ذات، پات اور اجتماعیت /ڈاکٹر مختیار ملغانی

انسان کسی طور برابر نہیں ہیں، لیکن چونکہ ہم مذہبی و روحانی رائے ” کہ تمام انسان برابر ہیں ” پہ بغیر تحقیق کئے ایمان لا چکے ہیں تو اس بات کو ہضم کرنا مشکل محسوس ہوتا ہے کیونکہ شرعی نکتۂ نگاہ سے سب برابر ہیں، خدا کی بارگاہ میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ صرف تقوی سے متعلق ہے ، انسانوں کو تفریق کا حق نہیں ۔ لیکن حقیقت قدرے مختلف ہے، ابراہیمی مذاہب میں واضح بتایا گیا ہے کہ علم رکھنے والے علم نہ رکھنے والوں سے بہتر ہیں، اسی طرح بتایا گیا کہ جہاد کرنے والے جہاد نہ کرنے والوں سے افضل ہیں، مذید کہا کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے، مسلم اور مومن بھی برابر نہیں ہیں وغیرہ وغیرہ ۔
قرآن میں بتایا گیا کہ انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا، بجتی ہوئی خشک مٹی سے، دوسری جگہ بتایا کہ مٹی کے گارے سے بنایا، پھر فرمایا کہ چپکنے والے گارے سے پیدا کیا، پھر فرمایا کہ ٹھیکری کی طرح بجتے ہوئے خشک گارے سے پیدا کیا، اس چیز کو لے کر ملحدین اکثر اعتراض اٹھاتے دکھائی دیتے ہیں کہ اتنا تضاد کیوں ہے؟ آخر کس مٹی سے انسان کو پیدا کیا گیا؟
واقعہ یہ ہے کہ ہر مٹی کے اپنے اوصاف ہیں اور جو انسان جس مٹی سے پیدا ہوا ہے وہی اوصاف اس کے اندر موجود ہیں، یعنی جس مٹی کی آمیزش نسبتاً زیادہ ہوگی فرد کا جھکاؤ انہی اوصاف کی طرف ہوگا ، یہ واضح اشارہ ہے کہ انسان اپنے اوصاف، مزاج، کردار اور قابلیت میں کسی طور برابر نہیں ہیں۔ مختلف مٹیوں سے مراد انسانوں کی مختلف اقسام ہیں ۔
سماج کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ انسانوں کے درمیان اس فرق کو ہر حال میں سامنے رکھا جائے لیکن ہم برابری کے چکر میں ایک انتہاء کو چلے گئے، غور کیا جائے تو ہندو مت نے ذات پات کی جو چار شاخیں بتلائی ہیں اگر ان کا فلسفیانہ اور نفسیاتی مطالعہ کیا جائے تو بات درست معلوم ہوتی ہے، صرف اس استثناء کے ساتھ کہ ہندو معاشرہ ایک دوسری انتہا کو چلا گیا کہ جہاں اوصاف کی بجائے بنیادی انسانی حقوق ، عزت نفس اور انسانی وقار میں ہی فرق روا رکھا گیا ، گویا کہ انسانی برابری اور تفریق کو لے کر حقیقت ان دو فلسفوں کے درمیان ہے جو فلسفے ابراہیمی مذاہب اور ہندومت میں آج رائج ہیں ۔ البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ ہندومت میں برہمن اوپر والی سیڑھی پہ بیٹھا ہے، جبکہ ابراہیمی مزاہب کشتری کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں کیونکہ مابعدالطبیعیاتی فکر میں امر باالمعروف ہی اصل اساس ہے ، مگر الوہیت کے ماننے والے کیلئے نہی عن المنکر اہم تر ہے۔
تاریخ میں تخت نشینی کا حقدار ہمیشہ برہمن رہا، برہمن مشاہدے کی طاقت اور کائناتی علوم سے مالا مال ہے، اس کے مزاج میں ایک خاص نزاکت ہے، چال ڈھال میں رعونت واضح دکھائی دیتی ہے، جسم چمکدار اور صاف ہے، چاندنی سے گندھے ہوئے بدن میں مگر مردانہ ہارمونز قدرے کم ہیں اس لئے یہ شر سے لڑنے کی بجائے اپنے راحت کدے میں نیند اور مراقبے کو اہمیت دیتا ہے، یہ کائنات کا سرد مادہ ہے ، برہمن کی بادشاہت طویل تاریخ رکھتی ہے، آج بھی اس کے آثار جزوی طور پر موجود ہیں، برہمنی شہنشاہیت کا یہ اجتماعی سلسلہ تب تک جاری رہا جب تک کہ انبیائے یہود نے آگے بڑھ کر تخت پہ قبضہ نہیں کر لیا، یہ کشتری مزاج انسان تھے، رعونت و تکبر سے پاک، کھردرے جسم جو مردانہ ہارمونز سے مالا مال تھے، یہ کائنات کی گرم توانائی ہے ، ان کے نزدیک مشاہدے یا کائناتی علوم کی اہمیت ثانوی ہے، بنیادی اہمیت الوہی حکم کی ہے ، یہ حکم چاہے ظاہری شواہد کے خلاف ہی کیوں نہ ہو ۔
برہمن اور کشتری کے درمیان اقتدار کی یہ کشمکش جاری ہے، برہمن کی خواہش ہے کہ کسی طرح کشتری کی گل تراشی کر کے اسے اپنا ماتحت بنا لے جس کا مقصد برہمن کے اقتدار کی حفاظت کرنا ہو اور سلطنت کی سرحدوں پہ دشمن کے خلاف لڑنا ہو، اس مقصد میں برہمن بڑی حد تک کامیاب بھی ہوا پے، اس کیلئے کیا تراکیب اختیار کرنا چاہئیں، اس کا ذکر افلاطون نے اپنی کتاب ریپبلک میں بھی کیا ہے، یاد رہے کہ افلاطون ہر لحاظ سے ” برہمن ” تھے ۔
تیسری ذات ویش ہے، یہ خدا کے وہ بندے ہیں جن کے اندر کی توانائی مادے میں بدلتے ہوئے انہیں مادیت پرستی کی طرف لے آئی ہے، کسی اعلی مقصد کی بجائے ان کی توجہ دھن دولت پہ رہتی ہے، ان کی توجہ مستقبل قریب پہ ہے، زیادہ سے زیادہ ایک دو نسل کیلئے مالی آسودگی کی فراہمی، اس میں تاجر، کاروباری اور پیشہ ور لوگ شامل ہیں، بعد میں یہی مل کر بورژوا کی بنیاد میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔
انسانی درجہ بندی میں آخری مقام شودر کا ہے ، یہ مخلوق حرکت و شرر سے بے نیاز ہے، حتی کہ کوئی مادی مقصد بھی سامنے نہیں، ذہنی اوصاف اور جرآت رندانہ کم ترین سطح پر ہیں۔ ان کی توجہ صرف ایک وقت کی روٹی پہ ہے، ان کی اسی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے باقی ذاتوں نے انہیں اپنی خدمت پہ مامور کر رکھا ہے۔ شودر کا لفظ اگر سماعتوں پہ گراں گزر رہا ہے تو اسے پرولتاری کہہ لیجئے ۔
انسانی ارتقاء نے مگر ان ذاتوں کی ” پاکدامنی” کو داغدار کیا ہے، اب کوئی ذات خالص نہیں رہی، آج انسانوں کی بھاری اکثریت ملاوٹ شدہ مرکب بن چکا ہے، گلوبلائزیشن کا عمل اس میں مذید تیزی لا رہا ہے، نتیجے میں ذات کا غالب عنصر اب غالب نہیں رہا اور مغلوب عنصر اس قدر مغلوب نہیں جیسے پہلے تھا، اس سے وصف اور مزاج ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار نظر آتے ہیں، چونکہ ایسے افراد ہر دو مزاج سے آشنا ہیں اس لئے یہ مختلف ذاتوں کی تمثیل کی نقالی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، ایسے لوگوں کیلئے سنسکرت میں چندال کی اصلاح استعمال ہوئی ہے، چندال نسل کے لوگ بہت اچھے اداکار بن سکتے ہیں کیونکہ ان کا شخصی نفس کمزور ہوتا ہے تو یہ کسی بھی دوسرے کردار میں آسانی سے ڈھل جاتے ہیں ۔ سنجیدہ نکتہ یہ ہے کہ ایسے لوگ صرف سٹیج یا سکرین پر ہی نہیں، اصل زندگی میں بھی اچھے اداکار ہوتے ہیں، آج ہہی چندال ہمیں فوجی جنرل بن کے کشتری کا تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ بہادر ہے ، حالانکہ اس کی حرکتوں سے اس کے سینے میں چھپا خوف صاف دکھائی دیتا ہے، یہی چندال ویش ہونے کی اداکاری کرتا دکھائی دیتا ہے کہ وہ مالی امور میں ماہر ہے اور اس سے بڑا معیشت دان جیسے کرہ ارض پہ پیدا ہی نہیں ہوا، اسحاق ڈار کی مثال سامنے ہے،
اب وہ مخلوق جو پہلے شودر تھی، ارتقائی ملاوٹ کے نتیجے میں انہوں نے مال و دولت کی اہمیت کو سمجھ لیا ہے لیکن ان میں مال ودولت کمانے کے اوصاف صحیح طرح سے نہ پنپ پائے تو جدیدیت کا سہارا لے کر ان کی بڑی تعداد ٹک ٹاکر سٹار بن چکی ہے ، پیسے ضرور کما لئے ہیں مگر کوئی عقلی صلاحیت دکھانے میں ناکام ہوئے ہیں (یاد رہے کہ شودر یا دیگر کسی ذات کو لے کر یہاں شخصی وقار کو مجروح کرنا مقصد نہیں ہے، فقط ذہنی صلاحیتوں اور قلبی جرات کا پیمانہ بتانا ہے), یہی وجہ ہے کہ پیسہ کما کر یہ مخلوق سب سے پہلے کالے رنگ کا ڈالا خریدتی ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہی شان و شوکت کی علامت ہے۔
مارا ماری کے اس دور میں کبھی کہیں کوئی ایسا شخص سامنے آتا ہے جو ملاوٹ سے پاک ہے، کشتری نسل میں چی گویرا کی مثال دی جا سکتی ہے کہ جو جنگجو بننے کی اداکاری نہیں کر رہا بلکہ حقیقت میں بہادر ہے اور جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتا، ان کے فلسفہ زندگی سے اگرچہ اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان پہ چندال ہونے کا الزام نہیں لگایا جا سکتا، ایسے لوگوں کیلئے انگریزی میں lonely wolf کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، یعنی تنہا بھیڑیا، آج بھی اور آنے والے وقت میں بھی ایسے تنہا بھیڑیئے ہر جگہ پیدا ہوتے رہیں گے۔ اب وہ لوگ جو دنیا کو کسی اجتماعی نظام کے تحت لانا چاہتے ہیں ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ ان تنہا بھیڑیوں کو ایک جھنڈے تلے جمع کریں اور یہ کام بظاہر ناممکن دکھائی دیتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھیڑیا بھی دوسرے کے ماتحت آنے کو تیار نہ ہوگا، اس کا سیدھا نتیجہ خانہ جنگی ہے، وہ دوست جو آج پین اسلامزم یعنی وحدت الاسلامیہ کا خواب دیکھتے ہیں، انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ چندال ایسی کسی بھی تحریک کو کامیابی سے ہم کنار نہیں کر سکتے، اور ہمارے ہاں اکثریت ایسے ہی چندالوں کی ہے، ہم ویسے بھی شودریت کے ڈسے ہوئے لوگ ہیں ، اس مقصد کیلئے حقیقی کشتری چاہئے اور حقیقی کشتری صرف وہاں باقی ہیں جہاں شدت پسند تنظیمیں کار فرما ہیں، افغانستان اور عرب دنیا میں ایسے کشتری مل جائیں گے لیکن یہ حقیقی کشتری تنہا بھیڑیئے ہیں اور ایسے تنہا بھیڑیئے چونکہ ایک سے زیادہ ہیں تو ان میں مسلکی ، لسانی اور قومی اختلافات موجود رہیں گے ، ان میں سے کوئی بھیڑیا دوسرے کے ماتحت آنے کو تیار نہیں، ان کو ایک جھنڈے تلے لانا خانہ جنگی اور خون ریزی کا سبب ہے، جس کا فائدہ ہر حال میں برہمن کو جائے گا چاہے وہ چندالی برہمن ہی کیوں نہ ہو ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply