مرقع چغتائی/عاصم کلیار

1928 میں پہلی بار شائع ہونے والا مرقع چغتائی طباعت و اشاعت کے حوالے سے اردو ادب میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔عبدالرحمٰن چغتائی نے اس کا اولین عکس کوچہ چابک سواراں لاہور ہندوستان سے پرائیوٹ طور پر اورینٹل آرٹ پرینٹگ ورکس سےمکمل مروجہ دیوان غالب کے ساتھ کم و بیش اپنی پچیس پینٹنگز کی رنگین پلیٹوں اور کئی ڈرائنگز کے ساتھ شائع کیا۔اس ایڈیشن کے تحت کل 210 نسخے شائع ہوۓ ہر نسخے پر مصور مشرق نے دستخط کیے۔

آئر لینڈ کے شاعر اور ڈرامہ نگار جمیز ایچ کوسنز کے تعارف اور علامہ اقبال کے انگریزی مقدمے سمیت مصور مشرق عبدالرحمٰن چغتائی نے اپنی مختصر تفریظ اور سخن ہاۓ گفتنی کے نام سے طویل مقدمے کے ساتھ مرقع چغتائی کا انتساب ان الفاظ کے ساتھ میر عثمان علی کے نام کیا ہے۔
“انتساب
جس تہذیب اور روایت کی ترجمانی مجھے مقصود ہے۔اس تہذیب کے کامل ترین مظہر اعلٰی حضرت قدر قدرت بندگان عالی متعالی سپہ سالار مظفر الملک والممالک نظام الدولہ نظام الملک سلطان العلوم نواب میر عثمان علی خان بہادر فتح جنگ آصف جاہ سابع خسرو دکن خلد اللٰہ مُلکہ و سلطنتہ کی بار گاہ عالی میں یہ کوشش بصد نیاز مندی پیش کرتا ہوں”

نقاد آج بھی غالب پر قصائد لکھنے کا الزام دھرتے ہیں۔انتساب کے درج بالا الفاظ سے بڑھ کر بھلا کوئی کیا قصیدہ لکھے گا۔مرقع چغتائی کی اولین اشاعت سے لے کر اب تک ہندوستان و پاکستان سے اس کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ہر ایڈیشن طباعت کے حوالے سے دوسرے ایڈیشن سے مختلف ہے۔میرا گمان ہے کہ اس نسخے کی اشاعت کے وقت چغتائی صاحب کے پیش نظر صرف مالی مفاد تھا۔جس کی پیروی اب تک ان کے صاحبزادے کر رہے ہیں۔

میں مرقع چغتائی پر طویل مضمون لکھنے کا آرزومند تھا۔مگر تمام مآخذات  تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے میں نے یہ ارادہ ترک کر دیا۔اسی کھوج کے دوران چغتائی کی چند اورتصاویر پر مشتمل دیوان غالب نقش چغتائی کا ایک یادگار ایڈیشن عزیز دوست باقر علی شاہ نے فراہم کیا۔نقش چغتائی کے اس ایڈیشن کی پرنٹ لائن سمیت دو صفحات بھی خالی ہیں پبلیشر ز لائبریری میوزیم لاہور سے شائع ہونے والا نقش چغتائی کا یہ ایڈیش میرے خیال میں آف پرنٹ ہو سکتا ہے۔شائد عبدالرحمٰن چغتائی نے کتاب کی اشاعت سے پہلے ایک ڈمی کاپی تصیح کے لۓ طلب کی ہو۔
دلچسپ بات یہ کہ نقش چغتائی کا انتساب فرماں رواۓ بھوپال کے نام ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

باقر شاہ نے نقش چغتائی کے اس یادگار ایڈیشن کے ساتھ مختار الدین احمد کا علی گڑھ سے لکھا ہوا ایک خط بھی عنائت کیا۔میرے ذخیرہ غالبیات میں اس خط کی حیثیت کسی بھی طور دو آتشہ سے کم نہیں۔کیونکہ یہ خط اس لیٹر ہیڈ پیڈ پر لکھا گیا ہے۔جو یاد گار غالب از حالی کی اشاعت کے سو سال بعد تنقید غالب کے سو سالہ سیمنار کے موقع پر علی گڑھ یونیورسٹی نے 1998 میں شائع کرواۓ تھے۔
مرقع چغتائی اور نقش چغتائی کے علاوہ عبدالرحمٰن چغتائی غالب کے حوالے سے تیسری کتاب پر بھی کام کر رہے تھے۔جس کے ابتدائی خاکے کے علاوہ وہ کتاب کا نام بھی تجویز کر چکے تھے۔مگر افسوس اس منصوبے کو مکمل کرنے کے لۓ موت نے ان کو مہلت نہ دی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply