتوں اور
محرومیوں کے بھاری بوجھ
اپنے توانا سنہری پروں سے جھٹکتے ہوئے
چونچوں میں
اپنی قابل فخر شناخت کے علم دبائے
اُمیدوں کی روشن شمعیں دلوں میں جلائے
عزم و حوصلے اور اُمنگیں
جن کے سینوں میں موجزن ہوں
جن کی نظر
روشنی کے میناروں سے اُٹھتی ہوئی
دُور آسمانوں پر ہو
اور
وہ دن کے اجالوں میں
سورج کی طرف
لمبی اڑانیں بھریں
تو سمجھ لینا
جن مہک دار گھونسلوں سے
جواں قُقنس اڑتے ہیں
ان گھونسلوں میں
میرے بدن کی راکھ تھی
اعظم معراج
‘‘شناخت نامہThe Identity ’’ سے اقتباس
مقصد کتاب
اہل وطن ہماری قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی کے لئے آج کل 859 حلقوں میں انتخابات ہوتے ہیں۔اسکے بعد ان 859 منتخب شدہ خواتین وحضرات ووٹوں کے تناسب سے مزید 226 شخصیات کو ، جن میں سے خواتین کی صنفی شناخت پر192 اور،اقلیتوں کی مذہبی شناخت پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں کے لئے 34 خواتین و حضرات کو منتخب کر لیا جاتاہے۔جس سے یہ تعداد 1085ہوجاتی ہے۔ پھر ان 1085کے ووٹوں سے چھوٹے صوبوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے قائم کی گئی سینیٹ کے لئے ہر صوبے سے 23 ،23خواتین وحضرات کو بطور سینٹر منتخب کرلیا جاتاہے۔ 4 مزید خواتین و حضرات کو وفاقی اکائی اسلام آباد سے بطور سینٹرز منتخب کر لیا جاتاہے۔
ان 96 سینٹرز کے اضافے سے پاکستان کے پارلیمانی نظام کو چلانے کے لئے کل نمائندوں کی یہ تعداد1181 ہو جاتی۔ دہائیوں سے یہ نظام چل رہا ہے۔ یہ تعداد شروع میں کم تھی۔ بڑھتے بڑھتے مخصوص نشستوں اور سینٹ کے لئے بلواسطہ منتخب ہونے والوں کی یہ تعداد 322 ہو چکی ہے۔جبکہ براراست عوام الناس کے ووٹوں سے منتخب ہونے والوں کی تعداد 859 ہوگئی ہے۔۔گوکہ ان براراست منتحب ہونے والے ایم، این، ایز،اور ایم پی ایز کی کارکردگی بھی کوئی بڑی قابل رشک نہیں ہے۔لیکن ان نمائندگان کے انتخاب کا باقاعدہ نظام ہونے کی وجہ سے اس نظام میں لوگ حصہ لے کر اسے جمہوری بنا دیتے ہیں۔ اور کسی نہ کسی طرح عام آدمی اس نظام سے جڑا بھی ہواہے۔
جبکہ باقی 322 نمائندگان کے انتخاب کا طریقہ ایسا ہے،کہ جس مقصد کے لئے ان نمائندگان کو چنا جاتا ہے ،وہ اغراض و مقاصد حاصل ہونا تو دور کی بات قوم کو یہ بھی یاد نہیں رہا،کہ ان 322 نمائندگان کا خرچہ جس وجہ سے اس مفلس قوم پر ڈالا گیا تھا۔وہ وجہ تھی کیا ؟
اس کتاب میں ان تینوں کیٹگریز کے انتخابی نظام کے پس منظر کے ساتھ ان نظاموں کی خوبیوں خامیوں اور ان کے انتخابات میں ایسی ترامیم کی سفارشات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ جس سے یہ نظام جمہوریت کی روح کے مطابق ہو جائے۔
پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لئے دوہرا ووٹ کیوں ضروری ہے۔؟ اور یہ کیسے ممکن ہے؟۔نامی کتابچے کے 2013 سے اب تک سات ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔
اس نظام کے حق میں دلیلیں ڈھونڈنے کے لئے جاری مسلسل تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی کے خواتین کا طریقہ انتخاب بھی بلکل اقلیتوں کے ا نتخابی نظام جیسا ہی ہے۔ بس یہ شروع 2001 میں ہوا تھا۔ جبکہ اقلیتوں کے لئے یہ نظام چوتھی آئینی ترمیم کیذریعے اکیس نومبر 1975 سے نافذ ہوا کچھ عرصہ تبدیل کر دیا گیا۔پھر 2001 میں دوبارہ شروع ہوا۔
لیکن یہ بات حیران کن تھی، کہ خواتین کے حقوق کے لئے متحرک سیاسی خواتین یا حقوق نسواں کی علمبردار خواتین اس طریقہ انتخاب کی خامیوں پر بھی بات ہی نہیں کرتی اور یقین مانیے وطن عزیز کی عام خواتین کی اکثریت کو اس سارے نظام اور اپنی صنفی شناخت پر اس نمائندگی کا پتہ ہی نہیں۔جبکہ اقلیتیں مسلسل سراپا احتجاج ہیں۔
یہ بات محسوس تو عرصہ درازسے ہی ہورہی تھی۔پھر 2024 کے انتخابات کے بعد پیدا ہونے والے مخصوص نشستوں کے بحران نے مجھے اس مسئلے کو بھی اس کتابچے میں جو اب مختصر سی کتاب بنام ‘‘یوں آئے گی جمہوریت’’ بن گئی ہے۔
اس المیے نے مْجھے ترغیب دی کہ میں اس ناانصافی پر بھی بطورِ پاکستانی شہری اپنا احتجاج قلمبند کروں اور جمہوری معاشرے کے قیام میں رکاوٹ ڈالنے والے اس نظام کی خامیوں کی نشاندہی بھی کروں اور اپنی دانست میں اس نظام میں بہتری کے لئے سفارشات پیش کروں ،کہ ایک کروڑ اقلیتوں اور تقریباساڑھے بارہ کروڑ خواتین کی صنفی و مذہبی شناخت پر نمائندگی حاصل کرنے والے خواتین و حضرات کو چننے کا حق صرفِ چار پانچ یا چھ شخصیات کی صوابید پر ہونا جمہوریت کا کون سا روپ ہے؟
اسکے علاوہ 2001 کے بعد سے الیکٹرانک میڈیا کی بدولت اور پھر بتدریج سوشل میڈیا کی بدولت جب سینیٹ کے انتخابات کے وقت جو بے ضابطگی سامنے آتی ہیں۔ خصوصا ووٹوں کی خرید و فروخت کے علاوہ سینیٹ کے انتخاب میں سینیٹ کے مقصد قیام کی نفی کرنے والے اقدامات نے بھی مجھے اپنا نقطہء نظر اس کتاب میں شامل کرنے پر مائل کیا۔
کیونکہ کسی بھی جمہوری ریاست میں ریاست کے تینوں آئینی ستون سمجھے جانے والے ادارے جمہور کی رائے کی طاقت سے وجود میں آتے ہیں۔پہلا مقننہ جس کا وجود ہی جمہور کی رائے سے پھوٹتا ہے۔اسی کے وجود سے پھر دوسرا انتظامیہ اور تیسرا عدلیہ وجود میں آتے ہیں۔
مقنہ ہی آئین کا منبع ہے۔ لہٰذا کسی بھی شہری (جمہورے)کو حق حاصل ہے،کہ وہ آئین میں ترمیم کے لئے اپنی رائے اپنے نمائندوں تک پہنچائے یا جمہوری اور انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کے لئے رائے عامہ ہموار کرے۔
بس اقلیتوں ،خواتین اور سینیٹ کے انتخاب کے پس منظر موجودہ نظام کی پاکستانی معاشرے کے لئے مضر خامیوں کی نشان دہی اور ان کی تصیح کے لئے تیار کردہ یہ تین آئینی ترمیم کی سفارشات پر مبنی یہ کتاب ترتیب دینے کا یہ ہی مقصد ہے۔
اب جس کہ جی آئے وہ ہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا 6کے سرِ عام رکھ دیا
قتیل شفائی
کسی بھی ترامیم کی مقبولیت اور قبولیتِ کے لئے یقینا ایک منظم مہم کی ضرورت ہوتی ہے۔جو اقلیتوں کے انتخابی نظام کے لئے تو دہائی سے تحریک شناخت کے رضآ کاروں نے تندہی سے جاری رکھی ہوئی ہے اقلیتوں کی اکثریت کے موجودہ نظام سے سخت نالاں ہونے کے باوجود اور ان سفارشات کا حامی ہونے کے باوجود پاکستان کی اقلیتوں کے مخصوص سیاسی ،معاشرتی و سماجی رویوں کی بدولت اس میں کوئی ایسی نتیجہ خیز پیش رفت نہیں ہوئی جسے کوئی کامیابی سمجھا جائے لیکن ذمہ دارین و متاثرین تک یہ مسئلہ پہنچایا بڑی کامیابی سے ہے۔ جس کے نتیجے میں2014 میں ہندؤ اقلیتی رکن کی طرف سے دوہرے ووٹ کے لئے ایک بل بھی پیش ہوا دیکھیں اب سینیٹ اور خواتین کے انتخابی نظام میں ترامیم کی ان سفارشات پر25 کروڑ کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ وہ ردِعمل ہی ان ترامیم کی مقبولیت و قبولیت کا فیصلہ کرے گا۔لیکن اس کا نتیجہ جو بھی آئے۔میری دانست میں پاکستان کے موجودہ معروضی حالات میں یہ تین بے ضرر سی کسی بھی ریاستی و حکومتی ادارے سے غیر متصادم آئینی ترامیم کی سفارشات وطن عزیز کی خوشحالی ، ترقی وبقاء کی ضامن ہیں۔بس ہمیں بقول علامہ اقبال
منزل یہ ہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
آئین نو سے ڈرنا طرزِ کہن پر اڑنا
آئین نو سے ڈرنے کی روایات چھوڑنی ہوگی اور ہر پاکستانی کو چھوڑنی ہوگی۔اب انھیں مسائل کو ہی لے لیجیے جو اس کتاب کا موضوع ہیں۔ کیا یہ سب سے پہلے ہماری قومی سیاسی جماعتوں کی ذمّہ داری نہیں ہے؟ یا تھی۔ بڑے آئینی ماہرین کی ذمہ داری نہیں تھی ؟ یا ہے؟۔حقوق نسواں کے لئے متحرک خواتین کی ذمہ داری نہیں ہے؟ یا تھی؟ یا پھر اقلیتوں کے سیاسی سماجی اور مذہبی ورکروں کی ذمہ داری نہیں تھی؟ یا ہے ؟لیکن وہ بھی کوئی موثر آواز نہیں اْٹھا سکے۔ دنیا بھر میں قوموں ،کاروباری، حکومتی اداروں کو جب اس طرح کے مسائل در پیش ہوتے ہیں۔ جو معاشرے پر مضر اثرات سے خلق خدا کے لئے منفی اثرات مرتب کر رہے ہوں یا اداروں کے قیام کے اغراض و مقاصد کے وہ نتائج نہ دے پا رہے ہوں۔ جن کے لئے انھیں قائم کیا گیا ہو تو ایسے مسائل کی وجوہات کی تشخیص اور حل کے لئے ایسے مسئلے بطورِ کیس اسٹڈی ایسے بڑے بزنس، جنگی اور تزویراتی تعلیمی اداروں میں بھجوائے جاتے ہیں۔جہاں کیس اسٹڈی طریقہ تعلیم پڑھایا جاتا ہے۔اس طریقہ تعلیم میں درپیش مسئلے پر تفصیلی تحقیق و سوچ بچار کے بعد اسکی درست تشخیص کی جاتی ہے۔ جس میں تین مرحلوں میں طالب علم اس مسئلے کا تعین ،مسئلہ ہے کہاں ؟ مسئلہ پیدا ہونے کی خاص وجوہات اور ان وجوہات کے درست تعین کے بعد اس مسئلے کے قلیل المیعاد، وسط المیعاد اور طویل المیعاد حل تجویز کئے جاتے ہیں۔ میری دانست میں اوپر بیان کئے گئے تینوں مسائل جن کے پھر بے تحاشا ذیلی پیداوار مسائل ہیں ہمارے پورے معاشرے پر پڑے ہیں جنہوں نے قوم کی بنیادی ساخت کو متاثر کیا ہے۔ میری نظر میں اس کا طویل المیعاد حل صرفِ یہ بے ضرر سی آئینی ترامیم ہیں۔
اعظم معراج ،کراچی
07-11-2024
اظہار تشکر
جیسا مقصد کتاب میں بیان کیا گہا ہے یہ کتاب پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لئے دوہرا ووٹ کیوں ضروری ہے؟ نامی کتابچے کا ہی اضافہ شدہ ایڈیشن ہے۔2013ء سے لے کر اب تک اس کتابچے کے 3 اردو اور ایک ایک انگلش اور سندھی ایڈیشن چھپ چکے ہیں جب کہ مکالمہ ویب سائٹ پر اس کی سوفٹ اردو کاپی اور واٹس ایپ پر پی ڈی ایف فارم میں سندھی اور انگریزی بھی ہزاروں لوگ پڑھ چکے ہیں۔ جس کی بدولت اس کتابچے میں شامل اعداد و شمار حقائق و شواہد پر مبنی معلومات ملک بھر بلکہ دنیا بھر میں پھیل رہی ہیں اس کے لئے تحریک شناخت کے رضا کاروں کی بے لوث خدمات کو جتنا بھی سراہا جائے کم ہے گو کہ یہ تعداد سینکڑوں میں ہے لیکن کچھ رضا کاروں نے بہت ہی تن دہی سے یہ کام انجام دیا ہے۔ ان میں رنشل داس کولہی (چیئرمین سندھ کولہی اتحاد)، ایڈوکیٹ رام کولہی، ایڈوکیٹ سرون کمار بھیل، فرانسیس بھٹی صادق آباد، بشپ گلفام رندھاوا، اکمل بھٹی فیصل آباد، ندیم گل ، پاسٹر آصف اگسٹین لاہور، بشپ مجید ناز عاشق لاہور، طارق مسیح لاہور، امجد خان نیوزی لینڈ، عاشر چٹھہ لاہور، البرٹ برکت، ڈینئیل دانش گوجرہ، ایڈوکیٹ عذرا شجاعت لاہور، یونس نواب، جسٹن جاوید رندھاوا کراچی، اسلم پرویز سوہترا لاہور، کامران یوسف گوجرانوالہ، سلویسٹر صنم کراچی، سہیل رندھاوااسلام آباد، سردار معراج کراچی، شہباز چوہان اسلام آباد، ندیم مٹو سرگودھا، عارف گلزار فیصل آباد، شیراز سرفراز گوجرہ، زریں منور میاں چنوں، سیماب آصف ،ادیب حنیف ، ایرک مشتاق سہوترہ کراچی، صائمہ انور گوجرانوالہ، ایسٹر داس، جون بوسکو(لندن)، ڈینئل نیامت (کینیڈا)، لیفٹیننٹ کمانڈر (ر) جارج غلام، کمانڈر (ر) سلیم اختر میتھو، فادر عنائت برناڈ، فادر مختار عالم،ندیم مٹو(سرگودھا)، جیمز شیرا(برطانیہ)، یونس کاشف پشاور، پاسٹر آصف جان کوئٹہ، نیاز جوزف (مرحوم)، فرخ سہیل گوائندی، راج کمار، ڈاکٹر عادل غوری سیالکوٹ، زاہد نذیر بھٹی لاہور، وجے بالاچ چوہان رحیم یار خان، نیئر ایلون، آرتھر برکی آرتھر، کرنل (ر) البرٹ نسیم، عبدالجبار قریشی، ریاست رضا، اقبال خورشید، رانا آصف، نورین سنبل ہالینڈ، مورس جان برطانیہ، اعظم گل فرانس، ایڈوکیٹ رفعت بشیرلاہور، صوبیدار (ر) وکٹر ولیم میاں چنوں، ایاز مورس کراچی، رانا آصف، نواز سلامت، سلیم راجپوت کراچی و دیگر کئی رضا کاروں نے اپنے ویڈیو پیغام کے ذریعے ان معلومات کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرائی۔ بہت سے ایسے نام ہیں ۔ اس کے علاوہ بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے اس کام میں اپنا حصہ ڈالا ہے ۔ ان میں سب سے نمایاں نام عبداللہ عامر کا ہے جنہوں نے تھر (سندھ) کے گاؤں، گوٹھوں، تعلقوں اور شہروں میں ہندو آبادیوں اور پنجاب گوجرانوالہ ، لاہور کی مسیحی آبادیوں میں گھر گھر ان معلومات اور انتخابی نظام کے اس فارمولے کو پہنچایا۔جبکہ اگر یہ نظام وضع ہو جاتا ہے تو وہ اس کے بینیفشری بھی نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح وہ اس موجودہ نظام کے متاثرین میں سے بھی نہیں ہیں ۔ ان کی یہ معلومات اور اس فارمولے کو پھیلانے کی تمام جدوجہد انسان دوستی پر مبنی ہے۔ بلکہ ہر وہ مسلمان پاکستانی جو اس فارمولے کو سمجھ کر اس کے لئے آواز اُٹھاتا ہے وہ 100فیصد انسان دوستی پر مبنی ہے۔ان کی یہ محنت صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ اس کتابچے کو پڑھنے کے بعد اس بات پر قائل ہیں کہ پاکستان کے مذہبی اقلیتوں کو شفاف اور انصاف پر مبنی انتخابی نظام دے کر ان کے80فیصد سیاسی ، معاشی، معاشرتی و سماجی مسائل کے حل کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے اور جب تقریباً 90لاکھ غیر مسلم پاکستانی شہری اپنے لئے وضع کئے گئے انتخابی نظام سے مطمئن ہوں گے تو اس سے قوم میں یکجہتی پیدا ہو گی جو کہ استحکام پاکستان کی ایک مضبوط وجہ ہو سکتی ہے۔
ان خواتین و حضرات میں ایک قسم مختلف قومی پارٹیوں میں شامل ایسے دوہرے ووٹ کے خاموش حمایتیوں کی بھی ہے۔ جو اس مطالبے کے لئے خفیہ کوششیں بڑے خلوصِ سے کرتے ہیں۔لیکن پارٹی ڈسپلن یا برصغیر کی مخصوص غلامانہ سوچ کی وجہ سے کھل کر اس مہم میں حصہ نہیں لیتے ان میں سے کچھ لوگوں نے تو پس پردہ اس مہم میں بہت ہی پر اثر انداز میں جدو جہد کی ہے۔ان کی مصلحت ومجبوری اپنی جگہ، مجھے یہ مصلحت بلاوجہ ہی لگتی ہے، کیونکہ جب یہ اپنی جماعتوں میں اقلیتی شناخت پر سیاست کرتے ہیں، تو پھر اقلیتوں کے لئے جائز، بے ضرر مطالبے کو سرعام کرنے میں کیا ہرج ہے جبکہ میں نے ان میں سے کبھی کسی کو وزیر خارجہ ، وزیر داخلہ ،وزیر دفاع یا دیگر ایسے عہدوں کی دوڑ کے لئے سیاست کرتے بھی نہیں دیکھا۔حالانکہ شعور بانٹ اور خود آگاہی و خود انحصاری کا درس دے کر اقلیتوں کے لئے وہ اپنی اپنی کمیونٹیوں میں وہ ہی حیثیت حاصل کر سکتے ہیں جو پی ٹی آئی میں عمران خان، پی پی پی میں ذولفقار علی بھٹو یا دیگر قومی سیاسی جماعتوں میں ان کی جماعتوں کے بانیوں یا فکری راہنماؤں کی ہے جنھوں نے پاکستانی قوم کو کوئی فکر دی ہے۔لیکن کیا کریں۔؟ تحریک شناخت کے رضاکاروں کی لاکھ کوششوں کے باوجود سوچ کی یہ بلندی ان میں پیدا ہی نہیں ہوتی۔ حالانکہ اپنے لوگوں کے لئے اپنی پارٹیوں کے بڑوں کے سامنے طویل المیعاد منصوبے پیش کرنے سے ہی انکی پارٹیوں میں بھی عزت ہو۔میری نظر میں یہ تمام اول الذکر خواتین و حضرات اور دیگر جن کے نام میں بھول بھی گیا ہوں وہ سب اس ملک کی مذہبی اقلیتوں اور اس ملک و قوم کے حقیقی محسن ہیں میں ان سب کا بہت شکر گزار ہوں ، الیکٹرونکس میڈیا میں ڈان نیوز کے پروگرام ‘‘ذرا ہٹ کے’’ کی ٹیم نے اس مسئلے کو اُجاگر کرنے کے لئے اسے اپنے پرگرام کا حصہ بنایا۔ پرنٹ میڈیا میں معروف صحافی شاعر، ناول نگار عثمان جامعی کی اس موضوع میں دلچسپی کی وجہ سے متعدد مضامین روزنامہ ایکسپریس میں پرنٹ ہوئے ۔ اس کتاب کا نام بھی عثمان جامعی صاحب نے ہی تجویز کیا ہے معروف سماجی و سیاسی سیاستدان و ادیب فرخ سہیل گوائندی نے بھی اس مسئلے کو اُجاگر کرنے کے لئے بہت سی کوششیں کی جن میں سے کئی اعلیٰ سیاسی قیادتوں سے میری بات کروانا بھی تھا ۔ صحافی غزالہ فصیح نے اقلیتوں کے اس مسئلے کو اپنی تحریروں میں اُجاگر کیا۔میں پاکستان کے غیر مسلم شہریوں سے بھی درخواست کرتا ہوں آپ بھی اپنے ان حقیقی محسنوں کے شکر گزار اور ان کے ہاتھ بھی بٹائیں۔ کیونکہ یہ آپ کے ووٹ کی طاقت بڑھانے اورآپ کی مذہبی شناخت پر حقیقی نمائندوں کو ایوانوں میں پہنچانے کے لئے کوشاں ہیں۔
اس کتاب کا ارتقائی سفر
اس کتاب میں بیان کردہ اعداد و شمار تو تاریخ ہیں ان اعداد و شمار سے اخذ کردہ دوہرے ووٹ کا لفظ قطی نیا نہیں ہے۔ ماضی میں بھی ہمارے کئی سیاسی ورکر یہ لفظ استعمال کرتے رہے ہیں۔ بقول سیف الدین سیف
سیف انداز بیان رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں ہوتی
اس کتابمیں لفظ دوہرے ووٹ نے جو اندازہ بیان بدلا ہے۔ وہ اعداد وشمار اور ماضی،حال میں غیر مسلم پاکستانیوں پر تھوپے گئے انتخابی نظاموں سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے یہ لفظ بطور لفظ ہی استعمال ہوا نہ دلیل نہ اعداد و شمار نہ غیر مسلم پاکستانیوں کے فائدے نقصانات بس ایک لفظ تھا۔ میں نے بھی پہلے اس پر سرسری کام کیا کچھ اعداد و شمار جمع کئے۔ ان سے دلیلیں گھڑی اکرام خان جیسے سینئر صحافی نے 2013ء کے الیکشن سے چند دن پہلے اس کو روز نامہ ‘‘جنگ ’’اخبار میں پورے صفحہ پر چھاپ دیا جس کا عنوان تھا ‘‘ایک نہیں دو’’ کچھ ہندو دوستوں نے راہنمائی کی اور تحقیق کی نئی راہ دکھائی جس کی وجہ سے اور مواد ڈھونڈا اور بیٹی مشعل معراج نے اسے انگریزی میں ترجمہ کیا۔ سینئر صحافی سلیم بخاری صاحب نے اسے ‘‘پولیٹیکل ٹریجڈی آف نان مسلم پاکستانیز ’’کے نام سے‘‘ دی نیشن’’اخبار میں چھاپا اور بھی کئی چھوٹے موٹے رسائل و جرائد میں چھپا۔ تحریک شناخت کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے لکھی گئی کتاب شناخت نامہ میں چھپا۔ پھرذرہ مزید تفصیل سے اس سلسلے کی پہلی کتاب ‘‘دھرتی جائے کیوں پرائے؟’’ کے دوسرے ایڈیشن میں چھپا۔ پھر اس کتاب کے انگریزی ترجمے ‘‘نیگلکٹڈ کرسچن چلڈرن آف انڈس’’ کے لئے اس پر مزید تحقیق ہوئی پھر اس مقالے کو پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی ہر سیاسی قیادت اور انگریزی پریس کے بڑوں کو بھی بھجوایا۔ جب اسے عام پاکستانی مسیحیوں تک پہنچانے کی کوشش میں غیر مسلم پاکستانیوں کے نام کھلے خط کے طور پر لکھا گیا۔تو اس میں مزید تحقیق ڈالی گئی۔ سرفراز تبسم نے اسے اپنے روزنامہ اوصاف لندن کے لئے لکھے گئے کالم میں قسط وار لکھا اور معاذ لیاقت کے ذریعے رحیم بخش ساگر سہندڑو نے اسے سندھی میں ڈھالا۔بہت اضافے کے بعد پاکستان کی انگریزی میڈیم سیاسی اور دانشور اشرفیہ کے لئے امریکا میں مقیم وجاہت ظہیر نے اسے دوبارہ انگریزی ترجمہ کیا۔ ڈاکٹر اعظم گل کی بے رحم ایڈیٹنگ نے اس مقالے نما خط کے لئے مجھ سے اور تحقیق کروائی، یوں اسے دوبارہ سندھی میں ترجمہ کرنے کی مشقت نوجوان صحافی رحیم بخش ساگرسندھیڑیو کو کرنی پڑی۔وجاہت مسعود صاحب نے اس خط کو اپنی ویب سائٹ ‘‘ہم سب’’ پر چھاپا۔ اس ساری مسلسل سلسلہ وار مشقت اور ارتقائی سفر طے کرتا یہ خط جب سے یہ ‘‘غیر مسلم پاکستانیوں کے نام کھلے خط ’’کے طور پر انعام رانا کی ویب سائٹ مکالمہ پر چھپا ہے اور زبان زدہ عام ہوا۔لیکن اس کا ارتقائی سفر رُکا نہیں بلکہ اسماء مغل کو اس پر مسلسل مشقت کرنا پڑھتی ہے اور اب یہ خط میرا کم اور رانا انعام اور اسماء مغل کی ملکیت بن چکا ہے۔کیونکہ یہ انگریزی میں انعام رانا کی ویب سائٹ ‘‘ڈائیلاگ ٹائم’’ پر بھی چھپ گیا ۔
عثمان جامعی صاحب جو مظلوم طبقات کیلئے درد دل رکھنے والے شاعر، صحافی اور ناول نگار ہیں۔انھوں نے دوبارہ اس مقالے کے خلاصے کو ایکسپریس اخبار کے سنڈے میگزین میں چھاپا۔ اب جیسے ہی اس موضوع پر کسی نئی معلومات کا علم ہوتا ہے میں عاصمہ کو کہتا ہوں وہ اس میں ایڈیٹنگ کرتی رہتی۔ گو کہ اس خط کے تیاری اور اسے پھیلانے میں تحریک شناخت کے رضا کاروں کا بھی خاصہ کردار ہے لیکن اکرام خان، سلیم بخاری ، رانا آصف،وجاہت مسعود، اقبال خورشید، معاذ لیاقت،رحیم بخش ساگر اور خاص کر اسماء مغل نے جس بے لوث پن کے مظاہرے سے اس کتابچے کے مندرجات کے ذریعے پاکستانی غیر مسلم شہریوں کی فکری ،شعوری سیاسی آگاہی کے لئے ایک بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ مجھے یقین ہے اس سے نظام میں جلدی یا کچھ سالوں بعد تبدیلی آئے گی۔اور یہ یقنیاً غیر مسلم پاکستانی شہریوں، پاکستانی سیاسی اشرافیہ اور دانش ور طبقات کی اس موضع سے واقفیت کی بدولت ہی ہو گی اور اس موضع سے واقفیت تحریک شناخت کے رضا کاروں کے ساتھ ان درد دل رکھنے والے پاکستان کے مسلمان شہریوں (جن میں سے کچھ تو تحریک شناخت کے باقاعدہ رضاکار ہیں) کا بھی بہت بڑا حصہ ہو گا۔
اس تحریر پر اتنی محنت کرنے کا مقصد صرف یہ ہے۔کہ اس ملک کے عام غیر مسلم پاکستانی خواتین اپنے اس سیاسی المیے کے ماضی اور حال سے واقف ہو کر مستقبل کا فیصلہ کر سکیں، گو کہ اس ملک ریاست اور معاشرے کا المیہ ہے کہ یہ فیصلہ بھی چند اشرافیائی مخلوق کا مرہون منت ہے۔جنہیں شائد یہ اعداد وشمار اور خوبیاں خامیاں پڑھ کر ان تقریباً ایک کروڑ اقلیتی شہریوں اور ساڑھے12کروڑ خواتین لوگوں پر ترس آ جائے اور ان شہریوں کی قومی ومذہبی اور حقیقی شناخت کی باریکیوں کو جان کربھیک میں دی ہوئی سیٹوں کو سلیقے اور عزت وقار سے دینے کا کوئی نظام وضع کر لیں۔ تحریک شناخت نے شعیب سڈل کمیشن کی مدد سے الیکشن کمیشن اقلیتی ووٹروں کی تفصیل حاصل کر لی ہے وہ بھی اس پانچویں ایڈیشن میں شامل کی جا رہی ہے اسی طرح راولپنڈی کی مسیحی صحافی احسان بخش کا محکمہ شماریات سے حاصل کئے گئے۔ 1951ء سے 1998ء کے افر اد شماری کے اعداد و شمار اب تک کی ہونے والی ساتوں مردم شماریوں کے ساتھ اعداد و شمار بھی اس کتاب میں شامل کئے جا رہے ہیں۔
آخر میں پاکستان کے غیر مسلم شہریوں اور خواتین سے التجا ہے۔کہ سیاسی اشرافیہ کو آپ پر تب تک ترس نہیں آ سکتا جب تک آپ اپنے اس سیاسی المیے کو جان کراور اس قوم کی ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں آخر میں اس ملک کی اقلیتوں ،اور خواتین میں تبدیلی کے لئے آواز نہیں اٹھائیں گے۔ اس کے لئے اس تحریر کو زیادہ سے زیادہ پڑھ کر سمجھیں اور متفق ہوں یا نہ ہوں لیکن یہ اعداد و شمار اس المیے کی متاثرہ ایک کروڑ مذہبی اقلیتوں اور تقریبا ساڑھے بارہ کروڑ خواتین تک پہنچانے کی کوشش ضرور کریں اور ان ساڑھے تیرہ کروڑ خواتین ؤ حضرات سے گزارش ہے۔کہ آپ خود بھی پڑھیں آور اس نظام کو وضع کرنے کے ذمداروں تک بھی اس کتاب کے زریعے کئے گئے مطالبے اور لالحہ عمل کو پہنچائیں۔اس کتاب میں خواتین اور سینیٹ کے انتخابی نظام میں ترامیم شامل کرنے سے یہ مسئلہ اب پوری قوم کا بھی ہو گیا ہے لہٰذا اہل وطن اگر آپ ترامیم کی ان سفارشات سے متفق ہوں تو اس آگاہی مہم میں ضرور حصہ لیں۔ وی لاگ کریں سوشل میڈیا پر آواز اٹھائیں، سیاسی جماعتوں کے پالیسی میکرز تک یہ پیغام پہنچائیں۔
نہ جلسہ نہ جلوس بس باخبر ہوں اور دوسرے لوگوں کو بھی باخبر کریں لوگ بااختیار خود ہی ہوجائیں گے کیونکہ باخبر شہری ہی بااختیار شہری ہو سکتا ہے ۔ خود شناسی اور خود آگاہی سے بڑی طاقت کوئی نہیں یہ خود انحصاری کی طرف لے جاتی اور بے خبری سے بڑی جہالت کوئی نہیں ہے۔یہ پستیوں میں دھکیل دیتی ہے، متفق ہونا نہ ہونا آپکا حق ہے۔لیکن یہ ضرور جانیں کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک نمائندگی دینے کے نام پر آپ کے ساتھ کیا ہوا ہے۔
شکریہ
والسلام
اعظم معراج
رضا کار ،تحریک شناخت پاکستان
17-07-2024
اقلیتوں کے انتخابی نظام کا پس منظر اور اس سے متعلق اعداد و شمار
۱ہل وطن قیام پاکستان سے لے کر فروری 2024 تک ہونے والے16 انتخابات میں 5باراقلیتوں پر 3 مختلف انتخابی نظام آزمائے گئے جس کیذریعے نیشنل اسمبلی کے لئے 138 بار 85 غیر مسلم شہری ایم این اے بنے جن میں 115بار 72ہندؤ50بار 33مسیحی 10بار 6پارسی 4 بار 1 قادیانی 200بارمختلف مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی 75شخصیات ممبر صوبائی اسمبلی بھی بنے جن میں اوپر ذکر کی گئی کمیونیٹز کے علاوہ سکھ کمیونٹی سے بھی لوگ شامل ہیں۔24 بار دس شخصیات سینیٹرز بھی بن چکی ہیں جن میں اوپر ذکر کی گئی قادیانیوں کے علاوہ ساری کمیونٹیز شامل رہی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود مذہبی شناخت کی بدولت جب بھی کسی مذہبی گروہ کو کسی امتیازی،سماجی رویے، امتیازی قوانین، سماجی ناانصافی ، معاشرتی، ظلم زیادتی یا جبری تبدیلی مذہب طرح کی کسی ظلم زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو متعلقہ برادری کی شناخت پر ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے شازو نادر ہی کسی کی کوئی آواز سنائی دیتی ہے۔
ایسا کیوں ہے؟آئیں اس سوال کا جواب ماضی اور حال میں پاکستانی مذہبی اقلیتوں کے لئے واضح کئے گئے انتخابی نظاموں اور اس سوال سے متعلق دستیاب اعداد و شماراور زمینی حقائق کے ذریعے ڈھونڈتے ہیں۔ اس تلخ حقیقت کا تاریخی پس منظر یہ ہے۔تاج برطانیہ نے 1857کی جنگ آزادی کے بعد آنڈین کونسلز ایکٹ 1861 لاگو کیا پھر 1885میں کانگریس بنوائی پھر سویلین کی کارسرکار میں رائے لینے کے لئے انڈین ایکٹ 1892لائے 1906میں مسلم لیگ بنی۔ جسکے مطالبے پر وزیر ہند مسٹر مارلے اور گورنر جنرل ہند مسٹر منٹو نے عرق ریزی سے انڈین ایکٹ 1909بنوایا۔برطانوی پارلیمنٹ سے پاس کروایا۔جس میں مسلمانوں کے لئے جنرل ووٹ کے ساتھ مخصوص نشستوں پر جداگانہ انتخابی نظام معتارف کروایا۔ 1919 کے انڈین ایکٹ میں اس وقت کے وزیر ہند و گورنر جنرل ہند نے اس میں دیگر اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں کا اصافہ کروایا۔1930میں برطانوی وزیراعظم رمزے میک ڈونلڈ کو پسے ہوئے ہندوستانیوں پر ترس آیا اور اسے انکا دوست کہلوانے کا شوق چرایا.یوں مسلسل گول میز کانفرنسوں کے راؤنڈ سے کمیونیل ایوارڈ وجود میں آیا۔جس پر گاندھی جی نے دلتوں کے جداگانہ کے ساتھ دوہرے ووٹ پر اعتراض اٹھایا۔ گاندھی جی نے تادم مرگِ بھوک ہڑتال کی۔اپنے ساتھیوں کے کہنے پر امبیڈکر کو مجبوراً پونا پیکٹ کرنا پڑا۔جس میں دلتوں کو بہت کچھ ملا لیکن دیگر اقلیتوں کی طرح دوہرا ووٹ نہ ملا جس کا انہیں ساری عمر دکھ رہا۔ 1946تک یہ ہی انتخابی نظام چلا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا یہ اتنا اہم مسلہ ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیر قانون،قائد اعظم کے ساتھی جوگندر ناتھ منڈل کے اکتوبر 1950میں لکھے گئے استفعی میں بھی اس مسئلے کی نشان دہی کی گئی ہے۔پاکستان کے وجود آنے کے بعد تک 2024کے الیکشن تک پاکستان کی اشرفیہ نے پاکستان کے غیر مسلم شہریوں پر 16 انتخابات میں 5 بار 3 انتخابی نظام آزمائے لیکن پاکستان کی سیاسی، ریاستی و دانشور اشرفیہ کی اور پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے ہر دور کے سیاسی نمائندگی کرنے والوں کی یہ بہت بڑی ناکامی ہے کہ پاکستان کے عام غیر مسلم شہری کبھی بھی ان انتخابی نظاموں سے مطمئن نہ ہوئے۔ وجہ یہ رہی کہ متاثرین نہ اپنی ضروریات صحیح بتا سکے اور ذمدار اشرفیہ کی ترجیحات میں یہ متاثرین کبھی شامل ہی نہ تھے۔ اب ان نظاموں کی خوبیوں اور خامیوں کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔ آخر کیا وجوہات تھیں کہ پاکستان کی مذہبی اقلیتیں ان نظاموں سے کبھی مطمئن نہیں ہوئی۔ پاکستان بھر کی مذہبی اقلیتوں کے کل ووٹوں کی تعداد 30 جون2022ء تک الیکشن کمیشن کے مطابق 3956336ہے۔ جن میں ہندؤ ووٹرز 2073983مسیحی1703288اور دیگر اقلیتوں کے ووٹ 174165ہیں۔(یہ حیران کن بات ہے مارچ 2018میں ہندو ووٹرز1777289 ، مسیحی ووٹرز1638748 تھے ۔ اس طرح مسیحی ووٹرز تب ہندوں سے138541کم تھے لیکن اب مسیحی ووٹرز ہندو ووٹروں سے370695 کم ہیں)۔ حالیہ اعداد وشمار کے مطابق سندھ میں مذہبی اقلیتوں کے کل ووٹوں کی تعداد2217141 ہے۔جس میں سے ہندؤ ووٹرز 1936749مسیحی ووٹرز 254731 جبکہ دیگر ووٹرز کی تعداد25661ہے۔پنجاب میں کل اقلیتی ووٹرز 1641838جس میں سے مسیحی ووٹرز 1399468 ہندو ووٹرز 103658اوردیگر اقلیتی ووٹرز 138709ہیں۔ بلوچستان میں کل اقلیتی ووٹرز کی تعداد 51245 جس میں ہندو ووٹرز 28551 مسیحی ووٹرز 20761 دیگر اقلیتی ووٹرز 1933ہیں۔ کے پی کے میں کل اقلیتی ووٹرز 46115 مسیحی ووٹرز 33328 ہندو ووٹرز 5025دیگر اقلیتی ووٹرز 7762 ہے۔ اسلام آباد میں کل اقلیتی ووٹرز کی تعداد 41977 مسیحی ووٹرز 38744دیگر اقلیتی ووٹروں کی تعداد 3233 ہے۔ ملک کے868 حلقوں میں پھیلے ہوئے ان لاکھوں ووٹرز کی مذہبی شناخت پر اس وقت 38 نمائندے ایوانوں میں ہیں۔ جن میں 4 سینیٹر10 ایم این اے اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں 24 ایم پی ایز ہیں۔
پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی آبادی کے بارے میں بھی بہت ابہام پائے جاتے ہیں جس کا اندازہ آپ ماضی و حال کے اعداد و شمار سے بھی لگا سکتے ہیں۔ کہ پاکستان میں1951ء کی افراد شماری کے اعدادو شمار کچھ یوں تھے۔ مسیحی432706، شیڈول کاسٹ369831، ہندو جاتی160664 تھے ۔ اس طرح کل ہندو آبادی530495تھی۔مجموعی ہندو آبادی مسیحیوں کی آبادی سے97789 زیادہ تھی۔ 1961ء کی افراد شماری میں مسیحیوں کی آبادی583884تھی شیڈول کاسٹ418011، ہندو جاتی 203794 تھی۔ کل ہندو آبادی621805تھی۔ مجموعی ہندو آبادی مسیحیوں کی آبادی سے 37921 زیادہ تھی۔ 1972ء کی افراد شماری میں مسیحی 907861، شیڈول کاسٹ603369 اور ہندو جاتی 296837 آبادیتھی۔ اس طرح کل ہندو آبادی900206تھی۔یوں مجموعی ہندو آبادی مسیحیوں کی آبادی سے7655کم تھی۔1981ء کی افراد شماری میں مسیحی1310426تھے اس افراد شماری میں شیڈول کاسٹ کا خانہ نہیں تھااور ہندو جاتی1276116 ہے ۔ 1981ئمیں ہندؤ آبادی مسیحیوں سے 34310کم تھی۔ 1998ء کی افراد شماری میں مسیحی 2092902اور ہندو جاتی 2111271، شیڈول کاسٹ 285212 یوں مجموعی ہندو آبادی2396483تھی اور مسیحی آبادی ہندو آبادی سے 303581 سے کم ہو گئی۔ جبکہ 2017ء کی افراد شماری میں مسیحی2642048، ہندو جاتی3595256اور شیڈول کاسٹ 849614ہے۔پاکستان کی تاریخ کی سب سے متنازع افراد شماری میں مجموعی ہندو آبادی4444870ہو گئی جبکہ مسیحیوں کی آبادی سے 1802822ہو گئی۔ اعداد و شمار میں دیکھیں تو ہندو آبادی1951ء میں مسیحیو سے 97789 زیادہ تھی۔ 1961ء میں 62805 زیادہ تھی۔1972ء مجموعی ہندو آبادی مسیحیوں کی آبادی سے 7655کم تھی۔ 1981ء میں ہندو آبادیمسیحیوں سے34310 کم تھی۔ 1998ء میں مسیحی آبادی ہندو آبادی سے 303581 سے کم ہو گئی۔2017ء میں پاکستان کی تاریخ کی سب سے متنازع افراد شماری میں مجموعی ہندو آبادی 4444870ہو گئی جو کہ مسیحیوں کی آبادی سے 1802822ہو گئی۔اسی کا عکس2023 کی مردم شماری میں بھی نظر آ رہا ہے جس میں مجموعی ہندو آبادی 5217216 دکھائی گئی ہے جب کہ مسیحی آبادی3300788ہے اب مسیحی آبادی ہندو آبادی سے1916428 کم ہے۔
اسی طرح1951ء میں شیڈول کاسٹ آبادی ہندو جاتی آبادی سے 209167 زیادہ تھی۔ 1961ء میں شیڈول کاسٹ آبادی ہندو جاتی آبادی سے214217 زیادہ تھی۔ 1972ء میں شیڈول کاسٹ آبادی ہندو جاتی سے 306532 زیادہ تھی1981ء کی افراد شماری میں شیڈول کاسٹ کا خانہ ہی نہیں تھا اور پھر 1998 میں ہندو جاتی آبادی شیڈول کاسٹ سے 1826059زیادہ ہو گئی۔ جس پر شیڈول کاسٹ کی آبادی کا جو تناسب ہندو جاتی آبادی سے زیادہ تھا وہ کیا ہوا؟ اور1982ء میں یہ خانہ کیوں غائب ہو گیا اور 1998ء میں شیڈول کاسٹ جو 1951ء 1961ء 1972ء میں ہندو جاتی سے بہت زیادہ تھے وہ اچانک اتنے کم کیسے ہو گئے ؟ اورپھر 2017ء میں ہندوں کی مجموعی آبادی 4444870 ہو گئی ہے ۔ جو کہ شیڈول کاسٹ اور خصوصاً مسیحیوں کی آبادی پچھلی پانچ افراد شماریوں کے نتائج سے حیران کن طور پر بہت کم ہو گئی ان حقائق کے ساتھ یہ بات بھی تاریخ کا حصہ رہے گا کہ جب مسیحیوں کی آبادی میں یہ ڈرامائی کمی اور ہندو کی آبادی میں یہ ہو شربا اضافہ ہوا تو وزیر شماریات ایک مسیحی تھا اور نیشنل اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے شماریات کا چیئرمین ایک ہندو تھا اوردونوں کا تعلق مسلم لیگ ن سے تھا۔ کون سی کمیونٹی فائدے میں رہی اور کون سی خسارے میں یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ سوال بنتا ہے کہ یہ کیوں ہوا کیسے ہوا؟ان سوالوں کے جواب اُس وقت کی حکومت اور ریاست پاکستان کے ادارے ہی دے سکتے ہیں۔ مسیحیوں اور شیڈول کاسٹ کے بے تحاشاسماجی و سیاسی راہنما ہی لے سکتے ہیں۔ شیڈول کاسٹ اور مسیحیوں میں ایک بات مشترکہ ہے کہ ان کے ہاں سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں و این جی اوز کی بھر مار ہے لیکن حقیقی مسائل کی طرف توجہ ذرا کم ہے۔
میرے نقطہء نظر میں یہ کاغذی نسل کشی کا سانحہ عظیم تھا لیکن حیران کن طور پر تحریک شناخت کے بار بار نشان دہی کرنے کے باوجود مسیحی سیاسی ،سماجی اور مذہبی ورکروں/راہنماؤں نے اس معاملے پر چپ سادھ رکھی ہے۔اس اہم مسئلے پر ان کا بے حسی اور لاپرواہی کا رویہ مسیحیو کی اجتماعی نفسیات کا بھی عکاس ہے۔
ان اعداد وشمار سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی مذہبی اقلیتیں اپنی آبادی سے مطمئن کیوں نہیں ہیں۔2017ء کی افراد شماری جس میں مسیحیوں کی آبادی جو کہ ماضی کے اعدادو شمار کے مطابق تقریبا ـ4989074 ہونی چاہیے تھی جو کہ یک لخت کم ہو کر 2642048 ہو گئی۔ یعنی وزارت شماریات کے کاغذات سے 1096275 تقریباً23لاکھ جیتے جاگتے انسان غائب ہو گئے جبکہ ان 17سالوں میں کوئی ایسے عوامل سامنے نہیں آئے مثلاً لاکھوں لوگوں کے اجتماعی نشل کشی یا اجتماعی ہجرت ہوئی ہے۔افراد شماری کے ماضی کا ریکارڈ شیڈول کاسٹ کی آبادی کے بارے میں بھی ایسے ہی حقائق بیان کر رہا ہے۔ان اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں اقلیتوں کی آبادی اس وقت ایک کروڑ ہونی چاہیے۔
جبکہ2023 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں اقلیتی آبادی8771380ہے نیچے دیئے گئے چارٹ میں ہے۔ اب تک کی مردم شماری کے اعداد وشمار اور اگر یہ مردم شماری تسلسل سے ہوتی تو اس کے بھی متوقع اعداد و شمار دیئے گئے ہیں۔
قیام پاکستان سے پہلے بھی مسیحیوں کی مجموعی آبادی کی بڑی تعداد مغربی پنجاب میں ہی آباد ہے اور قیام پاکستان میں تو اس شرح میں اور اضافہ ہوگیا۔اسی تناظر میں چند اعدادوشمار حاضر ہیں۔برطانوی راج پنجاب میں قائم ہونے کے بعد سے قیام پاکستان سے پہلے تک کی مغربی پنجاب کی مردم شْماری کے مسیحیو کے اعدادو شمار نیچے درج ہیں۔ اس چارٹ میں 1891 کے اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں۔لیکن پورے پنجاب میں مسیحیوکی آبادی ڈبل ہونے کے اعداد و شمارتاریخ میں درج ہیں۔اس حساب سے 1891 میں مغربی پنجاب میں مسیحی آبادی 28054 تھی۔ اس چارٹ کو پبلک کرنے کا مقصد ہے۔کہ مسیحی سماجی سیاسی اور مذہبی ورکر پاکستان میں مسیحی آبادی کے محرکات کو صحیح سمجھ سکیں۔1881 میں پنجاب میں پہلی دفعہ مردم شماری ہوئی تھی۔
1881میں مسیحی آبادی 12,992
1891میں مسیحی آبادی 28054
1901میں مسیحی آبادی 42371
1911میں مسیحی آبادی 144514
1921میں مسیحی آبادی 247030
1931میں مسیحی آبادی 24730
1941 میں مسیحی آبادی 395311
پاکستان میں تعداد کے اعتبار سے اقلیتوں کے تین بڑے گروہوں کی مردم شْماری کی مختصر تاریخ کے اعداد و شمار
ممکن ہے پاکستان میں مذہبی اقلیتی گروہ 9 سے بھی زیادہ ہوں۔لیکن پاکستان میں 9 مذہبی اقلیتوں کے پکے شواہد ملتے ہیں۔ لیکن یہ ایک المیہ ہے کہ وزارت شماریات کے مطابق پاکستان میں 1998 تک 6 مذہبی گروہوں بدھسٹ ، پارسی، ہندو,جاتی مسیحی، شیڈول کاسٹ، قادیانی کے نام لکھے جاتے تھے۔باقی کو دیگر لکھا جاتا تھا جبکہ کے 2017 اور 2023 کی مردم شماریوں میں صرف چار مذہبی اقلیتوں کے نام لکھ کر باقی اقلیتوں کو دیگر کی فہرست میں ڈال دیا گیا ہے۔ یہ چار مسیحی، ہندو جاتی، شیڈول کاسٹ اور قادیانی ہیں۔جب کہ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں 7 مذہبی اقلیتوں مسیحی، ہندو، قادیانی ، بہائی، بدھسٹ، پارسی،اور سکھوں کے نام لکھیں ہیں ۔ ان دونوں فہرستوں میں کیلاشیوں کا ذکر نہیں ہے۔اسی طرح شیڈول کاسٹ کا ذکر وزارت شماریات کے ریکارڈ میں ہے لیکِن الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں نہیں ہے۔ ممکن ہے ،پاکستان میں ان 9 مذہبی گروہوں کے علاؤہ بھی کسی اور مذہب کے پیروکار بھی پاکستان میں بستے ہوں۔ لیکن ان تمام اقلیتوں میں میں سے آبادی کے بارے میں زیادہ ابہام وشکوک تین بڑے اقلیتی گروہوں میں پائے جاتے ہیں اس لئے نیچے دیئے گئے چارٹ میں ان تینوں مذہبی اقلیتوں کے اعدادوشمار کو شامل کیا گیا ہے۔
1951 سے لے کر 2023 تک ہونے والی 7مردم شماریوں کے سرکاری اعداد و شمار
نمبر شمار
-01-17-00-00-00 مردم شماری
-01-15-00-00-00شیڈول کاسٹ
-01-11-00-00-00ہندوجاتی
-01%-00-00-00مجموعی ہندو آبادی
-01-19-00-00-00مسیحی آبادی
-01-03-00-00-0001
-01-05-00-00-001951
-01-07-00-00-00369831
-01-07-00-00-00160664
-01-07-00-00-00530495
-01-07-00-00-00432705
-01-03-00-00-0002
-01-05-00-00-001961
-01-07-00-00-00418011
-01-07-00-00-00203794
-01-07-00-00-00621805
-01-07-00-00-00583884
-01-03-00-00-0003
-01-05-00-00-001972
-01-07-00-00-00603369
-01-07-00-00-00296837
-01-07-00-00-00900206
-01-07-00-00-00907861
-01-03-00-00-0004
-01-05-00-00-001981
-01-03-00-00-00-85-85
-01-08-00-00-001276116
-01-08-00-00-001276116
-01-08-00-00-001310426
-01-03-00-00-0005
-01-05-00-00-001998
-01-07-00-00-00332342
-01-08-00-00-002111271
-01-08-00-00-002443614
-01-08-00-00-002092902
-01-03-00-00-0006
-01-05-00-00-002017
-01-07-00-00-00849614
-01-08-00-00-003595256
-01-08-00-00-004444870
-01-08-00-00-002642048
-01-03-00-00-0007
-01-05-00-00-002023
-01-08-00-00-001349487
-01-08-00-00-003867729
-01-08-00-00-005217216
-01-08-00-00-003300788
-01-1F-01-00-00اگر مردم شْماری ہر دس سال بعدتسلسل سے ہوتی رہتی تو مسیحی ،ہندو اور شیڈول کاسٹ آبادی اس تناسب سے بڑھتی جیسے 1981تک بڑھی تو اعداد و شمار یہ ہوتے ۔
مردم شماری
-01-1B-00-00-00مسیحی آبادی
اضافہ 44.34%
-01<-00-00-00شیڈول کاسٹ ہندو آبادی اضافہ%29
-012-00-00-00ہندو جاتی آبادی اضافہ36.5%
-01(-00-00-00مجموعی ہندو آبادی%34
-01-05-00-00-001951
-01-07-00-00-00432705
-01-07-00-00-00369831
-01-07-00-00-00160664
-01-07-00-00-00530495
-01-05-00-00-001961
-01-07-00-00-00583884
-01-07-00-00-00418011
-01-07-00-00-00203794
-01-07-00-00-00621805
-01-05-00-00-001972
-01-07-00-00-00907861
-01-07-00-00-00603369
-01-07-00-00-00296837
-01-07-00-00-00900206
-01-05-00-00-001981
-01-08-00-00-001310426
-01-07-00-00-00778346
-01-07-00-00-00405182
-01-08-00-00-001276116
-01-05-00-00-001991
-01-08-00-00-001891469
-01-08-00-00-001004066
-01-07-00-00-00553073
-01-08-00-00-001709995
-01-05-00-00-002001
-01-08-00-00-002730146
-01-08-00-00-001295245
-01-07-00-00-00754944
-01-08-00-00-002291393
-01-05-00-00-002011
-01-08-00-00-003940693
-01-08-00-00-001670866
-01-08-00-00-001030498
-01-08-00-00-003070466
-01-05-00-00-002021
-01-08-00-00-005687996
-01-08-00-00-002155417
-01-08-00-00-001406630
-01-08-00-00-004114424
-01-16-04-00-00 ان اعدادوشمار کے مطابق ،اگر مردم شماری 1981 کے بعد 1998 میں 17سال بعد اور اسکے بعد 19 سال بعد نہ ہوتی۔ تواسی شرحِ سے 2023 کی آٹھویں مردم شماری میں شیڈول کاسٹ اور ہندؤ جاتی آبادی مجعوعی طور پر4114424 ہوتی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ شیڈول کاسٹ ہندؤ تعلیمی ،معاشی طور پسماندہ ، اور کئی قبائل آج بھی خانہ بدوشی کی زندگیاں گزارتے ہیں،جس وجہ سے شروع کے سالوں میں شائد اتنے رجسٹرڈ نہ ہوتے ہوں ،یوں اگر مجموعی ہندؤ آبادی میں 20 فیصد کا اضافہ کر بھی لیا جائے تو بھی یہ آبادی 4937308 ہوتی۔ لیکن مجموعی ہندوآبادی 2023 کی مردم شْماری میں 5217216 ہے ۔
یہ بھی ٹھیک مان لیتے ہیں۔شائد اتنی ہی ہو۔لیکن اصل مسئلہ یہ ہے، کہ پہلی تین مردم شماریوں میں مسیحی اور شیڈول کاسٹ آبادی ہندؤ جاتی کے مقابلے زیادہ تھی اور اسی حساب سے مسیحی آبادی کے بڑھنے کی شرح بھی زیادہ تھی۔جب کہ چوتھی مردم شماری میں شیڈول کاسٹ کا خانہ ہی ختم کر دیا گیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے شیڈول کاسٹ زیادہ تر 1972 کے بعد ہجرت کر گئے اور پھر تھوڑے تھوڑے واپس آنے شروع ہوئے جو کہ 1998 کی مردم شْماری میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس وقت ہندؤ جاتی 3867720 شیڈول کاسٹ 1349487 اور مسیحی 3300788 رہ گئے ہیں۔ لگتا ہے۔1998 کی مردم شماری کے 19 سال بعد 2017 ہونے والی مردم شماری جب مسیحی وزیر شماریات، ہندؤ چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی برائے شماریات اور ن لیگ کی حکومت میں یہ طے کیا گیا۔کہ مسیحیوں اور شیڈول کاسٹ ہندوؤں کی تعداد کو کم کرکے کے ہندؤ جاتی کی تعداد کو بڑھانا ہے۔ پتہ نہیں اس میں اس وقت کے حکمرانوں کی کون سی حکمت اور دانش تھی۔ یا کوئی بہت بڑی غلطی تھی۔ لیکن مسیحیوکے مسلسل احتجاج کے باوجود اس غلطی کو 2023 کی مردم شْماری میں درست نہیں کیا گیا ہے۔بلکہ لاکھوں کا وہ فرق اسی طرح اب 2023 کی مردم شْماری میں بھی موجود ہے۔۔ فرض کریں کہ اگر اس وقت کے حکمران یہ سمجھتے تھے۔ (اتفاق سے آج پھر اسی سیاسی جماعت کی حکمرانی ہے۔) اور وہ آج بھی دنیا کو یہ تاثر دے کر کے پاکستان میں ہندؤ جاتی کی تعداد 39 لاکھ کے قریب ہے،اور ہماری حکومت صرف انکے لئے ہر وقت شہد اور دودھ کی نہریں بہاتی رہتی ہے۔ تو وہ ،ہندؤ جاتی کمیونٹی کی آبادی کو جتنا مرضی بڑھا لیں امن کا نوبل پرائز بھی حاصل کر لیں۔ لیکن حقیقت میں مجعوعی اقلیتی آبادی کی 80فیصد تعداد کے حامل مذہبی گروہوں شیڈول کاسٹ اورمسیحیوکی کاغذی نسل کشی کرکے یہ تاثر دینا، کہ 1998 کے بعد مسیحی اور اور 1972 کے بعد شیڈول کاسٹ پاکستان سے ہجرت کرگئے ہیں اور لاکھوں ہندؤ جاتی دیگر ممالک سے ہجرت کرکے پاکستان آگئے ہیں۔ یہ تاثر کبھی بھی درست نہیں مانا جا سکتا اور یہ نوبل پرائز حاصل کرنے کی ایک انتہائی بھونڈی حرکت ہے۔کیونکہ آپ اپنی مرضی و منشاء کے مطابق ان آبادیوں میں جتنے مرضی ردوبدل کرلیں ،یا چاہے کسی مسیحی وزیر سے ہی کیوں نہ کرا لیں، لیکِن اب انسانوں کی شعور، آگاہی کی سطح بڑھانے کے بڑے ہی سستیذرائع بہت پیدا ہوگئے ہیں۔ لہٰذا مؤدبانہ گزارش ہے۔ کہ ان ایک کروڑ کے قریب غیر مسلم شہریوں کی گنتی میں شفافیت آپکی حکومت کے لئے بہت نیک نامی لا سکتی ہے۔ اس لئے اس کام کو انتہائی سنجیدگی سے انجام دیں۔ ورنہ پبلک سب جانتی ہے اور ن لیگ کا ووٹ بینک سارہ پنجاب بیس ہے اور مسیحیوں کی مجموعی آبادی کا 80 فیصد سے بھی زیادہ پنجاب کے شہری علاقے ہیں۔ اور یہ تقریبا 15 لاکھ کے قریب ووٹرز صرفِ پنجاب کی 10 سے 15 قومی اور 25 سے 30 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ اور انکی کی اکثریت نے 2017 کی اس کاغذی نسل کشی کو بہت سنجیدگی سے دل پر لیا ہوا ہے۔ لہٰذا مسیحیو کے سیاسی سماجی اور مذہبی ورکروں کو تو شائد اس کاغذی نسل کشی سے فرق نہیں پڑتا لیکن عام گھروں میں بیٹھا ہؤا ووٹر جس کی کسی جماعت سے سیاسی وابستگی یا مفاد بھی وابستہ نہیں ہوتا وہ ووٹ کا فیصلہ ایسے بڑے اجتماعی فوائد یا نقصانات کی بنیاد پر کرتا ہے اور محققین و سیاسی مبصرین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ انتخابی نتائج پر ایسے ناراض یا خوش ووٹرز ہی اثر ڈالتے ہیں۔ اس لئے یہ درستگی موجودہ حکومت کے حق میں بہت ہی ضروری ہے۔ ریاست اور شہری کے رشتے میں شفافیت بھی انتہائی ضروری ہے۔۔اگر مجموعی ہندؤ آبادی 5217216 بھی صحیح مان لی جائے، اور مسیحیوں کی متوقع آبادی کو 5687996 بھی صحیح مان لیا جائے۔دیگر اقلیتیں جنہیں 2023 کی مردم شْماری میں صرف 253376 دکھایا گیا ہے۔جبکہ انکی تعداد بھی تقریبا 6 لاکھ کے قریب ہے۔ اس طرح مجموعی اقلیتی آبادی کی تعداد تقریباً ایک کروڑ 15 لاکھ کے قریب ہونی چاہیے۔
لیکن یہ طے ہے کہ یہ آبادی سرکاری کاغذوں کے حساب سے چاہے 8771380 ہو یا ہمارے حسابوں کتابوں کے مطابق ہو۔ لیکن یہ طے ہے کہ 38 نمائندے ہونے کے باوجود یہ سب اس نظام سے مستفید ہونے والوں کے علاوہ اپنے آپ کو لاوارث اور سیاسی یتیم سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو ہمارا سماجی ناانصافی پر مبنی معاشرہ ہے جو کہ کمزور کیلئے بالکل غیر محفوظ ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب ، رنگ ،فرقے اور مسلک سے ہو۔ لیکن غیر مسلم پاکستانیوں کی بے چینی کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے حلقے کے ایم این اے، ایم پی اے جب ایسی کسی صورت حال کا سامنا عددی اعتبار سے کسی چھوٹے گروہ کو ہو تو عموماً حلقے کا نمائندہ زیادہ ووٹوں والی برادری کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ متعلقہ برادری کا نمائندہ کیونکہ اپنی برادری کے ووٹوں سے منتخب ہو کر نہیں آتا لہٰذا وہ ایسی صورت میں اپنی پارٹی مفادات کے ساتھ ہوتا ہے ناکہ متعلقہ برادری کے ساتھ اس میں اس بیچارے کا کوئی قصور بھی نہیں ہوتا ۔کیونکہ وہ ہمیں جواب دہ نہیں ہے لہٰذا اس کی ہمدردی اسی کے ساتھ ہو گی، جس نے اسے چاہے ہماری شناخت پر ہی لیکن جنبش قلم سے سینیٹر، ایم این اے یا ایم پی اے بنا دیا ہوتا ہے۔ اس کے لئے یقیناً وطن عزیز کی سیاسی اشرافیہ بھی ذمہ دار ہے اور ہم عام لوگ بھی اور ہمارے سماجی، مذہبی، سیاسی رہنما بھی۔ جو آج تک کوئی ایسا انتخابی نظام وضع ہی نہیں کروا سکے۔ جس سے اس ملک کے تقریباً ایک کروڑ دھرتی کے بچوں جن کے اجداد آزادی ہند، تعمیر پاکستان اور دفاع پاکستان میں بھی دھرتی کے دوسرے بچوں کے ساتھ پیش پیش رہے ہیں۔ وہ چاہے روپلوکولھی ہو جوگندر ناتھ منڈل ہوں جسٹس بھگوان داس ہوں، صوبوگیان چندانی ہوں یا دیگر ایسے ہزاروں پاکستان کے قیام تعمیر و تشکیل کے معمار ہوں۔ سردار ہری سنگھ ہو جنہوں نے قائد کی آواز پر اپنے خاندان کے 129 افراد کی قربانی دے کر امرتسر سے لاہور ہجرت کی ہو۔ یا راجہ تری دیو ہو جس سے اپنی راج دہانی (ریاست) چھوڑ کر سقوط ڈھاکہ کے بعد قائد کے وطن سے اپنی آخری سانسوں تک وفاداری نبھائی۔ اس میں وہ بے شمار پارسی جو جدید کراچی کے معمار ہیں ان کی خدمات بھی کسی سے کم نہیں اس طرح اس ملک کے مسیحی بچے بھی دوسرے پاکستانی مسلم و غیر مسلم پاکستانیوں کی طرح اس دھرتی کے بچے ہیں۔ آزادی ہند کے سپاہی بھی ہیں قوم و معاشرے کے معمار بھی ہیں اور محافظ، غازی اور شہید بھی ہیں غرض یہ تقریباً 90 لاکھ کے قریب غیر مسلم دھرتی کے بچے آج بھی دن رات اپنی اپنی بساط کے مطابق اس ملک قوم و معاشرے کی تشکیل میں مصروف عمل ہیں۔لیکن ان سب حقائق کے باوجود بھی یہ پاکستانی شہری اپنے بنیادی سیاسی حقوق سے کیوں محروم رہے اس کے لئے ہم غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے وضع کئے گئے اب تک انتخابی نظاموں کا جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں 75 سال میں ان دھرتی واسیوں پر کون کون سے انتخابی نظام تھوپے گئے ۔
‘‘ہماری اس سیاسی پسماندگی کی ریاست بھی ذمہ دار ہے ریاست اس لئے کہ 75 سالوں میں ایسا انتخابی نظام نہیں دے سکی جس سے ہماری سیاسی تربیت ہوتی۔ریاست کی اس ذمہ داری کو پورا نہ کرنے کا اندازہ لگانے کے لئے آپ کو ریاست کے اپنے غیر مسلم شہریوں پر قیام پاکستان سے اب تک تھوپے گئے انتخابی نظام کا بغور مطالعہ کریں تو جو نچوڑ نکلتا ہے وہ کچھ یوں ہے۔ 1946 سے 1954ء 1955 سے 1958ء 1962ء سے 1964ء 1965سے 1969 پہلے تئیس اور چوبیس سال میں بننے والی چاروں قومی اسمبلیوں کی تفصیل یہ ہے۔
پاکستان کی دوسری اسمبلی 1955کو وجود میں آئی اور یہ 1958تک چلی، اس کے کل ممبران کی تعداد 72 تھی۔اس میں گیارہ اقلیتی ارکان تھے ،جن میں سے نو کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا ان میں سے ایک مسیحی تھے۔جن کے نام یہ تھے،گور چندرا بالا ،کنتسور برمن ،بسنتا کمار داس ،بھوپندرا کمار دتا ، کمنی کمار دتا ،اکشے کمار داس ،پیٹر پال گومز( مشرقی پاکستان)۔رسا راج منڈل، سیلندرا کمار سین ،سرو مل کرپل داس (سندھ مغربی پاکستان)۔
سیسل ایڈورڈ گبن المعروف سی ای گبن ( مغربی پاکستان پنجاب) یہ وہ ہی سی ای گبن تھے۔جنہوں نے 1946میں اپنے دیگر دو ساتھیوں ایس پی سنگھا ،اور چوہدری فضل الٰہی کے ساتھ مل کر قائد اعظم کے کہنے پر پنجاب کو تقسیم نہ کرنے کی قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالا تھآ۔یہ اس دوسری قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر بھی رہے۔ پنجاب کی تقسیم کے حق اور مخالفت میں 77/91 لوگوں نے رائے دی تھی. اور سنگھا صاحب ان تمام ہندؤں سکھوں مسلمانوں،مسحیو کا متفقہ اسپیکر تھا۔یہ وہ ہی ووٹ ہیں جن کو فیصلہ کن ووٹ قرار دے کر ہمارے اکثر لوگ لا علمی میں غلط بیانی کرتے ہیں اور تسلسل سے کرتے ہیں۔ یہ 77/91 کی گنتی بھی جو کہ پنجاب اسمبلی کے ریکارڈ میں دستیاب ہے۔ غلط بیانی کی بجائے ، اہم یہ ہے کہ اپنی نسلوں کو سچ بتا کر یہ بتایا جائے” ہمارے اجداد تاریخ کے صحیح رخ پر کھڑے تھے۔ان سے فیصلے میں غلطی نہیں ہوئی تاریخ کے اتنی بڑی قتل وغارت ،ہجرت کی بدولت پیدا ہونے والے معاشی مواقع اور نفاسا نفسی نے اس وقت کے قائدین بشمول قائد اعظم اور پھر انکے جانشینوں کو اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ وہ پسے اور دھتکارے ہوئے دھرتی واسیوں بارے سوچ سکیں۔”دوسری اسمبلی کے لئے یہ الیکشن بھی جداگانہ طریقہ انتخاب پر ہوا۔ یہ آخری دؤر تھا جس میں شیڈول کاسٹ فیڈریشن نے پاکستان کی قومی سیاست میں بھرپور حصہ لیا۔ مغربی پنجاب سے صرف ایک ہی ممبر قومی اسمبلی مسیحی تھا۔جو یہ ظاہر کرتا ہے، کہ مسیحیوں کی سیاست کا محور و مرکز پنجاب ہی تھا۔ حقائق بہت سارے بیانیے بھی درست کر دیتے ہیں۔پہلی دو اسمبلیوں میں اقلیتوں کی تعداد میں سے 99 فیصد شیڈول کاسٹ فیڈریشن آف ایسٹ بنگال کے لوگوں کا ہونا اس بات کا ثبوت ہے۔کہ یہ سب جوگندر ناتھ منڈل کی قیادتِ کا ہی ثمر تھا۔۔ جسکے اثراتِ دوسری اسمبلی میں بھی نظر آتے ہیں۔جب کہ وہ پہلی اسمبلی کے دوران ہی ہجرت بھی کر چکے تھے۔ بے شک تاریخ سے سیکھنے کے لئے قوموں اور افراد کے لئے بہت کچھ ہوتا ہے۔ بس فرد یا قوم تھوڑا بہت پڑھنے کے شوقین غور وفکر کرنے والے ہوں۔
قیام پاکستان سے آج تک 16 انتخابات میں اقلیتوں پر 5 بار 3 مختلف انتخابی نظام آزمائے گئے۔لیکن پاکستان کی سیاسی ریاستی دانشور اشرفیہ اور اقلیتوں کے ماضی و حال کے نمائندوں کی یہ بہت بڑی ناکامی ہے کہ عام اقلیتی شہری کبھی بھی ان نظاموں سے مطمئن نہیں ہوئے۔پہلی دونوں اسمبلیوں میں یہ طریقہ اپنایا گیا۔اسکے نتیجے میں اقلیتیں سیاسی شودر اور معاشرتی اچھوت بنا دی گئی تھیں۔۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔کہ اس پر آواز کیوں نہ اٹھائی گئی۔ پہلی وجہ یہ رہی ہوگی کہ اس وقت عوام ووٹ نہیں ڈالتے تھے۔ اس لئے عوامی سطح پر ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آیا۔بس خواص ہی ووٹ ڈالتے اور الیکشن میں حصہ لیتے تھے۔ برّصغیر کی اشرفیہ ایسی چیزوں پر کم ہی توجہ دیتی ہے۔دوسرا یہ کہ اس وقت کے اسمبلی ممبران نے اس مسلئے کو اسمبلی میں اٹھایا ضرور تھا۔جس کا گلہ شکوہ جوگندر ناتھ منڈل کے استعفی میں پڑھا جا سکتا ہے۔ اسی کہ ردعمل میں اگلے تین الیکشن مخلوط طرزِ انتخاب کے ذریعے ہوئے۔ جس کا ذکر تیسری چوتھی اور پانچویں اسمبلی بارے تحریر میں آئے گا۔
تیسری اسمبلی الیکشن سے منتخب ہوئی جس میں کوئی غیر مسلم نہ مشرقی پاکستان نہ مغربی پاکستان سے منتخب ہوا چوتھی اسمبلی میں بھی کوئی غیر مسلم جگہ نہ بنا سکا۔ اس طرح پہلی چار اسمبلیوں میں سے دو میں طریقہ انتخاب جداگانہ اور دو میں طریقہ انتخاب مخلوط تھا۔ یہ پاکستان کی انتخابی تاریخ کا پاکستانی غیرمسلم شہریوں کے لئے پہلا دور تھا۔
دوسرا دور 1970ء سے شروع ہوا۔ 1970ء میں جب پہلی دفعہ جنرل الیکشن ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر الیکشن ہوئے تو ان مخلوط الیکشن میں مرحوم پروفیسر سلامت اختر کے مطابق مسیحیوں نے پاکستانی مسیحی لیگ کے پلیٹ فارم سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی 33 نشستوں پر الیکشن میں حصہ لیالیکن کہیں کوئی بھی امیدوار اپنا زرضمانت بھی نہ بچا سکا۔
الیکشن کے بعد دو سال جنگ کی تباہ کاریوں اور فوجی سول رسہ کشی اور بھٹو کے بطور چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر گزرے۔ ان الیکشنوں میں مغربی پاکستان سے کوئی غیر مسلم قومی اسمبلی کے الیکشن نہ جیت سکا۔ لیکن ایک ممبر قومی اسمبلی بنا جس کا حلقہ انتخاب مغربی پاکستان موجودہ بنگلا دیش میں رہ گیا اور ممبر اسمبلی راجہ تری دیو پاکستان آگیا۔ اس مخلوط الیکشن میں صرف رانا چندر سنگھ الیکشن جیت سکے اور وہ بھی سندھ کی صوبائی اسمبلی کے ممبر بنے اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں پاکستان کی قومی اسمبلی میں کوئی غیر مسلم قومی اسمبلی کا ممبر منتخب نہ ہوا کیونکہ راجہ تری دیو نے جس اسمبلی کا انتخاب تو جیتا تھا لیکن ان کا حلقہ انتخاب اس اسمبلی کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں نہیں آتا تھا۔ لیکن جب بھٹو نے بطور مارشل ایڈمنسٹریٹر مارشل ریگولیشن 118 کے تحت نجی ادارے قومیائے تو پاکستانی مسیحیوں کے تعلیمی ادارے بھی اس نیشنلائزیشن کی پالیسی کا شکار ہو گئے اور یوں مسیحیوں کو اپنی انتخابی محرومی کا غصہ نکالنے کا بھی موقع مل گیا مسیحی تعلیمی اداروں کے قومیائے (نیشنلائز) کئے جانے سے تقریباً ہر مسیحی مکتبہ فکر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیا ملک بھر میں احتجاج شروع ہو گیا۔ سیاسی، مذہبی، سماجی راہنماوں کی قیادت میں جب مسیحی جلوس کے شرکاء نے وزیر اعظم ہاوس کو یاداشت پیش کرنے کے لئے وزیر اعظم ہاوس کی طرف پیش قدمی کی تو 30 اگست 1972ء کو اس پُرامن جلوس کے شرکاء پر پولیس نے فائرنگ کردی، دو پاکستانی مسیحی آر ایم جیمز اور نواز مسیح شہید ہوئے۔ تاریخ خاموش ہے کہ ان شہداء کے قتل کا مقدمہ کس پر قائم ہوا۔ہوا بھی یا نہیں؟
اور یہ پتہ چل بھی نہیں سکتا کیونکہ تب سے لے کر اب تک انہی شہداء کے خون کے طفیل پھر آئینی ترمیم ہوئی جس کی بدولت آج تک300کے قریب ایم این اے، ایم پی اے بن چکے ہیں لیکن احسان فراموش کی اس سے بڑی مثال کیا ہو گی شائد ہی ان میں سے کسی کوان کا نام بھی یاد ہو اور باقی جو ایوانوں سے باہر ، ایوانوں میں جانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ان کی ترجیحات میں بھی اس طرح کی چیزیں شامل نہیں ہوتیں۔
ہاں یہ ضرور ہوا کہ اس وقت کے مسیحی مذہبی، سیاسی وسماجی کارکنوں پر مقدمات بنائے گئے،کئی ایک کو صوبہ بدر کیا گیا۔جن میں راولپنڈی کے جلوس کی پاداش میں کرنل (ر)جارج ایبل اور پروفیسر سلامت اختر پر ارادہ قتل و سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے مقدمات بنائے اور پابند سلاسل کیا۔ جب کہ سیالکوٹ اوربہت سے دوسرے مسیحی کارکنوں پر نقص امن جن میں نمایاں عمانوئیل ظفر،گلزار چوہان،، چوہدری اے حمید،ڈاکٹر آر۔ایم حر و دیگر پر مقدمات بنا کر انہیں جیلوں میں ڈالا گیا۔اس سب کے باوجود حکومت کو پسپا ہونا پڑا۔ حکومت نے ادارے تو واپس نہیں کیے۔ لیکن 1973ء کے آئین میں21نومبر1975ء کو چوتھی آئینی ترمیم کے ذریعے نامزدگی کی بنیاد پر غیر مسلموں کو 6قومی اسمبلی سیٹیں دے دی گئی جن میں چار مسیحی ایک ہندو اور ایک احمدی نامزد ہوئے۔ یوں اس جمہوری دور میں بھی غیر مسلم کے ہاتھ صرف نامزدگیاں ہی آئیں اور نامزدگیوں کے انتخاب کے میرٹ کا اندازہ اس لئے لگا لیجیے۔ اسمبلی کی ٹرم کے دوران جب ایک نامزد ممبر کی موت ہوئی تو اس کی جگہ اس کی بیوی نجمہ اینڈریوز کو نامزد کر دیا گیا۔لیکن یہ مہربانی صرف قومی اسمبلی کے لئے تھی صوبائی اسمبلیوں میں غیر مسلم ممبران کی نامزدگی کے لئے 1976ء میں آئین میں ترمیم کے ذریعے ان دھرتی کے بچوں کے لئے صوبائی اسمبلیوں میں جگہ بنائی گئی، یعنی1973ء کا متفقہ آئین بنانے والے اس بات سے بے خبر تھے کہ اس فیڈریشن کے وفاق کی اکائیوں میں بھی غیر مسلم دھرتی کے بچے بستے ہیں۔ اس طرح دو مسیحی شہداء کے خون کے بدلے سات لوگوں نے قومی اسمبلی میں بیٹھنے کا مزہ اس طرح لیا۔کہ (ایک بیگم نجمہ ریواز تھی جو اپنے خاوند کی موت کے بعد نامزد ہوئی)
اس آئینی ترمیم کے بعد مارچ 1977 ء کے انتخابات جداگانہ اور مخلوط کی کچھ خامیوں سے سیکھ کر پاکستان کی اقلیتوں کو دوہری نمائندگی دینے کے لئے مخلوط کے ساتھ سلیکشن کے ذریعے نسبت تناسب سے مذہبی شناخت پر نمائندگی دینے کی بنیاد پر ہوئے ۔لیکن جولائی1977ء میں مارشل لاء لگ گیا اس لئے یہ اس تیسرے نظام کے ثمرات غیر مسلم پاکستانی نہ دیکھ سکے اس کے بعد ضیاء الحق نے 1982ء میں مجلس شوریٰ قائم کی جس میں اقلیتی ممبران بھی نامزدگی سے بنائے گئے۔ لیکن اس مجلس شوری کو قومی اسمبلی کے ریکارڈ سے نکال دیا گیا ہے۔ اس کے بعد 1985ء سے ایک نئے انتخابی نظام کو غیر مسلم پاکستانیوں کا مقدر بنایا گیا یعنی جداگانہ انتخابی نظام جو1985ء سے 1997ء کے عام انتخابات تک جاری رہا جس کی کہانی کچھ یوں ہے۔
1985ء میں پاکستان کے وجود میں آنے کے تقریباً 38 سال بعد پہلی دفعہ عام غیر مسلم پاکستانیوں کی نمائندگی بذریعہ انتخابات دینے کی منظوری دی گئی اس کے طریقہ انتخاب کو بغیر کسی منصوبہ بندی کے اقلیتوں (غیر مسلم پاکستانیوں) پر تھوپ دیا گیا۔ اقلیتوں کا خصوصاً مسیحیو کو اس جداگانہ کو ماننے کی وجہ یہ رہی ہو گی کہ مخلوط میں ان کا کوئی بندہ نہ جیت سکا تو احتجاج اور شہادتوں کے عوض مخلوط کے ساتھ کوٹے کی سیٹیں مل گئی جن پر یقینا نامزدگی میرٹ کی بجائے پارٹی میں سے بھی من پسند کی ہوئی ہو گی مسیحی و دیگر اقلیتیں اس لئے مان گئے کہ اپنا حلقہ ہو گا اپنے ووٹرز گھر گھر چوہدراہٹ نہ اکثریتی امیدواروں سے مقابلہ انہوں نے اپنی اپنی چوہدراہٹوں کے لئے اسے قبول کیا جب کہ اس وقت کے آمر جنرل ضیاالحق نے ان کے اس شوق خودنمائی کی آڑ میں انہیں معاشرے و دیگر سیاسی معاملات سے باہر کیا اسے تو قومی سوچ کو کچل کر لوگوں کو رنگ نسل مذہب، مسالک، جغرافیہ، لسانیت میں بانٹ کر ا پنے اقتدارکو دوام دینا تھا جو اس نے دیا۔ جس کے اثرات پاکستانی قوم آج تک بھگت رہی ہے۔اقلیتوں کی اجتماعی نفسیات پر اس کے یہ اثرات ہوئے کہ پاکستان بھر کی اقلیتیں دو ، چار مثالوں کو چھوڑ کر صرف اقلیتی ونگز کی سیاست پر ہی اکتفا کئے بیٹھے ہیں اور جو مسیحیو یا ہندؤں کی اقلیتی پارٹیاں ہیں اس کا محور و مرکز بھی اقلیتی ونگز سے ملتا جلتا ہے۔ اس ذہنی کیفیت کے اثرات مذہبی اقلیتی شہریوں کی نوجوان نسلوں کی دوسرے شعبوں میں کارکردگی پر بھی پڑ رہے ہیں۔ 2002ء سے جاری موجودہ انتخابی نظام سے جڑی غیر جمہوری کوٹے والی سیٹوں کی آڑ میں مسیحیوں کے چند نادان دوست مسیحی اس نفسیاتی المیے کے اثرات زائل کرنے والے مخلوط نظام سے جڑے من پسند افراد کو ایوانوں میں بٹھانے والے نظام سے نفرت کی بنا پر پاکستان کے معروضی حالات و زمینی حقائق کو جانے بغیرپاکستانی مذہبی اقلیتوں کے لئے زہریلے اور سیاسی شودر بنانے والے جداگانہ انتخابی نظام کی رٹ لگا رہے ہیں۔
جداگانہ طریقہ انتخاب میں اقلیتی ممبران کو قومی اسمبلی کے لئے پورا پاکستان حلقہ بنا کر دیا گیا اور صوبائی نشست کے لئے پورا صوبہ حلقہ بنا دیا گیا۔ ویسے پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی آبادی اس طرح ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہے اور تعداد ملک بھر اور کچھ صوبوں میں بالکل گم ہونے کی وجہ سے ہے کہ اگر آج بھی میرٹ پر حلقہ بندیاں کی جائیں تو24حلقے ویسے ہی ہوں گی۔جو کہ نمائندگی دینے کے نام پر اقلیتوں کے ساتھ ایک سنگین مذاق تھا کہ وہ اچھوتوں کی طرح صرف اپنے ہم مذہب لوگوں سے پورے پاکستان سے ووٹ مانگیں۔ پاکستان کے غیر مسلم خاص کر مسیحی چند ایک کو چھوڑ کر مالی طور پر ویسے ہی بڑے کمزور ہیں اس انتخابی نظام میں قومی اسمبلی کے لئے حلقہ پورا پاکستان اور صوبائی انتخاب کے لئے حلقہ پورا صوبہ ٹھہرا۔ مسیحیوں کے لئے یہ کڑا امتحان تھا کیونکہ مسیحی تو آباد بھی پورے پاکستان کے ہر صوبے کے ہر شہر اور گاوں میں ہیں۔ لیکن ان بیچاروں نے 1985، 1988ء، 1990ء ، 1993ء اور 1997ء میں جداگانہ طریقہ انتخاب میں پانچ بار حصہ لیا۔اس نظام کے ثمرات 1999ء تک حاصل ہوتے رہے۔ گوکہ سیاسی شعور رکھنے والے سیاسی ورکر اس پر آواز اٹھاتے رہے۔ ان آوازوں میں سب سے توانا آواز جے سالک کی تھی جو جداگانہ انتخابات کی ہر مہم میں لوگوں کو جداگانہ کی آڑ میں اقلیتوں کے قومی ووٹ کی چوری یا ڈاکہ زنی کے بارے میں واشگاف انداز میں بناتے رہے۔لیکن زیادہ تر غیرمسلم سیاست کے شوقین شہری چپ چاپ اور ذوق شوق سے اس نظام کے ذریعے الیکشن لڑتے رہے۔
اس نظام میں غیر مسلم پاکستانیوں کو اپنے نمائندے تو مل گئے اور غیر مسلم پاکستانیوں کی محدودسیاسی تربیت بھی ہوئی لیکن اس نظام کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ پاکستان کے غیر مسلم بچوں کو قومی دھارے سے ہی کاٹ دیا گیا۔ یہ اس نظام کی بہت بڑی خرابی تھی ۔ غیر مسلم ووٹر کے حلقے کا نمائندہ چاہے وہ کسی بھی ایوان کا رکن ہو یعنی پاکستان کے تینوں ایوانوں سینیٹ، قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کا رکن ہو اور اس کا رشتہ غیر مسلم ووٹر سے محلے داری یا پڑوس کا بھی ہو لیکن اس طریقہ انتخاب میں ووٹر اور حلقے کے نمائندے کو ایک دوسرے کیلئے اچھوت بنا دیا گیا، غیر مسلم ووٹر اور مسلم امیدوار برائے ممبر قومی یا صوبائی اسمبلی کے درمیان ہزاروں سال پرانے برہمن اور شودر کا رشتہ قائم کردیا گیا۔لیکن آفرین ہے غیر مسلم پاکستانیوں کی راہنمائی کے دعوے داروں پر انہوں نے اس طریقہ انتخاب میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بڑے بڑے عزت دار اس نظام کی بدولت راضی خوشی سیاسی شودر بننے پر تیار ہوئے۔ قومی دھارے سے کٹ کر بھی ایوانوں کے رکن بن کر خوش ہوئے۔ لیکن اس طریقہ انتخاب میں سب سے بڑا نقصان پاکستان کے عام غیر مسلم شہری کا ہوا۔ جس کا قومی اور صوبائی حکومتوں کے بنانے میں عمل دخل یک لخت ختم کر دیا گیا۔ اس طریقہ انتخاب سے منتخب ہونے والے اپنی اپنی کمیونٹیوں سے مذہبی شناخت سے ووٹ لے کر منتخب ہونے کے بعد اپنی مرضی سے جس مرضی پارٹی میں شامل ہو جاتے اس طرح یہ جمہوریت کے ساتھ ایک بڑا ظلم تھا۔
اور پھر 1999ء میں مشرف کی فوجی مداخلت ہوئی اور 2002ء میں جب الیکشن ہوئے اور کنٹرولڈ جمہوری نظام شروع ہوا تو ڈکٹیٹر نے شودر ووٹروں کے شودر ایم این اے ، ایم پی اے کو بھی برہمن شہریوں کے برابر کر دیا۔ یہ اس نظام کااور ڈکٹیٹر کا انتہائی مثبت قدم تھا۔ جس سے تقریباً ایک کروڑ غیر مسلم پاکستانیوں کو قومی شناخت مل گئی اور آمر کے ذریعے پاکستان کے غیر مسلم پاکستانی جمہوری عمل کا حصہّ بن گئے،لیکن مذہبی شناخت پر مخصوص نشستوں پر نامزدگی کا استحقاق سیاسی اشرافیہ نے اپنے پاس رکھ لیا۔گوکہ اس نظام میں مخلوط انتخابات کی بدولت ہر اقلیتی شہری پاکستان کے ہر حلقے میں ووٹ بھی ڈال سکتا ہے۔ ہر پاکستانی امیدوار ہر پاکستانی ووٹر سے مذہب مسلک رنگ نسل سے بالاتر ہو کر ووٹ بھی مانگ سکتا ہے اور ملک بھر سے کہیں سے بھی قومی و صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑ سکتاہے۔جو کہ اس نظام کا بہت مثبت پہلو ہے۔
موجودہ نظام میں پھر سیاسی اشرافیہ نے غیرمسلمان پاکستانی شہریوں کے مذاہب کی بنیاد پر نمائندگی کرنے والوں کو چننے کا حق پھر متناسب نمائندگی کے نام پر اپنے پاس رکھ لیا ہے اور غیر مسلم پاکستانیوں کے نام پر اپنے ایسے ایسے من پسند غلاموں اور طفیلیوں کو غیر مسلم کا نمائندہ (حکمران) بنا کر بٹھایا بلکہ ان کے سروں پر مسلط کردیا جاتا ہے جن کا ان سے دور دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔اس لئے اگر کبھی جس مذہبی گروہ کی وہ نمائندگی کرتے ہیں اس برادری کے اور ان کے سیاسی آقاوں کے مفادات میں ٹکراو ہو تو وہ اپنے سیاسی آقاوں کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں ناکہ ان بیچارے معصوم محرومیوں اور پسماندگیوں کے مارے ہووں کے ساتھ جن بیچاروں کی محرومیوں کے نام پر وہ اپنے تیس تیس سکے کھرے کر رہے ہوتے ہیں۔ اور وہ اس میں حق بجانب بھی ہیں۔ کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے، انسان اسی کو جواب دہ ہوتا ہے جس نے اسے کسی منصب پر بٹھایا ہو۔ ناکہ اُسے جس کے نام پر بیٹھا ہو ( اس کی ایک مثال ہماری سیاسی اشرافیہ کا رویہ بھی ہے جو مبینہ طور پر بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کو زیادہ جواب دہ ہوتی ہے بہ نسبت عام پاکستانی کے) متناسب نمائندگی کے اس طریقہ انتخاب نے اور بھی بڑی سماجی برائیوں کو جنم دیا ہے مثلاً خوشامد، چاپلوسی، سیاسی پارٹیوں کے ورکروں کی ایک دوسرے سے حسد و نفرت اور دیگر اس طرح کی اور کئی قباحتیں اس نظام کی پیداوار ہیں۔ جس میں یقیناً سب سے بڑی غیر جمہوری روایات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے اگست 2022ء ریکارڈ کے مطابق 4112761ووٹروں کے 38نمائندے تین یا چار سیاسی لیڈر سلیکٹ کرتے ہیں۔ اب ان نام نہاد نمائندوں نے نمائندگی خاک کرنی ہوتی ہے وہ اپنے نامزد کرنے والے آقاوں کے مفادات کے ایوانوں میں رکھوالے ہوتے ہیں۔ناکہ اپنے ان ہم عقیدہ لوگوں کے جن کے نمائندہ ہونے کے وہ دعوے دار ہوتے ہیں۔ اور وہ یقینا اس میں حق بجانب ہوتے ہیں نام چاہے غیر مسلم پاکستانی شہریوں کا ہوتا ہے لیکن وہ عہدے تو کسی اور ہی کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ موجودہ نظام کی اس خامی کے ذمہ دار وہ سیاسی اشرافیہ کے ساتھ وہ غیر مسلم و مسلم روشن خیال پاکستانی شہری بھی ہیں جنہوں نے مشرف کو کہہ کہلوا کر جداگانہ کی سب سے بڑی خامی سیاسی شودر ہونے سے تو جان چھڑوا دی لیکن انہوں نے عرق ریزی سے تیارہ کردہ کوئی متبادل نظام پیش نہ کیا جس کی وجہ سے بہت سے سیاسی نابالغ مسیحی اقلیتوں کے ان محسنوں کو آج برے ناموں سے بھی یاد کرتے ہیں۔
اس نظام کے تحت2002ء ،2008، 2013ء ، اور2018ء اور2024 کے انتخابات ہو چکے ہیں۔ ہر بار38غیر مسلم خواتین و حضرات مختلف مذہبی اقلیتوں کی شناخت پر سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں جا بیٹھتے ہیں۔
پاکستانی قوم کے ساتھ اسی طرح کا ایک اور مذاق خواتین کی مخصوص نشستوں اور سینیٹ کے انتخابات میں ہوتا ہے۔ جس میں خواتین اور سینیٹ کے براہ راست انتخابات نہ ہوتے کی وجہ سے سینیٹ کے انتخابات کے وقت ایسی ایسی غیر جمہوری حرکات سامنے آتی ہیں جو سینیٹ کو قائم کرنے کے مقصد کی ہی نفی کرتی ہیں۔ اس طرح خواتین کی مخصوص نشستوں کا اضافہ تو خواتین کو سیاسی جمہوری نظام میں فعال کرنے اور انہیں سماجی و معاشرتی زندگی میں خود مختار کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔ لیکن عملی طور پر یہ مذہبی اقلیتوں کے38 بشمول 4سینیٹر اور سینیٹ کے 96بشمول 4 اقلیتی سینیٹر اور خواتین کی 192 قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ان 226 خواتین و حضرات کو براہ راست منتخب کرنے کا اگر کوئی آئینی ترامیم سے جمہوری میکنزم وضع کیا جائے۔ جو کہ یقینا خواتین کے لئے سیاسی جماعتوں کو آئینی ترمیم کے ذریعے مخصوص تعداد میں لازمی ٹکٹ دینا اور اقلیتوں کے لئے آئینی ترمیم کے ذریعے دوہرے ووٹ کے ذریعے اور سینیٹ کے لئے براہ راست انتخابات ہی ہو سکتا ہے تب ہی سینیٹ کے وجود اور خواتین اقلیتوں کی شناخت پر نمائندگی کے مثبت اثرات اس ملک ، قوم اور سماج پر ہو سکتے ہیں۔ ورنہ تو خواتین کی ان مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے وقت سیاسی اشرافیہ پہلے تو اپنے گھروں کی خواتین کو ایوانوں میں پہنچاتی ہے جبکہ بچ جانے والی نشستوں کے لئے ان نشستوں کا فیصلہ کرنے والے اور ان کے حواری خواتین کا ہر طرح کا استحصال کرتے ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات کے موجودہ نظام میں موجود راستوں نے سینیٹ کے قیام کے اعتراض و مقاصد کو ہی ختم کر دیا ہے جس سے یہ اب ارب پتی کلب بن گیا ہے جہاں چند حنوط شدہ لاشوں کو امراء و سیاسی اشرافیہ بطور ڈیکوریشن سجا لیتی ہے۔خواتین اور سینیٹ کے انتخابات کا جائزہ ہم تفصیل سے اس کتاب کے اگلے ابواب میں لیں گے۔
ہم واپس اپنے اصل موضع یعنی غیرمسلم پاکستانیوں کے اس77 سالہ سیاسی المیے کی طرف آتے ہیں اسے اگر ہم چند لفظوں میں بیان کریں۔تو وہ یوں ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کبھی سیاسی اشرافیہ نے متناسب نمائندگی کے ذریعے نامزدگی سے اپنی مرضی کے نمائندے ایوانوں میں اپنے ساتھ بٹھا لئے تو کبھی مخلوط انتخابی نظام کی بدولت انہیں ایوانوں سے دور رہنا پڑا پھر جداگانہ انتخابی نظام کی بدولت ان دھرتی واسیوں کو ان کی قومی شناخت سے ہاتھ دھونے پڑے اور اب مخلوط کی بدولت انہیں اپنی قومی شناخت تو مل گئی لیکن متناسب نمائندگی کے نام پر ان خاک نشینوں کے نام پر چند جمہوری غلاموں کو ایوانوں میں بٹھا لیا جاتا ہے۔
اس لئے غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے ایسا سیاسی نظام درکار ہے ،جس میں وہ اپنی پاکستانی قومی شناخت کے لیے اپنے حلقے کا نمائندہ منتخب کریں۔اپنے مذہبی حقوق کے مفادات کے لیے اپنے مذہبی نمائندے بھی اپنے ووٹ سے ہی منتخب کریں کیونکہ نہ تو ہماری سیاسی نشوونما کے لئے ایسا مخلوط طریقہ انتخاب بہتر ہے جس میں ہماری نمائندگی ہی نہ ہو اور متناسب نمائندگی والی جمہوریت کے ذریعے نامزدگی کے نام پر آمرانہ طور طریقوں سے سیاسی جماعتوں کے منظورِ نظرکارکنوں کو ہمارا رہنما چن لیا جائے اور نہ ہی جداگانہ طریقہ انتخاب ہمیں مکمل پاکستانی اور آزاد شہری ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ بلکہ معاشرے اور سماج میں سیاسی شودراچھوت بنا کر رکھ دیتا ہے۔
لہٰذا پاکستان میں غیر مسلم پاکستانیوں کو مکمل پاکستانی شناخت اور اپنی اپنی مذہبی شناخت کی نمائندگی بھی ایوانوں میں دینے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انہیں دوہرے ووٹ کا حق دیاجائے جس میں ان کی قومی شناخت بھی قائم رہے اور ان کی مذہبی شناخت کے نام پر جو لوگ ایوانوں میں پہنچے انہیں بھی منتخب کرنے کا اختیار ان کے پاس ہو۔
اسی میں پاکستانی اقلیتوں کی سیاسی بقاء اور اسی میں پاکستان کے جمہوری نظام کی بقاء بھی ہے۔گوکہ یہ بھی کوئی بڑی آئیڈیل صورت حال نہیں ہو گی، کیونکہ اس آئینی ترمیم کے باوجودِ آئین پاکستان کی کئی شقیں پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کے بنیادی شہری وانسانی حقوق سے متصادم ہیں۔لیکن پاکستان کے یہ امن پسند شہری اپنے ریاستی اداروں کی مجبوریوں، کمزوریوں کی بدولت ان سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔اس لیے یہ بے ضرر سی آئینی ترمیم غیر مسلم شہریوں کے لئے بڑا ریلیف ہوسکتی ہے یہ بات قابل غور ہے کہ مختلف ادوار میں ریاستی اداروں اور حکومتوں نے مختلف طریقوں سے غیر مسلم پاکستانیوں کو انتخابی نظام سے مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے جس کی ایک مثال موجودہ نظام میں قومی شناخت کے ساتھ مذہبی شناخت پر مخصوص نشستوں کے ذریعے نمائندے دینے کی کوشش ہے۔ لیکن جامع منصوبہ بندی اور فکری بحث نہ ہونے کی وجہ سے غیر مسلم پاکستانی ان طریقوں سے مطمئن نہیں ہوئے بس اس نظام کو زمینی حقائق اور ملک کی انتظامی آکائیوں میں غیر مسلموں کی آبادی کے تناسب سے حلقہ بندیوں کے ساتھ ان مخصوص نشستوں کے لئے ہر مذہبی گروہ کے نمائندوں کو چننے کا حق اس مذہبی گروہ کو دے دیا جائے جن کی مذہبی شناخت کی نمائندگی وہ مختلف ایوانوں میں کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ان کی قومی، صوبائی ، ضلعی ، تحصیل اور یو سی سطح کی قومی نمائندگی کو بھی برقرار رکھا جائے اس تھوڑی سی کوشش سے غیر مسلم پاکستانی شہریوں کو سیاسی طور پر مطمئن کرکے ان کے دیگر فکری، شعوری، تعلیمی، معاشی، سماجی، معاشرتی، علمی مذہبی، تہذیبی اور سیاسی مسائل کا بھی سدباب کیا جاسکتا ہے ۔
کیونکہ اب تک غیر مسلم پاکستانی شہریوں پر تھوپے گئے طرزِ انتخابات سے ایک میں قومی شناخت کھو جاتی ہے اور دوسرے میں مذہبی شناخت اور حقوق کے نام پرمنتخب ہونے والے نمائندے تحفظ کسی اور کے مفادات کا کرتے ہیں اس جمہوری نظام کی بقا ،غیر مسلم پاکستانیوں کو مطمئن کرنے سے مشروط ہے۔ کیونکہ آج کے ترقی اور تہذیب یافتہ دور میں کسی بھی ملک کی سیاسی ،سماجی و مادی ترقی کا ایک معیاریہ بھی ہے کہ وہاں کے رنگ نسل مذہب مسلک کی بنیاد پر اقلیت قرار دیئے گئے شہری اپنے سیاسی و سماجی معاملات سے کتنے مطمئن ہیں اور وہاں کی اقلیتیں اپنے سماجی ، مذہبی اور سیاسی حقوق سے کتنی مطمئن ہیں۔ پاکستانی معاشرے اور سیاسی نظام میں غیر مسلم پاکستانیوں کی کیا اہمیت ہے یہ اس کے ایک پہلو کا جائزہ ہم ان دستیاب اعدادو شمار سے کرتے ہیں۔
اوپر بیان کئے گئے تاریخی شواہد ثابت کرتے ہیں کہ اس ساری صورت حال کے سیاسی اشرافیہ کے ساتھ ہم خود بھی ذمہ دار ہیں کیونکہ مخلوط طریقہ انتخاب میں ہم میرٹ پر کچھ حاصل نہ کر سکے تو ہم نے جداگانہ طریقہ انتخاب کا نا نعرہ لگایا ، جدا گانہ طریقہ انتخاب میں ہم اچھوت بن گئے تو زیادہ تر اس اچھوت حیثیت میں بھی مفاد تلاش کرتے رہے لیکن چند سر پھروں نے پھر مخلوط کا نعرہ لگایا جب مخلوط ملاتو اس کے ساتھ بونس میں ملی مذہبی شناخت والی سیٹوں کو بنیاد بنا کر بجائے اس کے ماضی کے تجربات سے سیکھ کر عقل، دلیل والی ، اجتماعی مفاد والی بات کرتے۔ لیکن اب پھر ہم میں سے کچھ اچھوت بننے کے لئے جداگانہ مانگ رہے ہیں تاکہ اس اچھوت نظام میں سے بھی کچھ کے لئے زلت آمیز رفتیں نکل آئیں، یعنی ہم نے77 سالوں میں کچھ سیکھا نہیں اور مسیحی جو برصغیر میں تعلیم کے بانیوں اورسیاسی ، سماجی شعور و آگاہی دینے والوں کے جانشین ہیں پورے ملک میں پھیلے تعلیمی اداروں کے مالک ہیں لیکن وہ اپنے لوگوں یعنی مسیحیوں کی فکری وشعوری تربیت نہ کر سکے اور ہندو جوسوبھوگیان چندانی جیسے سیاسی گروں کے جانشین ہیں۔ وہ بھی کوئی فکری چھوڑ کسی بھی قسم کی جدوجہد نہ کر سکے اور دیگر مذہبی اقلیتیں تعداد انتہائی کم ہونے کی وجہ سے اس طرح کی کسی جدوجہد کا حصہ ہی نہ بن سکی’’۔
اس طرح قیام پاکستان سے لے کر اب تک بڑے جمہوریت پسند انصاف پسند ، مساوات پسند اورآمر بھی آئے لیکن 16بارپاکستانی قومی اسمبلی اور لگ بھگ اتنی ہی بار صوبائی اسمبلیاں اور 1973ء کے آئین کے بعد سینیٹ بھی کئی بار بنتی دیکھی، اس ساری انتخابی تاریخ میں سوائے ان چند جو کہ(تقریباً تین سو بنتے ہیں) سینیٹر ممبران و قومی و صوبائی اسمبلی ہندو مسیحی، سکھ ، پارسی احمدی ملا کر تقریباً تین سو لوگوں کے بھی کوئی غیر مسلم پاکستانی مطمئن نہ تھا نہ ہے اور اگرکچھ کے لئے غیر سنجیدہ کھیل کچھ کے لئے المیہ اور کچھ کے لئے سنہری موقع فراہم کرتا طریقہ انتخاب ایسے ہی جاری رہا تو نہ تقریباً ایک کروڑ غیرمسلم پاکستانی اس سے کبھی بھی خوش اور مطمئن نہ ہوں گے۔
حد تو یہ ہے کہ غیر مسلم پاکستانیوں کے ساتھ یہ اتنا گھناؤنا مذاق ہے۔ ان300 میں سے آج کل والے 38 بھی کبھی کبھار کھلے عام اور زیادہ تر بند کمروں میں ا پنے ہم مذہبوں کی محفلوں میں ان انتخابی نظاموں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کے اس نظام سے مفادات بھی وابستہ ہو جاتے ہیں باقی سارے غیر مسلم پاکستانی ان انتخابی نظاموں سے کبھی بھی مطمئن نہیں ہوئے بلکہ بند کمروں میں اس نظام سے مستفید ہونے والے بھی ان نظاموں کی عیب جویاں کرتے نظر آتے ہیں یقینا یہ 77سالہ غیر مسلم پاکستانی شہریوں کا یہ سیاسی،انتخابی المیہ ہماری ارسطو، سقراط کی سطح کی سیاسی بصریت کی حامل سیاسی و دانش ور اشرافیہ کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ جب کہ یہ المیہ غیر مسلم پاکستانی شہریوں کی بے چینی کا باعث ہے۔
سیاسی اشرافیہ جو غیر مسلم پاکستانیوں کے تہواروں پر انہیں اپنے بہن بھائی قرار دیتی ہے۔ لیکن ان کی اپنے ان بہن بھائیوں کی قومی، سیاسی و مذہبی شناخت و ضرورتوں کے لئے غیر سنجیدگی و لاپرواہی کی ایک مثال موجودہ 2018ء تا 2023ء کی پنجاب اسمبلی سے دی جا سکتی ہے۔ موجودہ انتخابی نظام کی بدولت 2017ء کی افراد شماری کے مطابق پنجاب کے پسماندہ ترین اضلاع میں آباد تقریباً پونے دو لاکھ ہندو آبادی کے لئے ایک مسیحی ایم پی اے کی موت سے پہلے تک کوئی ایم پی اے موجود نہیں تھا۔
‘‘نامزدگیوں کے اس نظام میں یہ بھی بہت بڑی خامی ہے کہ اب ضروری نہیں کہ غیر مسلم پاکستانیوں کی ہر مذہبی اعتبارسے اقلیت کو ہر ایوان میں جگہ ملے بلکہ یہ چھ سات پارٹی رہنماؤں اور ان کے مشیروں کی صوابدید پر ہے وہ چاہیں تو کسی ایک مذہبی اقلیت کے سارے سینیٹر، ایم این اے یا ایم پی اے نامزد کر دیں جس نسبت سے ان کے پاس متعلقہ ایوان میں غیر مسلم نمائندے نامزد کرنے کا اختیار ہو۔ اس طرح کئی کمیونٹیز اپنی کسی خاص خوبی کی بنا پر مثلاً پارٹی فنڈ دینے کی سکت یا کوئی تذویراتی حیثیت یا اس طرح کی دیگر کسی خوبی کی بنیاد پر زیادہ نوازی جاتی ہیں اور کہیں کسی کے ساتھ بہت زیادہ تعداد میں ہونے کے باوجود کسی تعصب کی بنیاد پر زیادہ بے عتنائی برتی جاتی ہے جیسے تین سال تک پنجاب اسمبلی میں کوئی ہندو نہیں تھا، بلوچستان میں کوئی سکھ نہیں، سندھ میں صرف ایک مسیحی ہے۔ اسی طرح قومی اسمبلی میں کوئی پارسی، سکھ،بہائی ودیگر میں سے کئی اقلیتوں کی نمائندگی نہیں ہے’’۔
اسی طرح کی ایک اور مثال جو جمہوریت کے نام پر ایک سنگین مذاق ہے 2002ء کے سندھ اسمبلی کے ایک صوبائی حلقے میں ایک ہندو امیدوار نے جنرل الیکشن میں حصہ لیا اس نے اس حلقے سے صرف 34ووٹ لئے اور وہ امیدواروں میں ساتویں نمبر پر آیا لیکن وہ ا پنی پارٹی کی نسبت تناسب فارمولے سے نامزدگی کی بدولت کسی اسمبلی سے جیتنے والے ہندو امیدوار کے ساتھ بطور ممبر صوبائی اسمبلی 5سال ایم پی اے رہا اوراپنے خلاف 32ہزار 4سوچوبیس ووٹ لے کر جیتنے والے جیسی ہی مراعات اور حیثیت بھی انجوائے کرتا رہا۔
اس اہم انتخابی مسئلے سے سیاسی و ریاستی اشرافیہ کی عدم دلچسپی اور اسی طرح کے دیگر امتیازی قوانین کی ضمنی پیداوار امتیازی، سماجی و معاشرتی رویوں کی بدولت جنم لینے والے سانحات کے انسداد پیداواری(کاونٹر پروڈکٹیو) نتائج ہوتے ہیں جس کے بھیانک نتائج پاکستانی ریاست، حکومت اور قوم کو بھی بھگتنے پڑتے ہیں۔ لہٰذاایک اچھا انتخابی نظام غیر مسلم پاکستانیوں اورپاکستانی قوم کو ایسے نقصانات سے بچاسکتا ہے اور یہ اب تک کیوں نہیں ہو سکا؟ یہ ہمارے سیاسی دانشوروں اور سیاسی حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
جہاں یہ سارے حقائق و شواہد سیاسی و دانشور اشرافیہ کے لئے لمحہ فکریہ ہے وہیں اس پورے 5بار3 مختلف انتخابی نظام ایک جداگانہ ، دوسرا مخلوط ،تیسرا حالیہ دوہری نمائندگی والا مخلوط بمعہ متناسب نمائندگی والا انتخابی نظام جو پاکستان کی چند افراد پر مبنی سیاسی اشرفیہ کو پاکستان کی تقریباً آج 29جولائی 2024ء میں تقریباً ایک کروڑ مذہبی اقلیتوں کی مذہبی شناخت پر ایوانوں میں نمائندگان چننے کا حق دیتا ہے۔ ان تینوں کے بغور مطالعے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک کوئی مسیحی جنرل الیکشن میں کامیاب نہیں ہوا جبکہ برصغیر کے مسیحیوں کو عقیدہ پرتگالی،ولندیزی برطانوی ودیگر فاتحین کے ساتھ آنے والے مسیحی مشنریوں کے ذریعے ملا پاکستان میں شامل ہونے والے علاقوں نے صرف برطانوی دور حکومت ہی دیکھا۔ لیکن دیگر مشنریوں کی مذہبی و تعلیمی کوششوں کے اثرات پھر بھی کسی نہ کسی طرح مقامی مسیحیوں پر ضرور ہیں۔ برصغیر کا موجودہ تعلیمی نظام بھی انہی ادوار میں سے ارتقا پذیر ہوا۔اسی تعلیمی نظام کی ذیلی پیداوار موجودہ سیاسی نظام ہے۔ جس کی بدولت دلا بھٹی سے بھگت سنگھ تک کا ارتقاء ہوا اور برصغیر کی سیاست میں موہین داس گاندھی اور قائداعظم کردار پیدا کئے۔
کانگریس کا پہلا صدرِ بھی مسیحی ہی تھا۔مقامی لوگوں میں سب سے پہلے آزادی کی شمع جلانے والا ایک پرتگالی استاد و شاعر تھا۔لیکن یہ ایک المیہ ہے؟کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک کوئی مسیحی جنرل الیکشن میں کامیاب نہیں ہوا۔ جب کہ ایک بدھسٹ ایم این اے ،کئی ہندو ایم پی ایز اور حالیہ الیکشن میں ایک ہندؤ پاکستانی پہلا جنرل الیکشن جیتنے والا ہندو ایم این اے بھی بن چکا ہے۔ لیکن مسیحی جن کی ہزاروں این جی اوز سینکڑوں سیاسی جماعتیں اور چند ایک کو چھوڑ کرتقریبا ًہر مذہبی راہنما سیاست کا شوقین ہے۔ لیکن پھر بھی یہ قحط الرجالی کیوں ہے۔؟
یہ ایک تلخ سوال ہے۔ کیونکہ ہماری این جی اوز کھربوں روپے سیاسی و سماجی ورکروں کی تربیت پر لگا چکی ہیں۔لیکن نتیجہ اب تک صفر ہے۔ کوئی سیاسی ورکر اپنے سیاسی قائدین کو آج تک یہ باور نہیں کراسکا کہ میں بھی کسی مسلم سیاسی ورکر سے بہتر لوگوں کو پارٹی منشور پر متحرک کرسکتاہوں۔ یاد رہے کہ جن حلقوں سے ہندو جنرل الیکشن جیتتے ہیں۔ وہاں بھی ایک آدھ حلقے کو چھوڑ کر اکثریتی ووٹرز مسلمان ہی ہیں۔ٹکٹ دینے کی وجوہات اور ہیں۔جن پر پاکستانی مسیحیوں کو غور کرکے پھر اپنے معروضی حالات کا جائزہ حقائق و شواہد کی بنیاد پر کرنا چایئے۔کہ اب تک مسیحیوں کو کبھی ان کے قائدین نے اس قابل کیوں نہیں جانا کہ ان کو ایسے حلقوں سے ٹکٹ دی جائے جہاں سے جیتنے کے امکانات 30فیصد بھی ہوں۔کچھ غیر مقبول سیاسی جماعتوں نے ایک آدھ بار اور قومی سیاسی جماعتوں نے بھی ان حلقوں سے جہاں سے جیتنے کے امکانات زمینی حقائق کی بجائے معجزے کی صورت میں ہی ہو سکتے تھے،وہاں سے ضرور ٹکٹ دیئے ہیں۔ اس کی ایک مثال 2013 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کا اپنے ایک مسیحی ورکر عامر شرجیل کواین اے 246 کراچی سینیٹرل سے ایم کیو ایم کے گڑھ سے ٹکٹ دینا تھا۔اس بے لوث ورکر نے پی ٹی آئی کے ووٹ بینک اور اپنی جرأت و لگن سے حیران کن ووٹ جو کہ 31875 تھے لے کر کراچی کی سیاست میں ہلچل مچا دی تھی۔ مرحوم عامر شرجیل جلد ہی کینسر کی موذی مرض کی وجہ سے چل بسے لیکن مجال ہے۔ جو کبھی پی ٹی آئی کی کسی سیاسی تقریب میں اس کا ذکر ہوا ہو۔ مسیحیوں کے معاملے میں ایسی کوئی مثال پہلے نہیں ہے اور یقین جانیئے اگر پی ٹی آئی کی قیادت کو یقین ہوتا کہ یہ سیٹ جیتی جاسکتی ہے۔تو شائد عامر شرجیل یہ ٹکٹ نہ حاصل کرپاتا۔سیاسی پارٹیوں کی اس بے اعتنائی اور مجموعی طورپر آئین نو سے ڈرنا اور باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا روپیہ ڈاکٹرائن کی پیرو کاری کی روش کے ردِعمل میں بجائے اپنی ذاتی و اجتماعی خود احتسابی کرنے کے اور اپنی استعداد کار بڑھانے کے انفرادی واجتماعی کمزرویوں کوتاہیوں کا حل سیاسی رجحانات رکھنے والے مسیحی سیاسی ورکروں نے یہ نکالا ہے کہ وہ چند ہزار روپے خرچ کرکے آزاد امیدوار بن جاتے ہیں۔جس کا کمیونٹی کو بظاہرتو کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے اگر کوئی مخفی فائدہ ہوتا ہوتو کچھ کہہ نہیں سکتے۔
لیکن ایسے امیدوارچند سویا ایک آدھ ہزار ووٹ لے کر اپنے نام کے ساتھ ساری عمر کے لئے یہ اعزاز لکھ لیتے ہیں۔ سابقہ امیدوار حلقہ این اے فلاں فلاں اور پھر اپنی قابلیت کی خود احتسابی کی بجائے اپنے چسکے کے لئے تقریباً ایک کروڑ لوگوں کو معاشرے سے کاٹ دینے والے جداگانہ انتخابی نظام کا نعرہ لگانے لگتے ہیں۔جو پہلے ہی آئینی طور پر دو نمبر شہری کو ناپاک سیاسی شودر بنا کر معاشرے میں 99کے نمبر شہری بنا دیتا ہے۔ اور پاکستان کے غیر مسلم یہ انتخابی نظام 5بار بھگت چکے ہیں۔ خیر یہ جمہوریت کا حسن ہے۔ جو اپنے خرچے پر ہوتو کسی کو کوئی اعتراض نہیں کرنا چاہیے لیکن اگر سماجی فلاح، این جی اوزیا گرجے کی بنیاد پر منگوائے گئے چندے پر ہو تو یقیناً یہ قابل اعتراض ہے۔خیر یہ ایک ضمنی بات تھی۔لیکن یہ سوال بہت سنجیدہ ہے۔کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کسی بھی قومی سطح سیاسی جماعت نے کسی جیتنے کے امکانات والے حلقے سے کسی مسیحی کو ٹکٹ کیوں نہیں دیا۔
حالانکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین کے لئے خود سوزی کرنے والے 7 لوگوں میں سے ایک یعقوب پرویز کھوکھر بھی مسیحی تھا اسی طرح پی این اے کی تحریک میں جان دینے والوں میں سے بھی ایک مسیحی تھا۔سیاسی سماجی و سیاسی رحجانات رکھنے والے مذہبی راہنماؤں او رورکروں کے لئے یہ ایک سوال ہے۔ عرق ریزی سے اس پر کہج بحثی نہیں بلکہ سیاسی سائنس سے مزئین بحث کریں انشاللہ نتیجہ نکلے گا۔ہاں اُمید ہے اس تحریر اور اس کے نتیجے میں شروع ہونے والی سنجیدہ بحث کی بدولت مستقبل میں ٹکٹ حاصل کرنے والے ضرور اس کوشش کو یاد رکھیں گے۔ یاد رکھنے کے ساتھ آج اگر اس آگاہی بے ضرر مہم میں حصہ بھی لے لیں تو یہ ان کے لئے اور مذہبی اقلیتوں کے لئے بھی بہت اچھا ہو۔
ہاں حقائق شواہد، معروضی حالات اور اپنی کمزوریوں اور توانائیوں کا بغور تجزیہ طکمخ بہت ضروری ہے ہم تاریخی طور پر پسے ہوئے ہزاروں سال کی محرومیوں کے مارے ہوئے اور ہماری سیاسی اشرفیہ ہوس و زر کی ماری ہوئی ہے۔ لہٰذا چندے سے چندا دے کر انہیں رام نہیں کیا جاسکتا۔ مقامی منڈی سے وافر کما کر ہی ٹکٹ حاصل کئے جاسکتے ہیں۔کیس اسٹدی کے طور پر رمیش کی کامیابی اور اسحاق کی ناکامی ماڈل اسٹڈی کریں۔ لازمی نہیں صرف پیسے کے زور پر ہی ٹکٹ حاصل کئے جا سکتے ہیں اس کے قومی جماعتوں میں شامل مسیحیوں کو مینارٹی ونگز کی سیاست سے ہٹ کر اپنی پارٹیوں کے منشور کے مطابق قومی سطح کی سیاست میں بھی متحرک ہونا پڑے گا اور اپنے سیاسی جدوجہد کے ساتھ فکری و سیاسی شعور کو بھی اس سطح پر لانے پڑے گا جس کی بنا پر غریب سیاسی ورکروں کو پارٹی ٹکٹ ملتے ہیں۔ بلکہ اس سے پہلے ہمیں مشہور مفکر ایرک لو کا فلسفہ طاقت پڑھنا بہت ضروری ہے۔جو بتاتا ہے ۔طاقت کے مراکز سے کن عناصر کے ذریعے اپنا حصہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔اس کے بعد ہی ہم اپنے تجزیے طکمخ سے یہ طے کر سکتے ہیں کہ ہمیں کن عناصر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور سیاست ہماری ترجیحات میں کس نمبر پر ہونی چاہیئے۔ کیونکہ یہ ہمارا موضوع نہیں دلچسپی رکھنے والے حضرات بی ٹی ایل ٹی وی کے پروگرام ‘‘سفر شناخت اعظم معراج کے ساتھ’’ پروگرام نمبر 8اور 9 اس موضوع پر تفصیلی بحث سن سکتے ہیں اور تحریک شناخت کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے لکھی گئی کتب میں بھی اس فلسفے پر بحث کی گئی ہے۔
مسیحیوں کی اس سیاسی پسماندگی اور حکمران سیاسی اشرافیہ کی بے عتنائی کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ مثلاً مسیحی تو تاریخی ، سیاسی و معاشی طور پر پسماندہ ہیں جس کی بہت ساری تاریخی وجوہات بھی ہیں لیکن یہ سیاسی اشرافیہ کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ جو آج تک ا پنے سیاسی پیروکاروں کی تربیت نہیں کر سکی کہ وہ اپنے امیدوار کو سیاسی منشور پر ووٹ دیں نہ کہ برادری مذہب رنگ اور نسل کی بنیاد پر اور نہ ہی پیپلز پارٹی نے ہندؤں کے کیس میں 6,7بار اور مسلم لیگ نے 1970کے الیکشن میں رانا چندر سنگھ کے کیس کے علاوہ کبھی بھی اس بات کو اپنے سیاسی منشور کا حصہ نہیں بنایا ہے ۔ان چھ سات کیسز کو بھی بطور کیس اسٹڈی مسیحیوں کو بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔
‘‘ شیڈول کاسٹ ہندو برادری کے سیاسی سماجی ورکروں کے لئے بھی یہ ایک سوال ہے۔ ان کے ہاں بھی میری معلومات کے مطابق صورت حال ایسی ہی ہے۔ کیونکہ ان کی بہت بڑی آبادی سندھ میں ہے۔جنرل الیکشن جیتنے والے تمام ممبران بھی سندھ سے ہیں۔لیکن ان میں شیڈول کاسٹ کوئی بھی نہیں۔سیاسی اشرفیہ کی ناکامی اپنی جگہ لیکن اپنی خود احتسابی بھی بہت ضروری ہے۔کیونکہ صورت حال منیر نیازی کے ان شہرہ آفاق شعروں جیسی ہے۔
کْج انج وی راہواں اوکھیاں سَن
کج گَل وچ غم دا طوق وی سی
کج شہر دے لوک وی ظالم سَن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
کچھ لوگوں کو تودوہرے ووٹ کایہ مطالبہ اوریہ فارمولا شائد غیر جمہوری مطالبہ لگے ۔ لیکن تحریک شناخت نے یہ مطالبہ اور لائحہ عمل ماضی و حال میں5 بار تھوپے گئے تینوں نظاموں کے بغور مطالبے اور پاکستانی معاشرے کے سماجی و سیاسی حالات کو جان کر کیا ہے۔
ان تینوں انتخابی نظاموں کی خوبیوں، خامیوں کا اعداد و شمار کے ساتھ بغور مطالعہ کرنے اورمعروضی حالات کے مطابق فی الحال معاشرے کے رویے اور غیر مسلم پاکستانیوں کے سیاسی نمائندوں کی استعداد اور صلاحیت کو دیکھتے ہوئے دوہرے ووٹ سے بہتر کچھ سمجھ نہیں آتا۔اس نظام کے خدوخال اعداد و شمار معروضی حالات اور 77 سالہ اس سیاسی المیے کے ہر پہلو پر نظر رکھتے ہوئے واضح کئے گئے ہیں اور اس کی بنیاد اس خیال پر ہے کہ عمرانی معاہدے میں یہ آئینی ترمیم پاکستان کے غیر مسلم شہریوں اور ریاست کے رشتے کو مضبوط کریں اس سے آئین پاکستان کی ان شقوں کے مضر اثرات بھی کم کئے جا سکتے ہیں جن کے انسداد پیداواری (کاؤنٹر پروڈکٹیو) اثرات پاکستانی معاشرے اور سماج میں کئی سماجی برائیوں کو جنم دیتے ہیں۔ ان برائیوں کے اثرات بین الاقوامی سطح پر ملک و قوم کی بدنامی کی وجہ بھی بنتے ہیں۔
77 سال میں 16 انتخابات میں 5 بار 3 نظام آزمائے گے۔جس کی خوبیوں خامیوں کی تفصیلات تحریک شناخت کے دنیا بھر میں پھیلے بے لوث رضا کار کتابوں ،کتابچوں، قومی و کمیونٹی کے اخبارات رسائل پمفلٹس، پوسٹرز،وڈیو کلپس، ٹی وی انٹرویوزو دیگر ذرائع سے تقریباً دہائی سے بیان کر رہے ہیں۔ان 77 سال کے تجربات اور پاکستان کے معاشرتی ، سیاسی و جمہوری معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ ہی نتیجہ نکلتا ہے۔ کہ اگر غیر مسلم پاکستانیوں کو ایوانوں میں ان کی مذہبی شناخت پر نمائندگی بھی دینی ہے اور انہیں قومی دھارے میں بھی شامل رکھنا ہے۔ جو کہ ان کا بنیادی انسانی شہری اور سیاسی حق ہے تو انہیں آئین میں ترامیم کرکے دوہرے ووٹ کا حق دیا جائے۔
‘‘کیونکہ ماضی کے مخلوط اور جداگانہ طریقہ انتخاب سے مخلوط طریقہ انتخاب سے مذہبی شناخت پر نمائندگی ملنے کے امکانات نہایت کم اور جداگانہ سے وہ قومی دھارے سے کٹ کر سماجی طور پر اچھوت اور سیاسی شودر بن گئے تھے۔ جبکہ حالیہ مخلوط کے ساتھ متناسب نمائندگی سے دوہری نمائندگی کے باوجود وہ ان نمائندوں کو اپنا نہیں چند سیاسی پارٹی راہنماؤں کا نمائندہ سمجھ کر ان سے غیر مطمئن اور بے چین ہیں’’
اقلیتوں پر آزمائے 3انتخابی نظاموں کی خامیاں اور خوبیاں
پس منظر
قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان کی مذہبی اقلیتوں پر 16انتخابات میں 5 بار 3 اقلیتی انتخابی نظام آزمائے گئے ہیں۔
نمبر 1.
دو بار جداگانہ انتخابی
نمبر 2۔
تین بار مخلوط طریقہ انتخاب
نمبر 3
ایک بار موجودہ مخلوط کے ساتھ نسبت تناسب سے سلیکشن والا انتخابی نظام
نمبر 4.پانچ بار جداگانہ طریقہ انتخاب
نمبر 5.پانچ بار موجودہ مخلوط بمع مذہبی شناخت والی بزریعہ سلیکشن والی نمائندگی والا اقلیتی انتخابی نظام
سب سے پہلے مخلوط طریقہ
انتخاب کی خوبیوں خامیوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
1.مخلوط طریقہ انتخاب
خوبیاں
جمہوریت میں سب بہترین طریقہ انتخاب یہ ہی ہے۔ جس میں بلا رنگ ،نسل، زبان ،مذیب، جغرافیہ و دیگر شناختوں کی تفریق سے بالا تر ہو کر ہر انسان کو الیکشن لڑنے، ووٹ ڈالنے حق حاصل ہو۔ یہ ہی اس نظام کی سب سے بڑی خوبی ہے۔۔
خامیاں۔
اس نظام میں تو کوئی خامی نہیں ہے۔۔ لیکن 1833کے بعد مسلسل ارتقاء کے نتیجے میں برصغیر کے باشندوں کے سماجی ،سیاسی و مذہبی رویوں نے یہ ثابت کیا کہ ہم عقیدے کو ہر کام میں اولیت دیتے ہیں۔۔جس کی پرچھائیں ہمارے سیاسی اور سماجی فیصلوں پر بھی پڑتی ہیں۔ جسکا ثبوت 1919 سے آج تک پاکستان کے جغرافیے والے علاقے کے مسلمان باشندوں کے انتخابات میں اپنائے گئے رویے ہیں۔جسکا ایک ثبوت یہ ہے ،کہ قیام پاکستان سے لے کر 1970 تک تین بار خالص مخلوط طریقہ انتخاب کے زریعے انتخابات ہوئے جس میں صرفِ ایک بار ہی قومی اسمبلی کا انتخاب راجہ تری دیو 1970کے انتخابات میں الیکشن جیت سکے۔جب کہ سندھ کی صوبائی اسمبلی کی بھی ایک ہی نشست کوئی غیر مسلم جیت سکا یہ رانا چندر سنگھ تھے۔ اور یہ شائد مشرقی اور مغربی پاکستان کے دونوں واحد ایسے حلقے تھے جہاں غیر مسلم ووٹوں کی تعداد بہت واضح اکثریت میں تھی۔ اسی کے نتیجے میں اور مسیحیوں کی شہادتوں کے صدقے ریاست پاکستان و اس وقت کے حکمرانوں نے یہ طے کرلیا تھا کہ پاکستان کے تاریخی مذہبی پس منظر معروضی سیاسی و سماجی حالات کی روشنی میں پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کو جس طرح ترقی یافتہ ممالک میں خالص مخلوط طریقہ انتخاب سے قومی دھارے میں شامل کیا جاتا ہے بہت مشکل ہے۔ جس میں کئی صدیاں لگ سکتی ہیں۔جسکی وجہ سے آئین پاکستان میں 1975میں چوتھی ترمیم کرکے کے موجودہ نظام متعارف کروایا گیا جس کے تحت صرفِ ایک ہی بار 1977میں الیکشن ہؤا۔ 2001 سے پھر یہ نظام مذہبی شناخت پر سلیکشن والی نشستوں کے ساتھ 12 سال اور پانچ خالص جداگانہ طریقہ انتخابات کے بعد بحال ہوا اور اس کے تحت ایک بار 1977میں آور پانچ بار 2002 سے دو ہزار 2024 تک الیکشن ہو چکے ہیں جس میں صرفِ دو بار قومی نشستوں پر ایک ہی ایم این اے مہیش میلانی نے تھر سے الیکشن جیتا ہے۔ اسکے علاؤہ سندھ سے ہی چند ایم پی اے بھی عام انتخابات میں حصہ لے کر جیت چکے ہیں۔ ان چند مثالوں سے پورے پاکستان کے سیاسی ،سماجی ومذہبی رویوں کا نمائندہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ کیونکہ اگر سندھ کے معروضی سماجی و مذہبی رویوں جیتنے والے ان ہندوؤں کی مالی استعداد و ان حلقوں میں اثر انداز ہونے والے دیگر عناصر کو بطور خاص کیس اسٹڈیز کے طور پر بغور مطالعہ کیا جائے تو کئی دہائیوں تک بھی ایسے نتائج کی توقع سندھ کے بہت ہی محدود حلقوں میں کی جاسکتی ہے۔ اور پورے ملک میں توان چند حلقوں والی صورت حال شائد صدیوں میں بھی نہ پیدا کی جاسکے۔اس لئے بہترین جمہوری طریقہ انتخاب ہونے کے باوجود یہ پاکستان کی اقلیتوں کے لے قابل قبول نہیں۔
جداگانہ طریقہ انتخاب کی خوبیاں خامیاں
پس منظر
انگریزوں کا مقامی لوگوں حکومتوں میں حصہ دینے کی کوششوں کا سفر جو 1858 کے بعد شروع ہوا تھا وہ جب 1906 تک پہنچا تو برصغیر کی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں نے اپنی سیاسی ضروریات کو برّصغیر کے سماج کی بنت کی وجہ سے درپیش مسائل کی بدولت اس بات کی نشان دہی کی کہ تعداد کی بنیاد پر ہندو اکثریت کبھی بھی ہمیں نمائندگی کا وہ حق نہیں لینے دی گی۔ جتنا اس سماج میں ہمارا حصہ ہے۔ انگریزوں نے اس مطالبے کی بنیاد پر مسلمانوں کے لئے مخصوص نشستوں کا نظام متعارف کرایا۔جس میں بعد میں دیگر اقلیتوں کو بھی شاملِ کیا گیا۔مطابق تجربے نے ثابت لیکن برصغیر کے معروضی مزہبی تاریخی ،سماجی، ثقافتی پس منظر کی بدولت انسانوں کے اپنائے گئے رویوں نے یہ ثابت کیا کہ یہاں سیاسی ارتقاء کے درمیان کئی ایسے موڑ آئے جس نے ثابت کیا کہ برصغیر کی مذہبی اقلیتوں کے لئے جنرل نشستوں پر ووٹ ڈالنے انتخاب لڑنے کے ساتھ انکے لئے انکی مذہبی شناخت پر مخصوص نشستوں پر ووٹ ڈالنے کا حق ضروری ہے۔
لیکن المیہ یہ ہوا کہ قیام پاکستان کے بعد اقلیتوں کو جداگانہ طریقہ انتخاب دیا گیا اس طریقہ انتخاب میں ان دھرتی واسیوں کو مذہبی شناخت پر نمائندگی دینے کے نام پر سیاسی اچھوت اور معاشرتی شودر بنا دیا گیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد پہلے دو انتخاب اسی طریقہ انتخاب سے ہوئے۔ جسکی گونج پاکستان کے پہلے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل کے تاریخی استعفی میں بھی سنائی دیتی ہے۔۔ شائد اسی ردعمل میں اگلے تین انتخابات خالص مخلوط طریقہ انتخاب کے زریعے ہؤے۔
جداگانہ طریقہ انتخاب کی خوبی
پاکستان کے معروضی سیاسی و معاشرتی معروضی حالات میں مجموعی طورپر 7بارہونے والے انتخا بات میں اقلیتوں کی مذہبی شناخت پر لیڈر شپ ابھری ۔
جداگانہ طریقہ انتخاب کی خامیاں
1985سے1997تک پانچ بار اس طریقہ انتخاب کے تخت اقلیتی نشستوں پر انتخاب ہوئے۔اس طریقہ انتخاب میں اقلیتی شہریوں سے عام انتخابات میں الیکشن لڑنے اور ووٹ ڈالنے کا حق چھین لیا گیا تھا۔
پاکستان میں مذہبی اقلیتیں پاکستان بھر میں کہیں کم کہیں زیادہ ہر قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقے میں آباد ہیں۔ ان حلقوں کی تعداد 859 ہے۔۔ ہر حلقے کے پاکستانی کی شہری سہولتوں و انسانی حقوق کے مسائلِ ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ اور انکا صوبائی اور قومی اسمبلی کے حلقے کا نمائندہ انکے ان حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔۔لیکِن اس طریقہ انتخاب میں اقلیتوں کو حلقے کی سیاست سے عملی طور پر کاٹ دیا گیا تھا۔
اقلیتی شہریوں کو یوسی سے نیشنل اسمبلی کے حلقے سے کاٹ کر باقاعدہ سیاسی شودر اور معاشرتی اچھوت بنا دیا گیا تھا۔
3موجودہ اقلیتی انتخابی نظام
مخلوط کے ساتھ نسبت تناسب سے سلیکشن والا انتخابی نظام
ماضی میں1962ء سے 1964ء 1965سے 1969 اور 1970 کے مخلوط طرز انتخاب میں اقلیتوں کو نمائندگی نہ ملنے کے ردعمل میں مسیحو نے یہ نظام دو شہادتیں اور بہت ساری جدو جہد کے بدلے حاصل کیا۔۔مخصوص نشستوں والے اقلیتی نمائندے 72 سے چلنے والی اسمبلی میں اکیس نومبر 1975 میں چوتھی آئینی ترمیم کے زریعے شامل کئے گئے۔ یوں اس نظام کو نافذ کیا گیا۔اسی نظام کے تحت 77 کے انتخابات ہوئے جس کے نتائج مانے نہیں گئے۔ اسکے بعد ضیاء الحق نے یہ نظام ختم کر دیا اور اقلیتوں کے لئے جداگانہ طریقہ انتخاب نافذ کیا جسکے کے تحت 1985سے 1997 پانچ بار انتخابات ہوئے۔ پرویز مشرف نے 2001 میں مسیحو کے کہنے پر دوبارا اس نظام کو بحال کیا ایک دفعہ 1977اور 6بار اب اس نظام کے تحت الیکشن ہوچکے ہیں۔ آئیں اس انتخابی نظام کی خوبیوں اور خامیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
خوبیاں
1.اس نظام میں اقلیتوں کو جو یو سی سے لیکر نیشنل اسمبلی تک حلقے میں ووٹ ڈالنے اور انتخابات لڑنے کا حق حاصل ہوا ہے یہ اس انتخابی نظام کی بہت بڑی خوبی ہے۔ یاد رہے یہ حق ان سے ماضی میں جداگانہ طریقہ انتخاب میں چھین لیا گیا تھا۔
مخصوص نشستوں پر انتخاب کا طریقہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ خوبی بھی دب کر رہ گئی ہے۔ اور اقلیتی شہری اس نظام سے جڑی مندرجہ ذیل خامیوں میں ہی الجھے رہتے ہیں۔
خامیاں
1 سات آٹھ مختلف عقیدوں کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر تقریبا ایک کروڑ لوگوں کی مذہبی شناخت والی نمائندگی پر چاروں صوبائی اسمبلیوں میں 24اور قومی اسمبلی کے 10نمائندوں کو صرفِ چار یا پانچ شخصیات چن لیں یہ انتہائی غیر انسانی، غیر جمہوری اور نا انصافی پر مبنی ، جمہوریت کی روح کے منافی طریقہ سلیکشن ہے۔
2 اگر چار پانچ شخصیات چاہے تو وہ یہ 34کے 34ممبران اسمبلی ایک ہی مذہبی شناخت والے خواتین وحضرات کو اقلیتوں کے نمائندے نامزد کر سکتے ہیں۔
3 قومی سیاسی پارٹیوں کی مرضی و منشاء کے بغیر یہ نمائندگی حاصل کرنیکے کا کوئی راستہ ہی نہیں۔
4 میرٹ کا کوئی معیار نہ ہونے کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے ورکر جو یہ منصب حاصل کرنا چاہئتے ہیں۔۔ وہ اپنے سیاسی لیڈروں کی خوشامد میں جٹے رہتے ہیں
5 سیاسی جماعتوں میں میرٹ کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے کسی ایک جماعت کے ورکر کو یہ منصب ملنے سے دیگر میں بعض ،حسد پیدا ہوتا ہے۔جو آخر کار صحت مند معاشرے کے قیام میں بہت بڑی رکاوٹ بنتا ہے۔
6 پاکستان کی اقلیتیں مجموعی طور پر تعلیمی ،مالی،فکری طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے سیاسی ورکر قومی سیاسی دھارے میں دلچسپی نہیں لیتے اور انھیں 34 اور 4 سینٹروں کے ارد گرد چکر کاٹنے کی وجہ سے انکی وہ سیاسی تربیت نہیں ہو پاتی جو کسی سیاسی ورکر کا طرہ امتیاز ہوتی ہے۔
7 یہ اقلیتی انتخابی نظام اور خواتین کو مخصوص نشستں ریوڑیوں کی طرح بانٹنے والا انتخابی نظام آئین کی شق 226 سے بھی متصادم ہے
8 سیاسی حکمران و انکے رفقاء اقلیتی نمائندوں کو نشستیں بانٹنے کے بعد ان تقریبآ ایک کروڑ دھرتی واسیوں کے روز مرہ کے مذہبی شناخت پر پیدا ہونے والے مسائل سے یکسر بیگانہ ہو جاتے ییں۔
9 یوسی سے نیشنل اسمبلی تک مذہبی شناخت پر چنے جانے والے نمائندگان کا ووٹرز سے تعلق نہ ہونے کی بنیاد پر کسی مذہبی تصادم /تناظے کے نتیجے میں غیر متعلق لوگ اس ویکوم پورا کرکے بہت ساری سماجی و معاشرتی برائیوں کا سبب بنتے ہیں۔ اس نظام کے سب سے بڑے حامی بھی یہ ہی خواتین حضرات ہیں بلکہ کمال یہ ہے کہ براہ راست اس نظام سے وابستہ افراد بھی اس نظام کی خامیوں کو مانتے ہیں۔ لیکن یہ سوداگران محرومیاں اس نظام کی شان میں قصیدے پڑھتے نظر آتے ہیں۔
10 یوسی سے نشینل اسمبلی تک کے حلقے سیاسی ورکروں اور غیر مسلم شہریوں میں تعلق ناپید ہونے کی بدولت محرومیوں کی سوداگری کی صنعت میں روز بروز اضافے کی بدولت عام غیر مسلم شہری معاشرے سے بیگانگی کے مرض میں مبتلا ہورہا ہے۔
11 2002 ایک 2024 تک پانچ بار تسلسل سے یہ نظام دوہرایا گیا ہے۔۔ مشاہدے میں یہ آیا ہے۔کہ موجودہ اقلیتی انتخابی نظام میں مذہبی شناخت پر نمائندگی حاصل کرنے والے خواتین وحضرات جس پارٹی کی مرضی و منشا سے چنے جاتے ہیں۔ اگر اس جماعت کی حکومت کا کوئی عمل انکے اس مذہبی گروہ جسکی شناخت پر وہ نمائندگی حاصل کرتا ہے ،کے اجتماعی مفادات کے خلاف ہو تو وہ نمائندہ پارٹی پالیسی کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ ناکہ اپنے لوگوں کے ساتھ۔
12 اقلیتی شہری معاشی طور بہت کمزور ہیں ماسوائے ہندوؤں کے ایک خاص طبقے کے یہ طبقہ اپنی مالی استعداد کی بدولت 24 صوبائی نشستوں 10 قومی اسمبلی کی نشستوں کے علاؤہ 4 سینٹرز کی نشستوں میں سے بھی زیادہ تر نشستیں اپنی اس استعداد کی بدولت حاصل کر لیتا ہے۔ باقی چند نشستیں تزویراتی اہمیت کی حامل ایک کمیونٹی کو دے دی جاتی ہیں.باقی ماندہ کے حصول کے لئے مسیحیوں میں وہ مضحکہ خیز مقابلے ہوتے ہیں، کہ سرکاری طور پر33لاکھ اور غیر سرکاری اندازوں کے مطابق تقریباـ 57 لاکھ مسیحیوں کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ بہت تھوڑے وسائل کے بغیر سیاسی شعور رکھنے والے سیاسی ورکروں جو سیاست میں داخل ہوتے ہیں ان کو حالات ونظام کے جبر کی بدولت مینارٹی ونگز (جو موجودہ اقلیتی نظام کی ہی پیداوار ہے۔)کی سیاست میں دھکیل کر انھی 38کے گرد گمھن گھیراں کھانے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔اس نظام کی بدولت اقلیتوں میں سیاسی ورکروں کی جگہ جمہوری غلاموں نے لے لی ہے جو ہر وقت یو سی سے نیشنل اسمبلی تک کی ترجیحی فہرست میں نام لکھوانے کی تگ و دو میں نظر آتے ہیں۔
ان ساری خامیوں کی بدولت اس نظام میں تبدیلی کیوں نہ ہوسکی۔
1 اقلیتی مذہبی ،سیاسی،سماجی ورکروں کی اس مسلئے کی تفصیلات اور اس سے پیدا ہوئے والی مسائل کے بارے میں لاعلمی
2 اس مسلے کی شدّت کو سمجھنے والی این جی اوز ( چاہے وہ چرچ کے زیرِ اثر ہوں یا کسی کی نجی ملکیت) ایک مخصوص اقلیت کی سوچ اور بین الاقوامی طاقتوں اور این جی اوز پر اس اقلیت کے اثر رسوخ کے زیر اثر اسے معاشرے کی دانشور اشرفیہ تک پہنچنے ہی نہیں دیتا۔
3 اقلیتوں خصوصاً مسیحیوں کے وہ طاقتور فورم جہاں سے توانا آواز اٹھ سکتی ہے۔انکی لاعلمی ،عدم دلچسپی و بے حسی اور ایک مخصوص اقلیت کے مفادات کے تحفظ کے عوض وابستہ مفادات کی بدولت چپ سادھنے کا شرم ناک رویہ
4 سیاسی ،سماجی و مذہبی طور پر متحرک لوگوں کو حکومت و ریاست نے 38 نمایندگان کے زریعے انگیج کرکے ریاستی وسائل میں سے تھوڑا بہت حصہ دار بنایا ہوا ہے۔
5 اس نظام سے 98فیصد اقلیتی شہری ناخوش ہیں۔لیکن سیاسی طور متحرک جو لوگ اس نظام کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ اپنے اپنے فورم پر وہ انفرادی کوششیں تو کرتے ہیں۔لیکن کوئی منظم ،اجتماعی کوشش نہیں کرتے۔جس کی وجہ شناختی بحران اور ایسے فورم کے مالی مفادات ہوسکتے ہیں۔
6 جداگانہ طریقہ انتخاب سے جان چھڑانے والے اقلیتوں کے محسن منظم چرچزاور این جی اوز کے اس وقت کے سماجی ومذہبی ورکروں کے موجودہ جانشین کارکن و راہنماؤں کی علمی استعداد کی کمی اور بصورت دیگر ایک مخصوص حل کی بدولت طرز کوہن پر ڈٹے رہنے کی ذہنی کفیت میں مبتلا ہیں۔
این جی اوز کے اقلیتوں کیلئے پیش کردہ انتخابی نظام کا جائزہ
تحریک شناخت کے بے لوث رضا کاروں کی آگاہی مہم کی بدولت اقلیتی انتخابی نظاموں کے بارے میں جوحقائق و شواہد سامنے آئے ہیں اس کی وجہ سے این جی اوز والے اب عوامی سطح پر تو کوئی جواب نہیں دے پاتے لیکن ایک آدھ این جی او والے ڈھکے چھپے لفظوں میں ایک مبہم سا خیال پیش کرتے ہیں ۔کہ پاکستان بھر میں جن چند قومی و صوبائی حلقوں میں اقلیتوں کی زرا مناسب تعداد ہے وہاں آئینی ترمیم سے ایسا بندوبست کیا جائے کہ وہاں سے صرف اقلیتی امیدوار ہی الیکشن لڑیں اس طرح ان حلقوں سے وہاں سے اقلیتوں کو اسمبلیوں میں پہنچانے کا بندوبست کیا جائے یہ بھی انتہائی غیر دانشمندانہ اور معروضی حالات سے ناواقف اور اس معاشرے کی سیاسی، معاشرتی، سماجی، معروضی حالات و محرکات کو بغیر جانے کیے جانے پیش کیا جانے والا خیال ہے اگر اس کے مطابق اقلیتوں نے 10ایم این اے اور 24ایم پی ایز کو ملک کے مختلف حلقوں سے مذہبی شناخت پر اسمبلیوں میں پہنچا بھی دیا جاتا ہے تو ملک کے ہر گاؤں، قصبے اور شہر میں بستے اقلیتی شہری کی مذہبی شناخت پر نمائندگی کیسے ممکن ہو گی۔ دوسرا اس نظام کا خطرناک پہلو یہ ہوگا کہ جب اکثریتی ووٹرز کو یہ احساس ہوگا کہ میرا اپنے حلقے میں مسلم امیدوار چننے کے حق کو سلب کر لیا گیا ہے تو اس احساس محرومی کے ردعمل کا شکار اس حلقے کے اقلیتی شہری ہوں گے۔جس سے معاشرے میں مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے کے چکر میں معاشرے سماج میں نفرتیں مزید بڑھے گی۔یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان میں کوئی حلقہ ایسا نہیں جہاں غیر مسلم اکثریت میں ہوں۔ لیکن اگر کہیں ہوں بھی تب بھی یہ قدغن تو ہم ایسے حلقوں میں بھی نہیں لگا سکتے جہاں بہت ہی محدود تعداد میں مسلم ووٹرز ہوں۔ جنرل انتخابات میں اقلیتی امیدوار کا الیکشن لڑنا اور سیاسی پارٹیوں کا اقلیتی امیدوار کو ٹکٹ دینا ایک علیحدہ بات ہے لیکن اس طرح کی آئینی ترمیم کی بات کرنا مخصوص نشستوں کے لئے مقررہ حلقوں سے صرفِ اقلیتی امیدوار ہی کھڑے ہوسکیں، یقیناً معاشرے میں بہت زیادہ نفرتوں کو جنم دینے کا سبب ہوگا۔ لہٰذا یہ درآمدی فارمولا سبی کی گرمی میں مقامی لوگوں کوشدید سرد علاقوں والے کپڑے زبردستی پہنانے والا ہے۔
لہٰذا دوہرے ووٹ سے کم کا کوئی مطالبہ ایک نئے سیاسی المیہ کو جنم دے گا۔ اس لئے دوہرے ووٹ کا مطالبہ ہی کیا جائے ۔ خداراہ کوئی ایسا مطالبہ نہ کیجیے جس کے نتیجے میں کسی بھی مثبت یا منفی جذبے کی بنیاد پر 859 حلقوں سے ان غیر مسلم پسے ہوئے معصوم پاکستانیوں کو دست بردار ہونا پڑے۔
فرض کریں اگر ریاستی ادارے اور سیاسی اشرافیہ انگریزی پریس، غیر ملکی این جی اوز کے اثر میں ترس کھا کر (گوکہ رحم کا عنصر ہماری سیاسی اشرافیہ میں کم ہی پایا جاتا ہے) غیر مسلم پاکستانی نمائندوں کی تعداد 34سے بڑھا کر40 اورپھر ان نمائندوں کے لئے 40انتخابی حلقہ بندیاں بھی کر دیتی ہے۔ لیکن غیر مسلم پاکستانی تو پاکستان کے چپے چپے پر آباد ہیں اور پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے سارے مجموعی طور پر859حلقوں میں موجود ہیں۔کیونکہ اس ساری جدوجہد کا مقصد تو یہ ہی کہ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کومذہبی شناخت پر بھی اسمبلیوں میں پہنچایا جائے۔ 859حلقوں سے نکال کر34یا40 حلقوں تک محدود کرنے کا مطالبہ کرنا انتہائی غیر جمہوری اورسیاسی لاعلمی کا ثبوت ہے ۔ فرض کریں اگر غیر مسلم شہریوں کو قومی اسمبلی کی 10یا12 نشستوں پرقومی اسمبلی میں پہنچا بھی دیا جائے توصرف پنجاب اور سندھ سے اقلیتی رکن قومی اسمبلی بنوا کر266حلقوں میں آباد نمائندوں کی مذہبی شناخت کی نمائندگی قومی اسمبلی میں کیسے ہو گی؟ اسی طرح صوبائی اسمبلیوں کے صرف سندھ اور پنجاب سے ہی قومی اور صوبائی 24یا 30حلقوں سے اقلیتی رکن اسمبلی بنوا بھی لئے جائیں تو اقلیتیں تو پاکستان کی تقریباً593 صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں میں آباد ہیں تو باقی صوبائی حلقوں سے مذہبی نمائندگی کسیے ممکن ہو گی۔ کیونکہ پاکستان میں اقلیتی آبادی کے متحرکات بالکل منفرد ہیں۔ لہذا ایسا کوئی بھی فارمولا جس سے مذہبی اقلیتوں کو قومی دھارے سے نکالا جائے ۔
روپلو کولھی، سردار ہری سنگھ،یعقوب پرویز کھوکھر، آر ایم جیمز اور نواز مسیح شہید و دیگر سینکڑوں ایسے اس سرزمین کے حصول اوراسے بنانے سنوارنے اور بچانے کے لئے رنگ و نسل مذہب سے بالاتر ہو کر قربانیاں دینے والوں کے لہو اور ان کے ورثا کی اجتماعی توہین ہو گی۔
اقلیتوں کے لئے دوہرے ووٹ کا لائحہ عمل
آئیں اب اس خاکے کا جائزہ لیتے ہیں، جو تحریک شناخت نے اس مطالبے اور لائحہ عمل کو عملی طور پر دوہرے ووٹ کے لئے پیش کیا ہے۔
اس کے لئے غیر مسلم پاکستانیوں کے مذہبی، سیاسی و سماجی حقوق کے لئے متحرک کارکنوں کو ریاستی اداروں اور سیاسی و دانشور اشرافیہ کو اپنا یہ مسئلہ حقائق، شواہد اور معروضی حالات کے مطابق بتا کر انہیں آئین میں ایک اور بے ضرر سی آئینی ترمیم کے لئے قائل کرنا پڑے گا۔ اس کے لئے جس طرح 1947ء سے 1970ء تک کے تجربات سے سیکھ کر چوتھی آئینی ترمیم کی گئی پھر 1985ء سے1997ئتک کے تجربے سے سیکھ کر2002ء-04 میں اقلیتی انتخابی نظام تبدیل کیا گیا۔اسی طرح اب 77سالہ اس ارتقائی سفر سے سیکھ کر اس انتخابی نظام میں بے ضرر سی آئینی ترامیم سے دوہری نمائندگی کو دوہرے ووٹ کے ذریعے سے نافذ العمل کروایا جائے، یہ آئینی ترمیم پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کا مطالبہ اور آئین پاکستان کی شق 226 کابھی تقاضا ہے۔ اس سے یقینا ملک و قوم کو مضبوط کرنے میں اور اقوام عالم میں ملک کے وقار میں اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لئے دوہرے ووٹ کے زریعے شفاف اور انصاف پر مبنی انتخابی نظام کے لئے جدو جہد کرتے سیاسی سماجی اور مذہبی ورکرز تحریک شناخت آپ سے گزارش کرتی ہے, کہ اقلیتوں کے موجود انتخابی نظام میں تبدیلی اور مذہبی اقلیتوں کیلئے دوہرے ووٹ کے مطالبے کا محور و مرکزان تین نکات کو بنائیں۔
1 ہر غیر مسلم شہری کا پاکستان کے ہر حلقے میں قومی،صوبائی، ضلعی،تحصیل اور یوسی سطح پر ووٹ ڈالنے اورجنرل الیکشن لڑنے کا حق محفوظ رہے۔ 2002 میں اسی خیال سے دوہری نمائندگی کے نظام کو بحال کیا گیا تھا تاکہ ہر غیر مسلم پاکستانی شہری اپنے یوسی سے لے کر قومی اسمبلی تک کے انتخابات میں ووٹ بھی ڈال سکے اور بطور امیدوار حصّہ بھی لے سکے اور اسکی کی مذہبی شناخت پر نمایندگی کو بھی ایوانوں میں یقینی بنایا جائے ،لیکن اس انتخابی نظام کے ایک مثبت پہلو کے ساتھ اس کا تاریک پہلو یہ ہے کہ اس نظام میں مذہبی اقلیتوں کے مذہبی شناخت پر اپنے نمائندے چننے کے حق کو سلب کرلیا گیا ہے۔
2 دوسرے مذہبی شناخت والے ووٹ کے لئے بنیادی فارمولا وہ ہی ہوگا۔جو 1985سے 1997تک پانچ بار آزمایا جا چکا ہے۔گو کہ اس نظام سے جڑا اس کا دوسرا حصہ غیر مسلم پاکستانی شہریوں کے لئے بہت ہی مضر تھا، وہ مذہبی اقلیتوں کو قومی سیاست، معاشرے، سماج سے کاٹ کر اچھوت اور سیاسی شودر بناتا تھا۔اس لئے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ یوسی سطح سے لے کر قومی اسمبلی تک تک جو بھی نمائندہ جس کمیونٹی کی مذہبی شناخت پر نمائندگی حاصل کرے وہ انھی کے ووٹوں سے منتخب ہوں۔
3۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہر وفاقی اکائی میں سے اقلیتوں کی نمائندگی سینیٹ،قومی،صوبائی اسمبلیوں میں ہو۔جس کے لئے حلقہ بندیاں پنجاب میں جہاں مسیحیوں اورسندھ میں جہاں ہندوؤں کی آبادی مناسب تعداد میں ہے۔ وہاں تو چھوٹی بڑی قومی وصوبائی حلقہ بندیاں ہوسکتی ہیں۔ لیکن جن وفاقی اکائیوں میں مثلاً بلوچستان ،کے پی کے اور اسلام آباد جہاں اقلیتی آبادی کی تعداد نمائندگی کے لئے درکار تعداد سے بہت کم ہے۔ وہاں آئین کے دیباچے/تمہیدِ (Preamble)کے اس پیرا گراف کی بنیاد پر مذہبی شناخت پر اقلیتی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے۔
Wherein adequate provision shall be made to safeguard the legitimate interests of minorities and backward and depressed classes.
‘‘ترجمہ:جس میں اقلیتوں اور پسماندہ اور پسے ہوئے طبقات کے جائز مفادات کے تحفظ کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں گے’’۔ اس فارمولے سے یہ بات یقینی ہو جائے گی کہ اقلیتوں کی نمائندگی وفاق کی ہر اکائی سے ہو۔یہ بے ضرر آئینی ترامیم کسی بھی سیاسی جماعت یا گروہ کے مفادات کے متصادم بھی نہیں ہو گی اوریہ ملک و قوم کے استحکام کی بھی ضمانت بنے گی۔
دوہرے ووٹ کے مطالبے کے تین نکات کا محور و مرکز بنانے سے یہ بات یقینی ہو جائے گی کہ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کی پاکستان کے ہر حلقے سے قومی نمائندگی بھی ہو اور ہر وفاقی اکائی سے مذہبی شناخت پر نمائندگی بھی یقینی ہو۔اس مطالبے کو بخوبی سمجھ کر اس کے لئے اس یقین سے کوشش کریں کہ یہ بے ضرر سی آئینی ترمیم کسی بھی سیاسی جماعت، گروہ یا ریاست، حکومت کے مفادات سے متصادم بھی نہیں ہوگی یہ آئینی ترمیم ملک وقوم کے استحکام کی بھی ضمانت ہوگی۔ ان نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے۔ پانچوں وفاقی اکائیوں میں تفصیل یوں ہوگی۔
اسلام آبادسے اقلیتی نمائندگی
پاکستان کی تمام وفاقی اکائیوں اسلام آباد ،پنجاب،سندھ ،بلوچستان کے پی کی قومی اسمبلی/صوبائی اسمبلیوں کے لئے اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے انتخاب کا یہ فارمولا صرف غیر مسلم شہریوں کے مذہبی شناخت والے دوسرے ووٹ کے لئے ہے۔ جنرل نشستوں والے ووٹ غیر مسلم شہری اپنے دیگر ہم وطنوں کے ساتھ اپنے،اپنے یوسی سے قومی اسمبلی کے حلقوں میں اپنی ووٹرز لسٹ کے مطابق ہی ڈالیں گے۔چاروں صوبوں کے ساتھ اسلام آباد سے بھی اقلیتوں کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں نمائندگی دی جائے۔ اسلام آباد میں الیکشن کمیشن 30جون 2022کے اعداد و شمار کے مطابق اقلیتی ووٹرز کی کل تعداد 41977 ہے۔جس میں سے مسیحی 38744 ہندؤ 183سکھ 1. بہائی 101قادیانی2903 پارسی 182بدھسٹ 9 ہیں۔
اسلام آباد سے ایم این اے 312760 ووٹرز کے حلقہ انتخاب سے منتخب ہوتا ہے۔ اقلیتی ووٹروں کی تعداد اسلام آباد میں اس تعداد جس سے ایک ایم این اے منتحب ہوتا ہے، بہت کم ہے۔لیکِن کمزور طبقات کے لئے آئین میں دی گئی ہدایات کی روشنی میں اور اس مطالبے کی روح سے کہ ‘‘ ہر وفاقی اکائی سے اقلیتوں کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے’’ روشنی میں یہاں سے سینیٹ اور قومی اسمبلی کی ایک ایک نشست اقلیتوں کے لئے مختص کی جائے۔ جو تمام اقلیتی ووٹوں سے منتخب ہو۔
خیبر پختونخوا کی قومی/صوبائی اسمبلی کی اقلیتی نشستوں کے مذہبی شناخت والے انتخاب کا فارمولا۔
کے پی کی قومی اسمبلی کی مذہبی شناخت والی مخصوص نشستوں کے انتخاب کا فارمولا
کے پی کے سے اوسطاً 487291 ووٹروں سے ایک قومی اسمبلی کا حلقہ انتخاب بنتا ہے۔
اس صوبے میں30جون 2022کے الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق مجعوعی اقلیتی ووٹروں کی تعداد 46116ہے۔جن میں مسیحی ووٹرز 33328 ہندو -045025 سکھ 4588 بہائی 1370 قادیانی 1231 پارسی388 بدھسٹ184 ہیں۔اس تعداد میں کیلاشی ووٹروں کی تعداد شامل نہیں ہے۔ انکا خانہ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں بھی نہیں ہے۔لیکن آزاد ذرائع کے مطابق انکے ووٹوں کی تعداد 2سے ڈھائی ہزار کے قریب ہے۔ صوبہ کے پی میں اقلیتی ووٹروں کی تعداد نہ تو اتنی ہے۔جس سے پورے ملک سے جتنے اوسط ووٹوں پر ایک ایم این اے بنتا ہے۔۔نہ ہی یہ تعداد اتنی ہے جتنی تعداد سے صوبہ کے پی سے ایک ایم این اے بنتا ہے۔۔لہذا اس تعداد کو دیکھتے ہوئے قومی اسمبلی کے لئے پورا صوبہ ایک حلقہ بنا کر سب اقلیتوں کے لئے ایک نیشنل اسمبلی کی نشست مخصوص کی جاسکتی ہے۔اس کا اقلیتوں کے درمیان اوپن میرٹ پر مقابلہ ہو۔اگر سب سے کم تعداد والی کمیونٹی کا شہری بھی اپنے آپ کو اقلیتوں کا لیڈر ثابت کردے تو وہ تمام اقلیتوں کا متفقہ ایم این اے ہوسکتاہے۔ لیکن اگر سب سے بڑی اقلیت جو کہ مسیحی ہیں۔اگر وہ الیکشن جیتتا ہے، تو دوسرے نمبر پر آنے والے ہندو-04یا سکھ جو کہ بالترتیب آبادی کے اعتبار سے دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں، کے ساتھ قومی اسمبلی کی مدت شئیر کی جاسکتی ہے۔۔ ورنہ جیتنے والا ساری مدت کے لئے اقلیتی ایم این رہے یہ طریقہ کار تو عرق ریزی سے طے کئے جاسکتے ہیں۔لیکن اصولی موقف یہ ہونا چایئے کہ آئین کی رو سے کمزور طبقات کو ہر وفاقی اکائی سے قومی اسمبلی سے نمائندگی دینے کا فیصلہ ضرور ہونا چاہیے۔
خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی کی اقلیتی نشستوں کے انتخاب کا فارمولا۔
کے پی کے سے اوسطاً ایک ممبر صوبائی اسمبلی اوسطاً 190679 ووٹوں سے بنتا ہے۔
صوبہ کے پی میں مذہبی اقلیتی ووٹروں اوپر بیان کی گئی تعداد اس تعداد سے بہت کم ہے۔جن ووٹوں کی تعداد میں سے ایک ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوتا ہے۔
کے پی سے اس وقت چار صوبائی اسمبلی کی نشستیں اقلیتوں کے لئے مخصوص ہیں۔جو کہ جیتنے والی سیاسی جماعت کے راہنماوں کا صوابیدی اختیار ہے، کہ وہ چاہے تو چاروں ارکان کسی ایک کمیونٹی سے چن لے۔ تحریک شناخت کے دوہرے ووٹ کے اس مطالبے اور لالحہ عمل، میں یہ مطالبہ کیا گیاہے۔کہ ایک نشست مسیحو کے لئے ایک نشست ہندووں کے لئے جب ایک نشست دیگر ساری اقلیتوں (سکھوں ،بدھسٹ،بہائی، پارسیوں اور قادیانی) کیلئے مخصوص کی جائے جب ایک نشست جغرافیائی ،عقیدے،وتہذیب کے اعتبار سے بلکل منفرد شناخت کی حامل کیلاش اقلیت کے لئے مخصوص کی جائے۔ ان چاروں نشستوں کے لئے حلقہ انتخاب پورا صوبہ ہی ہوگا۔ جیسے اوپر بیان کیا گیا ہے۔۔اس وقت بھی کے پی سے اقلیتوں کے لئے صوبائی اسمبلی کی چار نشستیں ہی مخصوص ہیں۔۔لیکن یہ موجودہ اقلیتی انتخابی نظام کیی خرابی ہے۔ کہ یہ الیکشن جیتنے والی سیاسی جماعت کے اکابرینِ کی صوابدید ہے۔ وہ چاہے تو یہ چاروں نشستیں کسی ایک کمیونٹی کو بھی الاٹ کرسکتی ہے۔۔ اور موجودہ نظام میں یہ بھی خامی ہے کہ دو یا تین بڑی سیاسی جماعتیں جن کو یہ استحقاق حاصل ہو وہ سب کسی ایک ہی کمیونٹی کے نمائندے یہ نشستیں الاٹ کردے۔ تحریک شناخت کے دوہرے ووٹ کے اس مطالبے و لالحہ عمل سے یہ بات یقینی ہو جائے گی، کے یوسی سے لے قومی و،صوبائی اسمبلیوں تک ہر مذہبی شناخت والے نمائندے کے چناؤ میں ہر اس اقلیتی شہری کا ووٹ ہوگا جس کی نمائندگی وہ نمائندہ ہر متعلقہ ایوان میں کرے گا۔
بلوچستان سے قومی /صوبائی اسمبلی کے لئے اقلیتی نشستوں کے انتخاب کا فارمولا۔
یہ فارمولا صرفِ غیر مسلم شہریوں کے مزہبی شناخت والے دوسرے ووٹ کے لئے ہے۔ جنرل نشستوں والے ووٹ غیر مسلم شہری اپنے دیگر ہم وطنوں کے ساتھ اپنے اپنے یوسی سے قومی اسمبلی کے حلقوں میں ووٹرز لسٹ کے مطابق ہی ڈالیں گے۔۔
بلوچستان سے قومی اسمبلی کی اقلیتی نشست کا فارمولا۔
بلوچستان میں الیکشن کمیشن کے 30جون 2022کے اعداد و شمار کے مطابق اقلیتی ووٹرز کی تعداد 51245 ہے۔جس میں ہندو 28551 مسیحی 20761سکھ 316بہائی601 قادیانی 659پارسی 182 بدھسٹ 176ہیں۔ یہ تعداد قومی اسمبلی کے نمائندگی کے لئے ملک بھر میں ووٹوں کی جس تعداد میں سے ایک قومی اسمبلی کا حلقہ بنتا ہے۔اس سے بھی اور بلوچستان سے ووٹوں کی جس اوسطاً تعداد سے ایک ایم این اے کا حلقہ بنتا ہے، اس سے بھی بہت کم ہے۔تمام اقلیتی ووٹروں کی کل ملا کر تعداد بھی اس سے بہت کم ہے۔اس لئے آئین پاکستان کے دیباچے/ تمہیدِ کی روشنی میں اس وفاقی اکائی سے تمام اقلیتوں کے لئے ایک قومی اسمبلی کی نشست مخصوص کی ہونی چاہیئے ہے۔ اس کا اقلیتوں کے درمیان اوپن میرٹ پر مقابلہ ہو ، صرف اقلیتوں کے درمیان پورے صوبے کو حلقہ بنا کر ایک قومی اسمبلی کی نشست کیلئے انتخابات کروائے جا سکتے ہیں۔اگر سب سے کم تعداد والی کمیونٹی کا شہری بھی اپنے آپ کو اقلیتوں کا لیڈر ثابت کردے تو وہ تمام اقلیتوں کا متفقہ ایم این اے ہوسکتاہے۔ اس منصوبے پر بھی بحث ہو سکتی ہے کہ اگر سب سے بڑی اقلیت جو کہ ہندو-04ہیں۔اگر وہ جیتتا ہے۔ تو دوسرے نمبر پر آنے والے مسیحی کے ساتھ قومی اسمبلی کی مدت شیئر کی جاسکتی ہے۔ یا اقلیتوں کے میں سے جیتنے والے ایک ایم این اے کو ہی پوری مدت کے لئے ہی اقلیتی ایم این اے رکھا جا سکتا ہے۔
بلوچستان صوبائی اسمبلی کے لئے اقلیتی نشستوں کا فارمولا.
بلوچستان کے اقلیتی ووٹروں کی جو تعداد اوپر درج ہے۔۔وہ کل ملا کر بھی ووٹوں کی اس تعداد سے بہت کم ہے۔جن میں سے اوسطاً بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے لئے ایک ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوتا ہے۔ کیونکہ کہ اس مطالبے کی بنیاد ہی آئین کے دیباچے/تمہیدِ میں درج کمزور طبقات کو دی گئی رعایت پر ہے۔لہذا موجودہ اقلیتی نشستوں کی جو تعداد تین ہے۔کو پورا صوبہ حلقہ بنا کر ایک نشستیں مسحیوں ،ایک نشست ہندووں کے لئے اور ایک نشست دیگر تمام اقلیتوں کے لئے مخصوص کرکے ان پر مذہبی شناخت والے ووٹ کا انتخاب کروایا جا سکتا ہے۔ اس سے ہر ووٹرز کی رائے اس نمائندے کے چناؤ میں شامل ہو جائے جسکی مزہبی شناخت پر وہ نمائندہ اسمبلی میں نمائندگی کرتا ہے۔
پنجاب سے قومی ،صوبائی اسمبلی کے لئے اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے انتخاب کا یہ فارمولا
صرفِ غیر مسلم شہریوں کے مزہبی شناخت والے دوسرے ووٹ کے لئے ہے۔ جنرل نشستوں والے ووٹ غیر مسلم شہری اپنے دیگر ہم وطنوں کے ساتھ اپنے اپنے یوسی سے قومی اسمبلی کے حلقوں میں ووٹرز لسٹ کے مطابق ہی ڈالیں گے۔
پنجاب سے قومی اسمبلی کی مخصوص اقلیتی نشستوں کے لئے تحریک شناخت کا انتخابی فارمولا۔
قومی اسمبلی کے لئے اوسطاً پنجاب سے ایک ایم این اے 519204 ووٹوں کے حلقے سے بنتا ہے۔ جبکہ صوبائی اسمبلی کا ایک حلقہ اوسطا ء246491 ووٹوں پر بنتا ہے۔ مسیحیوں کے پنجاب میں7جون 2022ء کے ریکارڈ کے مطابق ووٹوں کی تعداد1399468 ہے۔ جس کے مطابق مسیحوں کے تقریباً 3 ممبر قومی اسمبلی کے حلقے بنائے جاسکتے ہیں۔لیکن آئین میں دی گئی راہنمائی کی بدولت رعایت دے کر مسیحوں کی 5 نشستیں اور ایک نشست ہندؤں جنکے ووٹوں کی تعداد میں پنجاب میں 103658 ہے،کے لئے مخصوص کی جائے۔گو کہ پنجاب میں تعداد کے اعتبار سے دوسرے نمبر کی اقلیت قادیانی ہیں۔جنکے ووٹوں کی تعداد 131358 ہے۔ لیکِن وہ کیونکہ مذہبی شناخت پر جداگانہ الیکشن کے سخت خلاف ہیں۔جسکا ثبوت 1985سے 1997 تک کے پانچ الیکشن میں آن کا بطور مذہبی اقلیت ردعمل ہے۔ اس طریقہ انتخاب میں جنرل ضیاء الحق نے ان کے لئے قومی اسمبلی کی ایک اور پنجاب اور سندھ کی صوبائی اسمبلیوں میں ایک ایک نشست مخصوص کر رکھی تھی۔لیکن قادیانی بطورِ اقلیت ان انتخابات کا بائیکاٹ کرتے تھے۔۔اس مذہبی اقلیت کے نام پر جیتنے والے ممبر قومی اسمبلی صرفِ سو ڈیڑھ سو ووٹوں سے جیتتے رہے ہیں۔ اور ان نشستوں پر منتخب ہونے والی شخصیات کو بھی قادیانی /احمدیہ جماعت اون نہیں کرتی اور انکا اپنی جماعت سے کسی بھی قسم کے تعلق سے انکار کرتی ہے۔بہت سارے حقائق اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں۔کہ وہ بین الاقوامی طاقت کے مراکز میں اپنے تعلقات کو استمال کرتے ہیں۔جنکی بدولت بین الاقوامی این جی اوز پر ان انکے اثراتِ پڑتے ہیں۔۔ وہ اثرات پھر بلواسطہ ان پاکستانی،این جی اوز پر بھی پڑتے ہیں۔ جو پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے لئے کام کرتی ہیں۔۔جسکی وجہ سے پاکستانی چرچ کے زیر انتظام چلنے والی اور دیگر این جی اوز مذہبی شناخت والے ووٹ سے کنی کتراتے ہیں۔بلکہ کچھ تو در پردہ اور کچھ سرعام اسکی مخالفت کرتے ہیں۔اسی وجہ سے وہ بیچارے ایک کروڑ کے قریب پاکستان کی سات قسم کی دیگر مذہبی اقلیتوں مسیحی ،ہندو، بدھسٹ ،بہائی ،سکھ، پارسی ،کیلاش کی شناخت پر 10ایم این ایز ،24ایم پی ایز چار ،پانچ یا چھ سیاسی شخصیات کے چننے کو عین جمہوریت کی روح کے مطابق گرداننے کا گھناونا اور غلط بیانی پر مبنی جھوٹ بولتے اور فارن فنڈنگ سے پھیلاتے ہیں۔ پنجاب میں دوسری اقلیتوں کے ووٹوں کی تعداد مندرجہ ذیل ہے۔ بہائی ووٹرز 5145 سکھ 1300 پارسی 188 اور بدھسٹ ووٹروں کی تعداد 718 ہے۔ ان سب اقلیتوں کے لئے ایک نشست مخصوص جاسکتی ہے۔۔جس سے اقلیتوں کے لئے پنجاب سے قومی اسمبلی کی 7 نشستیں کی جاسکتی ہیں۔ لیکن اگر ریاستی و سیاسی اشرفیہ چاہے تو ماضی کے جنرل ضیاء الحق والے جداگانہ کی طرح قادیانیوں کے لئے بھی قومی و صوبائی اسمبلی کے لئے ایک ایک نشست مخصوص کرنی ہے۔تو پھر قومی اسمبلی کی اقلیتی نشستوں کی تعداد 8ہوجائے گی۔اسکے لئے مسیحوں کے 5 چھوٹے بڑے حلقے اور ہندؤں اور دیگر اقلیتوں کے لئے حلقہ پورا پنجاب ہی ہوگا۔یہ بات ذہن میں رہے۔ یہ آئینی رعایت کی بنیاد پر ممکن ہے ،ورنہ پنجاب میں اقلیتوں مجعوعی ووٹوں کی تعداد جو کہ1703782 ہے۔ اس کے حساب سے مجموعی اقلیتی قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد3.37ہونی چاہیے۔ جس کو کھینچ تان کر چار کیا جا سکتا ہے۔ لیکِن تحریک شناخت کے اس مطالبے اور لالحے عمل سے پنجاب سے قومی اسمبلی کی مسحیوں کی پانچ ایک نشست ہندووں کی اور ایک نشست دوسری تمام اقلیتوں کے لئے پورا پنجاب حلقہ بنا کر مخصوص کی جاسکتی ہے۔ جس سے صوبے بھر کے ہر ایک غیر مسلم شہری کی مذہبی شناخت کی نمائندگی قومی اسمبلی میں ہو جائے گی۔
پنجاب سے اقلیتوں کی صوبائی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے انتخاب کا تحریک شناخت کا فارمولا
پنجاب میں ایک ممبر صوبائی اسمبلی اوسطاً 246492 ووٹوں کے حلقہ انتخاب میں سے منتخب سے ہوتا ہے۔اس حساب سے مسیحوں کے تقریباً6 ممبران صوبائی اسمبلی بن سکتے ہیں۔ لیکن آئینی رعایت کی روح سے 1399468 ووٹوں کو چھوٹے بڑے 8 حلقے بنا کر 8 نشستیں دی جاسکتی ہیں۔ہندو اور دیگر اقلیتوں کے لئے ایک نشست پورا صوبہ حلقہ انتخاب بنا کر دی جاسکتی ہے۔۔جس سے پنجاب اسمبلی میں مجموعی اقلیتی ممبران کی تعداد 10 ہو جائے گی۔ لیکن اگر ماضی کی طرح جس میں جنرل ضیاء الحق نے قادیانی ووٹروں کے لئے بھی پنجاب اور سندھ میں سے بھی ایک صوبائی نشست مخصوص کی ہوئی تھی ،کی جائے تو یہ تعداد 11 ہو جائے گی۔
سندھ سے قومی اسمبلی کی اقلیتی نشستوں کا فارمولا
سندھ میں مجموعی اقلیتی ووٹروں کی تعداد 30جون 2022 کے الیکشن کمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق 2217141 ہے۔جن میں ہندؤ 1936749 مسیحی 254731 سکھ 1884بہائی 2524 پارسی 2509 قادیانی 18289 بدھسٹ 455 ہیں۔جبکہ سندھ میں قومی اسمبلی کی ایک نشست اوسطاً 429953 ووٹوں کے حلقہ انتخاب پر مشتمل ہوتی ہے۔ سندھ میں جون8 الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق کل ہندو ووٹوں کی تعداد سندھ میں 1936749 ہے۔ اس طرح اس میعار سے ہندؤں کے ووٹوں کی تعداد ساڑھے 5 نشستوں کی بنتی ہے۔لیکن آئین کی روح سے انہیں رعایت دے کر7 نشستوں پر حلقہ بندی کی جاسکتی ہے اور مسیحوں کے لئے صوبہ سندھ سے ایک قومی اسمبلی کی نشست کے لئے حلقہ بنایا جاسکتا ہے۔گوکہ مسیحوں کے ووٹوں کی تعدادپورے سندھ میں 254731ہے جو کہ قومی اسمبلی کی نشست کے لئے درکارووٹوں کی تعداد سے کم ہے اسی طرح دیگر اقلیتوں کی کل یہ تعداد بھی درکار ووٹوں کی تعداد سے بہت کم ہے۔لیکن دیگر تمما اقلیتوں کے ووٹروں پر مشتمل پورے سندھ کو حلقہ بنا کر ایک نشست ان کے لئے مخصوص کی جا سکتی ہے۔ جس سے ہر ایک غیرمسلم شہری کی مذہبی نمائندگی قومی اسمبلی میں ہو جائے گی۔جس سے سندھ سے قومی اسمبلی کی مجموعی نشستوں کی تعداد9ہوجائے گی۔
سندھ سے اقلیتوں کی صوبائی نشستوں کا فارمولا
سندھ اسمبلی میں اوسطاً ایک ممبر صوبائی اسمبلی 207652ووٹوں کے حلقہ انتخاب سے منتخب ہوتا ہے۔ اس حساب سے سندھ کے 1936749ہندو ووٹوں سے 9.5یا 10 نشستیں بنتی ہیں۔ جنہیں تیرا( 13) نشستوں کی چھوٹی بڑی حلقہ بندیوں میں تقسیم کر دیا جائے اور مسیحیوں کے ووٹ 254731 ہیں۔ جو کے دو نشستوں سے کم ہیں۔ انھیں ایک نشست کراچی کی اور ایک باقی سارے سندھ کی کر دی جائے یعنی دو حلقے بنا دیئے جائیں اور دیگر اقلیتوں کی تعداد انتہائی کم ہونے کی وجہ سے انھیں پورے صوبے کو حلقہ بنا کر ایک نشست دی جائے۔اس طرح سندھ سے اقلیتی ممبران صوبائی اسمبلی کی تعداد 16 ہوجائے گی۔
اس مطالبے اور لالحہ عمل سے اقلیتی سینیٹرز کی تعداد چار سے بڑھ کر پانچ۔قومی اسمبلی کے ممبران کی تعداد 10 سے بڑھا کر 19ہوجائیگی۔جب کہ صوبوں میں سندھ سے صوبائی اسمبلی کی16پنجاب سے10 اور کے پی کے 4 بلوچستان سے تین نشستیں ملا کر مجموعی ممبران صوبائی اسمبلی کی تعداد33 ہو جائے گی. جبکہ چاروں صوبوں اور اسلام آباد سے ایک ایک سینیٹر ہونے سے کل سینیٹر کی تعداد5 سینیٹر ،19ایم این اے 33 ایم پی اے ایز ملا کر یہ تعداد 57ہوجائے گی۔جنکی تفصیل یوں ہے۔اسلام آباد ،کے پی کے اور بلوچستان سے قومی اسمبلی کی ایک ایک اقلیتی نشست ،پنجاب سے 7اور سندھ سے 9ممبران قومی اسمبلی ہونگے۔یہ بات یاد رہے یہ آئین پاکستان کی کمزور طبقات کو دی گئی رعایت کے پیش نظر ہی ممکن ہے ورنہ اقلیتی ووٹوں کی سرکاری تعداد کے مطابق تو موجودہ38کی تعداد بھی زیادہ ہی ہے۔
نشستوں کی اس تعداد میں کمی بیشی اس وقت کی تعداد کے بلکل تازہ اعدادوشمار کے مطابق کی جاسکتی ہے۔کیونکی یہ اقلیتوں کے ووٹوں کی تعداد کے یہ اعدادوشمار جون 2022کے ہیں جبکہ کس وفاقی اکائی سے قومی اسمبلی اور کسی صوبائی اسمبلی سے کتنے ووٹوں پر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوتا ہے۔یہ فارمولا فروری 2024کے انتخابات سے لیا گیا ہے۔
اس ساری عرق ریزی سے جب اعداد و شمار بولنے لگتے ہیں۔ تو کئی ابہام اور غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں۔ انہی ابہام کی بدولت پڑھنے لکھنے کو گناہ سمجھنے والے اقلیتی مذہبی سیاسی اور سماجی ورکر/راہنما جو کچھ جانے بوجھے بغیر یہ کہہ دیتے ہیں۔ کہ ضیاء الحق والے جداگانہ اقلیتی انتخاہی نظام میں پورا حلقہ پاکستان بنا کر بڑا ظلم کیا گیا تھا۔ ( اصل ظلم جو اس نظام میں تھا اسے بہت کم مسیحی اور شیڈول کاسٹ زیر بحث لاتے ہیں)لیکن اس نظام میں 4مسیحی 4 ہندو ایک قادیانی اور ایک دیگر اقلیتوں کے لئے پورے ملک سے لوگ الیکشن لڑتے تھے۔پہلے چار نمبروں پر ووٹ لینے والے چار ہندؤ چار مسیحی ایک قادیانی ایک دیگر تمام اقلیتیں ملا کر پہلے نمبر والے اقلیتی امیدواروں کو کامیاب قرار دیا جاتا تھا۔ پاکستان کے کچھ صوبوں میں اقلیتی آبادی بہت کم ہونے کی وجہ سے اسی طرح مذہبی شناخت پر پورے پاکستان میں پھیلی اپنی اپنی کمیونٹی اور دیگر اقلیتوں کا نمائندہ چنا جاسکتا تھا ؟۔ آج بھی اگر جس طرح وہ اپنا مقدمہ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگر بغیر کچھ پڑھے لکھے اور معروضی حالات و آبادی کے محرکات جانے بغیر یہ مطالبہ دوہرایا جاتا رہے، تو اسکے نتائج تو پھر وہ ہی ہونگے۔جو ضیاء الحق کے معاشرتی شودر اور سیاسی اچھوت بنانے والے جداگانہ اقلیتی انتخاہی نظام کے ذریعے حاصل ہوئے تھے۔اس لئے اس موضوع میں دلچسپی رکھنے والے مذہبی ،سیاسی و سماجی شخصیات / ورکروں/ راہنماؤں کو اس موضوع پر زبان کھولنے سے پہلے اس موضع پر تحقیق ضرور کرنی چاہیے۔
اس سلسلے میں تحریک شناخت کے دنیا بھر میں پھیلے رضا کار آپ کی فکری اعانت ،معاونت و راہنمائی کے لئے حاضر ہیں۔
بلوچستان اور کے پی کے میں پاکستان کی دونوں بڑی اقلیتوں کی تعداد سے اندازہ ہوتا ہے کہ 1981ء کی افراد شماری کی بنیاد پر 1985ء میں ضیائی جمہوریت کے شہکار جداگانہ کی حلقہ بندیاں اعداد و شمار کے مطابق ایسی کچھ ناجائز بھی نہ تھیں۔آج اگر حلقہ بندیاں اعداد وشمار کے میرٹ پر کی جائیں تو سندھ میں ہندؤں، پنجاب میں مسیحیوں کے علاوہ باقی تمام وفاقی اکائیوں میں آج بھی حلقوں کا حال و ہی ہو گا اور پورے پاکستان کی اقلیتوں کو قومی اسمبلی میں نمائندگی دینے کے لئے حلقہ پھر پورا پاکستان ہی بنانا پڑے گا۔ لہٰذا اقلیتی سیاسی سماجی و مذہبی ورکروں سے گزارش ہے موجودہ اقلیتی انتخابی نظام میں تبدیلی کے لئے اس دستاویز کا مطالعہ ضرور کریں۔ صرف یہ کہہ دینا جداگانہ انتخاب حلقہ بندیوں کے ساتھ اس دہائیوں پرانے سنجیدہ مسئلے کا حل نہیں۔ ماضی میں بھی اسی طرح کے سرسری مطالبوں نے ہی اس ملک کی اقلیتوں کے اس دیرینہ مسئلے کا کوئی حل نہیں نکلا۔
اصولی طور پر سیاسی اشرافیہ غیر مسلموں کو دوہری نمائندگی دے چکی ہے کیونکہ پاکستان کے859 قومی و صوبائی اسمبلیوں کا ہر نمائندہ غیر مسلم پاکستانیوں کا بھی نمائندہ ہوتا ہے اور وہ اسے ووٹ بھی ڈالتے ہیں جو کہ یقیناً ایک جمہوری طریقہ ہے اعتراض اس بات پر ہے ان کی مذہبی شناختوں پر جو بھی نمائندے موجود ہیں ان کو اسمبلیوں میں لانے کا فیصلہ متناسب نمائندگی کے فارمولے سے نہ کیا جائے بلکہ اس انتخابی نظام کو تھوڑا سا بہتر کرکے مذہبی شناخت پر نمائندے منتخب کرنے کا حق متعلقہ مذہبی گروہوں کو دے دیا جائے۔کیونکہ جب تقریبا ایک کروڑ لوگوں کی مذہبی شناخت پر 38نمائندوں کو 4سے5لوگ منتخب کرتے ہیں تو اس دوہری نمائندگی کی رعایت کا سارا مزا خراب ہو جاتا ہے اور یہ یہ انتہائی خیر جمہوری طریقہ ہے۔یوں دوہرے ووٹ کا نظام ناگزیر ہے۔
لہٰذا ریاست پاکستان کے تینوں ستونوں کے نمائندوں اور سیاسی و دانشور مسلمان اشرافیہ سے یہ دست بدستہ گزار ش ہے کہ وہ استحکام پاکستان اور عام غیرمسلم پاکستانیوں کے مفادات کے لئے یہ کام سرانجام دیں۔ اس کام کو ایک بے ضررسی آئینی ترمیم سے انجام دیا جا سکتا ہے۔ یہ آئینی ترمیم مذہبی اقلیتوں کے ساتھ آئین کی شق226کا بھی مطالبہ ہے اور یہ آئینی ترمیم اقلیتوں کی سیاسی بے چینی بھی ختم کرے گی اور استحکام پاکستان کی بھی وجہ بنے گی۔ کیونکہ آج کے دور میں اقوام کی ترقی کے اعشاریوں میں اس چیز کی بہت اہمیت ہے کہ وہاں کے کمزور طبقات مثلاً خواتین، بچے اور مذہبی اقلیتیں کتنی مطمئن اور خوشحال ہیں۔
اس فارمولے میں بیان کئے گئے اعداد و شمار تمام اقلیتوں کے7جون2022ء تک کے اور مجموعی اقلیتوں کے اگست 2022 تک کے ہیں جن میں ردو بدل جب اس فارمولے پر عمل درآمد کا وقت آئے اس وقت کے اعداد و شمار کے مطابق کر لیا جائے۔
دوہرے ووٹ کے مطالبے پر اقلیتوں کا ردعمل
اب اس پوری صورت حال میں اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ چند ایک مسیحی سیاسی ورکر اور این جی اوز کے سماجی کارکن دوہرے ووٹ کی مخالفت کیوں کرتے ہیں۔ ان میں سے چند تو جداگانہ کے حامی ہیں اور کچھ نسبت تناسب کے ایسے نظام کی بات کرتے ہیں جس میں آئینی طور پر مذہبی اقلیتوں کے لئے ایسا انتخابی نظام وضع کرایا جائے جن حلقوں میں اقلیتی شہریوں کی آبادی ذرا مناسب ہے ان کو وہاں سے منتخب کروا کر ایوانوں میں پہنچایا جا سکے۔ تحریک شناخت کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے لکھی گئی 16کُتب کے لئے تحقیق کے دوران مسیحیوں کی اپنی دھرتی سے معاشرتی بیگانگی کے اثرات کھوجنے کے دوران تاریخ کے جبر ،معاشرتی اورامتیازی رویوں سے جنم لینے والے امتیازی قوانین کے ردعمل میں معاشرتی بیگانگی کے ساتھ ایک شناختی بحران کی بھی تشخیص ہوئی ہے جس کا اندازہ آپ ان رویوں پر میرے مشاہدے سے لگا سکتے ہیں۔
شفافیت پر میرے نکتۂ نظر سے میری رئیل اسٹیٹ برادری کے اربوں کھربوں کے مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے۔ لاکھوں لوگوں کے انفرادی مفادات پر ضرب پڑنے کا وقتی اندیشہ بھی ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ سب بھی اس نکتۂ نظر پر میری ملک وقوم اور آنے والی نسلوں کے مفاد کی دلیلیں پڑھنے سننے کے بعد اس نکتۂ نظر کی عزت کرتے ہیں اور اکثر پھر حامی بھی ہوجاتے ہیں۔ یقیناً ایسے لوگوں کی اعلیٰ ظرفی بہت قابل تحسین ہے۔ اقلیتوں کے لئے دوہرے ووٹ کے لائحہ عمل پر مبنی انتخابی نظام پر عرق ریزی سے مشقت کرنے کا مقصد بھی یہ ہی ہے کہ اس انتخابی نظام کے وضع ہونے سے ملک کی مذہبی اقلیتوں کے ہر فرد کی مذہبی و قومی شناخت ساتھ ساتھ حاصل کرنے کا واحد راستہ یہ ہی ہے۔ اس کے ساتھ یہ مذہبی و معاشرتی ہم آہنگی کے حصول کا بھی بہت آسان ذریعہ ہوسکتا ہے اور یہ مقاصد ایک بے ضرر سی آئینی ترمیم سے حاصل ہوسکتے ہیں۔ اقلیتوں کے اجتماعی و انفرادی مفادات وابستہ ہیں اور یہ مسلسل ایک دہائی کی مشقت و عرق ریزی سے پاکستان کے معروضی سماجی وسیاسی حالات اور اقلیتوں پر تھوپے گئے انتخابی نظاموں کی خوبیوں خامیوں کے بغور جائزے سے تیار کیا گیا ہے اس نظام کی سفارشات کے نتیجے میں شائد ہی صرف چند لوگوں کے انفرادی مفادات پر ضرب پڑتی ہو۔ ہاں اس نظام کی سفارشات مرتب کرتے ہوئے اس بات کا دھیان رکھا گیا ہے کہ پاکستان کے ہر انتخابی حلقے میں بسنے والے ایک ایک اقلیتی ووٹر کو بھی اس کی مذہبی و قومی شناخت پر ایوانوں پر بیٹھے نمائندے کے چننے کا حق حاصل ہو۔ پچھلی ایک دہائی سے میں نے اور میرے ساتھیوں نے یہ آگاہی مہم شروع کی ہوئی ہے کہ دوہرے ووٹ کے بارے میں حقائق وشواہد پر مبنی دلائل کو 75 سالہ وطن عزیز کی مذہبی اقلیتوں کے اس سیاسی المیہ کے متاثرین و ذمہ دارین تک پہنچایا جائے اس کے باوجود چند لوگ اس طرز انتخاب کی مخالفت کرتے ہیں۔ جس کے لئے وہ ایسی ایسی بچکانہ، غیر منطقی ،غیر سیاسی دلیلیں گھڑتے ہیں اور وہ یہ دلیلیں بغیر پڑھے، تحقیق کئے ماضی کے تجربات سے کچھ سیکھنے کے بغیر دیتے ہیں۔ صاف سمجھ آرہا ہوتا ہے کہ یہ ردعمل کسی سیاسی نظریات یا کمیونٹی کے مفاد میں نہیں بلکہ شناختی بحران میں مبتلا ہونے کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔ مفادات والے اکثر خاموش رہتے ہیں کہ کہیں ان کے مفادات معاشرے پر عیاں نہ ہو جائیں جبکہ شناختی بحران کے مارے ان بھولے بادشاہوں کو اس بات کا ذرا بھی ادارک نہیں کہ وہ اپنے اس انفرادی شناختی بحران کی بدولت ملک وقوم اور اپنی کمیونٹی کا کتنا بڑا اجتماعی نقصان کرتے ہیں۔اس سارے عمل کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس نظام کے حامی بھی اور طرح کے شناختی بحران میں مبتلا ہونے کی وجہ سے کھل کر اس آگاہی مہم میں حصہ بھی نہیں لیتے کچھ بیچارے تو اس انتخابی نظام کو پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لئے بہتر جان کر اس پر سرمایہ اور توانائی بھی خرچ کر رہے ہیں لیکن مضحکہ خیز صورتحال دیکھنے میں آتی ہے کہ وہ اسے اپنی مہم کے دوران دوہرے ووٹ کی بجائے کوئی لمبا چوڑا جملہ لکھ کر اس کی وضاحت کرتے ہیں اور کہیں کسی یوٹیوب چینل پر اپنا نقظۂ نظر بیان کرتے ہوئے بھی کوشش کرتے ہیں (کیونکہ مین اسٹریم میڈیا نے تو اقلیتوں کو میڈیا پر صرف بڑے سانحات پر ہی زیر بحث لانا ہوتا ہے) کہ کہیں لفظ دوہرا ووٹ منہ سے نہ نکل جائے ایسے بیچاروں کی کوشش صرفِ یہ ہوتی ہے کہ کہیں کسی کو اس مہم کا اصل ماحذ نہ پتہ لگ جائے دوہرے ووٹ کے حامیوں اور مخالفیں مبینہ سیاسی راہنماؤں و ورکروں کو اس نظام سے متعلق حقائق وشواہد اور دلیلوں کو نہ سمجھنے کی ایک انتہائی سر پیٹنے والی صورت حال یہ ہے کہ ایک ایم این اے عامر جیوا خلوصِ سے دوہرے ووٹ کی حمایت میں قومی اسمبلی کے فلور پر کشمیریوں کے ووٹ کی مثال دیتا ہے اور ایک دوسرا خود ساختہ سیاسی کارکن کہتا ہے۔ ‘‘ہم کوئی مہاجرین ہیں جنہیں دوہرا ووٹ دیا جائے’’۔ جبکہ اس مطالبے کا کشمیر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ 75 سالہ اقلیتوں پر تھوپے گئے انتخابی نظاموں کے تجربات سے سامنے آنے والی خوبیوں خامیوں اور پاکستانی معاشرے کے معروضی،سیاسی وسماجی حالات کی بنیاد پر تیار کیا گیا مطالبہ ہے۔ اس لاعلمی کے باوجود وہ ایم این اے قابل تحسین ہے۔ ورنہ 38خواتین حضرات کی اکثریت حامی ہونے کے باوجود اس کے موضوع پر بات نہیں کرتے کہ کہیں جس کے ایک اشارے سے میں سینیٹر، ایم این اے یا ایم پی اے ہوں اس کی طبع نازک پر یہ مطالبہ گراں نہ گزر جائے۔ حامیان دوہرے ووٹ کی شناختی بحران سے نکلنے میں کوشاں ایک اور قسم ہے جو پڑھ سمجھ کر سلیقے سے بیان کرنے پر عبور حاصل کرنے کی بجائے اس چکر میں اپنی توانائیوں کو ضائع کرتے ہیں کہ یہ ثابت کر سکیں کہ جب سکندر اعظم برصغیر میں آیا تو ان کے اجداد نے ان کے سامنے دوہرے ووٹ کا مطالبہ رکھا تھا چلو مان لیا ایسا ہی ہوا ہوگا تب بھی آپ کو اس مطالبے کی روح کو سمجھ کر بیان کرنے میں ملکہ تو حاصل کرنا چاہیے ناکہ اپنی توانائیوں کو یہ ثابت کرنے میں کہ یہ لفظ میرے اجداد نے ایجاد کیا تھا۔ ان میں سے ایک گروہ اسی بحرانی کیفیت میں یہ کہتا ہے کہ ہم نے فلاں لیڈر کی قیادت میں فلاں وقت سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس لیڈر کے ایک سچے کھرے سادہ سیاست کا ادارک رکھنے والے مشیر نے مجھے خود بتایا کہ وہ لیڈر ہمیں کہا کرتا تھا کوئی دلیلیں ڈھونڈوں دوہرے ووٹ کی پھر مشیر نے بتایا ایک دن میں نے کشمیر کے دوہرے ووٹ کی دلیل انہیں دیں۔ اس سے ان کی اس مقصد کے لئے جدو جہد اور سیاسی فہم وفراست کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مختصر اس فارمولے کے حامی اسے دلیل سے ذمہ دارین ومتاثرین تک پہنچانے کی بجائے زیادہ توانائی وقت اس بات پر لگا دیتے ہیں کہ اس مطالبے نظریئے کے بانی ہم نہیں بھی ہیں تو کوئی بات نہیں۔ لیکن تحریک شناخت والے تو نہیں ہیں۔ جبکہ تحریک شناخت کے رضا کار برملا اس بات اظہار کرتے ہیں۔
سیف انداز بیان رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
میں نے اس بات کو کتابچے کے شروع میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔
اسی طرح کے شناختی بحران میں مبتلا سیاسی ورکروں کی ایک اور قسم بھی ہے۔ جو اس نظام کو سمجھ کر اپنی پارٹی میں اپنے بڑوں سے اقلیتوں کے لئے دوہرے ووٹ یا شفاف اور انصاف پر مبنی نظام کا مطالبہ کرنے کو تو گستاخی سمجھتی ہے۔ لیکن اگر تحریک شناخت کو کوئی رضاکار انھیں دلیلوں سے قائل کر لے تو وہ اس ساری جدوجہد و عرق ریزی کا کریڈٹ بینظیر بھٹو کو دینے کے درپے ہو جاتے ہیں کہ بینظیر بھٹو دوہرا ووٹ کرنے ہی والی تھی کہ حامد ناصر چٹھہ نے اسے منع کردیاجبکہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے، کیونکہ اگر ایسا کچھ ہوتا تو وہ اپنے والد کا دیا ہوا موجودہ نظام ہی بحال کردیتی۔جو صرفِ مخلوط اور جداگانہ سے قدرے بہتر ہے۔ یہ بھی جنرل مشرف نے اقلیتوں پر احسان کیا اور اسے دوبارہ بحال کیا۔ جب کہ یہ موجودہ انتخابی نظام بھی مسیحیو نے شہداء 30 اگست 1972،کے خون کے عوض 21نومبر 1975کو ہونے والی آئینی ترمیم کے زریعے حاصل کیا تھا۔ وہ تو دو دفعہ سرکار میں آنے کے باوجود موجودہ لولی لنگڑی دوہری نمائندگی والی آئینی شق بھی بحال نہ کر پائی۔جس طرح تحریک شناخت نے دس سال مسلسل عرق ریزی سے دوہرے ووٹ کا یہ مطالبہ و لالحہ عمل پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کی سیاسی ،سماجی ومعاشرتی ضرورتوں کے مطابق تیار کیا ہے۔ ایسا کوئی ثبوت تو برصغیر کی تاریخ میں نہیں ملتا۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت اور المیہ ہے کہ،انکی کابینہ میں ایک دفعہ مسیحی وزیر بھی تشریف فرما تھے۔اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے،کہ یہ وزیر ،قابل احترام جے سالک صاحب تھے جنہوں نے میری عمر کی اس نسل کو الیکشن مہم کے دوران بتایا کہ جداگانہ ووٹ اقلیتوں کے لئے کتنا زہر قاتل ہے۔اور یقینا یہ ایک سماجی معاشرتی اور سیاسی لعنت تھی۔ لیکن کابینہ میں یا تو کوئی متبادل انکے پاس تھا ہی نہیں؟ یا پھر پتہ نہیں کیوں وہ چپ سادھے رہے۔؟
2022 میں اکمل بھٹی فیصل آباد سے مجھے ملنے آئے، وہ دوہرے ووٹ کی آگاہی مہم میں کھلے دل ودماغ سے شامل ہیں۔انہوں نے مجھے بتایا کہ‘‘ ہم دوہرے ووٹ کی لابنگ کے لئے پیپلز پارٹی کے سعید غنی سے ملے انہیں اپنا موقف بتایا تو وہ ہم سے بحث کرتے رہے کہ اقلیتوں کے لئے دوہرا ووٹ نہیں ہوسکتا بے شک آپ کوشش کرتے رہیں’’۔اس سب کے باوجود بھی اگر ایسی کوئی بات ہوئی بھی ہو گی تو وہ موجودہ سلیکشن والی دوہری نمائندگی کی بحالی کی ہوئی ہو گی ۔یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ ہمارے سیاسی ورکر دوہرے ووٹ اور موجودہ سلیکشن والی دوہری نمائندگی میں فرق نہیں کر پاتے۔ یہ ایک المیہ ہے۔ تاریخ کے جبر اور ہزاروں سال سے ظلم و ستم سہنے اورغلامی کی زندگی گزارنے سے یہ بھی ایک ذہنی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ ہم میں سے کیسے کوئی اچھا سوچ سکتا ہے۔؟ جبکہ بھٹو، ضیا، نواز شریف، بینظیر اور عمران خان نے ان تقریباً ایک کروڑ خاک نشینوں کے لئے اور انکی موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے کب اتنی سنجیدگی اور لگن سے سوچا ہے؟ یہ سوال ایسے سیاسی ورکروں سے ضرور کرنا چاہیے۔
اس شناختی بحران کا شکار کچھ آئین و سیاسیات کے علم کے سماجیات سے تعلق سے نابلد اسے غیر آئینی قرار دیتے ہیں۔ وہ اس بنیادی فلسفے کو جانے بغیر کے انسانوں کی سہولت اور معاشروں کو متوازن و خوبصورت بنانے کیلئے آئین بنائے جاتے ہیں اور ضروریات کو پرکھ کر ان میں ترامیم کی جاتی ہیں۔ کیونکہ انسانوں کی تخلیق آئین کی ضروریات کے لئے نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ انسانوں کی زندگیوں کو آسان بنانے کے لئے آئین تخلیق کئے جاتے ہیں۔ بصورتِ دیگر یونان سے پھوٹنے والے لفظ جمہوریت و آئین کا ارتقائی سفر وہی کہیں میگنا کارٹا جیسی منزلوں پر ہی رک چکا ہوتا۔ جبکہ ہم آئینی ترمیم کی ڈیمانڈ کر رہے ہیں۔ اس کے لئے کسی ضیاء یا مشرف سے التجاء نہیں کر رہے ہیں۔مسحیو میں سماجی خدمت کو بطور صنعت اور روزگار اپنانے کے ساتھ شناختی بحران کے اس المیے کا ایک پہلو یہ بھی ہے،کہ ضیاء الحق کے جداگانہ انتخابات کے نفاذ کے نتیجے میں پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کے عملی طور پر معاشرتی اچھوت اور سیاسی شودر بننے کے بعد جن قوتوں مثلآ چرچ کے ذیلی ادروں ،غیر سرکاری تنظیموں ، روشن خیال اکثریتی پاکستانی شہریوں نے دھرتی کے بچوں کی اس لعنت سے جان چھڑائی ہے۔۔وہ یقیناً پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کے محسن ہیں۔ اور جیسے جیسے مسیحیو کا سیاسی شعور بڑھے گا وہ بھی ان کی عزت و تکریم کریں گے۔ لیکن آج وہ لوگ بھی اپنے روزگار کی مجبوریوں ،کی بدولت بین الاقوامی اداروں کے کہنے پر اس معاشرے کے معروضی حالات کو جانتے بوجھتے زمینی حقائق و حالات سے متضاد کسی نئے تجربے کا پروپیگنڈہ کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں سے کئی بیچارے تووہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے ضیاء الحق والے مسخ شدہ جداگانہ طریقہ انتخاب سے اس ملک کی مذہبی اقلیتوں کی جان چھڑانے کی عملی جدو جہد میں حصہ لیا تھا۔ان کے موجودہ پیش کردہ فارمولے پر پچھلے صفحات میں تفصیلی بحث ہو چکی ہے۔
ان میں سے کچھ اپنی اس شناختی بحران کی بیماری کو چھپانے کے لئے بائیں بازو کے خیالات کو ڈھال بنا کر دوہرے ووٹ کی رعایت لینے کو برا کہتے ہیں۔ جبکہ ان کے قول و فعل کے تضاد کا یہ عالم ہے، کہ وہ بائیں بازو کے خیالات کی ترویج کے لئے گرجے کی ذیلی تنظیموں سے دنیا بھر سے وسائل مانگتے پھرتے ہیں۔
امبیڈکر جیسے عظیم لیڈر جو پہلے شیڈول کاسٹ کے لئے ہندو جاتی سے علیحدہ دوہرے ووٹ پر بضد تھے اور بعد میں ہندو جاتی کے ساتھ دلتوں کے لئے مخصوص نشستوں کے کوٹے پر کیسے مانے اس کے لئے اس وقت کے حالات واقعات کو بہت عرق ریزی سے کھنگالنے کے ساتھ ہندوستان کی آبادی میں شیڈول کاسٹ و دیگر اقلیتوں کے متحرکات کو جاننا بھی بہت ضروری ہے۔ تب یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بعد میں آئین بناتے ہوئے ہندوستان کے آئین کا یہ بانی پھر نسبت تناسب پر کتنی بڑی آئینی رعایتوں کے عوض یا کن حالات کا ادارک کرکے تیار ہوا یہ پورا پی ایچ ڈی کا تھیسس ہے اور عرق ریزی اور مشقت کا متقاضی ہے جس کے لئے مقصد سے لگن،خلوص اور جہد مسلسل کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کا مختصر احوال یہ ہے۔
حکومت برطانیہ نے برصغیر میں انتخابی سیاست متعارف کروانے کے بعد انڈین کونسلز ایکٹ 1909جسے مورلی منٹو اصلاحات بھی کہا جاتاہے۔ میں ہی اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں کے علاؤہ جنرل نشستوں پر انتخابات لڑنے اور ووٹ ڈالنے کا حق بھی متعارف کروایا تھا .جو یقیناً دوہرے ووٹ کا ہی حق تھا.کیونکہ اس میں مخصوص نشستوں پر انتخابات کے ساتھ اقلیت قرار دیئے گئے مذہبی گروہوں کو جرنل نشستوں پر ووٹ ڈالنے اور انتخاب لڑنے کا حق تھا۔۔۔جس میں بعد میں 1930میں دلتوں کو بھی پسے ہوئے طبقات کے نام سے ایک اقلیتی گروہ قرار دیا گیا۔۔جس کے لئے برطانوی وزیر اعظم رمزے میکڈونلڈ نے برصغیر کی 11مذہبی اقلیتوں کے لئے کمیونل ایوارڈ کے سے انتخابی نظام متعارف کروایا ،لیکن گاندھی جی کی اس نظام کے خلاف بھوک ہڑتال کے نتیجے میں ڈاکٹر بھیم ،راؤ ،رام، امبیڈکر نے اپنے ساتھیوں کے کہنے پر پونا پیکٹ کرکے کے اپنے لوگوں کے لئے ہندؤ دھرم کے اندر رہتے ہوئے کمیونیل ایوارڈ سے کہیں زیادہ نشستیں مخصوص کروا لی۔ اس تاریخی واققہ کے بارے میں کئی کتب و آرٹیکل میں یوں لکھا گیا ہے۔یقینا یہ 1930 ہی کا زمانہ تھا۔جب اقلیتوں کے لئے خصوصاً سماج و معاشرے کے پسماندہ اور ٹھکرائے ہوئے طبقات کے لئے جداگانہ مذہبی شناخت کے ساتھ جرنل نشستوں کے لئے بھی انتخابات کا راستہ کھلا رکھنے کے لئے دوہرے ووٹ کی اصطلاح استعمال کی گئی۔اسی پونا پیکٹ کے اثرات گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935پر پڑے۔جس میں مسلمانوں، سکھوں ، مسیحو ودیگر اقلیتوں کے لئے دوہرے ووٹ کا انتخابی نظام معتارف کروایا گیا۔ جو صرف جداگانہ طریقہ انتخاب کے نام سے مشہور ہوا۔جس کے لئے امبیڈکر ہمیشہ یہ کہتے رہے۔‘‘کمیونیل ایوارڈ میں دیا گیا ہمارا دوسرا ووٹ ہمارا بہت بڑا سیاسی ہتھیار ہوتا جو ماضی کی ناقابل تلافی غلطیوں کا ازالہ کرتا۔’’
انڈین کونسلز ایکٹ 1909، المعروف مورلی منٹو اصلاحات ،پونا پیکٹ ،کمیونل ایوارڈ کے پس منظر اور ڈاکٹر بھیم راؤ رام امبیڈکر جی کے پونا پیکٹ پر پچھتاوے کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دلتوں کے لئے مذہبی شناخت کیلئے مخصوص جداگانہ نشستوں کے ساتھ جنرل نشستوں پر الیکشن لڑنے اور ووٹ ڈالنے کا راستہ بھی کھلا رکھا گیا تھا۔اس کے لئے دوہرے ووٹ کی اصطلاح استعمال کی گئی۔اس تاریخی حقیقت سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ضیا الحق نے اقلیتی زعماء خصوصاً مسیحو کے کہنے پر جو انتخابی نظام ان پر تھوپا۔وہ اقلیتوں اور معاشرے کے پسماندہ طبقات کے لئے حکومت برطانیہ کے متعارف کروائے گئے کمیونل ایوارڈ/دوہرے ووٹ کے ایک حصے کی مسخ شدہ شکل تھی۔جس میں ضیا الحق کے ماہرین نے مذہبی شناخت پر الیکشن لڑنے کا حق دے کر اقلیتوں سے جنرل نشستوں پر انتخابات لڑنے اور ووٹ ڈالنے کا حق سلب کرلیا تھا۔اس نظام کے وضع ہونے کا سب سے شرم ناک پہلو یہ تھا کہ ہمارے اس وقت کے سیاسی و سماجی اکابرین بھی آج جیسے ہی تھے۔جو اجتماعی مفادات کی حفاظت کے لئے درکار فہم و فراست و خلوصِ سے عاری تھے۔ ان میں سے اکثر جو میرے لئے انتہائی قابل احترام ہیں۔لیکن انہیں آج بھی اگر کہا جائے کہ جناب اس مسئلے پر بات کرنے سے پہلے کچھ پڑھ کر اس مسئلے کو سمجھ لو تو وہ بڑے تفاخر سے کہتے ہیں ‘‘پڑھنے کا ہمارے پاس وقت نہیں’’شائد اسی لئے وہ جداگانہ انتخابی نظام کے بغیر کوئی متبادل دیئے مخالفت بھی کرتے رہے اور پانچ بار اس نظام کے تحت الیکشن بھی لڑتے رہے۔ کمال یہ ہے کہ ان تاریخی حقائق کے ہوتے ہوئے بھی نہ 21 نومبر 1975 کو آئینی ترمیم کروانے والے مسیحو نے، نہ کبھی 1985سے لے کر 1997 تک پانچ بار الیکشن میں حصہ لینے والے ایم این ایز ،ایم پی ایز نے نہ این جی اوز والوں نے ان تاریخی حقائق کی طرف توجہ دی۔ مجموعی طور پر 1970کے ‘‘بالغ حق رائے دہی والے’’انتخابات کے بعد سے آج 2024 تک 54 سال میں کسی کی نظر ان حقائق پرہی نہ پڑی۔انتہائی ندامت کی بات یہ ہے۔ان سیکنڑوں خواتین وحضرات میں سے خاصے پڑھے لکھے، اور کئی تو وکلاء بھی رہے ہیں۔ ان سارے حقائق کے آشکار ہونے کے بعد تو آج جولائی 2024 کو یہ سطریں لکھے جانے تک۔جو بیچارے اس تاریخی غلط العام کی بنیاد پر ضیاء الحق کے دیے گئے مسخ شدہ جداگانہ انتخابی نظام کو ہی برطانوی جداگانہ اقلیتی انتخابی نظام جو دراصل دوہرے ووٹ والا انتخابی نظام تھا سمجھیں بٹھیے ہیں۔انکا کوئی قصور بھی نہیں اور وہ بہت ہی سادہ لوح اور معصوم ہیں۔ ہاں اگر ان میں سے کچھ یہ حقائق جاننے کے بعد پھر بھی اپنے مطالبے پر ڈٹے رہتے ہیں۔ پھر نہ تو وہ معصوموں کی فہرست میں ہونگے نہ سادہ لوحوں کی۔
اس فارمولے کو تیار کرتے ہوئے ان سارے حقیقی شواہد اور برصغیر سماجی رویوں،زمینی حقائق،معروضی حالات آبادی کے متحرکات کو ملحوظ خاطر رکھا گیاہے۔ اس لئے سنی سنائی باتوں سے ایسے معاملات کی سمجھ نہیں آسکتی۔لیکن یہ ایک المیہ ہے کہ متاثرین و ذمدارین عرق ریزی سے تیار کردہ اس مطالبے کو سمجھنے کے لئے 30 مِنٹ دینے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ یہ دلچسپ پہلو ہے مخالفیں اسی تحقیق سے حاصل شدہ اعدادوشمار اور معلومات سے استفادہ کرتے ہیں اور اپنے جھوٹے سچے و زہریلے دلائل گھڑتے ہیں۔بلکہ چند دن پہلے ہی ایک این جی او والے ایک صاحب کا فون آیا کہ ‘‘ آپ کی کس کتاب میں اس موضوع پر اعداد و شمار ہیں میں دوہرے ووٹ کے خلاف ایک کتابچہ لکھ رہا ہوں’’۔
وہ تو کھرے اور سچے انسان تھے ورنہ پتہ نہیں کاریگر حضرات کیسے کیسے ان اعداد و شمار کو اپنے کن کن مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہونگے۔ خیر میں شفافیت کو معاشرے کے لئے آکسیجن سمجھتا ہوں اور یہ جس معاشرے میں جتنی زیادہ ہوگی۔ فکری آلودگی اتنی ہی کم ہوگی۔پاکستانی مسیحیو کی اپنے معاشرے سے بیگانگی کے مرض سے پیدا ہونے والی سماجی،تعلمیی، معاشی، تہذیبی، معاشرتی محرومیوں،کمزریوں اورپستیوں کی وجوہات کھوجنے کی جستجو میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ تاریخ کے جبر کی بدولت پیدا ہونے والی دیگر بیماریوں میں سے سرفہرست یہ شناختی بحران ہی ہے۔جو اس سر زمین پر بسنے والے مسیحیو اور شیڈول کاسٹ ہندوؤں کو ان اجتماعی پستیوں سے نہیں نکال پارہا ہے ۔ اس معاشرے کی دیگر سماجی برائیوں کے خلاف بہادری سے لڑتے سیاسی ، سماجی اور سیاسی رجحانات رکھنے والے مذہبی ورکروں کو یہ بات سمجھ لینے چاہیے کہ اس نظام کے مطالبے سے پہلے کی گئی عرق ریزی کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ اس نظام کا وضع ہونا پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے دیگر 80فیصد مسائل کے حل کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ اس سارے تجربات و مشاہدات کا یہاں بیان کرنے کا مقصدِ یہ ہے کہ متاثرین و ذمہ دارین کو اس بات کا احساس دلایا جاسکے۔ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں و ملک وقوم کے مفاد میں یہ فارمولا بڑی محنت سے مسلسل عرق ریزی سے تیار کیا گیا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کچھ نئے اعداد و شمار شعیب سڈل کمیشن کی ہدایات پر الیکشن کمیشن ودیگر اداروں سے جہد مسلسل سے حاصل ہونے کے بعد اس کتابچے کو مہینوں کی محنت سے دوبارہ لکھنا پڑا ہے۔ سابقہ بزرگ سیاستدان و ایم این اے جداگانہ کو چار پانچ بار بھگتنے والے عمانوئیل ظفر صاحب کھل کر 2013 سے دوہرے ووٹ کی اس آگاہی مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔
طارق سی قیصر جداگانہ کے ذریعے کئی بار ایم این اے بننے والے نے 2017ء میں دوہرے ووٹ کا مطالبہ زبانی کلامی پیش کیا۔ جے سالک جداگانہ کے ذریعے چار بار ایم این اے بننے والے وہ واحد لیڈر تھے۔ جنہوں نے سب سے پہلے جداگانہ کی برائیوں کو اقلیتوں کے سامنے واشگاف الفاظ میں بیان کیا لیکن آج وہ بھی ان کی اس وقت کی بتائی ہوئی قباحتوں کی بنیاد پر بنائے گئے متبادل کے ساتھ کھل کھلا کر جدوجہد نہیں کر رہے۔ مسیحیو کا کچھ احوال میں نے اوپر بیان کردیا ہندوں میں رمیش کمار نے 2014 میں بل پیش کیا جو آج تک ڈیفر پڑا ہے یقینا اس میں درکار عرق ریزی اور مقاصد کے حصول کے لئے درکار لگن و جنون کی کمی ہو گی ورنہ ریاستی و سیاسی اشرافیہ کو اس بے ضرر آئینی ترمیم میں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔رمیش کمار کے بل کے علاوہ ہندو جاتی و شیڈول کاسٹ پاکستانی شہری افراد اور ان کی سماجی وسیاسی تنظیمیں اور شخصیات بظاہر98 فیصد اس نظام کی حامی ہونے کے باوجود اسی شناختی بحرانی کیفیت کی وجہ سے اس مہم میں جی جان سے حصہ نہیں لے رہے۔ حالانکہ حامی سب ہیں لیکن کھل کھلا کر صرف چند شیڈول کاسٹ لیڈر ہی اس آگاہی مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔اس شناختی بحران کے سیاسی ورکروں کی شعوری سطح پر یہ اثرات مرتب ہوچکے ہیں کہ کئی جماعتوں کے کچھ عہدے دار اس نظام کے حق میں کچھ کہہ رہے ہوتے ہیں کچھہ کوئی اور نکتۂ نظر بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے جب مخلوط کی خامیوں سے تنگ آکر جداگانہ ڈکٹیٹر سے لیا تو کوئی ہوم ورک نہیں تھا پھر جب جداگانہ اور مخلوط دونوں کی خامیوں سے تنگ آکر موجودہ نظام کی ترمیم پہلی بار 1975میں کروا کر شانت ہوگئے اس وقت اس کی خامیاں سامنے اس لئے نہ آسکی کہ 77 کے انتخابات مانے ہی نہیں گئے مارشل لاء لگ گیا۔ پھر جداگانہ 1999تک بھگتنے کے بعد جب دوبارہ پھر 2002 میں 1977والا نظام بحال ہوا تو تو اس کے ساتھ جڑی قباحتوں کا ادارک نا ہوا اب پھر این جی اوز نے بغیر کسی ہوم ورک اور معروضی حالات اور پچھلے تین نظاموں کی خوبیوں خامیوں کے سامنے آنے کے بعد ایک چوتھے نسبت تناسب والے نظام کی بات شروع کردی ہے۔
جداگانہ کے حامیوں کا یہ رویہ بہت ہی حیران کن ہے کہ جب دہرے ووٹ کے فارمولے میں یہ سب سے پہلے لکھا جاتا ہے۔دوسرے مذہبی شناخت والے ووٹ کے لیے بنیادی فارمولا وہ ہی ہوگا۔جو 1985سے 1997تک پانچ بار آزمایا جا چکا ہے۔ پھر انہیں دوسرے ووٹ پر کیا اعتراض ہے اگر ریاست، حکومت یا دوسرے شہری اس امتیازی سلوک پر زور دیں تو سمجھ آتی ہے لیکن کوئی اپنے لئے خود امتیازی سلوک اور آئینی ترمیم کا مطالبہ کرے۔ تویہ بہت ہی پریشان کن رویہ ہے جبکہ اس نظام سے جڑے مثبت پہلووں کو جوں کا توں اس مطالبے کا حصہ بنایا گیا ہے۔ بظاہر یہ ہی سمجھ آتا ہے کہ ایک آدھ کے ذاتی مفاد یا اس کے دیگر حواریوں کی معصومیت و شناختی بحران کے علاوہ اس رویے کی کوئی دوسری وجہ نہیں ہے یا اگر ہے تو وہ بہت ہی خطرناک ہے اور اس سے معاشرے کا ہر سیاسی و سماجی شعور رکھنے والا شہری سمجھتا ہے کہ معاشرے میں تفریق پیدا کرنا کن قوتوں کا مطمع نظر ہے اور وہ ملک، قوم اور اقلیتوں کے لیے کتنے خوفناک اثرات کا منبع ثابت ہو سکتا ہے۔
(اس مطالبے میں چند لوگوں کی بدنیتی اور زیادہ تر لوگوں کی لاعلمی اور اس لاعلمی کے پیچھے وہ لوگ زیادہ ہیں جو اپنے آپ کو سیاسی کہتے ہیں اور ان کے ہاں سیاسی ہونے کا معیار یہ ہے کہ کسی بھی حلقے سے 20سے 25ہزار روپے خرچ کرکے بطور امیدوار کاغذات داخل کر دیں اور پھر چند ووٹ لینے کے بعد اعلان کر دیں کہ میں سیاسی ہوں ۔ یقینا یہ ان کا جمہوری حق ہے لیکن اپنے اس جمہوری حق کی بنیاد پرتقریباً90لاکھ غیر مسلموں کے لئے انتہائی بے دلیل ،غیر جمہوری، بنیادی شہری، انسانی و سیاسی حقوق کے متصادم انتخابی نظام کا مطالبہ کرنا کسی بھی طرح جائز نہیں۔ ان چند سیاسیوں میں سے ہر کوئی یہ بھی سمجھتا ہے کہ 38سیٹوں میں سے ہر سیٹ کا حقدار دوسرے غیر مسلم نمائندوں سے زیادہ ہے)
تحریک شناخت نے تقریبا دہائی سے مسلسل تحقیق کے ساتھ آگاہی مہم بھی شروع کی ہوئی ہے۔ اپ صرفِ آدھا گھنٹہ دے کر اسے پڑھ لیں۔ ایسی فکری انارکی و شناختی بحرانی کیفیت میں جو لوگ خلوصِ سے اس مہم میں حصہّ لے کر یہ ماضی کے نظاموں کی خوبیوں خامیوں کے بغور مطالعے اور حقائق کی بنیاد پر تیار کردہ فارمولا ذمہ دارین و متاثرین تک پہنچا رہے ہیں اور سمجھ کر لوگوں کو قائل بھی کررہے ہیں وہ قابلِ تحسین ہیں۔ فرداً فرداً ان کے نام یہاں لکھنا ممکن نہیں کیوں کہ سیاسی و فکری قحط الرجالی کے اس دور میں بھی اقلیتوں کے ان حقیقی محسنوں کی تعداد دنیا بھر میں ہزاروں میں ہے۔
خواتین کی مخصوص نشستوں کے انتخابی نظام کا ماضی و حال کا جائزہ
جب سے برصغیر میں پارلیمانی سیاست کا آغاز ہوا ہے شروع کے چند سال چھوڑ کر خواتین نے اس میں بھرپور حصہ لیا ہے خصوصاً پنجاب اور سندھ کی صوبائی اسمبلیوں میں ہندؤ اور مسلمان خواتین کا قابل ذکر کردار رہا ہے ان پلیٹ فارموں اور کانگریس اور مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے خواتین نے آزادی ہند اور بعد میں تحریک پاکستان کی جدو جہد میں حصہ بھی لیا۔یہ تسلسل قیام پاکستان کے بعد بھی جاری رہا۔قیام پاکستان کے بعد سے بھی خواتین پارلیمانی سیاست میں سرگرم حصہ لیتی رہی ہیں۔ پہلی اور دوسری دستور ساز اسمبلیوں میں ان کی نمائندگی کم رہی، تاہم آئین پاکستان میں ہونے والی ترامیم سے پارلیمنٹ میں ان کی مزید شرکت کا راستہ ہموار ہو گیا۔ اس کے علاوہ، ترقی پسند قوانین نے گذشتہ برسوں میں قانون سازی اور ایگزیکٹو عہدوں پر اپنی شراکت کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کی۔ 2002 کے بعد سے خواتین سیاست دانوں نے وفاق کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلیوں میں بھی نمایاں نمائندگی کی ہے۔
مسلمان خواتین کی مساوی شہری ہونے کی حیثیت سے خواتین عام انتخابات لڑنے اور قومی، صوبائی اور مقامی سطح پر کسی بھی عوامی عہدے پر بلا امتیاز منتخب ہونے کے لیے آزاد ہیں۔ انھیں آزادانہ حق ہے کہ وہ تمام انتخابات، عام یا ضمنی انتخابات میں اپنے حق رائے دہی کو استعمال کریں۔ وہ خواتین کے مخصوص کوٹہ کے ذریعہ بھی اور براہ راست انتخابات بھی لڑ سکتی ہیں۔ مسلمان خواتین کو کسی بھی اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز ہونے کی کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے۔ پاکستان نے بطور وزیر اعظم، وفاقی وزیر، اسپیکر اور قائد حزب اختلاف وغیرہ کی حیثیت سے خواتین کو مواقع دئے ہیں۔
سیاست میں خواتین کی نمائندگی کے بارے میں آئینی اور قانون سازی کے اقدامات اور ترامیم
پاکستان میں پے درپے آنے والی حکومتوں اور اراکین پارلیمنٹ نے قانون ساز اداروں میں خواتین کی نمایاں نمائندگی کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس کے لیے حکومت نے آئین اور پاکستان کے قوانین میں متعدد دفعات متعارف کرانے کے ذریعے مثبت اقدامات اٹھائے۔ مثال کے طور پر1956 کے آئین پاکستان کے تحت بننے والی پارلیمنٹ نے خواتین کے لیے 10 نشستیں پانچ مشرقی اور پانچ مغربی پاکستان میں مختص کیں۔
1962 کے آئین پاکستان نے قومی اسمبلی میں خواتین کے لیے چھ نشستیں تین مشرقی اور تین مغربی پاکستان سے مختص کی ۔آئین پاکستان 1973 نے آئین نے قومی اسمبلی کے لیے، دس سال کی مدت کے لیے خواتین کے لیے دس نشستیں مخصوص کیں۔ 1985 میں، دس نشستوں کو بڑھا کر بیس کر دیا گیا تھا، جبکہ خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کو سن 2002 میں جنرل پرویز مشراف کے دور میں 60ساٹھ کردی گئی۔
آئین پاکستان 1973 کی مختلف شقوں میں صنفی بنیادوں پر امتیازی سلوک کے خاتمے اور ہر شعبہ زندگی میں خواتین کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کرکے صنفی مساوات کو کم سے کم کرنے کے ریاست کے عزم کی تصدیق کی گئی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 17 (2) ہر شہری کو کسی سیاسی جماعت کے تشکیل یا رکن بننے کا حق فراہم کرتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 34 میں قومی زندگی میں خواتین کی مکمل شرکت پر زور دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ “قومی زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کی مکمل شرکت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔” آئین میں ضمانت دیے گئے بنیادی حقوق کو نافذ کرنے کے لیے، سیاسی عمل میں خواتین کی بڑھتی ہوئی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے آئین میں نمایاں ترامیم کے ساتھ ساتھ انتخابی قوانین بھی بنائے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر، خواتین کے لیے قومی اسمبلی میں 60 نشستیں آرٹیکل 51 [4] کے تحت قومی اسمبلی میں مخصوص کی گئی ہیں۔جنکی تفصیل یوں ہے صوبہ پنجاب سے 32سندھ سے 14کے پی سے 10اور بلوچستان سے 4 قومی اسمبلی کی نشستیں ہیں۔اور آرٹیکل 59 کے تحت پاکستان کی سینیٹ میں 17 نشستیں محفوظ ہیں۔ جبکہ، صوبائی اسمبلیوں کے لیے 168 نشستیں یعنی آئین کے آرٹیکل 106 کے تحت بلوچستان (11)، خیبر پختونخوا (26)، پنجاب (66) اور سندھ (29) اسی طرح، الیکشن ایکٹ، 2017 نے سیاسی جماعتوں کو ہدایت کی کہ وہ عام نشستوں پر امیدوار کھڑا کرتے وقت کم از کم پانچ فیصد خواتین امیدواروں کی نمائندگی کو یقینی بنائیں، یہ سب قانون ساز اداروں میں خواتین کی نمائندگی کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک ترقی پسندانہ رؤیہ ہے۔ اس میں سب سے بڑا بریک تھرو یقیناً 2002والا پرویز مشرف کا اقدام ہے۔لیکن کچھ چیزیں سننے میں بہت اچھی لیکن جب عملی طور پر اس پر عمل درآمد ہوتا ہے تو کسی نظام کی خوبیوں اور خامیاں کھل کر سامنے آتی ہیں۔مثلا یقیناً یہ بہت اچھی نیت سے کیا گیا اقدام ہے۔لیکن عملی طور پر یہ صوبائی اور قومی اسمبلی کی 192 نشستیں جو مخصوص تو اس ملک کی آدھی آبادی جو تقریبا ساڑھے بارہ کروڑ خواتین پر مبنی ہے انکی صنفی شناخت پر کی گئی ہیں لیکن اس کا سب سے بڑا غیر جمہوری پہلو یہ ہے، کہ اقلیتوں کی 34نشستوں کی طرح ہی ہے اسکا فیصلہ بھی پانچ چھ شخصیات ہی کرتی ہیں اور ان ساڑھے بارہ کروڑ خواتین میں سے چند کو ہی پتہ ہوگا کہ ہماری صنفی شناخت پر ایوانوں میں ہماری اتنی نمائندگی بھی ہے۔اور زیادہ تر ان نشستوں کی تقسیم یا تو حکمران اپنے خاندان کی خواتین کو ان کے مخصوص نشستوں کے لئے سرکاری مراعات دلواتے ہیں یا پھر ایسی وفادار خواتین کو نوازہ جاتاہے۔ جو ایوانوں میں نمائندگی حاصل کرنے بعد یہ بات ہی بھول جاتی ہیں کہ انھیں معاشرے کے کس کمزور طبقے کی صنفی شناخت پر یہ منصب جلیلہ ملا ہے۔ جسکی بدولت جس نیت و مقصد سے یہ مخصوص نشستیں مختص کی گئی تھیں وہ قطی حاصل نہیں ہوا۔گوکہ ان 192 خواتین کی مخصوص نشستوں کے مختص کرنے کے بعد سے اب تک 22سال میں پانچ انتخابات ہوچکے ہیں۔ اقلیتوں کی 34نشستوں اور خواتین کی 192کو پر کرنے کا طریقہ بلکل ایک سا ہے ،بس پاکستان کی مسلمان خواتین کو اقلیتوں پر یہ فوقیت ہے۔ کہ وہ پاکستان کے کسی بھی اعلیٰ عہدے کے لئے بھی منتحب ہوسکتی ہیں۔ جب کہ یہ موقع غیر مسلم شہریوں کے لئے نہیں ہے۔ لیکن مخصوص نشستوں کے لئے چننے کے طریقے میں خواتین کو چننے کے لئے اتنا تردد بھی نہیں کیا جاتا جتنا اقلیتوں کے کیس میں ہے۔کیونکہ سیاسی اشرفیہ کے چار یا پانچ لوگ جب اقلیتوں کے لئے نمائندہ چنتے ہیں تو متعلقہ امیدوار جھوٹ سچ کے زریعے یہ ثابت کرتا ہے کہ جناب میں آپکا وفادار ہونے کے ساتھ متعلقہ کمیونٹی میں بھی اثر رکھتا ہوں گو کہ دوسرا دعواہ زیادہ تر جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے۔اسی جھوٹے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لئے اکثر اقلیتی امیدوار اسمبلیوں میں کبھی کبھار محتاط انداز میں اقلیتوں کی بات بھی کرتے ہیں اور اقلیتوں کی سماجی تقریبات میں بھی شرکت کرتے ہیں۔لیکن خواتین کو چننے کے لئے یہ تکلف بھی نہیں کیا جاتا بس یا تو حکمران خاندانوں کی خواتین یا انتہائی وفادار خواتین کو یہ نشستیں بانٹی جاتی ہیں۔ اس لئے نہ وہ خواتین کے حقوق کے لئے کوئی بات کرتی ہیں نہ کسی طرح اس ملک کی آدھی آبادی کے لئے جو تقریباـ ساڑھے 12 کروڑ ہیں۔کچھ عملی، فکری ، شعوری یا معاشی ترقی کے لئے کچھ کرتی ہیں۔بلکہ بائیس سال سے پانچ بار اس طریقہ انتخابات کے زریعے960 بار ایم این اے، ایم پی اے ایز منتخب ہونے والی خواتین نے کوئی بہت سماج کو بدل دینے والی قانون سازی خواتین کے حق میں کروائی ہو۔اہل وطن سوچیں اگر یہ طریقہ انتخاب متعارف کروانے والوں نے اگر قوموں کی زندگیوں میں ایسے فیصلے کرتے ہوئے اگر اسی دانش ،خلوص کا مظاہرہ کیا ہوتا جو ایسے کاموں کی ضرورت ہوتا ہے۔تو صرف بائیس سال میں یہ 960بار چنی جانے والی خواتین ایک سماجی انقلاب نہ بھرپا کر دیتی خیر اگر انسان انفرادی یا اجتماعی خود احتسابی کی اخلاقی جرآت رکھتا ہو تو کبھی بھی دیر نہیں ہوتی۔ طریقہ انتخاب انتہائی ناقص ہونے کا یہ ہی نتیجہ ہے۔کہ ایک آدھ استشعات کو چھوڑ کرخواتین نے بھی خالص قومی مسئلوں کو ضرور اُجاگر کیا لیکن جس بنیاد پر انھیں یہ پر کشش مراعات والی نمائندگی دی گئی ہے۔کسی بھی خاتون نے کسی بھی ایوان میں کبھی خالص خواتین کے اجتماعی مسائل پر بات نہیں کی۔ گوکہ یہ مخصوص نشستوں کا نظام یقینا بہت اچھی نیت سے وضع کیا گیا ہوگا۔ لیکِن اب تک کی ان مخصوص نشستوں پر چنے جانے والی شخصیات خصوصاً خواتین کی مخصوص نشستوں پر چنی جانی والی خواتین کی کارکردگی یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ اس غریب سود پر آدھار لے کر گزارہ کرنے والی قوم کے کھاتے میں سیاسی اشرفیہ نے کتنا بڑا بے دریغ پیسے و وسائل کے اسراف کا راستہ کھولا ہوا ہے۔خواتین کی نمائندگی کیلئے جن خواتین کو منتخب کیا جاتا ہے۔وہ زیادہ تر حکمران طبقے یا اشرافیہ کے تعلق کی بنیاد پر نامزدگی جاتی ہے ناکہ اہلیت کی بنا پر لہٰذا اگریہ نمائندگی دینے کیلئے خواتین کی ان مخصوص سیٹوں کو پر کرنے کا ایسا نظام وضع کر لیا جائے جس میں جنکی شناخت پر یہ نمائندگی دی جاتی انکی بھی شمولیت ہو جائے تو پھر دنیا دیکھے گی کہ کیسے نہ صرف ،پنجاب ،سندھ، بلوچستان اور کے پی کے چند گھرانوں کی خواتین کی جگہ پورے ملک کی خواتین اس انتخابی عمل میں بھی حصہ لے سکے گی۔ جس سے وطن عزیز کی تقریباً 50 فیصد آبادی کی سیاسی تربیت بھی ہوگی اور منتخب ہو کر آنے والی خواتین اپنی ہم صنفوں کے مسائل بھی اسمبلی میں بیان کر سکیں گی۔ وہ اپنے اپنے پارٹی رہنما کی بجائے اپنے حلقے کی خواتین کی نمائندہ ہونگی اور شام کو ٹی وی ٹاک شوز میں اپنے اسمبلیوں میں پہنچانے والوں کے قصیدے پڑھنے کے بجائے اپنی ہم صنف جنکی شناخت کی بنیاد پر انھیں یہ انتہائی مراعات والی نشستوں پر چن لیا جاتاہے، وہ پھر وہ ہی کام سر انجام دیں گی۔ موجود ہ اقلیتی و خواتین کے مخصوص نشستوں پر انتخابی نظام کے ہوتے ہوئے ہم ان خواتیں وحضرات سے گلہ بھی نہیں کر سکتے۔ اس نظام میں ایک شخص کے صوابدیدی اختیار میں بہت کچھ ہوتا ہے۔ ایسے نامزد نمائندے اور اس کی پارٹی کے سربراہ کا رشتہ بادشاہ سلامت اور حواریوں والا ہوتا ہے اور کیوں نہ ہو یہی ہونا چاہیے۔جب آپ کو ایک بندے کے اشارے سے غریب اقلیتوں یا خواتین کی شناخت پر اتنی مراعات حاصل ہو جائیں گی۔ تو آپ یقیناًاس کی خوشنودی کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ کیونکہ برصغیر کے سماج پر توبیرونی حملہ آوروں نے اس خطے کے لوگوں کے دماغوں پر ایسے غلام اور آقا کے آپسی تعلقات پر مبنی سماجی اثرات چھوڑے ہیں کہ ہماری مجموعی طور پر نفسیات ایسی ہو گئی ہے۔کہ جہاں سے ہمیں کسی بھی طرح کا فائدہ ملنے کی اْمید ہو ہم اس شخص یا گروہ یا حکمران کی ہرطرح کی خوشامد کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔یہ فائدہ تو بہت بڑا ہے اس سے بہت چھوٹے فائدوں کے لئے ہمارے رویے کیا ہو سکتے ہیں۔اگر اس بات میں کسی کو شک ہو تو اپنے آس پاس روز مرہ کی زندگی میں نوکر شاہی کا اپنے حکمرانوں کے اشاروں پر اپنے ہم وطنوں سے اپنایا ہوا رویہ اور ہم وطنوں سے کیا جانے والاسلوک دیکھ لیں یا عوام کے ووٹوں پر منتخب ہو نے والے وڈیروں، جاگیرداروں ،خانوں اور سرداروں جو کہ اپنے اپنے علاقوں میں اپنی اپنی ذات میں سب کچھ ہوتے ہیں لیکن اپنے ذاتی ووٹ بنک ہونے کے باوجود کار پر جھنڈے اور اپنے حریفوں کو ڈنڈے مروانے کیلئے یہ لوگ اپنے اپنے پارٹی رہنماؤں کی خوشامد میں کہاں تک چلے جاتے ہیں۔یہ ایک تلخ بلکہ ننگی حقیقت ہے اور انکی وفاداریاں اپنے عوام سے ہیں یا اپنے پارٹی رہنماؤں سے یہ دیکھ لیں اور اس کے بعد آپکو اندازہ ہوجائے گا کہ خواتین اور غیر مسلم پاکستانیو ں کے نام پر یہ جو جمہوری غلام انہوں نے غریب عوام کے ٹیکسوں پر رکھے ہوئے ہیں۔یہ خواتین وحضرات اپنے ان افراد کے کتنے وفادار ہونگے جن کی یہ نمائندگی کرتے ہیں یا اپنے پارٹی راہنماؤں کے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ خیال بڑا اچھا ہے، کہ ان دونوں طبقوں کی ریاستی و حکومتی ایوانوں میں نمائندگی ہونی چاہئے۔لیکن اس کیلئے ایسا نظام واضع ہو نا چاہئے جس سے جمہوریت کی روح کے مطابق جمہور کے نمائند ے منتخب ہوں ناکہ ایسے جمہوری غلاموں کی ایک اور فوج آجائے جو موج تو عوام کے خرچے پر کریں اور خدمت اپنے اپنے نامزد کرنے والوں کی۔
آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ پاکستان کے خرچیلے جمہوری کلچر میں یہ226ممبران ،قومی اور صوبائی اسمبلی ہم غریب جمہوروں کو کتنے مہنگے پڑتے ہو نگے۔ہاں اگر یہ اقلیتوں اور خواتین کے نمائندگان واقعی جمہوری انداز سے منتخب ہو کر آئیں تو غریب جمہور وں کے خرچے پر بننے والے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں، اور تو اور انکے الیکشن کے دوران بھی ان دونوں طبقوں کی سیاسی تربیت بھی ہو۔کیونکہ جب خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کیلئے براہ راست انتخاب ہو گا تو اس انتخابی عمل میں ان دونوں طبقوں کی جو سیاسی وسماجی رابطوں کی بدولت سیاسی تربیت ہو گی۔اس تربیت کے نتیجے میں مختاراں مائی اور اس طرح کی حوا زادیوں کے ساتھ ظلم وستم کے واقعات سے بھی بچا جاسکتا ہے۔ کیونکہ جب یہ طے ہو جائے گا، کہ اتنی خواتین اور اتنے اقلیتی ممبران ایوانوں میں پہنچانے ہیں۔لیکن ہونگے ذریعہ انتخاب تو چاہئے پھراپنے من پسند اقلیتی ممبران با اثر خاندانوں کی عورتیں ہی نامزد کی جائیں لیکن انتخابی عمل کے دوران جو پورا انتخابی نظام حرکت میں آتا ہے۔اس میں جس طرح بلدیاتی نظام جمہوریت کیلئے نرسری ثابت ہو تا ہے، اسطرح خواتین اور اقلیتی ووٹروں کی براہ راست الیکشن کے ذریعے تربیت ہو گی۔کیونکہ امید وار چاہے من پسند یا حکمران طبقے کے خاندانوں سے ہو لیکن انتخابی عمل سے جو علاقائی عہد ید ار وجود میں آتے ہیں۔گلی محلے میں خواتین امید وار کی خواتین ہی ورکر ہونگی۔۔سوچیں کیسی کیسی قائدانہ صلاحیتوں والی خواتین و اقلیتی شخصیات پیدا ہونگی۔اور اقلیتوں کے امید واروں کے اقلیتی علاقائی عہد ید دار ہونگے۔ اس طرح اس سارے عمل سے جمہوری غلاموں کی بجائے اپنے اپنے طبقوں کے حقیقی نمائندے ایوانوں میں پہنچیں گے اور اس سارے عمل سے جمہوری غلاموں کی فوج کے بجائے حقیقی نمائندگان کی سیاسی تربیت بھی ہو گی ،اور معاشرے میں جمہوری کلچر کی بھی آبیاری ہو گی۔ اور ان معاشر تی رویوں میں بھی فرق آئے گا جنکی بنیاد پر آئے دن حوا کی بیٹیاں ملک کے طول وعرض میں صرف صنف نازک ھونے کی بنیاد پر ظلم سہتی ہیں۔لیکن192خالص خواتین کی صنفی شناخت پر منتخب ہونے والی خواتین میں سے کوئی بھی علامتی احتجاج بھی کرتی نظر نہیں آتی۔اور انکی شناخت پر مراعات حاصل کرنے والیوں کی کبھی کوئی مشترکہ آواز بھی سنائی نہیں دیتی۔ تواسی بات سے اندازہ کر لیجئے کہ اس نظام نے کیسے جمہوری غلام پیدا کئے ہیں۔ ان تلخ حقائق اور دستیاب شواہد کی بنیاد پر سمجھ یہ ہی آتا ہے کہ موجودہ نظام کی موجودگی میں مذہبی اقلیتوں یا صنفی شناخت کی بنیاد پر نامزد ممبران سے کسی کو گلا کرنے کا کوئی حق نہیں۔ہاں انکو نامزد کرنے والوں اور نامزد ہونے والوں کو سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔اپنے مفادات اور آئی ایم ایف ودیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ڈرانے پر آئینی ترمیم کرنے والے اگر ایک یہ بے ضرر سی آئینی ترمیم بھی کرلیں تو ملک بھر میں ایک سیاسی ،سماجی و معاشرتی انقلاب آ جائے گا۔اس کے علاوہ بین الاقوامی نیک نامی بھی بہت ہوگی۔کیونکہ اس طریقہ انتخاب سے خواتین کا استحصال بھی ہوتا ہے۔ جس کی بازگشت کئی بار قومی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر بھی سنائی دی ہے۔
خواتین کی مخصوص نشستوں کو ووٹ سے مشروط کرنے کا لائحہ عمل اور آئینی ترامیم کی سفارشات
اس مسئلے کا حل بھی جس طرح اس کتاب میں اقلیتوں کے لئے بے ضرر آئینی ترمیم سے دوہرے ووٹ کا لائحہ عمل ترتیب دیا گیا ہے۔ویسا ہی حل اس مسلئے کا بھی ہے۔
خواتین کا جنرل نشستوں پر انتخاب لڑنے ووٹ ڈالنیکے حق کو محفوظ رکھتے ہوئے صنفی شناخت والی نمائندگی کو بھی ووٹ سے مشروط کر دیا جائے۔
یوسی ،ٹاون/تحصیل ،ضلع/سٹی کونسل جہاں جہاں بھی خواتین کے لئے نشستیں مخصوص ہیں اسی حساب سے خواتین کے ووٹوں پر مبنی حلقہ بندیاں کردی جائیں۔جس کے لئے موجودہ تعداد کے مطابق ہی قومی و صوبائی اسمبلیوں کی مندرجہ ذیل حلقہ بندیاں کی جاسکتی ہیں۔
1قومی اسمبلی کی حلقہ بندیاں
2پنجاب کی خواتین کی قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کا فارمولا۔
اس وقت پنجاب سے خواتین کی قومی اسمبلی کے لئے 32نشستیں مخصوص ہیں۔پورے پنجاب کو خواتین کے ووٹوں کے اعتبار سے 32برابر حلقوں میں تقسیم کرکے کے ان حلقوں پر خواتین کے درمیان انتخابات کروائیں جائیں۔ یہ عمل جنرل انتخابات کے ساتھ بھی کروایا جا سکتا ہے اور علٰیحدہ بھی اگر اکٹھا ہو تو ہر خاتون کو دو ووٹ ڈالنے پڑے گے ایک اپنے جنرل حلقے کے/کی امیدوار کو دوسرا اپنی مخصوص نشست کی امیدوار کو۔
3پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے انتخاب کا فارمولا
صوبہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں خواتین کے لئے 66نشستیں مخصوص ہیں۔ اوپر بیان کئے گئے فارمولے کے مطابق پورے صوبے کو خواتین کی صنفی شناخت والی مخصو نشستوں کو پر کرنے کے لئے ووٹوں کے اعتبار سے برابر حصوں میں تقسیم کرکے ں ان حلقوں پر صنفی شناخت والی نشستوں پر انتخابات کروائیں جائیں۔ یہ انتخابات بھی جنرل انتخابات والے دن بھی کروائے جا سکتے ہیں اور جنرل انتخابات کے بعد بھی۔
4سندھ میں خواتین کی مخصوص نشستیں
سندھ میں خواتین کے لئے قومی اسمبلی کی 14نشستیں مخصوص ہیں ان کو خواتین ووٹرز کے ووٹوں کی برابر تعداد کے 14 حلقے بنا دیئے جائیں اور ان حلقوں نے خواتین کی صنفی بنیادوں پر ووٹ سے ان نشستوں کو خواتین کے برابر ووٹوں کی تعداد پر تقسیم کرکے خواتین کی ان نشستوں کوپر کیا جائے۔
5سندھ کی صوبائی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کی حلقہ بندیاں
سندھ کی صوبائی اسمبلی میں 29 نشستیں خواتین کی صنفی شناخت پر مخصوص ہیں۔ان29نشستوں کو بھی اوپر بیان کئے گئے فارمولے سے بالکل جمہوری طریقے سے پر کیا جائے۔
6کے پی کی خواتین کی مخصوص نشستوں کی قومی و صوبائی اسمبلی کی حلقہ بندیاں .
کے پی میں 10قومی اور 26صوبائی نشستیں خواتین کے لئے مخصوص ہیں لہٰذا کے پی کو 10 خواتین ووٹرز کے برابر حلقوں میں تقسیم کر کے دس قومی حلقے اور اسی ترتیب سے 26 صوبائی حلقے بنائے جاسکتے ہیں۔
7بلوچستان کی خواتین کی قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کا فارمولا۔
اس وقت بلوچستان سے خواتین کی قومی اسمبلی کے لئے 4نشستیں مخصوص ہیں۔پورے بلوچستان کو خواتین کے ووٹوں کے اعتبار سے 4برابر حلقوں میں تقسیم کرکے کے ان حلقوں پر خواتین کے درمیان انتخابات کروائیں جائیں۔ یہ عمل جنرل انتخابات کے ساتھ بھی کروایا جا سکتا ہے اور علٰیحدہ بھی اگر اکٹھا ہو تو ہر خاتون کو دو ووٹ ڈالنے پڑے گے ایک اپنے جنرل حلقے کے/کی امیدوار کو دوسرا اپنی مخصوص نشست کی امیدوار کو۔۔
8بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے انتخاب کا فارمولا
صوبہ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں خواتین کے لئے 11نشستیں مخصوص ہیں۔ اوپر بیان کئے گئے فارمولے کے مطابق پورے صوبے کو خواتین کی صنفی شناخت والی مخصو نشستوں کو پر کرنے کے لئے ووٹوں کے اعتبار سے برابر حصوں میں تقسیم کرکے ں ان حلقوں پر صنفی شناخت والی نشستوں پر انتخابات کروائیں جائیں۔ یہ انتخابات بھی جنرل انتخابات والے دن بھی کروائے جا سکتے ہیں اور جنرل انتخابات کے بعد بھی۔
خواتین کی مخصوص نشستوں کی آئینی ترمیم کی سفارشات
پر ممکنہ اعتراضات اور ان کے جواب
خواتین کی مخصوص نشستوں کے لئے انتخابی ترامیم کی سفارشات پر مبنی اس مطالبے/لائحے عمل پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہو سکتا ہے۔ خواتین و اقلیتی پارلیمنٹیرینز کو معاشرے میں مروجہ سماجی و ثقافتی ممنوعات کی وجہ سے، اور بھاری اخراجات کی وجہ سے انتخابی مہم چلانے کے بھاری اخراجات سمیت متعدد دیگر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے،جو خواتین کے لئے انتخابات لڑنے میں مشکلات کا باعثِ ہوسکتے ہیں۔
ان میں سے بہت سارے اعتراضات اور ان کے جواب آپ اس کتاب کے پہلے صفحات میں پڑھ چکے ہیں۔ لیکِن اس اعتراض کی اس معاشرے کی ساخت سیاسی جماعتوں کے طور طریقوں اور موجود دور کے طرز زندگی اور دستیاب انتہائی سستی ٹیکنالوجی کی بدولت بلکل بے بنیاد لگتے ہیں۔مثلا سوچیں اگر آئینی ترمیم سے ملک وقوم کی بہتری کے لئے اقلیتوں اور خواتین کے لئے یہ طریقہ انتخاب اپنا لیا جاتاہے تو۔پہلے تو یوسی سے لے کر قومی اسمبلی کی نشستوں کے لئے ہر پارٹی اپنے ان خواتین و حضرات کو ٹکٹ دے گی جو فکری و مالی طور پر یہ سیٹ جیتنے کی اہلیت رکھتا ہو۔اس میں مالی استعداد اگر نہ بھی ہو تو پارٹی سپورٹ کرے گی۔اور سب سے بڑی بات کے اگر کسی سیاسی ورکر کو لگے کے اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو اس کے پاس آزاد اْمیدوار کے طور پر انتخابات لڑنے کا راستہ ہوگا۔ اگر کسی خاتون یا اقلیتی نشست پر انتخاب میں حصہ لینے والے کو یہ خوش گمانی ہو کہ میں اپنی صنف یا مذہبی شناخت والی کمیونٹی میں زیادہ مقبول ہوں۔لیکن میں کسی سیاسی جماعت کے منشور سے متفق نہیں ہوں تو اس شہری کو بھی اپنی صنفی اور مذہبی بنیاد پر الیکشن لڑنے کا حق حاصل ہوگا۔ (یاد رہے موجودہ اقلیتی و خواتین کی مخصوص نشستوں کے انتخابی نظام میں یہ موقع کسی شہری کے پاس نہیں ہے۔ ) موجودہ دور میں وسائل کی کمی کسی کے بھی آڑے نہیں آئے گی کیونکہ اگر آپ فکری طور پر مضبوط و توانا ہیں۔تو وسائل کی کمی بہت ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔سوشل میڈیا کے زریعے آپ اپنے ووٹرز تک بہت ہی معمولی خرچے سے پہنچ سکتے ہیں۔ اہمیت اس چیز کی ہے کہ جن کی شناخت پر آپ نمائندگی کا خود کو حق دار بنا کر پیش کرتے ہیں۔اس کام کو نیک نیتی سے کرنے کی آپ میں اہلیت کتنی ہے۔ موجودہ زمانے میں کئی شخصیات نے یہ ثابت کیا ہے۔کہ بس یہ دو خوبیاں دنیا کے ہر طرح کے وسائل پر بھاری ہوتی ہیں۔ بصورت دیگر اربوں کھربوں کے وسائل سے بھی لوگوں کو ووٹروں کے دروازوں سے نامراد لوٹتے دیکھا ہے۔
اس نظام کے وضع ہونے کے معاشرے اور پاکستان کی سیاست اور معاشرے پر کیا اثرات ہونگے؟
یوسی سے لے کر نیشنل اسمبلی کے حلقوں میں جب خواتین امیدوار امیدوار ہونگی خواتین ووٹرز ہونگی ،تو یقیناً ان کی علاقائی عہدے دار بھی خواتین ہونگی۔جس سے خواتین اپنی صنفی و مذہبی اقدار کو قائم رکھتے ہوئے اس معاشرے میں متحرک ہوکر ایک معاشرتی معاشی سماجی سیاسی انقلاب برپا کردیں گی۔ اپنی تہذیبی اور مذہبی اقدار پر قائم رہتے ہوئے ایسا ایسا ٹیلنٹ سامنے آئے گا۔جس کے انتہائی مثبت اثراتِ اس معاشرے پر پڑیں گے۔ جنرل الیکشن میں جن علاقوں میں خواتین کے ووٹ ڈالنے کی ممانعت سمجھی جاتی ہے۔وہاں بھی خواتین کے ووٹ جوک در جوک بنوائے جائیں گے۔ جب ان مخصوص نشستوں پر ووٹرز ٹرن آؤٹ بڑے گا تو اس کے اثرات جنرل نشستوں پر پڑیں گے جو جمہوریت کے لئے تقویت کا سبب ہوگا اور اسی سے متوازن جمہوری معاشرہ تشکیل پائے گا۔
غرض اس طریقہ انتخاب سے خواتین کے ہر طرح کے مسائل کے حل کا یوسی وارڈ سے لے کر اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں تک کا خود کار نظام ترتیب پا جائے گا۔
پاکستان عالم اسلام کو پہلی مسلمان خاتون وزیراعظم دینے والی قوم کے ساتھ اقوام عالم کو خواتین کو خودمختار کرنے کا ایک ایسا انتخابی نظام دینے کا اعزاز حاصل کرلے گا جس کی مثال دنیا میں نہیں ہوگی۔ اس نظام خواتین کی حفاظت ،علاج ،تعلیم اور انھیں معاشی طور پر خود مختار کرنے کا خود کار نظام ترتیب پا جائے گا ۔
موجودہ نظام میں صرفِ،پنجاب ،سندھ ،بلوچستان اور کے پی ،کے چند گھرانوں کی خواتین اور ایک تحقیق کے مطابق 80سے نوے فیصد ایسی خواتین کا تعلق صوبائی دارالحکومت والے شہروں کوئٹہ ،لاہور کراچی ،پشاور سے ہی ہوتا ہے۔اس نظام کے نافذ العمل ہونے پاکستان کی ہر گلی محلے ،گاؤں، گوٹھ، تحصیل شہر کی براراست نمائندگی معمالات سرکار میں ہو جائے گی۔جس سے پورے ملک کی خواتین اس انتخابی عمل میں بھی حصہ لے سکے گی۔ جس سے وطن عزیز کی تقریباً %50 فیصد آبادی کی سیاسی تربیت بھی ہوگی اور منتخب ہو کر آنے والی خواتین اپنی ہم صنفوں کے مسائل بھی اسمبلی میں بیان کر سکیں گی۔وہ اپنے اپنے پارٹی رہنما ؤں کے ساتھ اپنے حلقے کی خواتین کی نمائندہ بھی ہونگی۔ اور شام کو ٹی وی ٹاک شوز میں اپنے اسمبلیوں میں پہنچانے والوں کے قصیدے پڑھنے کے ساتھ اپنی ہم صنف جنکی شناخت کی بنیاد پر انھیں یہ انتہائی مراعات والی نشستوں کے لئے منتخب کیا جاتا ہے،انکی بات بھی کریں گی۔ اس آئینی ترمیم کو پاس کرکے ملک میں ایک جمہوری کلچر کا آغاز ہو گا جس سے یک لخت اس ملک کی آدھی آبادی سیاسی کے ساتھ سماجی، معاشرتی اور معاشی طور پر متحرک ہو کر ملک میں ایک انقلاب برپا کر دے گی۔ آخر میں صرف ایک دلیل مشکل سے مشکل سفر کو بھی منزل کا یا مقصد یقین آسان بنا دیتاہے۔
آئین پاکستان کا ارتقائی سفر اور سینیٹ کے موجودہ انتخابی نظام کی خامیاں
1.پاکستان کی پہلی کانسٹوینٹ اسمبلی دسمبر 1947کو الیکیٹ ہوئی۔اسی اسمبلی نے 12مارچ 1949 کو قردار مقاصد پاس کی۔آئین بنائے بغیر ہی یہ اسمبلی 1954میں یہ اسمبلی تحلیل کردی گئی۔
3.اکتوبر 1955 کو گورنر جنرل پاکستان نے دوسری کانسٹوینٹ اسمبلی بنائی جس نے فروری 1956کو ملک کو پہلا آئین دیا۔اس سے پہلے 14اگست 1947سے 1956تک انڈین ایکٹ ہی آئین پاکستان تھا
4. 7اکتوبر 1958 کو ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ کردیا گیا۔مارشل لا حکام نے 1960کو کانسٹشون کمیشن قائم کیا۔ اس کمیشن نے 1962 کا آئین بنایا۔جس نے صدراتی نظام حکومت دیا۔یہ آئین 1969 کو معطل کر دیا گیا۔
5.مارشل لاء حکام نے 1970کے الیکشن کروائے جس کے نتیجے میں 1972 کو وجود میں آنے والی حکومت نے 1972 کا عبوری آئین دیا۔
6.الیکش 1970 کے زریعے وجود میں آنے والی حکومت نے 12اپریل1973 کا متفقہ آئین پاس کیا۔یہ آئین 14اگست 1973 کو نافذ کر دیا گیا۔
7۔ آئین 1973کے ذریعے ہی سینیٹ وجود میں آئی جسکے ممبران کی تعداد 45 تھی۔جو 1977میں 63 کردی گئی۔ جسے 1985میں 87 کر دیا گیا۔ پرویز مشرف نے 2002میں ایل ایف او کے زریعے اس تعداد کو 100 کر دیا۔ 2002میں اٹھارویں ترمیم کے زریعے اس تعداد کو 104 کر دیا گیا۔جب 25ویں آئینی ترمیم کے زریعے فاٹا کی سینیٹ کی نشستیں ختم ہوئی تو یہ تعداد گھٹ کر 96 رہ گئی۔ آئین کی شق 59 کے مطابق سینیٹرز منتخب کئے جاتے ہیں۔ جس کی رو سے ہر صوبے سے 14 سینیٹرز جنرل نشستوں سے 4 خواتین کی نشستوں سے 4 ٹیکنوکرٹیس اور ایک نشست اقلیتوں کے لئے مختص ہے۔ 4 نشستیں اسلام آباد سے ہیں۔ جن میں سے دو جنرل نشستیں ایک ایک خواتین اور ٹیکنوکریٹس کی نشست ہے۔اس طرح ہر صوبے سے 23 نشستیں وہاں کے ایم پی ایز کے ووٹوں سے اور چار نشستیں وفاقی دارالحکومت کی حدود سے قومی اسمبلی کے ممبران کے ووٹوں سے پر کر لی جاتی ہیں۔ یوں یہ ایوان 96 ممبران پر مشتمل ہے۔جن میں سے چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوتے ہیں۔
سینیٹ آف پاکستان کی ساخت سے اندازہ ہوتا ہے کہ سینیٹ آف پاکستان بنانے والوں کے پیش نظر پاکستان کی وفاقی اکائیوں کی آبادی کے محرکات کے بدولت یہ مقصد تھا کہ قومی اسمبلی سے کسی بھی وجہ سے اگر کوئی قانون سازی کا بل کسی ایک صوبے کے مفاد میں اور چھوٹے صوبوں کے مفاد سے متصادم پاس ہو بھی جائے تو وہ سینیٹ سے پاس نہ ہوسکے۔ہر صوبے سے سینیٹ کی نشستوں کی برابر نمائندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ سینیٹ کی روح اسی مقصد میں پنہاں ہے۔لیکن یہ ایک المیہ ہے کہ پچھلی کچھ دہائیوں سے کئی ایسے اقدامات سامنے آئے ہیں جس کے سامنے سینیٹرز بننے کے لئے ووٹ خریدنے اور بیچنے جیسا گھناؤنہ عمل/جرم بھی چھوٹا لگتا ہے۔
1 مثلا اسلام آباد کی چاروں نشستوں سے اکثر اسلام آباد کے مستقل رہائشی نہ ہونے والوں کا سینیٹر منتخب ہونا۔
2 ایک صوبے کے مستقل رہائشی کا دوسرے صوبے سے سینیٹ کا ممبر منتخب ہونا۔
سینیٹ کے انتخابات میں یہ اب عام سی بات ہوگئی ہے۔ لیکن اگر سینیٹ کے قیام کے مقاصدِ پر غور کیا جائے تو اس سے بڑا آئینی جرم کوئی ہو نہیں سکتا چاہے تعزیرات پاکستان میں اسکی کوئی سزا ہو نہ ہو لیکن یہ ایک ایسی بددیانتی ہے۔جس سے ایک آئینی ادارے کی روح کو ہی قتل کر دیا جاتا ہے۔اورکمال بے حسی ہے تینوں آئینی ریاستی ستونوں کے رکھوالوں اور چوتھے روائتی ریاستی ستون میڈیا کے ذمداروں کا کہ اس بات پر کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔ یہ ایک ایسا مسلہ ہے جو اس ملک کے تینوں آئینی ریاستی اداروں کے ساتھ میڈیا اور معاشرے کو بھی کھوکھلا کرتا جارہا ہے۔لیکِن نہ کوئی آئینی ماہر آئین کے رکھوالے ادارے سے اس پر رائے لیتا ہے۔ جیسے اوپر کی سطور میں لکھا گیا ہے کیسے وقت کے ساتھ قوم کے اکابرین نے قومی ضروریات کے پیش نظر سینیٹ کی تعداد بڑھائی۔
دنیابھر میں اس نوعیت کے مسائل جب قوموں ،کاروباری یا دیگر ریاستی اداروں کو ایسے مسائل در پیش ہوتے ہیں۔تو وہ انکی تشخیص و حل کے لئے اپنے مسائل بطور کیس اسٹڈی دنیا بھر میں بڑے بزنس، جنگی اور تزویراتی تعلیمی اداروں میں بھجواتے ہیں۔ ایسے بڑے تعلیمی اِداروں میں کیس اسٹڈی طریقہ تعلیم میں یہ پڑھایا جاتا ہے۔کہ کسی بھی درپیش مسئلے پر تفصیلی تحقیق و سوچ بچار کے بعد اسکی درست تشخیص کی جائے۔جس میں تین مرحلوں میں طالب علم اس مسلئے کا تعین ،مسلہ ہے کہاں ؟ مسئلہ پیدا ہونے کا خاص میدان اور اسکی کی وجوہات کیا ہیں۔؟ان کے درست تعین کے بعد اس مسئلے کے تین طرح کے حل قلیل المیعاد، وسط المیعاد اور طویل المیعاد حل تجویز کئے جاتے ہیں۔ قلیل المیعاد اور وسط المیعاد حل تو وقتی ہوتے ہیں لیکن اصل حل طویل المیعاد حل میں ہی ہوتا ہے اور کچھ مسائل تو ایسے ہوتے ہیں کہ انکا صحیح تشخیص کے بعد صحیح حل طویل المیعاد ہی ہوتا ہے۔تحریک شناخت اپنے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے جو تحقیق و سوچ بچار کرتی ہے۔اس کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اقلیتوں ،خواتین کے انتخابی نظام اورسینیٹ کے انتخابی نظام میں تبدیلی اس ملک وقوم اور اس سماج کی بقاء ترقی ،اور فلاح کے لئے بے ضرر آئینی ترامیم سے قوم کو موجودہ آئینی ،اخلاقی، قانونی ،تہذیبی اور دیگر گرواٹ سے نکال سکتے ہیں۔پہلی دونوں تو بہت ہی بے ضرر آئینی ترمیم ہیں۔لیکن سینیٹ کے انتخابات کے نظام میں تبدیلی کے لئے ریاست کے تینوں آئینی اور چوتھے روایتی ستون اداروں میں شامل قوم کے حقیقی محسنوں کو کچھ انقلابی اقدامات کرنے ہونگے جو کہ برصغیر کی قدامت پسند تہذیب کے ہوتے ہوئے بہت مشکل لگتا ہے۔ جب کہ کسی بھی ترقی پسند قوم کو اگر ایسے ہی بحرانوں کا سامنا ہو اور اس کے اکابرین اپنے ملک وقوم کی بقاء اور ترقی کے لئے فکر مند ہوں تو وہ ایسے اقدامات غیر روایتی اقدامات ضرور اٹھاتے ہیں۔
سینیٹ کے انتخابات میں آئینی ترامیم کی سفارشات
1 سینیٹ کے انتخابات کو براہِ راست طریقہ انتخاب میں تبدیل کر دیا جائے۔
2 ہر صوبے کو چودہ برابر ووٹوں کی بناء پر تقسیم کر کے چودہ حلقوں میں تقسیم کر دیا جائے۔
3 خواتین کی چاروں صوبوں کی چار چار نشستوں کے لئے خواتین کے ووٹوں چار برابر حلقے بنا دیئے جائیں ۔ خواتین خواتین کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئیں۔
4 علماء کی نشستوں پر منتخب ہونے والوں کا الیکٹرول کالج انھی کے مستعند میعار کے ووٹ بینک کو بنایا جائے اور ان ووٹوں کی تعداد کے مطابق ہر صوبے کے چار چار حلقوں میں بانٹا جائے۔تاکہ جس مہارت کے سبب کسی ٹیکنوکریٹس یا عالم کو چنا جائے اس میں اس شعبے سے منسلک مستند ماہرینِ و علماء کی رائے بھی شامل ہو۔
5 ٹیکنو کریٹس جس شعبے کی نمائندگی کرتے ہوں۔ان کا ووٹ بینک اسی شعبے کے مستند پیشہ ور افراد پر مشتمل ہو۔ صحافی ،ڈاکٹرز انجینئر ،معشیت دان وغیرہ کے اپنے فورم ییں جو اپنا اپنا الیکٹورل کالج رکھتے ہیں۔
6 اقلیتوں کے نمائندے پورے صوبے کے حلقے سے اقلیتوں کے ووٹوں سے منتخب ہوں۔
7 اسلام آباد کی دونوں جنرل نشستوں کو دو حلقوں میں تقسیم کیا جائے۔
8 خواتین کی ایک نشست پر خواتین کے ووٹوں پر مبنی پورے اسلام آباد کو ایک حلقہ بنا دیا جائے۔
9 ٹیکنوکریٹ/علماء کے مستعند الیکٹورل کالج پر مبنی پورے اسلام آباد کو ایک حلقہ بنا دیا جائے۔
10جو بھی امیدوار جس وفاقی اکائی سے بطور سینیٹر امیدوار ہو وہ پچھلے دس سال سے اس وفاقی اکائی کا مستقل رہائشی ہو۔
سینیٹ کی انتخابی نظام کی آئینی ترامیم کی سفارشات
پر ممکنہ اعتراضات اور ان کے جواب
ان سفارشات پر سب سے بڑا اعتراض یہ آئے گا کہ یہ ایک مہنگا نظام انتخاب ہوگا تو یقین مانیئے جنرل نشستوں پر منتخب ہونے والے سینیٹرز کو اب بھی یہ نظام چند استشعنات کو چھوڑ کر بڑا ہی مہنگا پڑتا ہے۔ بس اس کے مستفیدچند لوگ ہوتے ہیں۔ یقیناً ریاست کو اس پر کچھ اخرجات زیادہ کرنے پڑے گے لیکن آبادی کے اعتبار سے دنیا کی پانچویں بڑی اور ایٹمی طاقت کی بقاء و ترقی کے لئے یہ لاگت کچھ بھی نہیں ہوگی۔ باقی صوبے کی 14 جنرل اور 4 علما/ٹیکنوکریٹس 4 خواتین اور ایک ایک اقلیتی نشستوں پر انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ آزاد امیدواروں کے بھی انتخابات میں حصہ لینے کے راستے کھلے گے۔ علماء ٹیکنوکریٹس و خواتین اور اقلیتی ووٹروں کے شفاف ڈیٹا بینک وجود میں آئیں گے۔ خرچہ کرنے والے تو اب بھی قابو نہیں آتے۔لیکن آزاد اور کم وسائل والے ٹیلنٹڈ خواتین و حضرات اگر ان کے پاس اپنے الیکٹورل کالج اور اپنے ملک وقوم کے لئے کوئی نظریہ کوئی فکر کوئی نئی سوچ ہو تو وہ آج کے ترقی یافتہ و سوشل میڈیا کے زور پر گھر گھر اپنے خیالات پہنچا سکتے ہیں۔ اس لئے اگر ریاست کے کچھ اخرجات زیادہ آئے گے تو اس کے مقابلے میں جو فوائد اس ریاست ملک و قوم حاصل ہونگے وہ اس لاگت سے کہیں زیادہ ہونگے۔
ریاست کے آئینی ستونوں کے رکھوالوں کو لکھے گئے خطوط
کراچی 08 اپریل۔ 2024
جناب سردار ایاز صادق
اسپیکر قومی اسمبلی
اسلام آباد پاکستان
محترم اسپیکر صاحب السلام علیکم!
میرا نام اعظم معراج ہے۔میں دنیا بھر کی اقلیتوں کو‘‘ پیغام انضمام بذریعہ شناخت برائے ترقی وبقاء ’’ دیتی فکری تحریک ، تحریک شناخت کا رضا کار ہوں۔تحریک کا تعارف اور اغراض و مقاصد میں اس خط کے ساتھ علیحدہ بھیج رہا ہوں۔
آپ کو ریاست کے سب سے اہم آئینی ستون مقننہ کے ایک ایوان کے رکھوالے کی ذمداری سنبھالنے پر مبارکباد۔میں اس خط کے ذریعے آپکی توجہ اس ملک کے تقریبا ایک کروڑ غیر مسلم شہریوں کے ایک مسئلے کی طرف دلوانا چاہتا ہوں۔اس ملک کی مذہبی اقلیتوں پر قیام پاکستان سے لے آج تک 16انتخابات میں 5 بار 3انتخابی نظام آزمائے گئے۔ یہ پاکستان کی سیاسی ،ریاستی،حکومتی،اور دانشور اشرفیہ کی اور اقلیتوں کے ہر دور کے نمائندوں کی بہت بڑی ناکامی ہے کہ ہر نظام کے چند بینفشریز کو چھوڑ کر مذہبی اقلیتیں کبھی بھی ان سے مطمئن اور خوش نہیں ہوئی۔ پہلی 2اسمبلیوں میں جداگانہ طریقہ انتخاب تھا۔اس وقت الیکٹرول کالج محدود ہونے کے باوجود جوگندرا ناتھ منڈل کے استعفیٰ میں اس نظام میں تبدیلی پر سوچ بچار کا پیغام اس وقت کی ریاستی و سیاسی اشرفیہ کو دیا گیا تھا۔ شاید اسی وجہ سیاگلی 3 اسمبلیوں کے انتخابات مخلوط طریقہ انتخاب سے ہوئے۔جس میں مذہبی اقلیتوں کی مذہبی شناخت پر نمائندگی بہت مشکل ہے۔ یہ نظام 3 بار آزمایا گیا۔ تینوں بار میں صرف ایک ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوسکا۔جس پر مسیحیوں نے احتجاج کیا۔شہادتیں ہوئی طے ہو گیا،کہ اقلیتوں کو مذہبی شناخت پر نمائندگی دی جائے گی۔ ثبوت اس کا یہ ہے۔کہ اکیس نومبر 1975کو چوتھی آئینی ترمیم ہوئی۔جس میں موجودہ نظام متعارف کرایا گیا۔1977کے الیکشن اسی نظام کے تحت ہوئے۔ مارشل لاء-04 لگ گیا۔ مذہبی اقلیتوں نے احتجاج کیا۔ کہ ہمارے نمائندے سیاسی اشرفیہ کیوں چنے۔ضیاء الحق نے جداگانہ طریقہ انتخاب دے دیا۔جس میں اقلیتوں کی لیڈر شپ ضرور ابھری ہر مذہبی اقلیت کو حصہ بقدر جثہ ملا۔ لیکن اس نظام کا دوسرا پہلو بڑا غیر جمہوری، غیر انسانی تھا۔اس میں اقلیتوں سے جنرل نشستوں پر ووٹ ڈالنے اور الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی تھی۔ جسکے نتیجے میں ایک کروڑ دھرتی کے بچے سیاسی ناپاک شودر اور معاشرتی اچھوت بنا دیئے گئے۔یہ نظام پہلی 2 اسمبلیوں اور 1985سے 1997تک پ5 بار مجعوعی طور پر 7 بار آزمایا گیا۔ اقلیتیں خصوصاً مسیحی احتجاج کرتے رہے۔ جس کے نتیجے میں پرویز مشرف نے پھر وہ ہی چوتھی آئینی ترمیم والا نظام بحال کر دیا۔ اس میں اقلیتوں کا قومی ووٹ بحال ہوا جنرل نشستوں پر الیکشن لڑنے کا حق بحال ہوا۔ لیکن اقلیتوں کے 38نمائندے چننے کا اختیار چند لوگوں کے پاس چلا گیا موجودہ قومی اسمبلی میں صرف 3 شخصیات کی مرضی و منشاء سے ایک کروڑ اقلیتوں کی مذہبی شناخت پر 9 نمائندے تشریف فرما ہیں،دسویں کو کوئی ایک اور شخصیت چن لے گی۔یہ انتہائی غیر جمہوری اور جمہوریت کی روح کے منافی طریقہ سلیکشن ہے۔ وہ ہی سلیکشن جس کا دھبا کسی قومی لیڈر پر لگ جائے تو وہ جمہوری کلنک بن جاتاہے۔
تحریک شناخت نے برصغیر کی اقلیتوں 1909سے حالیہ انتخابات تک کے اقلیتوں پر آزمائے گئے ان نظاموں کے بغور مطالعیاور انکی خوبیوں خامیوں کے جائزے سے دس سال کی مسلسل عرق ریزی وتحقیق سے اقلیتوں کی امنگوں ،پاکستان کے تاریخی معاشرتی ومذہبی پس منظر موجودہ معروضی حالات بنیادی جمہوری و انسانی حقوق کے مطابق اقلیتوں کے لئے ایکانتخابی نظام کا مکمل لالحہ عمل دستیاب اعداد و شمار کے مطابق آئین کی روشنی میں حلقہ بندیوں کے ساتھ تیار کیا ہے،، جو انتہائی بے ضرر آئینی ترمیم سے ممکن ہے۔ جس کا نچوڑ یہ ہے کہ ‘‘اقلیتوں کے لئے موجودہ دوہری نمائندگی کے انتخابی نظام میں مزہبی شناخت والی نمائندگی کو بے ضرر آئینی ترمیم سے دوہرے ووٹ سے مشروط کرکے ایسا بنایا جائے ،جس سے ہر مذہبی نمائندگی والے نمائندے کو اس مزہبی کمیونٹی کے اقلیتی شہریوں کے ووٹوں سے ہی چنا جائے۔ جس کمیونٹی کی مذہبی شناخت کی نمائندگی وہ شخص جس بھی ایوان میں کرتا ہو۔ دوسرے لفظوں میں اسے یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔‘‘ اقلیتوں کی موجودہ دوہری نمائندگی والیانتخابی نظام جس میں مذہبی شناخت والی نمائندگی بزریعہ سلیکشن کی جاتی ہے۔ کو دوہرے ووٹ سے مشروط کیا جائے۔’’
یہ مکمل لالحہ عمل و تین نکاتی مطالبہ کتابی صورت میں اردو اور سندھی اور انگریزی میں بھی چھپ چکا ہے۔ جس کے بارے میں متاثرین و ذمدارین کو آگاہی تحریک شناخت کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بے لوث رضاکار کتابوں ،کتابچوں ،قومی وکمیونٹی کے اخبارات ،رسائل ،پوسٹرز ،وڈیو کلپس ٹی وی انٹرویوز،خطوط ودیگر ذرائع سے تقریبا دہائی سے متاثریں و ذمدارین کو دے رہیہیں۔لیکن یہ ہمارے اس جمہوری نظام کا ایک تاریک پہلو ہے، کہ رائے عامہ ہموار ہونے کے باوجود اس مسلئے کو آپ یا آپ جیسے چند قائدین نے ہی حل کرنا ہے۔ 98 فیصد اقلیتی شہری موجودہ اقلیتی انتخابی نظام سے غیر مطمئن او ربے چین ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آپکے اقلیتی رفقاء آپکو کبھی اس سیاسی فائدے کا آپ کو نہیں بتائیں گے۔ جو اس آئینی ترمیم کے لئے پہل کرنے والی جماعت کو ہوسکتاہے۔میں یہ مکمل کتابچہ آپکو بھیج رہا ہوں، جس کی مدد سے آسانی سے آئینی ترمیم تیار کی جاسکتی ہے۔ میرے خیال میں اس ملک کے سیاسی راہنماہ اس بے ضرر آئینی ترمیم سے اقلیتوں کا یہ 78سالہ پرانا مسلہ حل کرکے ،وطن عزیز کی مزہبی اقلیتوں کے 80 فیصد معاشرتی،سماجی و سیاسی مسائل کے حل کا خود کار نظام ترتیب دے سکتے ہیں۔ گو کے آئینی ترمیم کے پہل کسی سیاسی جماعت نے کرنی ہے۔
لیکن آپ ہمارے موجودہ پارلیمانی نظام کا حصّہ 1182 منتخب اور چنے ہوئے چند ،بلکہ صرف چار چیف جسٹس ، وزیراعظم ، چیئرمین سینیٹ ،اسپیکر قومی اسمبلی میں سے ایک خوش نصیب ہیں۔ جن پر 24کروڑ کی ریاست کے ڈھانچے کی ذمداری سب سے زیادہ ہے۔ اس حیثیت کے ساتھ آپ ایک سیاسی جماعت کے ورکر بھی ہیں۔لہذا ملک وقوم ،اقلیتوں کے مفاد سے زیادہ اس مسلئے کے حل میں کردار ادا کرکے آپ اپنی سیاسی جماعت کے لئے بھی 20قومی اور 50صوبائی کی نشستوں پر یقینی کامیابی کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔کیونکہ یہ ایک کروڑ دھرتی واسی پاکستان بھر کے 859 حلقوں میں پھیلے ہوئے ہیں لیکن ان 50لاکھ ووٹروں کی ایک بڑی اکثریت پنجاب اور سندھ میں آباد ہے جہاں یہ کے الذکر 20 قومی جمع 50 صوبائی حلقوں میں ہار جیت کا فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ جو سیاسی جماعت اس مسلئے کے حل میں سنجیدہ کوشش کرے گی وہ یہ فائدہ اٹھائے گی۔ کیونکہ یہ بھی قوم کا حصہ ہیں،اور صرفِ مذہبی راہنماوں اور اپنے دیہاڑی دار زعماء کے کہنے پر ووٹ نہیں ڈالتے بلکہ اپنے اجتماعی مفادات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔اس مسئلے کے حل سے یقیناً پاکستان کا ایک بہت ہی روشن پہلو دنیا بھر میں جائے گا۔کیونکہ آج کے جدید دور میں ریاستوں کی ترقی ناپنے والے اشاریوں میں سے ایک اشاریہ یہ بھی کہ اس ملک وقوم کے کمزور طبقات مثلآ بچے ،عورتیں اور اقلیتیں کتنی خو?ش اور مطمئن ہیں۔
آئین پاکستان کی کئی شقیں پاکستان کے ان محب وطن دھرتی واسی شہریوں کے بنیادی جمہوری ،انسانی، شہری حقوق کے خلاف ہیں۔لیکن یہ امن پسند محب وطن شہری پاکستان کے معروضی سماجی معاشرتی و مذہبی حالات اور تاریخی پس منظر کی وجہ سے جانتے بوجھتے ان سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔ ایسی بے ضرر سی آئینی ترمیم سے ایسی آئینی تفریق کا کچھ مداوا ہوسکتاہے۔۔لہٰذا میں امید کرتا ہوں ،کہ اس بے ضرر آئینی ترمیم کے لئے آپ ضرور اپنا حصّہ ڈالیں گے۔یقینا یہ کام ملک وقوم کے استحکام ونیک نامی کا باعث بنے گا۔ اور آپکے نام کے ساتھ یہ تاریخ بھی رقم ہو جائے گی کہ آپ نے پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے 78سالہ اس مسلئے کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔پاکستان کے چوبیس کروڑ انسانوں میں سے بہت کم لوگوں کو ایسے منصب نصیب ہوتے ہیں۔ کہ وہ تاریخ رقم کر سکیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کے بہت ہی کم لوگ ان موقعوں سے فائدہ اٹھا پاتے ہیں۔اْمید ہے آپ اس موقع سے ضرور فائدہ اْٹھائیں گی۔اس ضمن میں اعانت و معاونت کے لئے تحریک شناخت کے رضا کار ہر وقت دستیاب ہیں۔
واسلام
آپکی رائے اور جواب کا منتظر
اعظم معراج
رضا کار تحریک شناخت
22مارچ 2024
وزیراعظم پاکستان
محمد شہباز شریف
وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد
محترم وزیراعظم صاحب
اسلام و علیکم
آپکو دوسری بار وزیراعظم منتخب ہونا بہت مبارک ہو۔ میں آپکی توجہ ایک ایسے ہی مسئلے کی طرف دلوانا چاہتا ہوں۔جو آپ اپنی جماعت کے زریعے بڑی بے ضرر سی آئینی ترمیم سے حل کروا سکتے ہیں۔ اس مسلئے کے حل سے نہ صرف ملک کے تقریبا 90لاکھ غیر مسلم دھرتی کے بچے خو?ش ہو جائیں گے۔جنکے ووٹوں کی تعداد جون 2022 تک الیکشن کے اعداد و شمار کے مطابق 39,56,336 تھی۔ اگلے انتخابات میں یہ تعداد کم از کم ایک (1)کروڑ تک پہنچ چکی ہوگی۔ پاکستان میں ووٹ اور آبادی کا تناسب تقریبا آدھا آدھا ہے۔جس سے یقیناً آپکی جماعت کو 50لاکھ ووٹروں کی ہمدردیاں بھی حاصل ہونگی۔ گوکہ یہ 50لاکھ ووٹرز بظاہر کوئی بڑا پریشر گروپ نہیں لیکن ان 50لاکھ اقلیتی ووٹروں کی ہمدردیاں آپکی یا جو بھی جماعت اس مسلئے کوحل کرنے کی کوشش میں پہل کرے گی ،اسکو قومی اسمبلی کی پنجاب اور سندھ سے 20اور صوبائی اسمبلیوں کی کم ازکم 50 نشستوں پر یقینی فتح دلوا سکتی ہیں۔ جس میں سے آدھی نشستیں پنجاب کی ہیں۔اس سے اس سیاسی جماعت کو بین الاقوامی نیک نامی بھی حاصل ہو گی۔جو بھی یہ پہل کرے گی۔جس کی آج کے دور میں غریب ملکوں کے سیاسی جماعتوں کو نئے بین الاقوامی سیاسی پس منظر میں ضرورت ہوتی ہے۔ مجوزہ آئینی ترمیم کی بابت تجویز پیش کرنے سے پہلے میں آپکو اپنا مختصر تعارف پیش کر دوں۔
میرا نام اعظم معراج ہے۔ میں تحریک شناخت کا ایک رضاکار ہوں۔اس فکری تحریک کا نہ کوئی انتخابی سیاسی یا مذہبی ایجنڈا ہے۔اور نہ یہ کوئی این جی او ہے۔ یہ تحریک دنیا بھر کی اقلیتوں خصوصاً پاکستان کی اقلیتوں کو” پیغام انضمام بزریعہ شناخت برائے ترقی و بقاء-04 ” دیتی ہے۔میں اس خط کے ساتھ اپنا اور تحریک کا تفصیلی تعارف منسلک کر رہا ہوں۔اس خط کے زریعے میں آپکی توجہ پاکستانی مذہبی اقلیتوں کے ایک اہم مسلئے کی طرف دلوانا چاہتا ہوں۔ان پر 16انتخابات میں 6 بار 3انتخابی نظاموں کے تجربات کئے گئے۔لیکن یہ پاکستان کی سیاسی،حکومتی،ریاستی ، دانشور اشرفیہ اور اقلیتوں کے نمائندوں کی بہت بڑی ناکامی ہے،،کہ پاکستان کے غیر مسلم شہری/مذہبی اقلیتں کبھی بھی ان نظاموں سے مطمئن نہیں ہوئے۔ وجہ اسکی یہ تھی کہ ، مخلوط انتخابی نظام میں اقلیتوں کو مذہبی شناخت کی دینا تقریبا نہ ممکن ہے ،جبکہ ضیاء-04 الحق والے جداگانہ میں اقلیتیں اپنے آپ کو سیاسی اچھوت اور معاشرتی شودر سمجھتے تھے۔موجودہ اچھوت پن ختم ہو?ا تو اقلیتوں کی مذہبی شناخت پر نمائندے چننے کا حق 3 چار افراد کے پاس چلا گیا جو جمہوری اقدار کی نفی ہے۔ تحریک شناخت نے ان تمام نظاموں جنکی شروعات 1909 کے آنڈین ایکٹ المعروف مارلے منٹو اصلاحات سے ہوتی ہے۔اس وقت سے موجودہ نظام تک کے نظاموں کیبغور مطالعے کے بعد ان نظاموں کی خوبیوں ،خامیوں سے اخذ کرکے پاکستان کے معروضی سیاسی و معاشرتی حالات سے ہم آہنگ ایک لالحہ عمل تیار کیا ہے۔جو ایک بے ضرر آئینی ترمیم سے ممکن ہے۔جس کو اگر ایک جملے میں سمویا جائے تو وہ یوں ہوگا۔
‘‘اقلیتوں کے لئے موجودہ دوہری نمائندگی کے انتخابی نظام میں مزہبی شناخت والی نمائندگی کو بے ضرر آئینی ترمیم سے دوہرے ووٹ سے مشروط کرکے ایسا بنایا جائے ،جس سے ہر مذہبی نمائندگی والے نمائندے کو اس مزہبی کمیونٹی کے اقلیتی شہریوں کے ووٹوں سے ہی چنا جائے۔ جس کمیونٹی کی مذہبی شناخت کی نمائندگی وہ شخص جس بھی ایوان میں کرتا ہو۔’’
یہ مکمل لالحہ عمل و مطالبہ کتابی صورت میں اردو اور سندھی میں چھپ چکا ہے۔ جس کے بارے میں آگاہی دنیا بھر تحریک شناخت کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بے لوث رضآ کار کتابوں ،کتابچوں ،قومی وکمیونٹی کے اخبارات ،رسائل ،پوسٹرز ،وڈیو کلپس ٹی وی انٹرویوز ودیگر ذرائع سے تقریبا دہائی سے متاثریں و ذمدارین کو دے رہیہیں۔لیکن یہ ہمارے اس جمہوری نظام کا ایک تاریک پہلو ہے، کہ 98فیصد رائے عامہ ہموار ہونے کے باوجود اس مسلئے کو آپ یا آپ جیسے چند قائدین نے ہی حل کرنا ہے۔ 98فیصد اقلیتی شہری موجودہ اقلیتی انتخابی نظام سے غیر مطمئن و ں ے چین ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے ،کہ آپکے اقلیتی رفقاء-04 آپکو کبھی اس سیاسی فائدے کا نہیں بتائیں گے۔ جو اس آئینی ترمیم کے لئے پہل کرنے والی جماعت کو ہوسکتاہے۔میں یہ کتابچہ آپ کو بھیج رہا ہوں۔ جسکی مدد سے آسانی سے آپکے سیاسی مشیر آئینی ترمیم کا مسودہ تیار کر سکتے ہیں۔۔میرے خیال میں اس بے ضرر آئینی ترمیم سے اقلیتوں کا یہ 78سالہ پرانا مسلہ حل کرکے ،وطن عزیز کی مذہبی اقلیتوں کے 80 فیصد معاشرتی،سماجی و سیاسی مسائل کے حل کا خود کار نظام ترتیب دے سکتے ہیں۔۔۔جس سے یقیناً پاکستان کا ایک بہت ہی روشن پہلو دنیا بھر میں جائے گا۔کیونکہ آج کے جدید دور میں ریاستوں کی ترقی ناپنے والے اشاریوں میں سے ایک اشاریہ یہ بھی کہ اس ملک وقوم کے کمزور طبقات مثلآ بچے ،عورتیں اور اقلیتں کتنیخوش اور مطمئن ہیں۔
آئین پاکستان کی کئی شقیں پاکستان کے ان محب وطن دھرتی واسی شہریوں کے بنیادی جمہوری ،انسانی، شہری حقوق کے خلاف ہیں۔لیکن یہ امن پسند محب وطن شہری پاکستان کے معروضی سماجی معاشرتی و مذہبی حالات اور تاریخی پس منظر کی وجہ سے جانتے بوجھتے ان سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔ ایسی بے ضرر سی آئینی ترمیم سے ایسی آئینی تفریق کا کچھ مداوا ہوسکتاہے۔لہٰذا میں امید کرتا ہوں ،کہ اس بے ضرر آئینی ترمیم کے لئے آپ ضرور اپنا حصّہ ڈالیں گے۔یقینا یہ کام ملک وقوم کے استحکام ونیک نامی کا باعث بنے گا۔ اور آپکے نام کے ساتھ یہ تاریخ بھی رقم ہو جائے گی کہ آپ نے پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے 78سالہ اس مسلئے کو حل کیا ہے۔پاکستان کے چوبیس کروڑ انسانوں میں سے بہت کم لوگوں کو یہ منصب نصیب ہوتا ہے۔ کہ وہ تاریخ رقم کر سکے۔ امید ہے آپ اس موقع سے ضرور فائدہ اٹھائے گے۔ اس ضمن میں اعانت و معاونت کے لئے میں ہر وقت دستیاب ہوں۔
واسلام
آپکی رائے اور جواب کا منتظر
اعظم معراج
رضا کار تحریک شناخت
صدر پاکستان
جناب آصف علی زرداری
صدر ہاؤس اسلام آباد
محترم صدر صاحب
اسلام و علیکم
صدر صاحب آپکو دوسری بار جمہوری طریقے سے صدرِ منتخب ہونا بہت مبارک ہو۔ یہ پاکستان کی جمہوری تاریخ کا یقینا ایک تاریخی سنگ میل ہے ،جو آپکے حصّے میں آیا ہے۔آپ نے ماضی میں بطور ایک سیاسی جماعت کے شریک چیئرمین ہونے کی وجہ سے بظاہر صدر کے اس علامتی عہدے سے بھی کئی تاریخی کارنامے انجام دیئے ہیں۔ میں آپکی توجہ ایک ایسے ہی مسئلے کی طرف دلوانا چاہتا ہوں۔جو آپ اپنی جماعت کے زریعے بڑی بے ضرر سی آئینی ترمیم سے حل کروا سکتے ہیں۔ اس مسلئے کے حل سے نہ صرف ملک کے تقریبا 90لاکھ غیر مسلم دھرتی کے بچیخوش ہو جائیں گے۔ جن کے ووٹوں کی تعداد جون 2022 تک 39,56,336 تھی۔ اگلے انتخابات میں یہ تعداد کم از کم ایک (1)کروڑ تک پہنچ چکی ہوگی۔ اور پاکستان میں آبادی اور ووٹوں کا تناسب تقریبا آدھا، آدھا ہے۔جس سے یقیناً آپکی جماعت کو 50لاکھ ووٹروں کی ہمدردیاں بھی حاصل ہونگی. کیونکہ یہ دھرتی واسی ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔اسلئے یہ 50لاکھ ووٹرز بظاہر کوئی بڑا پریشر گروپ نہیں لیکن ان 50لاکھ اقلیتی ووٹروں کی ہمدردیاں آپکی یا جو بھی جماعت اس مسلئے کوحل کرنے کی کوشش میں پہل کرے گی ،اسکو قومی اسمبلی کی پنجاب اور سندھ سے 20اور صوبائی اسمبلیوں کی کم ازکم 50 نشستوں پر یقینی فتح دلوا سکتی ہیں۔اور ملک بھر کے 859حلقوں میں سے ووٹ ڈال کر مجموعی ووٹ بینک میں لاکھوں کے حساب سے اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔اس آئینی ترمیم کے لئے پہل کرنے والی سیاسی جماعت کو اس سے بین الاقوامی نیک نامی بھی حاصل ہو گی۔جس کی آج کے دور میں غریب ملکوں کے سیاسی جماعتوں کو نئے بین الاقوامی سیاسی پس منظر میں ضرورت ہوتی ہے۔ مجوزہ آئینی ترمیم کی بابت تجویز پیش کرنے سے پہلے میں آپکو اپنا مختصر تعارف پیش کر دوں۔
میرا نام اعظم معراج ہے۔ میں تحریک شناخت کا ایک رضاکار ہوں۔اس فکری تحریک کا نہ کوئی انتخابی سیاسی یا مذہبی ایجنڈا ہیاور نہ یہ کوئی این جی او ہے۔ یہ تحریک دنیا بھر کی اقلیتوں خصوصاً پاکستان کی اقلیتوں کو پیغام انضمام بزریعہ شناخت برائے ترقی و بقاء-04 ” دیتی ہے۔میں اس خط کے ساتھ اپنا اور تحریک کا تفصیلی تعارف منسلک کر رہا ہوں۔اس خط کے زریعے میں آپکی توجہ پاکستانی مذہبی اقلیتوں کے ایک اہم مسلئے کی طرف دلوانا چاہتا ہوں۔ ان دھرتی واسیوں پر 16انتخابات میں 6 بار 3انتخابی نظاموں کے تجربات کئے گئے۔لیکن یہ پاکستان کی سیاسی،حکومتی،ریاستی ، دانشور اشرفیہ اور اقلیتوں کے نمائندوں کی بہت بڑی ناکامی ہے،،کہ پاکستان کے غیر مسلم شہری/مذہبی اقلیتیں کبھی بھی ان نظاموں سے مطمئن نہیں ہوئے۔تحریک شناخت نے ان تمام نظاموں جنکی شروعات 1909 کے انڈین ایکٹ المعروف مارلے منٹو اصلاحات سے ہوتی ہے۔اس وقت سے موجودہ نظام تک کے نظاموں کیبغور مطالعے کے بعد ان نظاموں کی خوبیوں خامیوں سے اخذ کرکے پاکستان کے معروضی سیاسی و معاشرتی حالات سے ہم آہنگ ایک لالحہ عمل تیار کیا ہے۔جو ایک بے ضرر آئینی ترمیم سے ممکن ہے۔جس کو اگر ایک جملے میں سمویا جائے تو وہ یوں ہوگا۔
‘‘اقلیتوں کے لئے موجودہ دوہری نمائندگی کے انتخابی نظام میں مزہبی شناخت والی نمائندگی کو بے ضرر آئینی ترمیم سے دوہرے ووٹ سے مشروط کرکے ایسا بنایا جائے ،جس سے ہر مذہبی نمائندگی والے نمائندے کو اس مزہبی کمیونٹی کے اقلیتی شہریوں کے ووٹوں سے ہی چنا جائے۔ جس کمیونٹی کی مذہبی شناخت کی نمائندگی وہ شخص جس بھی ایوان میں کرتا ہو۔’’
یہ مکمل لائحہ عمل و مطالبہ کتابی صورت میں اردو اور سندھی میں چھپ چکا ہے۔ جس کے بارے میں آگاہی تحریک شناخت کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بے لوث رضا کار کتابوں ،کتابچوں ،قومی وکمیونٹی کے اخبارات ،رسائل ،پوسٹرز ،وڈیو کلپس ٹی وی انٹرویوز ودیگر ذرائع سے تقریبا 10سال سے متاثریں و ذمدارین کو دے رہیہیں۔لیکن یہ ہمارے اس جمہوری نظام کا ایک تاریک پہلو ہے، کہ رائے 98فیصد عامہ ہموار ہونے کے باوجود اس مسلئے کو آپ یا آپ جیسے چند قائدین کی مدد کے بغیر حل کرنا نہ ممکن ہے۔ 98فیصد اقلیتی شہری موجودہ اقلیتی انتخاہی نظام سے غیر مطمئن و ں ے چین ہیں۔۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آپکے اقلیتی رفقاء-04 آپکو کبھی اس سیاسی فائدے کا نہیں بتائیں گے۔ جو اس آئینی ترمیم کے لئے پہل کرنے والی جماعت کو ہوسکتاہے۔میں یہ کتابچہ آپ کو بھیج رہا ہوں جس سے آپ کے سیاسی مشیر کم وقت میں آسانی سے آئینی ترمیم تیار کرسکتے ہیں۔ میرے خیال میں اس بے ضرر آئینی ترمیم سے اقلیتوں کا یہ 78سالہ پرانا مسلہ حل کرکے ،وطن عزیز کی مذہبی اقلیتوں کے 80 فیصد معاشرتی،سماجی و سیاسی مسائل کے حل کا خود کار نظام ترتیب دے سکتے ہیں۔جس سے یقیناً پاکستان کا ایک بہت ہی روشن پہلو دنیا بھر میں جائے گا۔کیونکہ آج کے جدید دور میں ریاستوں کی ترقی ناپنے والیعشاریوں میں سے ایک عشاریہ یہ بھی کہ اس ملک وقوم کے کمزور طبقات مثلآ بچے ،عورتیں اور اقلیتں کتنیخوش اور مطمئن ہیں۔
آئین پاکستان کی کئی شقیں پاکستان کے ان محب وطن دھرتی واسی شہریوں کے بنیادی جمہوری ،انسانی، شہری حقوق کے خلاف ہیں۔لیکن یہ امن پسند محب وطن شہری پاکستان کے معروضی سماجی معاشرتی و مذہبی حالات اور تاریخی پس منظر کی وجہ سے جانتے بوجھتے ان سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔ ایسی بے ضرر سی آئینی ترمیم سے ایسی آئینی تفریق کا کچھ مداوا ہوسکتاہے۔۔لہٰذا میں امید کرتا ہوں ،کہ اس بے ضرر آئینی ترمیم کے لئے آپ ضرور اپنا حصّہ ڈالیں گے۔یقینا یہ کام ملک وقوم کے استحکام ونیک نامی کا باعث بنے گا اور آپکے نام کے ساتھ یہ تاریخ بھی رقم ہو جائے گی کہ آپ نے پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے 78سالہ مسلئے کو بھی حل کیا تھا۔ پیپلز پارٹی تو اس کا کریڈیٹ یوں بھی لے سکتی ہے کہ مخلوط طریقہ انتخاب کے بانجھ پن اور جداگانہ طریقہ انتخاب جیسے سیاسی شودر اور معاشرتی اچھوت بنانے والیانتخابینظام سے ہم نے بھٹو صاحب کے دور میں آئینی ترمیم کیذریعے موجودہ دوہری نمائندگی والا انتخابی نظام دے کر اقلیتوں کی جان چھڑائی تھی۔جسے ضیا الحق نے منسوخ کیا اور پھر مشرف نے بحال کیا۔ اب ہم نے موجودہ نظام میں سے جمہوری غلام بنانے والی قباحت نکال کر اس دوہری نمائندگی کو دوہرے ووٹ سے مشروط کرنے کا کارنامہ بھی انجام دیا ہے”۔ اس ضمن میں اعانت و معاونت کے لئے میں ہر وقت دستیاب ہوں۔
واسلام
آپکی رائے اور جواب کا منتظر
اعظم معراج
رضا کار تحریک شناخت
10اپریل 2024
قاضی فائز عیسیٰ
چیف جسٹس آف پاکستان
سپریم کورٹ اسلام آباد
محترم چیف جسٹس صاحب
اسلام و علیکم
میں اس خط کے ذریعے آپکی توجہ اس ملک کے تقریبا ایک کروڑ غیر مسلم شہریوں کے ایک اہم ،سیاسی ،سماجی اور آئینی مسئلے کی طرف دلوانا چاہتا ہوں۔ گوکہ مْجھے اندازہ ہے کہ اس مسلئے کا حل مقنہ نے کرنا ہے۔لیکن کیونکہ میرے خیال میں یہ ایک کروڑ کے قریب پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو چاہے وہ آئین کی روح سے دوسرے نمبر کے ہی شہری ہیں، انکو مطمئن کرکے ان کا ریاست سے رشتہ مظبوط کرنا ریاست کے تینوں آئینی ستونوں کے رکھوالوں کی ذمداری ہے۔ اس لئے میں یہ خط آپکو لکھ رہا ہوں۔
اس ملک کی مذہبی اقلیتوں پر قیام پاکستان سے لے آج تک 16انتخابات میں 5 بار 3 انتخاہی نظام آزمائے گئے۔ یہ پاکستان کی سیاسی ،ریاستی،حکومتی،اور دانشور اشرفیہ کی اور اقلیتوں کے ہر دور کے نمائندوں کی بہت بڑی ناکامی ہے کہ،
ہر نظام کے چند بینفشریز کو چھوڑ کر مذہبی اقلیتیں کبھی بھی ان سے مطمئن اور خوش نہیں ہوئی۔پہلی 2اسمبلیوں میں جداگانہ طریقہ انتخاب تھا۔اس وقت الیکٹرول کالج محدود ہونے کے باوجود جوگں ندرا ناتھ منڈل کے استعفی میں اس نظام میں تبدیلی پر سوچ بچار کا پیغام اس وقت کی ریاستی و سیاسی اشرفیہ کو دیا گیا تھا۔ شائد اسی وجہ سیاگلی 3 اسمبلیوں کے انتخابات مخلوط طریقہ انتخاب سے ہؤے۔جس میں مذہبی اقلیتوں کی مذہبی شناخت پر نمائندگی بہت مشکل ہے۔یہ نظام 3 بار آزمایا گیا۔ تینوں بار میں صرف ایک ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوسکا۔جس پر مسیحیوں نے احتجاج کیا۔شہادتیں ہوئی ،شہیدوں کے خون کے صدقے طے ہو گیا،کہ اقلیتوں کو مذہبی شناخت پر نمائندگی دی جائے گی۔ثبوت اس کا یہ ہے۔۔کہ اکیس نومبر 1975کو چوتھی آئینی ترمیم ہوئی۔جس میں موجودہ نظام متعارف کرایا گیا۔1977کے الیکشن اسی نظام کے تحت ہونے۔ مارشل لاء-04 لگ گیا۔ مذہبی اقلیتوں نے احتجاج کیا۔ کہ ہمارے نمائندے سیاسی اشرفیہ کیوں چنے۔؟۔ضیاء-04 الحق نے جداگانہ طریقہ انتخاب دے دیا,جس کا اچھا پہلو یہ تھآ کہ اس میں اقلیتوں کی لیڈر شپ ابھری ہر مذہبی اقلیت کو حصہ بقدر جثہ ملا۔لیکِن اس نظام کا دوسرا پہلو بڑا غیر جمہوری، غیر انسانی تھا۔اس میں اقلیتوں سے جنرل نشستوں پر ووٹ ڈالنے اور الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی تھی۔ جسکے نتیجے میں ایک کروڑ دھرتی کے بچے سیاسی ناپاک شودر اور معاشرتی اچھوت بنا دیئے گئے۔۔یہ نظام پہلی 2 اسمبلیوں میں دو بار اور 1985سے 1997تک 5 بار یوں مجعوعی طور پر مجعوعی طور پر 7 بار آزمایا گیا۔اقلیتیں خصوصاً مسیحی احتجاج کرتے رہے۔ جس کے نتیجے میں پرویز مشرف نے پھر وہ ہی چوتھی آئینی ترمیم والا نظام بحال کر دیا۔ اس میں اقلیتوں کا قومی ووٹ بحال ہؤا جنرل نشستوں پر الیکشن لڑنے کا حق بحال ہوا۔ لیکن اقلیتوں کے 38نمانیدے چننے کا اخیتار چند لوگوں کے پاس چلا گیا۔موجودہ قومی اسمبلی میں صرف 3 شخصیات کی مرضی و منشاء-04 سے ایک کروڑ اقلیتوں کی مذہبی شناخت پر 9 نمائں دے تشریف فرما ہیں،دسویں کو کوئی ایک اور شخصیت چن لے گی. ایسا ہی حال صوبائی اسمبلیوں کا ہے. یہ انتہائی غیر جمہوری اور جمہوریت کی روح کے منافی طریقہ سلیکشن ہے۔ وہ ہی سلیکشن جس کا دھبا کسی قومی لیڈر پر لگ جائے تو وہ جمہوری کلنک بن جاتا ہے۔ اسکے اچھے پہلوؤں کے ساتھ یہ خامی بہت ہی غیر جمہوری ،جنہوریت کی روح کے منافی اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔۔کہ ایک کروڑ مذہبی اقلیتوں جو کہ مختلف مذاہبِ کو ماننے والے ہیں ہر مذہبی گروہ کی اپنی مذہبی سماجی باریکیاں ہیں۔ اور یہ باریکیاں کوئی دوسرے مذہب کو ماننے والا کیسے سمجھ کر انکی مذہبی شناخت پر نمائندگی کا حق دار کسی بھی اپنے پارٹی ورکر کو نامزد کرسکتا ہے۔؟
تحریک شناخت نے برصغیر کی اقلیتوں کے لئے مختلف ادوار میں وضع کئے گئے انتخاہی نظاموں کو 1909سے حالیہ انتخابات تک کے ان نظاموں کے بغور مطالعیاور انکی خوبیوں خامیوں کے جائزے سے دس سال کی مسلسل عرق ریزی وتحقیق سے اقلیتوں کی امنگوں ،پاکستان کے تاریخی معاشرتی ومذہبی پس منظر موجودہ معروضی حالات بنیادی جمہوری و انسانی حقوق کے مطابق اقلیتوں کے لئے ایک انتخاہی نظام کا مکمل لالحہ عمل دستیاب اعداد و شمار کے مطابق آئین کی روشنی میں حلقہ بندیوں کے ساتھ تیار کیا ہے،، جو انتہائی بے ضرر آئینی ترمیم سے ممکن ہے۔۔جس کا نچوڑ یہ ہے کہ ،
‘‘اقلیتوں کے لئے موجودہ دوہری نمائندگی کے انتخابی نظام میں مزہبی شناخت والی نمائندگی کو بے ضرر آئینی ترمیم سے دوہرے ووٹ سے مشروط کرکے ایسا بنایا جائے ،جس سے ہر مذہبی نمائندگی والے نمائندے کو اس مزہبی کمیونٹی کے اقلیتی شہریوں کے ووٹوں سے ہی چنا جائے۔ جس کمیونٹی کی مذہبی شناخت کی نمائندگی وہ شخص جس بھی ایوان میں کرتا ہو۔۔دوسرے لفظوں میں اسے یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے.. ” اقلیتوں کی موجودہ دوہری نمائندگی والے انتخاہی نظام جس میں مذہبی شناخت والی نمائندگی بزریعہ سلیکشن کی جاتی ہے۔کو دوہرے ووٹ سے مشروط کیا جائے۔’’
اس مطالبے کی بنیاد اس نقطے پر ہے، کہ جب ریاست و حکومت نے آئین پاکستان میں چوتھی ترمیم کے زریعے یہ فیصلہ کرہی لیا تھا۔کہ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کو قومی دھارے میں بھی شامل رکھنا ہے۔اور پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی مذہبی شناخت کی بنیاد پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ضروری ہے۔ تو پھر تین یا چار سیاسی اشرفیہ کے لوگ ایک کروڑ لوگوں کی مذہبی شناخت پر نمائندے چننے کا حق کیسے لے سکتے ہیں، ہر مذہبی گروہ کے اندر کی مذہب سے جڑی باریکیوں کو اس مذہبی گروہ کی اجتماعی دانش ہی سمجھ سکتی ہے۔۔اس لئے مذہبی نمائندگی کا حق اسی کمیونٹی کو ہی اجتماعی طور پر ہونا چاہیئے۔جس کی شناخت پر وہ نمائندہ چنا جائے۔
یہ مکمل لالحہ عمل و تین نکاتی مطالبہ کتابی صورت میں اردو اور سندھی اور انگریزی میں بھی چھپ چکا ہے۔ جس کے بارے میں متاثرین و ذمدارین کو آگاہی تحریک شناخت کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بے لوث رضآ کار کتابوں ،کتابچوں ،قومی وکمیونٹی کے اخبارات ،رسائل ،پوسٹرز ،وڈیو کلپس ٹی وی انٹرویوز،خطوط ودیگر ذرائع سے تقریبا دہائی سے متاثریں و ذمدارین کو دے رہیہیں۔لیکن یہ ہمارے اس جمہوری نظام کا ایک تاریک پہلو ہے، کا مقنہ کے نام پر بھی یہ فیصلہ چند شخصیات نے ہی کرنا ہے۔میں اپنے تعارف کے ساتھ اس کتابچے کی ایک کاپی بھی آپ کو بھیج رہا ہوں۔ اس میں،میں نے آئین کی روح سے بھی اس مطالبے کے حق میں دلیلیں دی ہیں۔ آپ بھی دیکھیں،کہ آپ اس میں کس طرح اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ میں دنیا بھر کی کو اقلیتوں کو” پیغام انضمام بزریعہ شناخت برائے ترقی وبقاء-04 ” دیتی فکری تحریک ، تحریک شناخت کا رضآ کار ہوں۔ اس فکری تحریک نہ کوئی انتخابی سیاسی،نہ مزہبی ایجنڈا ہے۔ اور نہ یہ کوئی این جی او ہے۔
اس لئے ہمارے لئے اپنے تئیں آئینی پٹیشن کے لئے تگڑا وکیل کرنا بھی مشکل ہے۔ پھر جب یہ بھی صاف ہے، کہ یہ معاملہ ایکٹ آف پارلیمنٹ سے ہی حل ہونا ہے۔لہذا آپ کو مقنہ کو یاد دھانی کے لئے اگر کسی پیٹشنرر کی ضرورت ہو تو میں خود کراچی رجسٹری میں پیش ہوسکتا ہوں۔اپ برائے مہربانی اس خط کو ہی میری آئینی پٹیشن سمجھ لیں۔۔اس مسئلے کے حل سے یقیناً پاکستان کا ایک بہت ہی روشن پہلو دنیا بھر میں جائے گا۔کیونکہ آج کے جدید دور میں ریاستوں کی ترقی ناپنے والے اشاریوں میں سے ایک اشاریہ یہ بھی کہ اس ملک وقوم کے کمزور طبقات مثلآ بچے ،عورتیں اور اقلیتں کتنیخوش اور مطمئن ہیں۔ اور آپکا جڑانوالہ کا دورہ اس بات کی گواہی ہے۔ آپ اس نقطے کو مجھ سے زیادہ سمجھتے ہیں۔
واسلام
آپکی رائے اور جواب کا منتظر
اعظم معراج
رضا کار تحریک شناخت
12اپریل2024کراچی
یوسف رضا گیلانی
چیئرمین سینیٹ
اسلام آباد پاکستان
محترم چیئرمین سینیٹ صاحب
السلام و علیکم میرا نام اعظم معراج ہے۔میں دنیا بھر کی اقلیتوں کو‘‘پیغام انضمام بذریعہ شناخت برائے ترقی وبقاء ’’ دیتی فکری تحریک ، تحریک شناخت کا رضاکار ہوں۔تحریک کا تعارف اور اغراض و مقاصد میں اس خط کے ساتھ علیحدہ بھیج رہا ہوں۔
آپ کو ریاست کے سب سے اہم آئینی ستون مقننہ کے ایوان بالا کے رکھوالے کی ذمداری سنبھالنے پر مبارکباد۔ میری تحقیق کے مطابق آپ شائد پہلے پاکستانی ہیں۔جن کے پاس یہ اعزاز ہے، کہ آپ نے ریاست کے تین آئینی ستونوں میں سے اسکے چار میں تین اداروں کی سربراہی کی ہے۔بطورِ اسپیکر قومی اسمبلی مقنہ کے ایوان زیریں بطورِ وزیراعظم پاکستان انتظامیہ کے سربراہ اور اب بطور چیئرمین سینیٹ مقننہ کے دوسرے ادارے سینیٹ ایوان بالا کے رکھوالے کے طور پر یہ ذمہ داری آپ کے حصّے آئی ہے۔ یقینا یہ ایک اعزاز کی بات ہے۔ میں اس خط کے ذریعے آپکی توجہ اس ملک کے ایک ایسے مسئلے کی طرف دلوانا چاہتا ہوں جسے حل کرکے آپ ریاست کو مضبوط کرنے کے کام میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔یہ تقریبا ایک کروڑ غیر مسلم شہریوں کا مسئلہ ہے۔
اس ملک کی مذہبی اقلیتوں پر قیام پاکستان سے لے آج تک 16انتخابات میں 5 بار 3 انتخابی نظام آزمائے گئے۔ یہ پاکستان کی سیاسی ،ریاستی،حکومتی اور دانشور اشرافیہ کی اور اقلیتوں کے ہر دور کے نمائندوں کی بہت بڑی ناکامی ہے کہ، ہر نظام کے چند بینفشریز کو چھوڑ کر مذہبی اقلیتیں کبھی بھی ان سے مطمئن اور خوش نہیں ہوئی۔ پہلی 2اسمبلیوں میں جداگانہ طریقہ انتخاب تھا۔اس وقت الیکٹرول کالج محدود ہونے کے باوجود جوگں ندرا ناتھ منڈل کے استعفی میں اس نظام میں تبدیلی پر سوچ بچار کا پیغام اس وقت کی ریاستی و سیاسی اشرفیہ کو دیا گیا تھا۔ شائد اسی وجہ سیاگلی 3 اسمبلیوں کے انتخابات مخلوط طریقہ انتخاب سے ہؤے۔جس میں مذہبی اقلیتوں کی مذہبی شناخت پر نمائندگی بہت مشکل ہے۔ یہ نظام 3 بار آزمایا گیا۔ تینوں بار میں صرف ایک ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوسکا۔جس پر مسیحیوں نے احتجاج کیا۔شہادتیں ہوئی طے ہو گیا،کہ اقلیتوں کو مذہبی شناخت پر نمائندگی دی جائے گی۔ ثبوت اس کا یہ ہے کہ اکیس نومبر 1975کو چوتھی آئینی ترمیم ہوئی۔جس میں موجودہ نظام متعارف کرایا گیا۔1977کے الیکشن اسی نظام کے تحت ہونے۔ مارشل لاء-04 لگ گیا۔ مذہبی اقلیتوں نے احتجاج کیا۔ کہ ہمارے نمائندے سیاسی اشرفیہ کیوں چنے۔؟ضیاء-04 الحق نے جداگانہ طریقہ انتخاب دے دیا۔جس میں اقلیتوں کی لیڈر شپ ضرور ابھری ہر مذہبی اقلیت کو حصہ بقدر جثہ ملا۔لیکِن اس نظام کا دوسرا پہلو بڑا غیر جمہوری، غیر انسانی تھا۔اس میں اقلیتوں سے جنرل نشستوں پر ووٹ ڈالنے اور الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی تھی۔ جسکے نتیجے میں ایک کروڑ دھرتی کے بچے سیاسی ناپاک شودر اور معاشرتی اچھوت بنا دیئے گئے۔یہ نظام پہلی 2 اسمبلیوں اور 1985سے 1997تک 5 بار مجعوعی طور پر 7 بار آزمایا گیا۔اقلیتیں خصوصاً مسیحی احتجاج کرتے رہے۔ جس کے نتیجے میں پرویز مشرف نے پھر وہ ہی چوتھی آئینی ترمیم والا نظام بحال کر دیا۔ اس میں اقلیتوں کا قومی ووٹ بحال ہؤا جنرل نشستوں پر الیکشن لڑنے کا حق بحال ہوا۔ لیکن اقلیتوں کے 38نمانیدے چننے کا اخیتار چند لوگوں کے پاس چلا گیا موجودہ قومی اسمبلی میں صرف 3 شخصیات کی مرضی و منشاء-04 سے ایک کروڑ اقلیتوں کی مذہبی شناخت پر 9 نمائں دے تشریف فرما ہیں،دسویں کو کوئی ایک اور شخصیت چن لے گی.. یہ انتہائی غیر جمہوری اور جمہوریت کی روح کے منافی طریقہ سلیکشن ہے۔ وہ ہی سلیکشن جس کا دھبا کسی قومی لیڈر پر لگ جائے تو وہ جمہوری کلنک بن جاتاہے۔
تحریک شناخت نے برصغیر کی اقلیتوں 1909سے حالیہ انتخابات تک کے اقلیتوں پر آزمائے گئے ان نظاموں کے بغور مطالعیاور انکی خوبیوں خامیوں کے جائزے سے دس سال کی مسلسل عرق ریزی وتحقیق سے اقلیتوں کی امنگوں ،پاکستان کے تاریخی معاشرتی ومذہبی پس منظر موجودہ معروضی حالات بنیادی جمہوری و انسانی حقوق کے مطابق اقلیتوں کے لئے ایک انتخابی نظام کا مکمل لالحہ عمل دستیاب اعداد و شمار کے مطابق آئین کی روشنی میں حلقہ بندیوں کے ساتھ تیار کیا ہے،، جو انتہائی بے ضرر آئینی ترمیم سے ممکن ہے۔ جس کا نچوڑ یہ ہے کہ ‘‘اقلیتوں کے لئے موجودہ دوہری نمائندگی کے انتخابی نظام میں مزہبی شناخت والی نمائندگی کو بے ضرر آئینی ترمیم سے دوہرے ووٹ سے مشروط کرکے ایسا بنایا جائے ،جس سے ہر مذہبی نمائندگی والے نمائندے کو اس مزہبی کمیونٹی کے اقلیتی شہریوں کے ووٹوں سے ہی چنا جائے۔ جس کمیونٹی کی مذہبی شناخت کی نمائندگی وہ شخص جس بھی ایوان میں کرتا ہو۔ دوسرے لفظوں میں اسے یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘ اقلیتوں کی موجودہ دوہری نمائندگی والے انتخابی نظام جس میں مذہبی شناخت والی نمائندگی بزریعہ سلیکشن کی جاتی ہے۔ کو دوہرے ووٹ سے مشروط کیا جائے۔’’
اس مطالبے کی بنیاد اس نقطے پر ہے، کہ جب ریاست و حکومت نے آئین پاکستان میں چوتھی ترمیم کے زریعے یہ فیصلہ کرہی لیا تھا۔کہ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کو قومی دھارے میں بھی شامل رکھنا ہے۔اور پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی مذہبی شناخت کی بنیاد پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ضروری ہے۔ تو پھر تین یا چار سیاسی اشرفیہ کے لوگ ایک کروڑ لوگوں کی مذہبی شناخت پر نمائندے چننے کا حق کیسے لے سکتے ہیں ہر مذہبی گروہ کے اندر کی مذہب سے جڑی باریکیوں کو اس مذہبی گروہ کی اجتماعی دانش ہی سمجھ سکتی ہے۔اس لئے مذہبی نمائندگی کا حق اسی کمیونٹی کو ہی اجتماعی طور پر ہونا چاہیئے۔ جس کی شناخت پر وہ نمائندہ چنا جائے۔
یہ مکمل لائحہ عمل و تین نکاتی مطالبہ کتابی صورت میں اردو اور سندھی اور انگریزی میں بھی چھپ چکا ہے۔ جس کے بارے میں متاثرین و ذمہ دارین کو آگاہی تحریک شناخت کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بے لوث رضاکار کتابوں ،کتابچوں ،قومی وکمیونٹی کے اخبارات ،رسائل ،پوسٹرز ،وڈیو کلپس ٹی وی انٹرویوز،خطوط ودیگر ذرائع سے تقریبا دہائی سے متاثریں و ذمدارین کو دے رہے ہیں۔لیکن یہ ہمارے اس جمہوری نظام کا ایک تاریک پہلو ہے۔
کہ رائے عامہ ہموار ہونے کے باوجود اس مسلئے کو آپ یا آپ جیسے چند قائدین نے ہی حل کرنا ہے۔ 98 فیصد اقلیتی شہری موجودہ اقلیتی انتخابی نظام سے غیر مطمئن و ں ے چین ہیں۔ اسلئے جو سیاسی جماعت اس مسلئے کو حل کرنے میں پہل کرے گی وہ تقریبا کروڑ مذہبی اقلیتوں جنکے ووٹوں کی تعداد آنے والے انتخابات میں 50لاکھ ہوگی کی ہمدردیاں حاصل کرکے سندھ ،پنجاب کی 20 قومی اور 50صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر یقینی کامیابی بھی حاصل کرسکتی ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے،کہ آپکے اقلیتی رفقاء آپکو کبھی اس سیاسی فائدے کا نہیں بتائیں گے۔ جو اس آئینی ترمیم کے لئے پہل کرنے والی جماعت کو ہوسکتاہے۔میں یہ مکمل کتابچہ آپکو بھیج رہا ہوں، جس کی مدد سے آسانی سے آئینی ترمیم تیار کی جاسکتی ہے۔ میرے خیال میں اس ملک کے سیاسی راہنماہ اس بے ضرر آئینی ترمیم سے اقلیتوں کا یہ 78سالہ پرانا مسلہ حل کرکے ،وطن عزیز کی مزہبی اقلیتوں کے 80 فیصد معاشرتی،سماجی و سیاسی مسائل کے حل کا خود کار نظام ترتیب دے سکتے ہیں۔ گو کہ آئینی ترمیم کے پہل کسی سیاسی جماعت نے کرنی ہے۔
لیکن آپ ہمارے موجودہ پارلیمانی نظام کا حصّہ 1182 منتخب ، اور چنے ہوئے چند ،بلکہ صرفِ چار ، چیف جسٹس ، وزیراعظم ، چیئرمین سینیٹ ،اسپیکر قومی اسمبلی میں سے ایکخوش نصیب ہیں۔ جن پر 24کروڑ کی ریاست کے ڈھانچے کی ذمداری سب سے زیادہ ہے۔اس حیثیت کے ساتھ آپ ایک سیاسی جماعت کے ورکر بھی ہیں۔لہذا ملک وقوم ،اقلیتوں کے مفاد سے زیادہ اس مسلئے کے حل میں کردار ادا کرکے آپ اپنی سیاسی جماعت کے لئے بھی 20قومی اور 50صوبائی کی نشستوں پر یقینی کامیابی کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔۔۔کیونکہ یہ ایک کروڑ دھرتی واسی پاکستان بھر کے 859 حلقوں میں پھیلے ہوئے ہیں لیکن ان 50لاکھ ووٹروں کی ایک بڑی اکثریت پنجاب اور سندھ میں آباد ہے جہاں یہ کے الذکر 20 قومی جمع 50 صوبائی حلقوں میں ہار جیت کا فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔جو سیاسی جماعت اس مسلئے کے حل میں سنجیدہ کوشش کرے گی وہ یہ فائدہ اٹھائے گی۔کیونکہ یہ بھی قوم کا حصہ ہیں،اور صرفِ مذہبی راہنماوں اور اپنے دیہاڑی دار زعماء کے کہنے پر ووٹ نہیں ڈالتے بلکہ اپنے اجتماعی مفادات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
اس مسئلے کے حل سے یقیناً پاکستان کا ایک بہت ہی روشن پہلو دنیا بھر میں جائے گا۔کیونکہ آج کے جدید دور میں ریاستوں کی ترقی ناپنے والے اشاریوں میں سے ایک اشاریہ یہ بھی کہ اس ملک وقوم کے کمزور طبقات مثلآ بچے ،عورتیں اور اقلیتں کتنی خوش اور مطمئن ہیں۔
آئین پاکستان کی کئی شقیں پاکستان کے ان محب وطن دھرتی واسی شہریوں کے بنیادی جمہوری ،انسانی، شہری حقوق کے خلاف ہیں۔لیکن یہ امن پسند محب وطن شہری پاکستان کے معروضی سماجی معاشرتی و مذہبی حالات اور تاریخی پس منظر کی وجہ سے جانتے بوجھتے ان سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔ ایسی بے ضرر سی آئینی ترمیم سے ایسی آئینی تفریق کا کچھ مداوا ہوسکتاہے۔۔لہذا میں امید کرتا ہوں ،کہ اس بے ضرر آئینی ترمیم کے لئے آپ ضرور اپنا حصّہ ڈالیں گے۔یقینا یہ کام ملک وقوم کے استحکام ونیک نامی کا باعث بنے گا۔ اور آپکے نام کے ساتھ یہ تاریخ بھی رقم ہو جائے گی کہ آپ نے پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے 78سالہ اس مسلئے کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔پاکستان کے چوبیس کروڑ انسانوں میں سے بہت کم لوگوں کو ایسے منصب نصیب ہوتے ہیں۔ کہ وہ تاریخ رقم کر سکیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کے بہت ہی کم لوگ ان موقعوں سے فائدہ اٹھا پاتے ہیں ،امید ہے آپ اس موقع سے ضرور فائدہ اْٹھائیں گی۔اس ضمن میں اعانت و معاونت کے لئے تحریک شناخت کے رضا کار ہر وقت دستیاب ہیں۔
واسلام
آپکی رائے اور جواب کا منتظر
اعظم معراج
رضا کار تحریک شناخت
14جون2024
قاضی فائز عیسیٰ
چیف جسٹس آف پاکستان
سپریم کورٹ اسلام آباد
محترم چیف جسٹس صاحب
اسلام و علیکم
جناب، آج کل اقلیتوں و خواتین کی مخصوص نشستوں کے بحران نے پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
دنیا بھر میں بڑے بزنس، جنگی اور تزویراتی تعلیمی اداروں میں کیس اسٹڈی طریقہ تعلیم میں یہ پڑھایا جاتا ہے۔کہ کسی بھی درپیش مسئلے پر تفصیلی تحقیق و سوچ بچار کے بعد اسکی درست تشخیص جس میں تین مرحلوں میں طالب علم اس مسلئے کا تعین مسئلہ ہے کہاں ؟ مسئلہ پیدا ہونے کا خاص میدان اور اسکی کی وجوہات کے درست تعین کے بعد اس مسئلے کے قلیل المیعاد، وسط المیعاد اور طویل المیعاد حل تجویز کئے جاتے ہیں۔
میرے خیال میں موجودہ آئینی سیاسی اور عدلیہ کے اس بحران کا فوری اور درمیانی میعاد کا حل تو امید ہے، آپ ملک وقوم اور عدلیہ کے وقار کے مفاد میں جو تجویز کریں گے وہ اچھا ہی ہو گا۔لیکن میں نے 10اپریل 2024کو بھی اس بحران کے پس منظر پر مبنی ایک تفصیلی خط آپکو ارسال کیا تھا۔امید ہے آپ کو مل چکا ہوگا۔۔جس میں۔ میں نے اس بحران کے ماضی وحال سے اس کیطویل المیعاد آئینی حل کے لئے آپ سے مقننہ کی راہنمائی کرنے کی گزارش کی تھی۔جسکا لب لباب یہ تھا۔کہ یہ کہاں کی جمہوریت ہے؟ کہ تقریبا 12کروڑ خواتین اور ایک کروڑ مذہبی اقلیتوں کی صنفی و مذہبی شناخت پر 226قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کو ریوڑیوں اور خیرات کی طرح چار یا پانچ لوگ تقسیم کرتے ہیں۔جس کی بدولت دیگر سیاسی سماجی ،معاشرتی و دیگر سینکڑوں قسم کے مسائل کے ساتھ موجودہ آئینی بحران جیسے مسائل پیدا ہونے کا اندیشہ ہمیشہ ہی رہتا ہے۔اس لئے اس بحران کے دوران یا اس سے نمٹنے کے بعد جب آپ مناسب سمجھیں، اس مسلئے کے طویل المیعاد حل پر بھی ضرور سوچ بچار کریں۔ میں نے یہ حل تقریبا ایک دہائی کی مسلسل عرق ریزی سے برصغیر میں اقلیتوں کے انتخابی نظام کے بغور مطالعے اور 1909سے آج تک کے اقلیتی انتخاہی نظاموں کی خوبیوں خامیوں کے حقائق وشواہد اور پاکستانی معاشرے کے معروضی سیاسی و معاشرتی حالات اور مخصوص مذہبی و سماجی تاریخی پس کی روشنی سے تیار کیا ہے۔آپ سے گزارش ہے کہ میرے اس اور 10اپریل 2024 کے خط کو میری آئینی پٹیشن ہی سمجھا جائے۔
میں ذاتی طور پر پیش ہو کر اس غیر جمہوری، غیر آئینی، غیر انسانی اقلیتی و خواتین کی مخصوص نشستوں کے طریقہ انتخاب کو ان مسائل پاک کر کے اس انتخابی نظام کو بے ضرر آئینی ترمیم سے آئین اور تیرا کروڑ پاکستانی خواتین و حضرات کی ایوانوں میں حقیقی نمائندگی کے لئے تیار کی گئی سفارشات پیش کر سکتا ہوں۔
یہ سفارشات میں آپ کو اپنے 10اپریل 2024 والے خط کے ساتھ بھیج بھی چکا ہوں۔ کیونکہ اس مسئلے کا حل ایکٹ آف پارلیمنٹ سے ہی ہونا ہے۔اس لئے میں بارہا یہ مسلہ اور اسکا بے ضرر حل ریاست کے دیگر آئینی ستونوں کے رکھوالوں (وزیراعظم ،چیئرمین سینیٹ ،اسپیکر قومی اسمبلی کو بھی بھیج چکا ہوں) انکے کیونکہ موجودہ اقلیتی وخواتین کے انتخابی نظام سے مفادات بھی وابستہ ہیں۔ اس لئے آپ سے گزارش ہے ،کہ آپ ان کی اس بنیادی انسانی حقوق کے خلاف،جمہوریت کی روح کے منافی ،غیرآئینی طریقہ انتخاب میں ترامیم کی راہنمائی کریں۔
اْمید ہے۔ آپ اس خط کو اسی سیاق و سباق میں پڑھ کر اس میں آجاگر کئے گئے مسلئے کو حل کرنے میں اپنا حصہ ڈال کر مستقبل میں بھی قوم کو اس طرح کے بحران میں گرنے سے بچائے گے۔
واسلام
آپکی رائے اور جواب کا منتظر
اعظم معراج
رضا کار تحریک شناخت
حرف تمنا
جمہوریت پسند ہم وطنوں کے نام گزارش
اہل وطن کوئی بھی نیا خیال نوزائیدہ بچے کی طرح ہوتا ہے۔جسے پیدائش کے وقت ماں، نانی, دادی، دائی ,نرس ،ڈآکٹر کے علاؤہ کوئی اْٹھانا پسند نہیں کرتا۔لیکن جیسے ہی اسے نہلا دھلا کر تیار کیا جاتاہے, دیگر عزیز و اقارب بھی اسے خوشی سے لارڈ پیار سے چومتے لگتے ہیں۔پھر جیسے جیسے وہ معاشرے کا کار آمد فرد بنتا ہے۔ پہلے گھر ،خاندان، محلے ،شہر اور پھر معاشرے میں اس کی پسندیدگی کا معیار معاشرے کے لئے آسکی افادیت پر منحصر ہوتا ہے۔اس لئے آپ سے گزارش ہے کہ اقلیتوں کے لئے دوہرے ووٹ کا خیال نیا بھی نہیں اور برّصغیر کے برطانوی حکمرانوں نے اس پر بہت عرق ریزی بھی کی ہوئی ہے اور برصغیر کے اس وقت کے نامور سیاسی اقلیتی راہنماہ جن میں نمایاں نام قائد اعظم ،امبیڈکر بھیم جی جیسے بھی شامل تھے۔ اسے شرف قبولیت بخش چکے ہیں۔اور پاکستان کی اقلیتیں تو 77سال سے ہی کسی ایسے نظام کی طلب گار ہیں۔جس میں ان کی مذہبی شناخت والی نمائندگی انکے ووٹوں سے ان کے قومی ووٹ کو ختم کئے بغیر ملے، لیکن اس بات کا کریڈیٹ لینے میں کوئی حرج نہیں کہسکے کے لئے جامع منصوبہ بندی کسی بھی دور میں نہیں ہوئی ، جیسا لالحہ عمل تحریک شناخت نے تیار کیا ہے۔اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نہیں۔ 2001 سے خواتین کی مخصوص نشستوں کو بھی اسی نظام انتخاب کی طرح نافذ کر دیا گیا ہے۔اس لئے آپ کے لئے یہ مطالبہ اس تناظر میں تو نیا ہوسکتاہے ،کہ پاکستان میں اس کے لئے کبھی آواز نہیں اٹھائی گئی ہے ،لیکن بنیادی خیال اور جن خامیوں کے ردعمل میں یہ لالحہ عمل و مطالبہ تیار کیا گیا ہے۔وہ نیا نہیں ہے۔ رہ گئی بات ان ترامیم کے سفارشات کے ساتھ سینٹ کے انتخابات میں ترامیم کی سفارشات پیش کرنے کی تو یہ طریقہ انتخاب بھی کئی ممالک میں رائج ہے.اور دنیا کے بڑے ہی جمہوریت پسند ممالک میں بھی رائج ہے۔رہ گئی موجودہ نظام کی خامیاں تو ووٹوں کی خرید وفروخت چاہے اسکا بینفشری کوئی فرد ہو یا پارٹی راہنماہ ، اسی طرح ایک صوبے کے شہری کا دوسرے صوبے سے سینئر منتخب کروانے کی طرح کی دیگر بے ضابطگیوں کے بعد سینٹ کے انتخاب کا موجودہ نظام جمہوریت دشمن اور سینٹ کے قیام اور اسکے ومقاصد کے حصول میں ایک رکاوٹ بن گیا ہے۔ خواتین کی مخصوص نشستوں اور سینٹ کے انتخابی نظام یقینا بہت اچھی نیت سے متعارف کروائے گئے ہونگے۔ لیکن جس طرح ہیرونچی نکاسی آب کے گندے پانی کے نظام کو اپنے ایک وقت کے نشے کی خاطر بند کرکے کسی بھی غریب بستی میں تعفن پھیلا دیتے ہیں۔ اسی طرح ہماری اشرافیہ نیجمہوریتکی آڑ میں مسلسل تنزلی کی طرف کئے گئے سفر میں ، اپنی طمع ،ہرص زر و اقتدار، میں اپنائے گئے رویوں کی بدولت ان دونوں نظاموں کی خامیوں کو ایسے آجاگر کیا ہے کہ ہر طرف ہیرونچیوں کی کاروائی کے بعد جیسا ماحول بن گیا ہے۔کچی آبادی کے گٹروں جیسے ماحول نے جمہوریت کی اصل روح کوشدید زخمی کر دیا۔ حساس پاکستا نیوں کو معاشرہ تعفن زردہ لگنے لگا ہے۔عام انسان کوسمجھ بے شکّ نہ آتی ہو لیکن آسکی بے چینی بھی اسی طرح کی ہے۔اس لئے تمام جمہوریت پسند پاکستانیوں خواتین و حضرات سے گذارش ہے کہ ،ان سفارشات سے متفق ہونے کے بعد اس خیال کو پھیلانے میں جنگی بنیادوں پر حصہ لیں۔ جب تک یہ جدو جہد صرفِ اس ملک کے ایک کروڑ غیر مسلم شہریوں کو انکی شناخت کی بنیاد پر چنے جانے والے نمائندوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دلوانے کے لئے تھی۔تو میں نے کبھی بہت زور دے کر آپ سے گزارش نہیں کی۔ گوکہ اس ملک کیبے تحاشا مسلمان شہریوں نے اس آگاہی مہم میں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالا ہے۔لیکن اب اس ملک کی تقریبا ساڑھے بارہ کروڑ خواتین کو انکی صنفی شناخت پر نمائندگی حاصل کرنے والی خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دلوانے کا خیال اور لالحہ عمل بھی اس شامل ہوا ہے۔اب اس میں مزید اِضافہ اس مقصد سے کیا گیا ہے،کہ پاکستان کے 25 کروڑ لوگوں کے حقوق کے تحفظ کے نام پر 96 سینٹرز چننے میں بھی عام پاکستانی کی مرضی شامل ہو۔ اب یہ اس ملک کے ہر شہری مسئلہ ہو گیا ہے۔ کیونکہ جمہوریت میں اگر طاقت کا سر چشمہ ہم ہیں، تو پھر اس کے یوسی سے لے کر سینٹ کے انتخاب میں بھی ہمارا حصہ ہونا چایئے، لہذا اب ہم سب کا فرض ہے،کہ اگر ہم میں سے جو بھی اس خیال اور لالحہ عمل سے متفق ہو جاتا ہے، تو اسے پھر رنگ نسل مذہب،مسلک، صنف ، سیاسی وابستگی اور ایسی کسی بھی تفریق سے بالاتر ہو کر ہم اس آگاہی مہم میں بھرپور حصہ لیں۔ اسکے لئے پہلا مرحلہ یہ ہی ہے، کہ پہلے آئینی ترامیم کی ان سفارشات کو سمجھیں ،جسکے کے لئے آپ کو اس کتاب کی مفت کاپی مکالمہ ویب سائٹ پر دستیاب ہوگی۔ باقی اگر آپ ہارڈ کاپی میں پڑھنا چاہے،تو پھر آپ کو یہ کتاب خریدنا پڑے گی۔۔پڑھ ،سمجھ کر آپ متفق ہوں تو پھر اس بے ضرر مہم کا حصہ بنیں ، ہم مل جل کر اعزازی کتابیں اس ملک کی دانشور ،سیاسی ،اور ریاستی اشرفیہ تک پہنچائیں گے۔ آپ بھی اس کام میں اس طرح اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔کہ آپ اپنے آس پاس دستیاب اشرفیائی مخلوقِ سے مکالمہ کرکے انھیں قائل کرے کہ ،یہ سفارشات اس ملک وقوم اور جمہوریت کی بقاء کے لئے کتنی ضروری ہیں۔ اس کے علاؤہ مفت کتاب کے لنک جتنا ہوسکے لوگوں تک پہنچائیں۔ اگر کم وسائل والے ساتھی کتابی صورت میں پڑھنے کی خواہش رکھتے ہوں، تو ان ساتھیوں تک یہ کتابیں پہنچائیں۔ پاکستان کے چپے چپے میں پھیلے ہم خیال ساتھیوں کے یوسی سطح کے خواتین وحضرات کیعلیحدہ علیحدہ گروپ بنائیں۔ جن کو ان تینوں ترامیم کا پورا فلسفہ سمجھ آ جائے وہ دوسروں کی مدد سے ویڈیو کلپس بنائیں۔اپنے آس پاس پھیلے روائتی پیشہ ور سیاست دانوں کو آگاہی دیں۔ عام سول سوسائٹی کو احساس دلائیں کے یہ تین ترامیم ملک و قوم کی بقاء وترقی کے لئے کتنی ضروری ہیں۔۔ ملک میں ایک فکری انقلاب برپا کردیں۔ ان تینوں انتخابی نظاموں کی خامیوں کو معاشرے میں پھیلائیں یقین مانے سیاست کو پیشہ سمجھنے والوں کو بھی اپنے اس پیشے کے اسرار و رموز کا کچھ پتہ نہیں ہوتا جہاں موقع ملے ان معصوموں کی شعوری تربیت کریں۔ فکری انقلاب ہی دیگر انقلابات کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔ چھوٹے بڑے شہروں میں رہنے والے خواتین و حضرات اپنے اپنے شہروں کے پریس کلبوں میں صحافیوں سے لابنگ کریں۔یہ ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کی ایسی فکری تحریک ہوگی۔جس کے راہنماہ عام خواتین و حضرات ہونگے۔ بس سب سے پہلے موجودہ نظام جس میں 1181میں سے ان 322 خواتین و حضرات جو کہ تقریبا 27.26% بنتے ہیں۔ کے طریقہ انتخاب سے جڑے جمہوریت دشمن پہلوؤں پر بہت سنجیدگی سے غور کریں۔اپ جس بھی جماعت کے حمایتی یا ووٹرز ہیں وہی رہتے ہؤے اس آگاہی مہم میں شریک ہوں۔
قوم کی ماؤں ،بہن ،بیٹوں کے نام اپیل
ویسے تو یہ پوری قوم کا ہی انتہائی توجہ طلب مسئلہ ہے۔ اور موجودہ بحران نے تو ریاست کے تینوں آئینی ستونوں کی چولیں ہی ہلا کر رکھ دی ہیں۔۔لیکِن ہماری قوم کی ایک بڑی خامی یہ بھی ہے۔ کہ ہم اجتماعی سے زیادہ انفرادی مسائل پر توجہ دیتے ہیں۔ جسکی وجہ سے ہم قومی مسائل کی طرف کم اور مسلکی ،مذہبی ،صنفی ، لسانی جغرافیائی و دیگر ایسی شناختوں کی بنیاد پر مسائل پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ اس لئے خصوصی طور پر اپنی پاکستانی قوم کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں سے گزارش کرتا ہوں۔کہ وہ بھی اس مسلئے کو سمجھیں اور پھر منظم طریقے سے اس کے لئے لابنگ کریں۔ کوشش کریں کہ کسی طرح یہ مسلہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر آجاگر ہو۔ وہ سارے اقدامات کریں جو اوپر تجاویز کئے گئے ہیں۔تاکہ آپکی صنفی شناخت پر جن خواتین کو چنا جاتاہے۔اس نظام میں ترمیم کرکے اس کے لئے انصاف اور شفافیت پر مبنی طریقہ انتخاب وضع ہو جائے ؟ تاکہ پاکستان کے ساڑھے بارہ کروڑ خواتین نمائندگی کے اس مقابلے میں حصہ لینے کی بھی اہل ہوں۔ اور وہ اپنی صنفی شناخت پر نمایندگان کو منتخب کرنے کا اخیتار بھی آپ کے پاس ہو۔یقیناً اس بے ضرر آئینی ترمیم کے لئے کوشش کرنا ایک تاریخی کام ہے۔ اور تاریخ بنانے کا موقع ہر وقت ہر کسی کو نہیں ملتا، لہٰذا دامے، درمے، سخنے ،قدمے جتنا ہو سکے اس میں حصہ لیں۔
اقلیتی سیاسی ،سماجی مزہبی ورکروں/راہنماؤں اور عام اقلیتی شہریوں سے اپیل۔
وطن عزیز کے غیر مسلم پاکستانی شہریوں آپ کو یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے ،کہ سب سے پہلے اس کتاب کو بغور پڑھیں اور اس کے بعد سمجھیں پھراگر آپ اس خیال سے متفق ہیں، اس انتخابی نظام کیلئے کوشش کرنا چاہتے ہیں۔ تو آپ اس میں اس طرح حصہ ڈال سکتے ہیں، یہ کوئی مشکل کام نہیں بس ہم غیر مسلم شہری اپنے لوگوں کو یہ بات پوری طرح سمجھا دیں کہ ،ہمارے ساتھ 77 سال میں ہوا کیا ہے.؟ بس اس کی ہمیں سمجھ ہو کہ ہمارے لئے کیا بہتر ہے. ؟اس کے لئے ماضی اور حال کا جاننا ضروری ہے. ماضی اور حال جانے بغیر مستقبل کا ادراک ہو ہی نہیں سکتا بقول محمود شام
خود بخود ہو گی فہم مستقبل
ماضی و حال کو سمجھ پہلے
اس لئے ہمیں پہلے ہر خاص و عام غیر مسلم پاکستانی شہری تک ماضی و حال کے طرز انتخابات کی خوبیاں ، خامیاں پہنچانی ہیں. تاکہ دوہرے ووٹ کے اس فارمولے کے بارے میں جان سکیں۔ کیونکہ باخبر شہری ہی بااختیار شہری ہو سکتا ہے پھر مسلمان سیاسی اشرافیہ کو قائل کرنا کوئی مشکل نہیں۔اس لئے عام غیر مسلم شہری کوباخبر اور بااختیار بنانے کی اس مہم کیلئے اس کتاب کو اپنے
گرجا گھروں، گردواروں، مندروں یا جہاں بھی آپ کے مذہبی یا سماجی اجتماع ہوتے ہیں۔ وہاں لوگوں میں تقسیم کریں اور ہماری ہندو برادری چونکہ زیادہ اندرون سندھ میں ہے تو ان کے لئے جلدسندھی ترجمہ بھی دستیاب ہو گا۔اپنے لوگوں کی فکری، شعوری، سماجی اور خاص کر سیاسی آگاہی کیلئے لوگوں میں یہ پھیلائیں۔ کیونکہ اس طرح کی فکری آگاہی سے ہی انسان سماجی معاشرتی، معاشی، تعلیمی تہذیبی ترقی کی منازل طے کرتا ہے۔پھر اس کے بعدہماری شناخت پر سینیٹ، اسمبلیوں میں بیٹھے لوگوں کو قائل کریں۔ اب اس کتاب میں سینیٹ اور خواتین کی مخصوص نشستوں کے لئے بھی ترامیم کی سفارشات شامل ہیں ،لہٰذا اپنے حلقے کے مسلمان سیاسی شعور رکھنے والے خواتین و حضرات تک یہ آگاہی پہنچائیں۔ معاشرتی ہم آہنگی کے لئے باقی دونوں ترامیم کا بھی بغور مطالبہ کریں۔ اقلیتی انتخابی نظام میں تبدیلی کے ساتھ سینیٹ اور خواتین کی مخصوص نشستوں میں ترامیم کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں بطور نمونہ میں نے تینوں آئینی ریاستی ستونوں کے رکھوالوں کو خطوط لکھے ہیں، آپ بھی ان ترامیم کروانے کے لئے متفق ہو گئے ہیں، تو اپنے حلقے کے نمائندے کے ساتھ صحافیوں اور رائے عامہ ہموار کرنے والے اینکر پرسنز کو خطوط لکھیں خود وی لاگ کریں ،سوشل میڈیا پر شائستگی سے مہم چلائیں۔ لوگوں کو حقائق سے باخبر کریں بااختیار وہ خود ہو جائیں گے۔ شفافیت معاشروں کے لئے آکسیجن ہوتی ہے جس معاشرے میں جتنی شفافیت ہو گی وہ فکری آلودگی سے اتنا ہی پاک ہو گا۔ اپنے آس پاس مسلمان بہن بھائیوں کو بھی قائل کریں کے
کہ وہ بھی مشترکہ طور پر خواتین ،اقلیتوں آور سینٹ کے اس انتخابی نظام کے لئے آواز اٹھائیں، جس میں غیر مسلم پاکستانیوں کی قومی شناخت یعنی پاکستانی شناخت بھی قائم رہے۔اور ہر کسی کی مذہبی شناخت اور مفادات کا بھی ایوانوں میں تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
چاہے آپ کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہے،آپ عام ورکر ہیں یا رہنما آپ کسی سماجی بھلائی کی تنظیم سے وابسطہ ہیں یا عام مسلم پاکستانی شہری ہیں ،جو ان غیر مسلم پاکستانیوں کو مکمل پاکستانی جان کر ا ن کی اپنی اپنی مذ ہبی شناخت کے تحفظ کے لئے ایوانوں میں ان کے نمائندے پہنچانے کے حق میں ہیں تو آپ اپنی وہ شناخت برقرار رکھتے ہوئے بھی اس فکری جدوجہد میں ہمارے ساتھی ہو سکتے ہیں حتی کہ ہمارے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے بہن بھائی بھی اس میں ضرور حصہ لیں۔ کیونکہ کل جب یہ انتخابی نظام نافذ العمل ہو گا تو آپ بھی یقنیا اس نظام کے ذریعے انتخابات میں حصہ لیں گے، تو تب لوگ آپ کے بارے میں بقول محسن بھوپالی یہ نہ کہیں۔
نیرنگئی سیاست دوراں تو دیکھیے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ فکری بنیادوں پر استوار یہ مہم اپنے مقاصد ضرور حاصل کرے گی اس لئے اگر آپ سیاسی رہنما ہیں تو پھر تو ضرور اس مہم کا حصہ بنیں۔ اس لئے آئیں اس آگاہی مہم کو پھیلانے میں ہمارا ساتھ دیں تاکہ غیر مسلم پاکستانیوں کی موجودہ اور آنے والی نسلوں کے بنیادی شہری و سیاسی حقوق کے لئے یہ انتخابی نظام وضع کروایا جا سکے۔
آپ جس بھی مسلک ،این جی او ،یا سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں۔ آئیں اقلیتوں کے موجودہ غیر جمہوری ،غیر انسانی ، اور جمہوری غلام بنانے والے اس نظام کے خلاف پر امن، بے ضرر آگاہی مہم میں حصہ لیں۔ اس نظام میں آپ کی شناخت پر نمائندگی کے نام سے اس ملک کی سیاسی اشرفیہ اپنے لئے 34 مزید جمہوری غلام بھرتی کر لیتی ہے۔ کیا ان جمہوری غلاموں کو ہار ڈالتے انکے قصیدے پڑتے آپ نے کبھی غور کیا کہ یہ کس قسم کی جمہوریت ہے۔؟جس میں ایک کروڑ اقلیتوں کی سات آٹھ قسم کی مذہبی شناخت رکھنے والی اقلیتوں کے نام پر 25 کروڑ کے خرچے پر پر آسائش مراعات والی نمائندگی پر صرفِ پانچ چھ لوگ نمائندے منتحب کر لیتے ہیں۔ اس مکروہ نظام کے خلاف آپ تب ہی آواز اٹھا سکتے ہیں۔جب آپ اس کے پس منظر کے ساتھ اسکی خوبیوں ،خامیوں کو بخوبی جان لیں گے۔ لہٰذا خدارا اس کتاب کو دھیان سے پڑھیں۔ خرید سکتے ہیں ،تو خریدکر پڑھیں صاحب حثیت ہیں تو بانٹے اگر کتاب خرید کر پڑھنا ممکن نہ ہو تو ہمیں بتائیں ہم دنیا بھر میں آپ تک مفت سوفٹ کاپی پہنچائیں گے، کھلے دل دماغ کے ساتھ پڑھ کر متفق ہو جائیں تو پھر دل جان سے جتنا وقت ہوسکے ،اپنے وسائل اہلیت ،سماجی، معاشرتی حثیت کے مطابق اس آگاہی مہم میں حصہ لیں مواد بانٹے لوگوں سے گفتگو کریں۔ سوفٹ کاپیاں شیئر کریں سوشل میڈیا پر مہم چلائیں اس بے ضرر فکری انقلاب میں حصہ لیں فکری انقلاب ہی دیگر انقلابات کی بنیاد بنتے ہیں۔۔ آپکی معمولی سی کوشش اس ملک کی اقلیتوں کو دماغ ماؤف کر دینے والے محرومیوں کے سوداگروں ،مذہب کے بیوپار سے وابستہ اور جمہوری غلاموں اور ان کے آقاؤں کے چنگل سے نکالا جاسکتا ہے۔ چرچ، مندر ،گردوارے، تعلیمی ادارے ،یا جو بھی پلیٹ فارم آپکو دستیاب ہو۔اسے استمال کریں۔ اگر آج 34میں آپ کا نام نہیں آیا تو زندگی کے قیمتی پانچ سال اس آس امید پر نہ گزار دیں کہ اگلی بار تو موقع ملے گا۔ ایسی آس امید پر اپنے دل دماغ ،ضمیر کو نہ ماریں آواز اٹھائیں سوال کریں۔ کوئی عمران خان ،نواز شریف ،آصف زرداری یا نمائندگی بانٹنے کا استحقاق رکھنے والا اس سوال پر آپ کو پارٹی سے نہیں نکال دے گاکہ آپ نے اقلیتوں کے انتخابی نظام میں تبدیلی کی بات کی ہے۔۔سوچیں کیا کسی مکمل انسان کو یہ زیب دیتا ہے کہ جمہوری غلامی کی طلب کی آس ،امید پر اپنا آپ مار لے ۔بے شکّ قابل رحم ہے،وہ شخص جو سیرابوں کے پیچھے سامنے پڑے امرت کے جام کو ٹھوکر مار دے۔ اس میں شک نہیں کہ برصغیر کے باسیوں کی ہزاروں سالہ غلامی نے غلامی کی وہ خو بو (چند استشعنات کو چھوڑ )ہماری رگ ،رگ میں اتار دی ہے۔ پاکستان کے غیر مسلم شہریوں پر اسکے اثرات اور بھی گہرے ہیں۔ اس میں آخری کیل موجودہ اقلیتی انتخابی نظام ٹھوک رہا ہے۔اُٹھو اے اقلیتی شہریوں ٹیکنالوجی کی بدولت سچ اب اتنا عام ہوگیا ہے،کہ اسکے زور پر روز جیتے جاگتے معجزے ہورہے ہیں۔تمہیں بھی اس ذہنی کفیت سے نکلنا پڑے گا۔ اپنے اور اپنے لوگوں کے گرد پھیلے جہالت کے اندھیروں میں حقائق سے روشنی کرو۔ دیکھنا سویر جلد ہوگی۔ کوئی شک نہیں اندھیرا بہت گہرا ہے۔۔ لیکِن یہ بھی عالمی سچائی ہے۔کہ رات کے آخری پہر صج نو سے ذرا پہلے رات بہت گہری ہو جاتی۔ یہ تیرگی صبح نو کی نویدِ سناتی ہے۔پرامن جلسہ، جلوس کرنے کی اہلیت ہے تو ضرور کریں ورنہ کرنے والوں کی فکری راہنمائی کریں۔پہلی شرط اس مسلئے کو سمجھنے کی ہے۔۔پھر اپنی بساط کے مطابق اس کے لئے لوگوں کو آگاہی دو، اس ہزاروں سال کے تاریخ کے جبر کی بدولت پیدا ہونے والی ذہنی غلامی کی زنجیریں توڑ دو۔ اپنے آباء کی سرزمین پر شان سے جینے کا یہ وطیرہ نہیں، کہ چند مہینے کی مراعات کے لئے انسان اپنی زندگی جیسے عظیم عطیہ خداوندی کو گروی رکھ دے۔
نغمہ شناخت
اس دھرتی کے بچے ہو تم
صدیوں سے اس کے واسی بھی
آزادی کے سپاہی ہو تم
قائد کے ہمراہی بھی
وطن کے ہو سپاہی تم
قوم کے معمار بھی
قابل فخر قابل دید
محافظ ، غازی اور شہید
شہداء کے وارث ہو تم
ساتھی حیدران کے بھی
ھلال جرات کے استعارے
ہو جرات کے ستارے بھی
نشان بسالت کے ہو تم
ہو شان سبز و سفید کی
اے پاکستان کے مسیحیوں
جانو اور پہچانو تم
دھرتی سے نسبت کو بھی
اپنے اس ورثے کو تم
اپنی اس شان کو بھی
اپنی اس پہچان کو تم
اپنی اس شناخت کو بھی
اعظم معراج
29-08-2017
تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں