امریکہ کی دریافت کا قضیہ/ڈاکٹر محمد عمران ملک

عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ کولمبس نے امریکہ دریافت کیا، لیکن ماہرین کے مطابق یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ کولمبس نے اس خطے کو 1492 اور 1502 کے دوران کیے گئے اپنے چار سمندری اسفار کے ذریعے مغربی یورپ میں متعارف کرایا۔
اسلام اور لاطینی امریکہ کا تعلق 12 ویں صدی میں ہی استوار ہو چکا تھا اور مسلمان سنہ 1178 میں اس سرزمین پر پہنچ چکے تھے۔انھوں نے اسی مقام پر ایک مسجد کی تعمیر کی پیشکش بھی کی جس کا ذکر کولمبس نے کیا ہے۔

عام خیال یہی ہے کہ سیاح کرسٹوفر کولمبس نے 1492 میں امریکہ اس وقت دریافت کیا جب وہ بھارت کے لیے نئے بحری راستے کی تلاش میں سفر پر نکلا تھا۔

تاہم 1996 میں ایک مسلم مورخ یوسف مروح نے اپنی کتاب میں کولمبس کی دستاویز کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ  مسلمان سب سے پہلے امریکہ پہنچے اور وہاں دینِ اسلام پھیل چکا تھا۔

1996ء کی ایک تحقیق میں زیربحث لائے  گئے   نکات کو ’’یوسف مروہ ‘‘نامی کالم نگار نے آج سے 18سال قبل بیان کیا۔ یوسف مروہ نے اپنی تحقیق میں کولمبس کی خودنوشت کی طرف توجہ مبذول کرائی، جس میں وہ لکھتا ہے کہ ’’ جب میرا جہاز کیوبا کے ساحل سے گزر رہا تھا تو وہاں شاندار پہاڑ تھے۔ وہیں ایک پہاڑ کی چوٹی پر مَیں نے ایک خوبصورت مسجد دیکھی۔‘‘ یوسف مروہ کا استدالال ہے کہ کولمبس کے کیوبا پہنچنے پر وہاں پہلے سے ایک مسجد موجود تھی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کولمبس سے قبل مسلمان امریکہ پہنچ چکے تھے۔اہلِ مغرب کا اعتراض یہ ہے کہ کولمبس نے جو چیز دیکھی وہ مسجد نہیں، بلکہ مسجد نما عمارت تھی۔

کچھ مورخین کے مطابق شمالی و جنوبی امریکہ پر سب سے پہلے قدم ایشیا سے آنے والے افراد نے رکھے جو ایک خیال کے مطابق آبنائے بہرنگ سے گزر کر 15 ہزار سال قبل وہاں آئے تھے۔

امریکی مورخین کے مطابق کولمبس سے قبل اسلام کے وجود کے شواہد نہیں ملتے،اس لئے کیوبا میں مسجد کی موجودگی کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک پیچیدہ بحث ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اگر پہاڑی کی چوٹی پر موجود عمارت مسجد نہیں تھی تو کولمبس اس کے لئے گرجا یا کوئی دوسرا لفظ بھی استعمال کر سکتا تھا، مگر اس نے مسجد کا لفظ لکھا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کولمبس سپین میں مقیم تھا۔ یہ وہی سپین تھا جہاں کچھ عرصہ قبل مسلمانوں کی حکومت تھی، لہٰذا وہاں جا بجا مساجد بھی موجود تھیں اور کولمبس مسجد کو پہچاننے میں غلطی کیسے کر سکتا تھا۔ تاہم مغربی مورخین اس استدالال کو تسلیم نہیں کرتے۔

یوسف مروہ اپنے استدالال کی مضبوطی کے لئے افریقی مسلمانوں کے امریکہ جانے کے شواہد بھی پیش کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مغربی افریقہ میں ٹمبکٹو ( مالی کا شہر) کی سنہری سلطنت کے بادشاہ ابوبکر نے گیارہویں صدی عیسویں میں 400چوبی جہاز مغرب کی جانب روانہ کئے تھے۔ یہ جہاز کیوبا سے ہوتے ہوئے برازیل پہنچے اور ان میں سے صرف ایک جہاز واپس لوٹا، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ افریقی مسلمان کولمبس سے300سال قبل امریکہ میں اپنی بستیاں بسا چکے تھے، لہٰذا وہاں مسجد کی موجودگی بھی اچنبھے کی بات نہیں۔ کچھ دیگر قدیم تحریروں میں بھی مسلمانوں کے امریکہ داخل ہونے کے حوالے موجود ہیں۔ایک مسلمان مورخ ابوالحسن علی السعودی (889-956ء) نے اپنی تحریروں میں قرطبہ کے رہائشی ابن سعد نامی شخص کا ذکر کیا ہے، جس نے امریکہ کا سفر کیا تھا۔ دسمبر 2013ء میں معروف میگزین ’’ہسٹری ٹو ڈے‘‘ میں ایک مغربی محقق فریڈرک نے بھی اس بات کی تائید کی ہے کہ مسلمان کولمبس سے500سال قبل امریکہ پہنچ چکے تھے۔
شمالی امریکہ پہنچنے والے سب سے پہلے یورپی ناروے کے مہم جو تھے جو کولمبس سے پانچ سو سال قبل وہاں گئے تھے۔
جب کہ مغرب کی تقریباً تمام نصابی اور غیر نصابی کتابوں میں درج ہے کہ امریکہ کو سب سے پہلے کولمبس نے 1492ء میں دریافت کیا۔ دراصل کولمبس ایک بحری مہم جو اور سپین کے قشتالوی عیسائی حکمرانوں کا ملازم تھا۔ کہا جاتا ہے کہ سپین کی ملکہ ازابیلا اور فرڈینینڈ نے اسے ایک بحری مہم کے لئے روانہ کیا اور اس مقصد کے لئے متعدد چھوٹے جہاز بھی فراہم کیے ، جن کے ذریعے وہ ایک طویل سفر طے کرتا ہوا کیوبا پہنچا۔

6 جنوری 1992 کو ملکہ ازابیلا جب قصر الحمرا میں داخل ہوئی تو کرسٹوفر کولمبس کے امریکی مہم کو نا قابل عمل قرار دیا۔ کہ کولمبس کا منصوبہ ناقص معلومات پر استوار ہے۔
اس سے کولمبس دلبرداشتہ ہوا دریں اثنا یہودی کولمبس کی حمایت پر کمر بستہ ہو چکے تھے۔ سپین میں ہزیمت کے بعد یہودیوں کو ایک ٹھکانہ درکار تھا۔ یہودیوں نے کولمبس کی مکمل جمایت کی۔ یہودی سازش کے ذریعے ملکہ کو کولمبس کے منصوبہ پر عمل درآمد کے لیے تیار کر چکے تھے۔

ایک دلچسپ روایت یہ ہے کہ کولمبس امریکہ کے بجائے ہندوستان کی تلاش میں نکلا تھا۔ کیوبا پہنچ کربھی اسے یہ اندازہ نہیں ہوا کہ جس خطے کو اس نے دریافت کیا ہے وہ ہندوستان نہیں،بلکہ امریکہ ہے اور مرتے دم تک وہ اِسی غلط فہمی میں مبتلا رہا۔ دنیا کے اکثر و بیشتر مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کولمبس نے جو جگہ دریافت کی تھی وہاں اس سے قبل دوسرے خطے کا کوئی باسی نہیں پہنچا تھا، مگر معدودے چند ایسے بھی ہیں جو اسے تسلیم نہیں کرتے۔

دوسری طرف دنیا میں ان قوموں کی بھی کمی نہیں جو یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ کولمبس سے قبل امریکہ دریافت کر چکی تھیں۔ ناروے کے شہری دعویٰ کرتے ہیں کہ ناروے میں رہنے والے وائی کنگ نارویجن،مسلمانوں سے بھی ایک صدی پہلے کینیڈا پہنچے تھے۔ اہل چین کہتے ہیں کہ چینی ایڈمرل ژینگ (1421ء) میں امریکہ پہنچا۔ نیوزی لینڈ کے ایک چھوٹے سے جزیرے کک آئی لینڈ کے شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ 700 سال پہلے امریکہ پہنچ چکے تھے۔ جاپانیوں کا موقف ہے کہ وہ تین ہزار سال پہلے امریکہ پہنچ چکے تھے،جبکہ بعض مورخین کا خیال ہے کہ ریڈ انڈینز کولمبس سے 12سے 13ہزار سال پیشتر سائبریرہ کے راستے امریکہ پہنچے۔ایسے واقعات میں ہمیشہ یہی ہوتا آیا ہے۔ ہر قوم کسی تاریخی واقعہ کو اپنے سر منڈنے کی تگ و دو میں لگی رہتی ہے، جہاں تک امریکہ کا معاملہ ہے تو مورخین کے خیال میں یہ تاریخ کے ان قضیوں میں سے ایک ہے جسے آج کے دور میں حل نہیں کیا جا سکتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس دنیا کی کوئی ایسی تاریخ موجود نہیں، جس سے ہر کوئی اتفاق کرتا ہو۔ مختلف مورخین کا فکری تعصب مختلف ہو سکتا ہے۔ایسا اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایک مورخ نے تاریخی واقعات کو کسی خاص زوایئے سے دیکھا،جبکہ کسی دوسرے نے مخصوص پہلوؤں کو ہائی لائٹ کیا اور مخصوص پہلوؤں کو چھپانے کی کوشش کی۔

Facebook Comments

ڈاکٹر محمد عمران ملک
ڈاکٹر محمد عمران ملک وزیٹنگ فیکلٹی ممبر پنجاب یونیورسٹی لاہور ٹی وی اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply