اب ہم اہل صفا اور مردود حرم رام لیلا میدان میں رفوگرانِ شرع، خواجگانِ دین اور فروشگان ضمیر کی بارگاہ میں حاضری دینے جا رہے تھے اور عابد رفیق ہمارا خضرِ راہ تھا۔ عابد غالبؔ کے خضر کے برعکس زندہ اور ’روشناس خلق‘ ہے۔ جب تک وہ ساتھ رہا اپنے زندہ اور ’حسنِ مخلوق‘ سے آشنا ہونے کا ثبوت دیتا رہا۔ غالبؔ کا خضر تو عمر جاوداں کے لیے چور بنا گھوم رہا ہے سو اس نے ایسی زندگی پر لعنت بھیج دی جو مخلوق سے آشنا ہوئے بغیر گزار دی جائے۔ اس طرح غالب نے اپنے مخصوص انداز میں متصوفانہ زندگی کی تردید بھی کی ہے۔ طنز ملیح آستانِ غالب پر پہنچتے ہی سجدہ ریز ہو جاتا ہے۔ فردوس میں دوزخ کو ملانے کی تجویز، صبر ایوب کی پایابی، خضر کی عمر جاودانی، فرہاد کی رائگانی اور عیسیٰ ابن مریم کے معجزہٴ عطائے زندگانی پر غالب کا طنز ملیح بس یوں ہے کہ پڑھیئے، سوچیئے اور سر دھنیئے۔ عابد صوفی نہیں ہے، ہاں تھوڑا بہت پاجی کہہ سکتے ہیں جس کا ثبوت وہ راہ پیچھے چھوڑتا جاتا ہے، سر دھنتا نہیں دھنواتا ہے اور غالباً اسی وجہ سے سامنے سے فارغ ’البال‘ ہے۔ اب ہم رام لیلا میدان کے لیے میٹرو میں سوار ہو چکے تھے۔
ہمارے محسن اور سفر دہلی کے محرک ندیم سراجی بھائی(پونے) وہاں پہلے سے موجود تھے اور ہم بوجوہ ان کے ساتھ نہیں تھے۔ ندیم بھائی پونے میں شٹر سازی کرتے ہیں، انتہائی شریف النفس، مخلص و ملنسار شخصیت ہیں اور کار خیر میں دامے درمے قدمے سخنے حصہ لیتے رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں اللہ نے انہیں دل درد مند کے ساتھ ذوق سلیم سے بھی نوازا ہے۔ سیلف میڈ ہیں شاید اسی لیے کشادہ ظرف اور وسیع المشرب ہیں، بصورت دیگر مولوی کے دل میں ماسوائے ابلیس کسی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ مسئلہ ان کا نہیں ان کے تھری مسکیٹیئرز (تین بندوقچیوں) مولانا معراج ربانی، عبدالعلی اور ڈاکٹر عبدالکریم علیگ کا تھا جن کے گناہ کم اور ثواب زیادہ تھے، جن کا خیر ان کے شر سے ہم آہنگ نہیں تھا اور جن کی طبیعتیں مکدر کم منزہ زیادہ تھیں، اور پھر جن کے مزاج کی لطافت کا بوجھ مجھ بندہٴ عاصی کے جمال کی کثافت نہیں اٹھا سکتی تھی۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ زہاد و مشائخ کے تسبیح زُور اور خرقۂ سالوس میں ملفوف ’مقدسات‘ سے حتیٰ الامکان محفوظ رہوں۔ ایک تو ہم مردود حرم ٹھہرے اور دوم اینکہ مزاج میں نہ تو جہالت کو برداشت کرنے کا ظرف ہے اور نہ ہی خمار پارسائی کو جذب کرنے کا مادہ، سو ان کی فہرست معیت میں جو لوگ تھے ہم ان کے زہد و ورع اور تقویٰ و تقدس کا عذاب برداشت کرنے سے قاصر رہے لہٰذا عابد نے پیشگی اجازت طلب کر لی کہ ہاشم بھائی ہم لوگوں کے ساتھ رہیں گے۔ اس طرح دہلی میں ہمارے یمین و یسار عابد رفیق اور عبد القدیر ٹھہرے۔ یہ دونوں نابغے ایسے ہیں کہ اگر یہ دونوں ساتھ ہوں تو کسی بھی جہنم میں چلے جائیں، آتش دوزخ کی گرمی محسوس نہیں ہو گی۔ دونوں یار باش، وارفتہ طبع اور خوش مزاج ہیں، بقول رشید ودود مرشد کو بس ایک ہی شکایت ہے کہ ان کی مرشدہ انہیں شوریدہ سر نہیں ہونے دیتیں ورنہ اب تک بہت سی دیواریں ٹوٹ چکی ہوتیں اس لیے بے چارہ سر ہی وبال دوش بنا ہوا ہے حالانکہ ’طاقت بقدر لذت آزار بھی نہیں‘ والی ایک دوسری روایت بھی ملتی ہے جس کے راوی ملک عبدالنور نملی عرف بیلن بلرامپوری ہیں اور ہنوز کسی نے اس پر کلام نہیں کیا ہے۔ عبدالقدیر عمر و عیار کی زنبیل ہے جس میں حکمت ہے اور حکمت سے جڑی کہانیاں، محاکات اور مزخرفات ہیں۔ رہی بات عابد رفیق کی تو یہ وہ عمل انگیز ہے جس کے بغیر مرشد کا کیمیائی عمل مکمل نہیں ہوتا۔ دونوں اکیلے انجمن ہیں اور اگر ساتھ ہوں تو مہا انجمن۔ مرشد پہلے ہی اپنی دکان لگا چکا تھا لیکن جس مال کا تاجر تھا وہی مال ندارد، کتاب کے خریدار کم اور معجون کے زیادہ نکلے۔ سو بچا عابد رفیق اور اب ہم اس کے ساتھ میٹرو پر سوار تھے۔ جب عابد کو یقین ہو گیا کہ اب یہ سمند رام لیلا میدان میں ہی جا کر رکے گا تو اس نے زاہدان شہر کو مطلع کر دیا ’سوئے مے خانہ سفیران حرم آتے ہیں‘ اور اطلاع ملتے ہی رندانِ بے ریا دم کرانے شراب لے آئے۔
مرشد اپنے اسٹال پر منتظر ملا اور جیسے جیسے لوگوں کو پیر مغاں کے آنے کی خبر ملتی گئی مریدوں کے آنے کا سلسلہ بڑھتا گیا۔ ملاقاتیوں میں فیسبکی دوستوں اور مدارس کے طلبا کے علاوہ جامعہ، دہلی اور علیگڑھ کے طلبا بھی شامل تھے جن میں عبد الرحمان عابد، محمد اشرف، افضل فلاحی اور عزیر احمد وغیرہم شامل تھ (عدم ذکر سے عدم وجود لازم نہیں آتا سو جن کے نام یاد نہیں رہے وہ خود اپنی موجودگی درج کرا سکتے ہیں)۔ طلبا سے علم سے لے کر فلم تک مختلف موضوعات پر بنا کسی تکلف، جھجک اور شرم و آزرم بنداس گفتگو ہوئی۔ عزیزم عزیر احمد نے از راہ مذاق کہا کہ اتنی سیلفیاں تو امیر صاحب کے ساتھ بھی نہ لی گئی ہوں گی جتنی آپ کے ساتھ کھینچی جارہی ہیں۔ کچھ لوگوں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ ہم آپ، رشید ودود، عبدالنور نملی، ڈاکٹر عبدالرحیم، دکتور وسیم محمدی، ابن کلیم سب کو ایک ساتھ دہلی میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ سب لوگ ایک ساتھ ہوں تو کتنا مزہ آئے گا۔ ہزاروں خواہشیں اور ہزاروں آفتیں۔ ہم چپ رہے، ہم ہنس دیئے۔ کانفرنس میں بیشتر وقت استاذی المکرم شیخ ابوالقاسم فاروقی صاحب کے ساتھ گزرا۔ فاروقی صاحب مشائخ کے مرزا غالب ہیں بس شراب نہیں پیتے لیکن قشقہ ضرور کھینچتے ہیں۔ تاریخ ہو، ادب ہو، حکمت و فلسفہ ہو کوئی بھی موضوع ہو وہ اپنے حسن ظرافت سے بور نہیں ہونے دیتے۔ طلبا کے تئیں ان کی شفقت و محبت فقید المثال ہے۔ اللہ رب العزت ان کا سایہ برقرار رکھے کہ ایسے چھتنار درخت اب خال خال ہی رہ گئے ہیں۔
جہاں تک کانفرنس کی روداد کی بات ہے تو خدا جھوٹ نہ بلوائے جو میں نے پیران دین کی پند و نصیحت اور غیرت و پندار کا ایک بھی لفظ سنا ہو۔ نہ تو مجھے منتظمین نے مدعو کیا تھا اور نہ ہی کانفرنس سے مستفید ہونے کی نیت سے آیا تھا۔ 23 سال کی خلش تھی جو یہاں کھینچ لائی تھی۔ ملت کے پاسداروں نے نہ تو کل ہمیں کسی لائق سمجھا تھا اور نہ ہی آج اور نہ ہی مستقبل میں کسی لائق سمجھیں گے۔ ہم رند روسیاہ، خود مست و خود نگر، خراب حال اور خرابہ پرست کب کیا سے کیا ہو جائیں ہمیں خود نہیں پتہ۔ بخت نے ایک ہی زندگی دی ہے اور ہم اسے اپنے علاوہ کسی اور کی نذر نہیں کر سکتے لہٰذا ہم شیخ و برہمن کے دیر و حرم سے سو گز کا فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے چلتے ہیں۔
رام لیلا میدان میں دو دروازے تھے۔ ایک صدر دروازہ جو بے چہرہ ہجوم کے لیے تھا اور دوسرا خاص دروازہ جو صرف معززین کے لیے تھا جو سیدھا ’جنت رضواں‘ کی طرف لے جاتا تھا۔ سو معززین اسی خاص دروازے سے آتے اور چلے جاتے۔ دو دن کی کانفرنس میں امیر محترم شیخ اصغر امام مہدی کا ظہور کبھی اس عام دروازے پر نہیں ہوا کہ بے چہرہ ہجوم ان کی ایک جھلک دیکھ لے اور ذلیل و خوار ہونے کی قیمت نکل آئے۔ صدر دروازے پر ٹھیک ٹھاک ابتری تھی۔ جامہ تلاشی کا کام نوخیز مُغ بچوں کے حوالے کر دیا گیا تھا اور دس فٹ کے فاصلے پر دونوں طرف پولیس کی ایک بڑی نفری کسی بھی طرح کی بدتمیزی کرنے یا اس سے نمٹنے کے لیے موجود تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ کانفرنس کے روح رواں کا زور انسان کو درون ذات کثافت سے پاک کرنا نہیں بلکہ سگریٹ، تمباکو اور پان جیسی فضول اور حرام اشیائے خوردنی پر قدغن لگانا تھا اور ماشاء اللہ وہ اپنے اس عظیم مقصد میں کامیاب رہے۔ اندر اسٹیج پر بیٹھا مولوی اگر جھوٹ بولتا ہے تو بولتا رہے۔ جھوٹ حرام تھوڑی ہے۔
رام لیلا میدان کا ماحول کچھ کچھ میدان محشر جیسا لگا، تقریباً چھ آٹھ ہزار افراد کا مجمع تھا،کوئی انتظام نہیں، پورے میدان میں بدنظمی کے علاوہ کوئی اور چیز نمایاں نظر نہیں آئی، ہر طرف افراتفری مچی ہوئی تھی، ہر ایک کہیں کھویا ہوا حیران و پریشان نظر آ رہا تھا۔ چہرے گرد و غبار سے اٹے ہوئے، کوئی روحانیت اور کوئی گداختگی نہیں۔ صرف کچھ چہرے خوش و خرم نظر آئے، انہیں نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا گیا تھا، یہ مقالہ نگاران تھے اور ان کی تعداد کچھ سات سو کے آس پاس تھی، یہ وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ مُّسْفِرَةٌ ، ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ والے تھے۔ یہ جنتی لوگ تھے انہیں گھر واپسی کا ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ اور کچھ چہرے زرد، سوکھے اور اندر تک دھنسے ہوئے تھے، انہیں سرے سے نامہ اعمال ہی نہیں دیا گیا اور وہ بے چارے نو مینز لینڈ میں کھڑے رہے۔یہ’ وَ وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ عَلَیْهَا غَبَرَةٌ، تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ ‘ والے تھے۔ انہیں میں سے کچھ بے چاروں نے بتایا کہ ان کی راتیں جنت میں اور دن جہنم میں گزرتے تھے۔ یہ وہ معصوم لوگ تھے جو منہج کی محبت میں غیر واجب قرض اتار رہے تھے۔ انہیں پاس میں واقع کسی مسجد/مرکز میں ٹھہرایا گیا تھا اور ان کے منتظمین صبح سات بجے پانی کی سپلائی بند کردیتے نیز غسل خانوں پر تالا لگا دیتے تھے۔ اب اگر کسی کو حوائج ضروریہ سے فارغ ہونا ہو تو مجبوراً اسے دوسرے مسالک کی مسجدوں کا رخ کرنا پڑتا تھا اور شکر ہے کہ ان مساجد نے اپنے دروازے بند نہیں رکھے۔ اس اقدام کو بے حسی سے تعبیر کرنا درست نہیں۔ دراصل جب کوئی جماعت و جمعیت ون مین آرمی ہوجاتی ہے تو کچھ اسی قسم کی ابلیسی بصیرت فروغ پاتی ہے۔ اس کانفرنس کے ذریعے حکومت ہند کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ جمعیت اہل حدیث ’سرکار‘ کے پیرول پر ہے اور امیر محترم یہ پیغام دینے میں کامیاب رہے۔ پورے کانفرنس کی یہ واحد خوش آئند بات تھی۔میں سوچنے لگا کہ اگر غیرت فروشی کا یہ سلسلہ جاری رہا تو ممکن ہے وہ دن جلد آ جائے جب ارض خدا کے کعبے سے ایک ایک کرکے سارے بت اٹھوا لیے جائیں اور ہم اہل صفا مردود حرم کو مسند پہ بٹھا دیا جائے۔ پس انتظار کرتے ہیں اس دن کا جو لوح ازل میں لکھا ہے۔۔۔
*****
(جاری ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں