• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ’’فریاد کی کوئی لے نہیں ہے‘‘: غالب انسٹی ٹیوٹ ،دہلی کا عالمی سیمینار/ناصر عباس نیّر

’’فریاد کی کوئی لے نہیں ہے‘‘: غالب انسٹی ٹیوٹ ،دہلی کا عالمی سیمینار/ناصر عباس نیّر

اس بار غالب انسٹی ٹیوٹ ، دہلی نے غالب ہی کے ایک مصرع کو اپنے سالانہ سیمینار کا عنوان بنایا۔برادرم سرورالہدیٰ ، اس شعر کی مشکلات کا ذکر اپنی تحریر میں کرچکے ہیں۔ حالاں کہ بہ ظاہر یہ آسان شعر ہے۔ بجا کہ اس شعر کا ہر لفظ گنجینہ معنی کا طلسم تو نہیں، مگر اس میں معنی کی چند تہیں بہ ہر حال موجود ہیں،اور ان تک پہنچنا آسان نہیں ہے۔

جس روز ( ۲۲ دسمبر ) اس سیمینار کا دوسرا دن تھا، میں فیصل آباد لٹریری فیسٹیول میں شریک تھا۔ا س سمینار میں اصغر ندیم سید صاحب اور میں مدعو تھے۔ہم دونوں نے نصرت آڈیٹوریم فیصل آباد ( جہا ں ایف ایل ایف جاری تھا ) کے ایک کمرے میں بیٹھ کر ایک مستعار لیپ ٹاپ سے ، آن لائن شرکت کی۔

اپنے مضمون سے چند اقتباسات ،اپنے احباب کے لیے شیئر کررہا ہوں۔

’’غالب نے شعر ۱۸۲۶ء میں لکھا تھا۔ یہ وہی سال ہے، جب غالب فیروز پور جھرکا ، نوا ب احمد بخش خاں کے یہاں آئے ہوئے تھے، اور یہیں سے دسمبر میں سفر کلکتہ کا آغاز کیا تھا۔
غالب نے یہ سارا سفر ایک سیاح ،تماشائی یا جوگی کے طور پر نہیں، ایک فریادی کے طور پر کیا۔

فریاد ان کا حقیقی تجربہ بنا۔ انھوں نے دادخواہی کے لیے کئی برس انگریزحاکموں سے باقاعدہ فریاد کی۔ غالب کی فریاد سنی ضرور گئی ،مگر وہ داد خواہی سے محروم رہے۔
فریاد کا لفظ اس وقت بھی ان کی شاعر ی میں ملتا ہے، جب انھوں نے عملی طور پر فریاد کا تجربہ نہیں کیا تھا۔کالی داس گپتا رضا کے مرتبہ دیوان ِ کامل میں ، ۱۸۱۶ء کی ایک غزل ملتی ہے، جس کی ردیف ہی فریاد ہے۔صر ف ایک شعر دیکھیے:
نوازشِ نفس آشنا ، کہاں؟ ورنہ
بہ رنگِ نے ہے نہاں در ہر استخواں فریاد

اس شعرکا راست تعلق ، دس سال بعد لکھے گئے شعر سے ہے،جو اس سیمینار کا عنوان ہے۔ شعر کے مطابق ، ہر ہڈی میں نَے کی صورت ، فریاد موجود ہے۔ گویا ہر ہڈی ایک نَے ہے، جس سے فریاد برآمدہورہی ہے۔مولانا روم نے کہا ہے کہ: ’’بشنو از نَے چوں حکایت می کند/ازجدائی ہاشکایت می کند‘‘یعنی بانسری کی حکایت، دردوجدائی کی شکایت ہے۔ جب کہ غالب کے یہاں ،انسان کی ہر ہڈی بانسری ہے ،اور اس سے فریاد بر آمد ہورہی ہے۔

معنی پیدا کرنے کے لیے غالب نے کئی طریقے استعمال کیے۔ استفہام ، طنز، آئرنی، پیراڈاکس، ابہام اور منفی جدلیات (Negative Dialectic)۔ یہ شعر،جسے اس سیمینار کا عنوان بنایا گیا ہے،منفی جدلیات کا حامل ہے۔ منفی جدلیات میں، کلمات ِ نفی کے ذریعے ، بہ ظاہر کسی مثبت معنی کا انکار کیا جاتا ہے، مگر حقیقت میں، یہ ایک سے زیادہ مثبت معانی کو وجود میں لانے کا ذریعہ ہوا کرتا ہے۔

منفی جدلیات کے ذریعے،معنی کو گردش میں رکھنے کا عمل ، غالب کے اس شعر میں بھی موجود ہے۔

سامنے کا معنی یہ ہے کہ لے، فریاد کے لیے ناگزیر نہیں ، اضافی اور زائد ہے۔ اسی طرح نالے کو ظاہر ہونے کے لیے نَے کی حاجت نہیں ہے۔ گویا فریاد کسی وسیلے کے بغیر بھی ممکن ہے۔ یعنی خاموشی بھی فریاد ہوسکتی ہے،یا فریاد کا لفظ استعمال کیے بغیر بھی فریاد ممکن ہے۔

دوسرا معنی یہ ہے کہ فریاد کی ایک سے زیادہ لَے ہیں، اور نالہ ،نَے کے علاوہ بھی اپنا اظہار کرسکتا ہے۔فریادایک ایسی چیز ہے ،جسے ایک لَے میں ظاہر نہیں کیا جاسکتا۔

غالب کے لیے فریاد،محض ایک چھوٹی یا بڑی ناانصافی کی دادرسی کے لیے ظاہر کی گئی پکار کا مفہوم نہیں رکھتی۔ وہ فریاد کو شخصی ، سماجی ، سیاسی ،معاشی زندگی کے کسی ایک مسئلے تک محدود نہیں سمجھتے۔

غالب کے یہاں فریاد کا تصور، انسانی وجود کے مسائل کی آگاہی سے راست وابستہ ہے۔جہاں جہاں ان مسائل سے آدمی کی آگاہی ، اور ان کے لاینحل ہونے کا احساس زیادہ ہے، وہاں وہاں فریاد ہے۔جہاں ان مسائل کو نظر انداز کیا جاتا ہے یا انھیں انسانی تقدیر سمجھ کر قبول کر لیا جاتا ہے،یا انھیں انسان کی آزمائش تصور کرتے ہوئے،سر تسلیم خم کردیا جاتا ہے، وہاں فریاد نہیں ہوتی۔

فریاد، اپنی اصل میں کمزور کی وہ صدا ہے، جو مقتدر ہستی تک رسائی کے لیے ، اور اسے کمزور کی حالت کو سمجھنے اور بدلنے کے لیے بلند ہوتی ہے۔فریادی ، اپنی حالت سے نباہ کرنے میں خود کو عاجز پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فریاد میں انکار اور جرأت کے عناصر ہوتے ہیں۔فریاد کی حالت کو برقرار رکھنے سے انکار ،اور صاحبِ اختیار کے سامنے اپنی حالت کا بے کم وکاست اظہار کرنے کی جرأت۔

غالب یہ احساس رکھتے تھے کہ بہ ظاہر فریاد، کمزور وجود کا اظہار ہے، مگر یہ اظہار بجائے خود کمزور نہیں ہے۔ صاف لفظوں میں فریادی کمزور ہے مگر اس کی فریاداپنے اندر کمزوری نہیں رکھتی۔ فریاد، اپنے حق سے محرومی یا اپنے کسی زخم کو مکمل طور پر ظاہر کرنے کے اختیار کی حامل ہے۔

فریاد، آدمی کی حالت کا مکمل اظہار اور مقتدر ہستی کے خلاف ،آدمی کا استغاثہ ہے۔ فریاد سے متعلق یہ اہم ترین نکتہ ، غالب کے متدوال دیوان کی پہلی غزل کے مطلعے میں پیش ہوا ہے۔یہ بات سمجھنے کی ہے کہ غالب نے اپنے دیوان کا آغاز شکر سے نہیں،فریاد اور شکوے سے کیا ہے۔

غالب نے یہ غزل ۱۸۱۶ء میں، جب وہ محض انیس برس کے تھے، لکھی تھی۔
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا

اس شعر کا اہم نکتہ یہ ہے کہ ہر نقش فریادی ہے ،اور اس کا فریادی ہونا، اس کی حالت ،یعنی کاغذی لباس ہی سے ظاہر ہے۔ نقش ، زبانِ حال سے فریاد نہیں کررہا، اپنے ہونے کی حالت ہی میں وہ فریادی ہے۔
صاف لفظوں میں چوں کہ آدمی کاغذ پر نقش کی مانند ہے، کمزور اور فنا پذیر ہے،اس لیے وہ فریادی ہے۔ وہ کسی ایک وجہ سے نہیں، خود اپنے ہونے کے تمام اسباب ہی کے سبب ،فریادی ہے۔غالب نے اگرچہ استفہامیہ کلمہ ’کس ‘ استعمال کیا ہے، مگر یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ نقش، اپنے مصنف و خالق ہی سے فریاد کررہا ہے۔

غالب نے فریاد کے لہجے کو پرشکوہ بنایا ہے اور یہ عالم میں گونجتا محسوس ہوتا ہے۔ یعنی فریاد کو تمام مخلوقات کا ، خالق کے آگے استغاثہ بنا کر پیش کیا ہے۔
کچھ تو دے اے فلک ِ ناانصاف آہ ونالہ کی رخصت ہی سہی
گویا اگر فلک ،انصاف نہیں دیتا تو کم از کم اسے آہ ونالہ کی اجازت تو دینی چاہیے۔ انسان کے لیے یہ اجازت بھی معمولی نہیں۔کچھ صورتوں میں آہ ونالہ ، زندہ ہونے کی سب سے بڑی علامت اور ضرورت بن جایا کرتے ہیں

انھوں نے فریاد کےمفاہیم کی جو روایت فارسی اور اردو میں چلی آرہی تھی، اسے انحراف کیا ہے، اور اس کے مقابل ، نئے معانی پیدا کیے ہیں ،اور یہ معانی ، لسانی کھیل نہیں، انسانی وجود سے متعلق گہری بصیرت کے حامل ہیں۔

غالب ،فریاد کا باعث تو انسانی بے بسی ، بے چارگی،بے ثباتی میں دیکھتے ہیں، مگر اسی فریاد کو انسانی اختیار میں بھی بدلتے محسوس ہوتے ہیں۔فریاد،ان سب مقتدر قوتوں کے خلاف استغاثہ ہے ، جنھوں نے انسانوں کو بے بسی وبے چارگی میں مبتلا کیا ہے۔

غالب کے یہاں فریاد، انسانی ہستی کے معارف ،یعنی اس کی حدوں، اس کے رنج والم، اس کے آدرشوں، خواہشوں، حسرتوں، اس کی آزادی و بے اختیاری، اس کے تضادات کے علم سے براہ راست وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غالب کے یہاں فریاد کا لفظ زیادہ نہیں آیا ، مگر یہ اپنے متعلقات : آہ، شکوہ ،گریہ ، نالہ کے ساتھ اور ان کے بغیر بھی ظاہر ہوئی ہے۔

تسلیم کہ یہ سب الفاظ: آہ ، شکوہ ، گریہ، نالہ اپنے جدا مفاہم بھی رکھتے ہیں، اور یہ فریاد کے مترادفات نہیں ہیں، اور ایک اہم فرق یہ ہے کہ فریاد کا لازماً کوئی نہ کوئی مخاطب ہوتا ہے، فریاد تنہائی کی چیز نہیں ہے، جب کہ آہ، گریہ اور نالہ تنہائی کی چیزیں ہیں ، البتہ شکوہ ، فریاد کے قریب ہے کہ اس کا کوئی نہ کوئی مخاطب ہوتا ہے، بایں ہمہ ،آہ ، گریہ اور نالہ اسی انسانی بے بسی و بے چارگی اور بے ثباتی میں جڑیں رکھتے ہیں ، جن میں فریادو شکوہ ۔ اہم بات یہ ہے کہ غالب نے ان سب کو بھی فریاد کی مانند، منفعل نہیں بنایا۔گرمی،شعلگی، حرکت،رفتار، شدت،ان سب میں موجود ہے۔ یعنی ان کا مضمون بے بسی کا ہے،مگر معنی اختیار کا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں نے روکا رات غالب کو، وگرنہ دیکھتے
اس کے سیل گریہ میں ، گردوں، کف سیلاب تھا
دل میں پھر گریہ نے اک شور اٹھایا غالب
آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سو طوفاں نکلا

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply