جینا اسی کا نام ہے؟-ڈاکٹر نوید خالد تارڑ

دنیا کے ہنگاموں سے اکتا کر کبھی کبھی جی تو چاہتا ہے کہ دور کہیں پہاڑوں کی آغوش میں جا بیٹھیں۔ جہاں نہ کوئی فون ہو نہ کوئی ربط کی صورت۔ نہ صبح صبح آفس پہنچنے کی جھنجھٹ ہو نہ کوئی فیس دینے کی، کرائے پورے کرنے کی پریشانی۔ نہ کسی افسر کی توتکار ہو، نہ کسی ماتحت کے رنگ برنگے بہانے۔ جہاں اپنے جائز حق کے لیے سفارشیں نہ کروانی پڑیں، قدم قدم پہ بھیک مانگتے فقیروں سے نظریں نہ چرانی پڑیں۔

بس ہم ہوں، چڑھتے سورج کی روشنی ہو، پرندوں کی چہکار ہو، صاف پانی کا چشمہ، راتوں کو جگمگاتے تارے ہوں اور نگاہوں کا خیرہ کرتا سبزہ ہو۔ اک چھوٹے سے جھونپڑے کے باہر بیٹھ کر ڈوبتے سورج کی زردی کو پورے سکون سے آنکھوں میں سمیٹتے جائیں۔ بارش ہو تو اس کے قطروں کو موتیوں کی لڑی سمجھتے ہوئے بدن پہ سجاتے جائیں، دھوپ نکلے تو اس کی تپش سے سکون پائیں، چاند نکلے تو اس کی روشنی میں نہائیں۔

پھر ان ویرانوں سے کبھی کبھار واپس آبادیوں میں آئیں، اپنے نام کا کوئی خط وصول کریں اور واپس چٹانوں میں روپوش ہو جائیں۔ پھر وہاں بیٹھ کر مدتوں تک اس خط کے لمس کو، اس میں لکھے لفظوں کی چاشنی کو دھیرے دھیرے اپنے وجود میں اتارتے جائیں۔ کہیں دور کسی اپنے کے ہونے کے احساس سے لطف کشید کرتے ہوئے جیے جائیں۔

ورنہ اس جینے کی جنگ میں ہمیں مل ہی کیا رہا ہے۔ وہی روز کا جینا، روز کا مر جانا۔ بس دن ہی گزارنے ہیں اگر ایسے تو پھر اس بھاگ دوڑ میں گزریں یا دنیا سے کنارہ کر کے کسی پہاڑ کی آغوش میں گزریں، کیا فرق پڑتا ہے۔ سوچتا ہوں اس ہنگام پرور دنیا میں جو بیقراری ہمارا مقدر بن چکی ہے، اس سے کنارہ ہی کیوں نہ کر لیں۔

مگر پھر خیال آتا ہے کہ اگر ویرانے میں، کسی برف پوش چوٹی کے سائے میں، دووور جنگلوں میں بیٹھ کر بھی سکون نہ آیا تو کہاں جائیں گے۔ یہ بیقراری کیا معلوم ہماری اپنی ہی فطرت ہو اور ہم اسے دنیا کی بھاگ دوڑ سے نتھی کر کے خود کو بری الذمہ سمجھے بیٹھے ہوں۔

اور کیا معلوم یہ بیقراری بھی کوئی خرابی نہ ہو، ہمیں چلاتے رہنے کا ذریعہ ہو، ہماری ساری فتوحات کا ایندھن ہو۔ یہ بے چینی شائد ہمارے سسٹم کا ضروری حصہ ہو کہ اگر یہ نہ ہوتی تو دنیا والے آج بھی ہزاروں برس پہلے والی زندگی گزار رہے ہوتے۔ آج بھی جنگلوں میں بیٹھے پتوں سے اپنا جسم ڈھانپ رہے ہوتے، شکار ڈھونڈ ڈھونڈ کر اسے پکانے کی کوشش میں آگ لگانے کے لیے ہلکان ہو رہے ہوتے۔ مضبوط ترین لوگ جیے جاتے اور کمزور لوگ ان مضبوط لوگوں کا یا جانوروں کا شکار بن رہے ہوتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پس پھر اس بیقراری کو، اس وجود میں پھیلے انتشار کو قبول کرتے ہوئے اسی ڈھنگ میں جیے جاتے ہیں، جو ڈھنگ اس دنیا نے سکھایا ہے۔ اسے اپنی رکاوٹ سمجھنے کے بجائے آگے بڑھنے کی تحریک سمجھ کر آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں، یہ جانے بغیر کے آگے ہے کیا، یہ سمجھے بغیر کہ ہمیں کب تک آگے بڑھنا ہے، کہاں تک جانا ہے، ہماری منزل کیا ہے، بس آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں، چلتے چلے جا رہے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply