سیکس ایجوکیشن ،بے حیائی یا وقت کی ضرورت؟۔۔راشد احمد

زینب قتل کیس میں جہاں اور مختلف موضوعات زیر بحث آئے وہاں اس بات پر بھی لے دے ہوئی کہ ہمیں اب اپنے بچوں کو سیکس ایجوکیشن دینے کی ضرورت ہے۔اس پر مختلف آراء سامنے آئیں۔اختلاف کرنے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو شاید سیکس ایجوکیشن کو ’’مباشرت کے طریق‘‘ سمجھتے ہیں حالانکہ سیکس ایجوکیشن سے مراد بچوں میں جنسی شعور پیدا کرنا ہے،انہیں ان کے جسم میں پیدا ہونے  والی تبدیلیوں سے آگاہ کرنا ہے اور اچھے برے کی تمیز سکھاتے ہوئے یہ بتانا ہے کہ زینب کو بھنبھوڑنے  والے درندوں سے خود کو کیسے ممکنہ حد تک بچایا جائے۔ایک بچہ یا بچی چھوٹی عمر سے ہی اس بات سے آگاہ ہو کہ اس کے  جسم کے کون سے حصے ہیں جہاں اس نے کسی کو رسائی نہیں دینی۔اگر کوئی زبردستی کرے یا دست درازی کرے تو والدین کو بتانا ہے۔اس سے جہاں بچے خود کی حفاظت کرپائیں گے وہیں وہ والدین سے بھی اپنی باتیں شیئر کرنے کے قابل ہوں گے اور یوں جنریشن گیپ بھی ختم ہوگا۔

ہمارے معاشرے میں سیکس ایجوکیشن کو بالکل ہی نظر انداز کردینا سنگین مسائل پیدا کررہا ہےبلکہ ہمارے ہاں سیکس ایجوکیشن نامی چیز سرے سے  ہے ہی نہیں۔ ہاں البتہ حکیموں کے اشتہارات اور ”کمزوری“ دور کرنے کی ادویات سے ہماری دیواریں اٹی پڑی ہیں، حالانکہ جس طرح بچوں کی دوسرے معاملات میں تربیت کی جاتی ہے کہ بیٹا جھوٹ نہ بولو، گالی نہ دو، چوری نہ کرو، چغلی مت کھاؤ،  اسی طرح عمر کے ایک خاص حصہ میں یہ باتیں بھی بچوں کو بتانی چاہییں۔ نوجوان نسل جہاں مناسب تعلیم نہ ہونے کی بنا پر کجروی کا شکار ہورہی ہے وہیں اس سے سنگین ازدواجی مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں۔ طلاق اور خلع کی شرح میں ہوش ربا اضافے کی ایک وجہ بنیادی ازدواجی تعلیم کا نہ ہونا بھی ہے۔ بچیوں کو تو مائیں شادی سے قبل کسی طور کچھ نہ کچھ بتا ہی دیتی ہیں لیکن لڑکوں کا مبلغ علم یاروں دوستوں سے سنی سنائی باتیں ہی ہوتی ہیں۔

لاہور کے مشہور ماہر نفسیات اور سیکس ایجوکیشن کے متعلق کئی کتب کے مصنف پروفیسر ارشد جاوید اپنی کتاب ”ازدواجی خوشیاں“ میں لکھتے ہیں کہ میرے پاس ایک ایسا جوڑا آیا جن کی شادی کو ڈیڑھ سال ہوگیا تھا مگر ابھی ان دونوں کا ازدواجی تعلق ہی قائم نہیں ہوا تھا جس کی بنیادی وجہ دونوں کی بے خبری اور کم علمی تھی۔ اس سے ملتے جلتے اور بھی کئی کیسز ہیں جن کا اظہار ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب میں بالتفصیل کیا ہے۔ اگر ایک خاص عمر میں جا کر والدین بچوں کو احسن طریق پر یہ ساری باتیں سمجھا دیں تو اس طرح کے مسائل سے باآسانی بچا جا سکتا ہے، مگر ہم ہیں کہ اس طرف توجہ دینے کو ہی گناہ سمجھتے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ خود ہی سیکھ لیں گے،لیکن جب وہ خود ’’سیکھتے‘‘ ہیں تب بھی ہمیں بے چینی ہوتی ہے۔ والدین کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو عمر کے لحاظ سے ایسی باتوں کے بارے میں بتائیں اور غیر ضروری شرم وحیا کو اس راہ میں حائل نہ ہونے دیں وگرنہ بچوں نے کہیں اور سے تو یہ سب کچھ سیکھنا ہی ہے تو وہ یا تو غلط راہ پر چل پڑیں  گے  یا غلط معلومات حاصل کرکے اپنا نقصان کریں  گے۔

ہماری ایک کلاس فیلو کی شادی ہوئی تو شادی کی پہلی رات ہی ایسے مسائل پیدا ہوگئے جن کا انجام اس بیچاری کی موت پر ہوا۔لڑکا جو غلط رویوں اور تعلیم کا شکار تھا، نام نہاد جعلی حکیموں کے پہلی رات ہی ’قلعہ فتح‘ کرنے کے جاہلانہ مشورہ پر عمل پیرا ہوکر لڑکی کے ساتھ وہ سلوک کرتا رہا کہ اسے پہلی رات ہی ہسپتال میں داخل کرانا پڑا جہاں ڈاکٹروں کا تبصرہ یہ تھا کہ کیا اس بچی کی شادی کسی جانور سے ہوئی ہے؟ اس بچی کے ساتھ یہ مسائل چند سال چلتے رہے اور بالآخر اس بچی نے ان مظالم کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار دی۔اگر اس کیس میں لڑکا اور لڑکی کو سیکس ایجوکیشن کی بنیادی باتیں پتہ ہوتیں تو کیا معاملہ مختلف نہ ہوتا؟اگر لڑکی علم رکھتی تو خود کو بچا نہیں سکتی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، ایسے واقعات آئے روز رونما ہوتے رہتے ہیں، لیکن ہم ناجائز شرم کا بہانہ بنا کر اپنی ذمہ داریوں سے غفلت کا کوئی نہ کوئی چور دروازہ تلاش کر ہی لیتے ہیں اور مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔ غلط کام کرتے ہوئے شرم اور حیا ہمارے راستے میں حائل نہیں ہوتے لیکن جائز کام کرتے ہوئے ہمیں سو بہانے مل جاتے ہیں۔ والدین اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کو تیار نہیں، منبر و محراب کے وارثین کو جنہوں نے فکری رہنمائی کرنی تھی کو بے حیائی کا لالی پاپ بیچنے سے فرصت نہیں، کہ لوگوں کو ان کی ضرورت کے مطابق تعلیم دے سکیں، نتیجہ،  معاشرہ غلط رویوں کا شکار ہورہا ہے۔ یہ لوگ ویلنٹائین ڈے پر بکنے والے پیکٹس کی تعداد کے متعلق تو تحقیق کرلیتے ہیں مگر ان کی نظرایسے مسائل کی طرف اٹھنے سے قاصر ہے۔ نان ایشوز میں پڑ کر اپنی توانائیاں ضائع کرنے میں ہم روئے زمین پر پہلی پوزیشن پر ہیں۔ ضرورت اس بات کی   ہے کہ افراط وتفریط کی راہوں سے بچتے ہوئے ایک متوازن زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے جہاں جائز ضروریات کو پورا کرنے کے لئے معذرت خواہانہ رویہ اپنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ جب ناجائز شرم کی آڑ میں ہم اپنی  ذمہ داریاں ادا نہیں کرتے تو جب عفت وحیا کی چادریں تار تار ہوتی ہیں تو ہمیں اس وقت بھی پھر شکوہ کا حق نہیں ہونا چاہیے۔ہمیں معاشرے  کا بگاڑ تو نظر آتا ہے ،مگر اسباب سے ہم نظریں چراتے ہوئے چین  کی بانسری بجاتے رہتے ہیں۔

Facebook Comments

راشداحمد
صحرا نشیں فقیر۔ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply