عبدل ‘ پنکچر والا/عبد الرحمن خان

ہندوستان میں ہم مسلمانوں کا ایک مترادف نام “عبدل پنکچر والا” بھی ہے۔ اس کا دو ٹوک مطلب یہ ہے کہ ہم ہندوستانی مسلمان معاشی طور پر قدرے کمزور ہیں۔ آپ اگر تاریخ دیکھیں گے تو مذاہب کے حوالے سے دو چیزیں ہر جگہ یکساں ملیں گی، ایک تمام انبیاء و رسل بہتر انساب والے اور شرفاء کے قبیل سے تھے، دوسرے تمام ہی انبیاء کے اولین ماننے والوں میں سے ایک بڑی تعداد غرباء و مساکین کی قسم سے تھی۔ ایک بات اور بھی جو تمام کے ہاں کامن رہی ہے وہ اینکہ سبھوں کے مطابق انفاق ایک اچھا عمل اور اسراف و تبذیر ایک برا کام رہا ہے، سبھی نے تلاش رزق کی ترغیب اور خاطر خواہ کوششوں کے باوجود نہ ملنے یا کم ملنے پر قناعت کی تلقین کی ہے۔۔ البتہ آدم سے لیکر محمد (علیہم السلام) تک کسی ایک دور میں بھی کم کوشش کرنے یا زیادہ رزق نہ حاصل کرنے کو اچھا نہیں مانا گیا۔ اب ایک ایسا وقت آچکا ہے جہاں سب تو نہیں پر ایک خاطر خواہ تعداد مسلمانوں کی ایسی ہے جو رزق کی وسعت کو قبیح اور غربت و افلاس کو گلوریفائی کرنے لگی ہے، مال کے ایجابیات پر اتنی گفتگو نہیں کی جاتی جتنی اسکی سلبیات پر بات ہوتی ہے، افلاس کی منفیات کو اتنا اجاگر نہیں کیا جاتا جتنا اسکے فضائل بیان کئے جاتے ہیں۔ آپ کو بہتیرے ایسے آۓ دن ملیں گے جن کا ماننا ہے کہ دس بیس ہزار ماہانہ آجارہے ہیں تو مطمئن رہا جائے اور زیادہ کی حرص میں مزید ہاتھ پیر کیوں چلایا جائے۔ ایسے بھی مل جائیں گے جو اچھا گھر، اچھے کپڑے، اچھی گاڑیوں اور اچھے کھانوں تک پہ اسراف تبذیر اور نہ جانے کیا کیا احکام نافذ کرنے لگیں گے۔ میں نے تو بارہا یہاں تک نوٹس کیا ہے کہ اگر آپ اچھے کپڑوں اور اچھے جوتوں میں کسی محفل میں پہنچ جائیں تو آپ ہی کے حلقے کے چند لوگ آپ کو اوپر سے نیچے ایسی نظروں سے دیکھیں گے مانو آپ سے کوئی گناہ سرزد ہوگیا ہے یا آپ نے کسی کا حق مار رکھا ہے۔ آپ کے گھروں پہ آنے والے بہت سے ایسے بھی کہنے والے مل جائیں گے کہ اتنا بڑا یا اتنا اچھا گھر بنانے کی کیا ضرورت تھی، فلاں اسکول میں بچوں کو پڑھانے سے کیا فائدہ تھا  وغیرہ وغیرہ! ۔

انفاق، قناعت، اسراف و تبذیر یا پھر تحدیث نعمت، یہ وہ چیزیں ہیں جن کی تفہیم آپ سب کو مجھ لکھنے والے سے کہیں زیادہ ہے، اس لئے اس پر میں کچھ تفصیل نہ رکھوں گا، البتہ آپ کو یہ ضرور جاننا اور ماننا بھی چاہیے کہ افلاس و غربت کسی آفاقی مذہب میں پسندیدہ چیز کبھی ہو ہی نہیں سکتی ہے، اور اسلام جیسے عالمگیر مذکب میں تو بالکل بھی نہیں، جہاں دینے والا ہاتھ لینے والے سے بہتر ہے، جہاں انفاق چھ درجن سے بھی زیادہ بار قرآن میں ذکر کیا گیا ہے، جہاں زکٰوۃ کو پانچ اساسیات کی فہرست میں رکھا گیا ہے، جہاں نماز سے سلام پھیرتے ہی تلاش رزق کے لئے دوڑ پڑنے کا حکم دیا گیا، جہاں دین و دنیا ہر دو اعتبار سے ایک قوی مومن کو ایک ضعیف مومن سے بہتر تسلیم کیا گیا ہے۔ اب یہ سب چیزیں مفلسی کے ساتھ تو انجام پانے سے رہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

رزق کی کشادگی کوئی  بری چیز بالکل نہیں، افلاس کو کسی بھی شکل میں بالواسطہ یا بلا واسطہ گلوریفائی نہیں کیا جاسکتا۔ غربت میں قناعت اور قضا و قدر پر ایمان کی تلقین تو کی جائے مگر کسی طرح بھی مجرد مفلسی و قلاشی کو فضیلت کے باب میں نہیں لایا جانا چاہیے، بلکہ ضروری ہے کہ زیادہ کمانے کی لوگوں کو ترغیب دی جائے، وسعت رزق کے لئے دعائیں کی جائیں اور اسکے لئے جائز وسائل و تدابیر کی حتی الامکان تگ و دو کی جائے، اور کبھی یہ نہ طے کرلیا جائے کہ مجھے اتنا مل گیا تو گھر بیٹھ جاؤں گا کیونکہ ممکن ہے اتنے پر آپ کا گزارا ہوجائے پر انفاق علیٰ الناس کے لئے رزق کا تسلسل اور اضافہ ضروری ہے۔ اور جب تمام تر کاوشوں کے باوجود رزق کم ملے تو قناعت کر لی جائے، بالکل نہ ملے تو بھی قضا و قدر مان کر مفلسی میں بھی جینا سیکھ لیا جائے، اور جب جائز طریقوں پر زیادہ مل جائے تو تحدیث نعمت کا مظاہر کرتے ہوئے خود پر، اپنوں پر اور ضرورتمندوں پر انفاق کیا جائے، دین کے کاموں میں لگایا جائے۔ دین کے کاموں اور ضرورتمندوں پر انفاق کے ساتھ تحدیث نعمت کی بنیادی شکل یہی ہے کہ آپ اچھا کھائیں، اچھا پہنیں، اچھے گھر میں رہیں، اور مجموعی طور پر ایک اچھی زندگی گزاریں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply