• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • انور پیر زادہ- پل دو پل کا ساتھ’ صدیوں پر بھاری/مہ ناز رحمٰن

انور پیر زادہ- پل دو پل کا ساتھ’ صدیوں پر بھاری/مہ ناز رحمٰن

انور پیر زادو کو آپ سب صحافی، کالم نگاراور سندھ کی تاریخ ، زبان اور شاہ لطیف کی شاعری پر عبور رکھنے والے عالم اور ماہر کی حیثیت سے جانتے ہیں لیکن میں انہیں ضیا الحق کی آمریت کے مشکل وقت کے دوست کی حیثیت سے جانتی ہوں۔یہ 1979 کا ذکر ہے۔صحافیوں کی تحریک ختم ہو چکی تھی ۔ترقی پسندوں، بائیں بازو کے صحافیوں کو بیروزگاری اور پیپلز پارٹی اوردیگر سیاسی کارکنوں کو سزاؤں اور قید و بند کا سامنا تھا۔نجمہ بابر اور بابر ایاز کو ہمارے حالات کا علم تھا حالانکہ وہ لوگ روس نواز اور ہم چین نواز تھے ،پھر بھی انہوں نے احفاظ کی بے روزگاری کو دیکھتے ہوئے سوویت پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ میں ملازمت دلوانے کا انتظام کیا۔اسی شام احفاظ نے گھر آ کر مجھ سے کہا،‘‘میں تو روسیوں کے پاس ملازمت نہیں کر سکتا، تم کر لو’’۔میں نے مکان کے کرائے اور بچوں کی اسکول کی فیس کے بارے میں سوچا اور فوراََ راضی ہو گئی ۔ اگلے دن دفتر جا کے نجمہ سے ملی۔وہ مجھے رؤف وارثی کے کمرے میں لے گئیں ۔جنہوں نے مجھ سے انگریزی کے ایک پیرا گراف کا اردو میں ترجمہ کرایا اور ہمیں پاس کر دیا۔ تب نجمہ نے مجھے ان لوگوں سے ملوایا جن کے ساتھ مجھے کام کرنا تھا۔ منیر مانک، عنایت کاشمیری اور انور پیرزادہ سے میرا تعارف ہوا تو جلد ہی ہم یوں گھل مل گئے جیسے برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔مانک، عنایت اور میں تو ایک کمرے میں ہی بیٹھتے تھے۔اس لئے ہمیں ایک دوسرے سے بات کرنے کا بہت زیادہ موقع ملتا تھا۔انور کبھی کبھار ہی ہمارے کمرے میں آتے تھے لیکن ان کی شخصیت اتنی شان دار اور سحر انگیز تھی کہ کوئی انہیں نظر انداز نہیں کر سکتا تھا اور پھر ہم سب کا نظریاتی حوالہ اور انقلاب لانے کا خواب ہمیں ایک دوسرے سے جوڑے رکھنے کے لئے کافی تھا،اس پر ایک نیا چیلنج ضیا ا لحق کی آمریت کی شکل میں سامنے آگیا تھا ۔سوویت پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ میں کام کرنا اور بھی مشکل ہو گیا تھا کیونکہ ضیا ا لحق نے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف امریکہ کی پراکسی وار لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔مجھے وہاں صرف چھ ماہ کام کرنے کا موقع ملا کیونکہ پھر ضیا ا لحق نے وہ ادارہ بند کر دیا اور ہم سب بے روزگار ہو گئے۔1980میں مجھے روزنامہ امن میں اور انور پیرزادہ کو لاڑکانہ میں ڈان اخبار کے نمائندے کی حیثیت سے ملازمت مل گئی۔منیر مانک اپنے شہر واپس چلے گئے۔لیکن کراچی آتے تو میرے گھر ملنے آتے ۔عنایت کراچی میں رہے،ان کے مضامین مختلف اخبارات میں نظر سے گزرتے رہتے تھے مگر جلد ہی ان کی صحت جواب دے گئی اور وہ انقلاب کے ادھورے خواب کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ان کے آگے پیچھے ہی منیر مانک بھی غیر معمولی حالات میں رخصت ہو گئے۔
انور کی ڈان اور میری امن کی ملازمت کے دوران ضیا ا لحق اپنا بلدیاتی نظام فعال کر چکے تھے، کچھ خواتین کونسلرز بھی گراس روٹ سے سامنے آئی تھیں۔سینئیر بیوروکریٹ شفیق پراچہ اس زمانے میں لاڑکانہ میں تعینات تھے۔انجمن تجارت ملازمت و زراعت پیشہ کی صدر مرحومہ شمیم کاظمی بھی صوبائی سطح پر ضیا کی مجلس شوریٰ کی رکن تھیں ۔ایک روز ان کا فون آیا کہ وہ شفیق پراچہ کی دعوت پر کراچی کی صحافی خواتین کا ایک چھوٹا سا وفد لے کر لاڑکانہ جا رہی ہیں تا کہ وہاں انہیں خواتین کونسلرزسے ملوایا جائے اور مقامی حکومت کے سیٹ اپ اور سرکاری و ثقافتی سرگرمیوں کے بارے میں جاننے کا موقع ملے۔مسئلہ یہ تھا کہ‘ امن’ حکومت وقت کی بلیک لسٹ میں شامل تھا۔اسے سرکاری اشتہارات نہیں ملتے تھے ،نہ ہی ہمیں تقریبات میں بلوایا جاتا تھا۔لیکن شمیم کاظمی کا مسئلہ ایک اور بھی تھا۔ وہ جتنی صحافی خواتین کو لے جا رہی تھیں، وہ سب اردو کے اخبارات و رسائل میں لکھتی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ میں اس دورے کے بارے میں انگریزی میں لکھوں اور ڈان میں شائع کرواؤں ۔میں عجیب مشکل میں پڑ گئی ۔لیکن میں نے انور پیرزادہ کو اطلاع کر دی کہ میں لاڑکانہ آرہی ہوں اور مجھے ان سے کچھ کام ہے۔
خیر صاحب ہم لاڑکانہ پہنچے، ہمیں ٹھیک ٹھاک وی آئی پی ٹریٹمنٹ دیا گیا۔ شفیق پراچہ نے اپنے ایک نوجوان آفیسر کی ڈیوٹی ہمارے ساتھ لگا دی تھی۔جو ہماری سیکورٹی کے حوالے سے بے حد سرگرم اور پریشان رہتا تھا ۔کب کہاں جانا ہے، کس پروگرام میں شرکت کرنی ہے۔یہ سب وہ طے کرتا تھا۔ اب اس زمانے میں موبائل فون تو ہوتے نہیں تھے جو ہم انور کو اپنے پروگراموں سے آگاہ کرتے۔بہرحال ایک دو دن بعد جب وہ آفیسر ہمیں موہنجو داڑو دکھانے لے گیا تو انور کو ہمارے پروگرام کی خبر مل گئی اور وہ ہم سے ملنے وہاں پہنچ گئے۔اس نوجوان بیورو کریٹ کی تلملاہٹ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔آخر ایک مقامی صحافی اس کی مہمان خواتین سے ملنے کیسے پہنچ گیا لیکن وہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ میں نے فوراََ ہی اسے بتا دیاتھا کہ انور میرے بلانے پر وہاں آئے ہیں۔خیر میں نے ایک طرف لے جا کر انور کو اپنا مسئلہ بتا دیا اور بعد میں انہوں نے وہ مسئلہ حل بھی کرا دیا تھا۔
آج میں سوچتی ہوں کہ اس وقت وہ بیوروکریٹ نہیں جانتا تھا کہ جس نوجوان مقامی صحافی کا موہنجو داڑو آنا اسے برا لگ رہا تھا ، اس کو آگے چل کر دنیا موہنجو داڑو پر اتھارٹی تسلیم کرے گی۔ میں تو اس کے دو تین سال بعد ضیا ا لحق کے جبر مسلسل سے گھبرا کر اپنی فیملی کے ساتھ طویل عرصہ کے لئے پاکستان سے باہر چلی گئی لیکن انور پیرزادہ نے ادب، صحافت، ماحولیات اور آرکیالوجی کے شعبے میں اپنا کام جاری رکھا اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ شاہ لطیف کی شاعری ان کی رگوں میں خون بن کر دوڑتی تھی۔ستر کے عشرے میں دیگر بہت سے نوجوانوں کی طرح وہ بھی بائیں بازو کی تحریک سے وابستہ ہو گئے تھے ۔انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں اٹھائیں مگر سندھ کے غریب عوام کا مقدمہ آخر تک لڑتے رہے۔مجھے فخر ہے کہ خواہ مختصر عرصہ کے لئے ہی سہی مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔عنایت کاشمیری، منیر مانک اور انور پیرزادہ کی یادیں ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply