(رچرڈ فائن مین مشہور امریکی طبیعات دان تھے جنہیں 1965 میں فزکس کا نوبل انعام دیا گیا۔ وہ اپنے مشہور زمانہ فزکس کے لیکچرز اور کتابوں اور انٹرویوز کی مدد سے سائنسی صحافت کے لئے مشہور تھے۔ انکا یہ انٹرویو 1983 میں بی بی سی لندن سے نشر ہوا۔ اردو قارئین کے لئے اسے ترجمہ و مختصر ردوبدل کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے)
یہ دلچسپ بات ہے کہ کچھ لوگ سائنس کو بہت آسان سمجھتے ہیں جبکہ دوسرے لوگ اسکو مشکل اور بوجھل محسوس کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر چھوٹے بچے اس کو بنا سمجھے یاد کرنے لگ جاتے ہیں۔ شاید یہ سائنس کے علاوہ دیگر تمام مضامین کا بھی مسئلہ ہے کہ وہ کچھ لوگوں کو مشکل معلوم ہوتے ہیں۔ جیسے بہت سے لوگ موسیقی پسند کرتے ہیں جبکہ میں ایک بھی دھن سمجھ نہیں پاتا تھا اور اس وجہ سے بیشتر موسیقی کی لذت سے بے فیض رہتا ہوں۔ بالکل ایسے ہی بہت سے لوگ جو سائنس کو بوجھل سمجھتے ہیں وہ اس سے لذت کشید نہیں کر پاتے۔ ایک شے جو سائنس کو نہایت مشکل بناتی ہے وہ تخیل کی پرواز ہے۔ اشیاء کی پیچیدہ ماہیت کو متصور کرنا کافی مشکل ہے۔
ایٹموں کا تھرتھرانا
چیزیں اصل میں ایسی نہیں ہیں جیسی کہ وہ نظر آتی ہے۔ جیسے کہ ہم گرم اور سرد چیزوں کو انکے ایٹموں کی حرکت کی رفتار کی مدد سے سمجھ سکتے ہیں۔ گرم چیزوں میں ایٹموں کی حرکت تیز جبکہ سرد چیزوں میں سست ہوتی ہے۔ مثلاً ایک گرم کافی یا چائے کا کپ دیکھئے جو کسی میز پر پڑا ہوا ہے۔ اب کافی کے ایٹموں کی تیز حرکت، کپ کے ایٹموں میں منتقل ہوتی ہے اور یوں کپ بھی گرم ہوجاتا ہے اور میز کی وہ جگہ بھی گرم ہوجاتی ہے جہاں وہ کپ پڑا ہوا ہے۔کیونکہ حرارت ایک سے دوسری چیز میں براہ راست رابطے سے منتقل ہوتی ہے۔ گرم چیز کے ایٹموں کی تیز حرکت، سرد چیزوں کے ایٹموں میں توانائی منتقل کرتی ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ حرارت، گرم سے سرد اشیاء کی جانب حرکت کرتی ہے۔ لیکن اصل میں جو چیز منتقل ہورہی ہے وہ بس یہ ایٹموں کی بے ترتیب تھرتھراہٹ ہے جسکی مدد سے بہت کچھ سمجھنا آسان ہوجاتاہے۔ یہیں سے ایک اور دلچسپ بات دیکھتے ہیں۔
یہ عام مشاہدہ ہے کہ تیز حرکت کرتی چیزیں ایک دوسرے یا دیگر اشیاء سے ٹکرانے کے نتیجے میں سست ہوجاتی ہیں اور بالآخر رک جاتی ہیں۔ لیکن ایٹموں کے معاملے میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ حرکت کرتے رہتے ہیں اور انکی توانائی کبھی ختم نہیں ہوتی۔ ایک گیند کو اگر زمین سے کچھ اونچائی سے گرایا جائے تو وہ زمین پر گرتی ہے اور ٹکرا کر واپس اوپر اٹھ جاتی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ سست ہوتے ہوتے زمین پر رک جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیونکہ گیند جب زمین سے ٹکراتی ہے تو زمین کے ایٹموں میں بے ترتیب تھرتھراہٹ پیدا کرتی ہے اور وہ زیادہ تیزی سے حرکت کرنے لگتے ہیں۔ ایٹموں کی یہ حرکت میں تبدیلی، گیند سے لی گئی توانائی کی بدولت پیدا ہوتی ہے۔ لہذا، گیند تو زمین پر رک جاتی ہے لیکن زمین کے ایٹموں کی حرکت نہیں رکتی بلکہ اور تیز ہوجاتی ہے جو کہ زمین کے اس ٹکڑے کو کچھ گرم کر دیتی ہے (ناقابل یقین ہے ناں؟)۔ لیکن جس کسی نے بھی زمین پر ہتھوڑا چلایا ہو وہ جانتا ہوگا کہ یہ درست ہے۔ اگر آپ کسی چیز کو بار بار پیٹنا شروع کریں تو وہ گرم ہونے لگتی ہے کیونکہ اسکے ایٹموں کی رفتار تیز ہوجاتی ہے۔
ایٹموں کی مدد سے دنیا کو تصور کرنا بہت خوبصورت خیال ہے۔ ہم اس تصور سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ پانی کے ایک چھوٹے سے قطرے کی مثال لیجئے۔ ایٹم ایک دوسرے کی جانب کشش رکھتے ہیں اور ہر ایٹم زیادہ سے زیادہ دوسرے ایٹموں کو اپنے قریب رکھنا چاہتا ہے۔ لیکن جو ایٹم قطرے کی بیرونی سطح پر ہیں وہ ہر طرف سے دوسرے ایٹموں سے نہیں گھرے ہوتے جبکہ وہ بھی خود کو قطرے کے اندرونی ایٹموں کے ساتھ جوڑنا پسند کرتے ہیں۔ بالکل جیسے کسی ٹیم کے لوگ ایکدوسرے سے جڑ کر ایک ٹیم بن کر رہنا چاہتے ہوں۔ ان تمام ایٹموں کی یہ کوشش بالآخر قطرے کو ایک گول کرے کی شکل دیتی ہے اور اسی کوشش کو ہم سرفیس ٹینشن کا نام دیتے ہیں۔ کبھی کبھار میز پر پانی کا ایک گول قطرہ دیکھیں اور آپ یہ سوچنا شروع کردیں کہ یہ گول کیوں ہے اور میز پر فلیٹ کیوں نہیں ہوتا؟ تو یہ سرفیس ٹینشن والی توجیہ اسکی بہترین وضاحت پیش کرتی ہے۔ اب جسوقت تمام ایٹم باہم مل کر قطرے کو گول شکل میں رکھنا چاہ رہے ہوتے ہیں، تب بھی وہ حرکت کرتے رہتے ہیں۔ جب قطرے کی سطح کے ایٹم اپنی جگہ چھوڑنا شروع کرتے ہیں تو آہستہ آہستہ یہ پانی کا قطرہ اپنی گول شکل کھودیتا ہے اور زمین پر فلیٹ ہوجاتا ہے۔
میں اسطرح کی چیزیں سوچتا رہتا ہوں اور اس سے مجھے لذت ملتی ہے بالکل جیسے ایک دوڑ لگانے والے شخص کو پسینہ آنے پر فوری لذت ملتی ہے، مجھے بھی چیزوں کے بارے سوچ کر ایسی ہی خوشی ملتی ہے۔ میں ایسی چیزوں کے بارے میں لگاتار باتیں کر سکتا ہوں۔ ایک اور مثال لیجیے کہ جب پانی ٹھنڈا ہوتا ہے تو اسکے ایٹموں کی حرکت سست ہوجاتی ہے اور بالآخر وہ اپنی اپنی جگہ پر قید ہوجاتے ہیں۔ چونکہ وہ دوسرے ایٹموں کی کشش بھی محسوس کر رہے ہوتے ہیں اس لئے وہ سب ملکر ایک خاص پیٹرن اختیار کرلیتے ہیں، جیسے سنگتروں کو کسی ڈبے میں ترتیب سے پیک کیا گیا ہو۔ یہ ایٹم اگرچہ اپنی جگہ نہیں چھوڑتے مگر یہ تھرتھرانا ختم نہیں کرتے۔ سرد ہونے والے ایٹموں کا یہ پیٹرن برف کہلاتا ہے جو کہ مادے کی ٹھوس حالت ہے۔ اگر آپ کسی ایک ایٹم کو ایک سرد جگہ قید کریں تو برف کے بقیہ سب ایٹم اسی حساب سے اس کے گرد گرد جمع ہونے لگیں گے۔ اب اگر برف کو گرم کرنا شروع کریں تو ایٹم اس قید سے آزاد ہوجائیں گے اور یوں مائع حالت میں آجائیں گے۔ مزید گرم کرنے پر یہ ایٹم ایکدوسرے سے بہت دور جاسکتے ہیں اور ایک دوسرے سے زیادہ تیزی سے ٹکرا سکتے ہیں ۔ اتنی تیزی سے ٹکرا کرایٹم آپس میں جڑ نہیں پاتے، دراصل یہ علیحدہ علیحدہ ایٹم نہیں بلکہ ایٹموں کے مختلف گچھے ہیں جنہیں مالیکیول کہتے ہیں، اس حالت میں مادے کو گیس یا بھاپ کہتے ہیں۔
آپ ایٹموں کی مدد سے بہت سی چیزوں کو سمجھ سکتے ہیں۔ جب میں بچپن میں اپنے سائیکل کے ٹائر میں ہوا بھرتا تھا تو ہوا بھرنے والا پمپ گرم ہو جاتا تھا۔ جوں جوں پمپ کا پسٹن اندر کی جانب جاتا ہے تو جو ایٹم اس سے ٹکرا کر واپس ٹائر کی طرف جارہے ہوتے ہیں انکی رفتار زیادہ ہوجاتی ہے بہ نسبت ان کے جو ابھی ہینڈل کی طرف جارہے ہوتے ہیں۔ تیز رفتار ایٹم آنے والے ایٹموں سے ٹکراتے ہیں تو انکی رفتار بھی تیز ہوجاتی ہے۔ یوں جیسے جیسے پمپ کا ہینڈل ہوا کو دباتا ہے، اس کے ایٹم تیز حرکت کرتے ہیں اور ہوا گرم ہونے لگتی ہے۔ یونہی جب پسٹن باہر کی طرف نکلتا ہے تو جو ایٹم اسکی وجہ سے دب رہے تھے وہ اب آزاد ہوتے ہیں اور انکی رفتار پھر کم ہونے لگتی ہے جس سے اندر کی ہوا سرد ہوتی ہے۔ اصول ہےکہ گیسیں پھیلنے پر سرد ہوتی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ وہ تمام مظاہر جنہیں ہم روز مشاہدہ کرتے ہیں، انہیں کیسے سادہ تصورات کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اس بارے سوچنا ایک دلچسپ شغل ہے اور میں اس کو زیادہ سنجیدہ نہیں لینا چاہتا۔ میرےخیال میں ہمیں دنیا کے بارے پریشان یا بوجھل ہونے کے بجائے اس سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔ کسی استاد یا امتحان کے لئے جوابدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس سے سائنس ایک مشکل مضمون بن کر رہ جاتی ہے۔
آگ
ایٹم مختلف اعتبار سے ایکدوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ مثال کو طور پر ہوا میں آکسیجن، کاربن سے جڑنا پسند کرتی ہے (کاربن ڈائی آکسائیڈ)۔ اگر یہ دونوں قریب ہوں تو آپس میں جڑ جاتی ہیں لیکن اگر قریب نہ ہوں تو ایکدوسرے کو دفع بھی کرتی ہیں اور الگ ہوجاتی ہیں۔لہذا، دور رہ کر انکو نہیں معلوم ہوپاتا کہ وہ آپس میں جڑ بھی سکتی ہیں۔ بالکل جیسے اگر ایک گیند کسی پہاڑی کے اوپر جارہی ہو اور رستے میں کسی گہرے گڑھے کے اوپر سے گزرے، تو اگر یہ سست رفتار ہو تو گڑھے میں نہیں گر ے گی بلکہ واپس آجائے گی لیکن اگر تیزرفتار ہوتوگھڑے میں گر جائے گی۔ یونہی درخت میں کاربن ہوتی ہے۔ آکسیجن ہوا کے واسطے سے درخت سے ٹکراتی رہتی ہے۔ اگر کسی طرح اسکی رفتار تیز ہوجائے اور ہوا گرم بھی ہو توہوا سے نکل کر آکسیجن درخت کی کاربن کے ساتھ مل جاتی ہے۔ اس ٹکراؤ کےعمل سے درخت کے ایٹموں میں کافی تیز تھرتھراہٹ پیدا ہوتی ہے اور وہ ایک دوسرے سے تیزی سے ٹکرانے لگتے ہیں جس سے ایک دھماکہ خیز عمل شروع ہوتا ہے جسے آگ کہتے ہیں۔ گویا ایٹموں کی تھرتھراہٹ مظاہر کو سمجھنے کا ایک انداز ہے۔ ایٹموں میں یہ تھرتھراہٹ مسلسل ہوتی رہتی ہے۔ ایک دفعہ آگ جلنا شروع ہو تو پھر بڑھتی جاتی ہے۔ ایٹموں کی یہ حرکت ایک سے دوسری شے میں حرارت منتقل کرتی رہتی ہے۔ لہذا، آکسیجن اور کاربن کا ملاپ بے انتہا ایٹمی ارتعاش پیدا کرتا ہے۔ اگر میں جلتے درخت کے قریب کافی کا کپ رکھ دوں تو اس کپ اور کافی کے بھی ایٹم زیادہ تیزی سے تھرتھرانے لگیں گے جو کہ آگ کی تپش کا نتیجہ ہے۔ آپ نے دیکھا کہ جب آپ اس انداز سے سوچنا شروع کرتے ہیں تو پھر حیران کن انداز سے مختلف مظاہر کی وضاحت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
یہ کتنی حیران کن بات ہے کہ درخت ہمیشہ سے اس جگہ موجود تھا اور آکسیجن بھی ہوا میں ہمیشہ سے اس جگہ موجود تھی لیکن اس جگہ آگ کا وجود نہیں تھا۔ تو یہ سوال فطری ہے کہ اس جگہ آگ کیسے پیدا ہوگئی؟ آگ کے پیدا ہونے کی وجہ کاربن ہے۔ کاربن کہاں سے آئی؟ کاربن فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس سے آئی۔ لوگ درخت دیکھتے ہیں تو خیال کرتے ہیں کہ شاید درخت زمین سے اگتا ہے بالکل جیسے دوسرے پودے زمین سے اگتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ مادہ کہاں سے آیا جن سے درخت اور پودے بنے؟ کیا درخت ہوا سے بنے ہیں؟ (حیرت ہے!) ہاں یہ درخت ہوا کی وجہ سے بنتا ہے۔ ہوا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ میں سے آکسیجن الگ ہوجاتی ہے تو پیچھے جو کاربن بچتی ہے وہ پانی سے ملکر درخت بنانے کا کام کرتی ہے۔ پانی کہاں سے آیا؟ پانی زمین سے آیا۔ لیکن زمین میں اس جگہ پانی کہاں سے آیا؟ زمین میں پانی بھی ہوا سے آیا (بارش کی مدد سے)۔ تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ درخت کا زیادہ مواد ہوا سے ملتا ہے۔ ہاں کچھ معدنیات زمین میں ہوتے ہیں۔
کاربن اور آکسیجن ایک دوسرے سے بہت مضبوطی سے جڑے ہوتے ہیں تو ایک سوال یہ بھی ہے کہ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ میں سے کاربن کو الگ کیسے کر لیتا ہے؟ کیا درخت ایک زندہ وجود ہے اور زندگی کسی جادوئی انداز سے یہ کام سرانجام دیتی ہے؟ نہیں! یہ کام سورج کی مدد سے ہوتا ہے۔ سورج کی روشنی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بانڈز کو توڑتی ہے تو کاربن الگ ہوجاتی ہے۔ لہذا، پودے کی زندگی سورج کی روشنی پر منحصر ہے۔ روشنی کے بغیر کاربن کا الگ ہونا اور پانی ودیگر اجزاء سے ملکر درخت بننا ممکن نہیں ہے۔ اب ذرا اس درخت کی لکڑی کو کسی جلتے الاؤ میں پھینک کر دیکھیں۔ کیونکہ درخت میں کاربن موجود ہے اور الاؤ میں موجود تپش کے ذریعے اس میں دوبارہ ہوا کی آکسیجن سے ملنے کی صلاحیت موجود ہے، اس لئے لکڑی جلنا شروع ہوجائے گی اور ایکبار پھر کاربن اور آکسیجن ملکر کاربن ڈائی آکسائیڈ بننا شروع ہوجائے گی (جس سے دھواں بنتا ہے) اور جو روشنی جلتی لکڑی میں سے نکلتی ہے یہ وہی روشنی ہے جو سورج کی مدد سے درخت بننے کے عمل میں جذب ہوئی تھی۔ ایکطرح سے سورج کا وہ حصہ واپس مل رہا ہے جو درخت میں جذب ہو گیا تھا۔ اگلا سوال یہ ہے کہ سورج اتنا گرم کیوں ہے؟ میرے خیال میں اب یہ سوال میں آپ کے تخیل پر چھوڑتا ہوں کہ آپ خود سوچیں کہ سورج میں کیا ہورہا ہے۔ (جاری ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد علی شہباز
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں