سکھر (مکالمہ نامہ نگار؛رمیش راجہ ) سندھیانی تحریک کی مرکزی صدر عمرا سموں، ماہ نور ملاح، ایڈووکیٹ سورٹھ منگنہار، ریحانہ بلوچ اور سندھوبپڑ نے سکھر پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کا حکمران طبقہ گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے زبردستی سندھودریا کے پانی پر قبضہ کرتا آ رہا ہے۔ اب ایک مرتبہ پھر ارسا ایکٹ میں ترمیم کرکے سندھودریا سے چھ نئے کینال نکال کر سندھ میں کروڑوں انسانوں، جانوروں اور تمام زندگی کو ختم کرنے کے ناپاک منصوبے پر عمل کیا جا رہا ہے۔ چھ نئے کینال نکالنے کا منصوبہ سندھ پر ایٹم بم گرانے سے زیادہ خطرناک ہے۔
وفاقی حکومت، پیپلزپارٹی کی معاونت سے، چھوٹے صوبوں خصوصاً سندھ کے خلاف فیصلے کر رہی ہے، جو ملکی سالمیت کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔ وفاقی حکومت کا سندھ کے خلاف زبردستی کا فیصلہ سندھ کے عوام کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ سندھودریا کے بہاؤ کو روکنا ایک عالمی جرم ہے، اور وفاقی حکومت سندھودریا سے چھ نئے کینال نکال کر بین الاقوامی جرم کر رہی ہے۔ سندھودریا کا پانی روک کر خطے کو ماحولیاتی تباہی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ ڈیلٹا کو پانی نہ ملنے کی وجہ سے سندھ سمیت پورے ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ سندھودریا کو تباہ کرنے والے ملک دشمن ہیں، اور نئے کینال اور ڈیمز کے منصوبے پیش کرنے والے حکمران غیر ملکی کمپنیوں کے ایجنٹ ہیں۔
پیپلزپارٹی صدارتی ہاؤس کو سندھودریا کا پانی بیچنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ وہ سامراجی قوتوں کو خوش کرنے کے لیے بلاول کو وزیراعظم بنانے کی خواہش میں سندھودریا کا پانی بیچ رہی ہے۔ پیپلزپارٹی نے سندھ کے پانی، زمینوں اور وسائل کو وفاق کے حوالے کرکے سندھ کے ساتھ غداری کی ہے۔ پیپلزپارٹی کا حکمران طبقہ سندھ میں جھوٹے ڈرامے اور ناٹک رچا رہا ہے۔
سندھ کے عوام وفاقی حکومت کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ سندھودریا پیپلزپارٹی یا کسی بھی حکومت کی ملکیت نہیں ہے بلکہ یہ سندھ کی قوم کی اجتماعی ملکیت ہے۔ سندھودریا سندھ کی تہذیب کا خالق ہے، اور سندھ کے عوام اپنے دریا کی فروخت کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔
رہنماؤں نے کہا کہ سندھ کا پانی بند کرنے کے لیے سکھر بیراج کو جان بوجھ کر تباہ کیا گیا ہے۔ سندھ کے تاریخی بیراجوں کی مرمت نہیں کی جا رہی اور نہری نظام کے اخراجات بھی پیپلزپارٹی کی حکومت ہڑپ کر رہی ہے، جس کی وجہ سے سندھ کے لاکھوں ایکڑ زرعی رقبے بنجر ہو چکے ہیں۔ اوپر سے چھ نئے کینال نکال کر سندھ کو ریگستان بنانے کی سازش کی جا رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کارپوریٹ فارمنگ اور گرین پاکستان منصوبوں کے تحت ملک کی 48 لاکھ ایکڑ زمین غیر ملکی سرمایہ کاروں کو دی جا رہی ہے اور سندھودریا کا پانی فراہم کرنے کے لیے ارسا ایکٹ میں ترمیم کی جا رہی ہے۔ رہنماؤں نے یہ بھی کہا کہ سندھ کے وسائل کی لوٹ مار کے لیے یہاں ڈاکوؤں اور دہشت گردوں کا راج قائم کیا گیا ہے۔
گلشن حدید میں مزدور زاہد میرانی کو دن دیہاڑے قتل کیا گیا، لیکن سندھ کے وزیر اعلیٰ نے اس مظلوم خون کا نوٹس تک نہیں لیا۔ سندھ حکومت عوام کے جان و مال کی حفاظت کرنے کے بجائے مجرموں کی حفاظت میں مصروف ہے۔ انہوں نے کہا کہ زاہد میرانی کے قتل کی ذمہ دار سندھ حکومت ہے، جس نے غیر ملکی دہشت گردوں کو سندھ کے عوام پر مسلط کر دیا ہے۔
رہنماؤں نے کہا کہ سندھ حکومت نے سکھر ڈویژن کو ڈاکوؤں اور مجرموں کی محفوظ پناہ گاہ بنا دیا ہے۔ سکھر ڈویژن میں اغوا برائے تاوان کی صنعت قائم ہو چکی ہے۔ شمالی سندھ کے اضلاع میں ڈاکوؤں کو سرکاری سرپرستی میں ہتھیار فراہم کیے جا رہے ہیں، جبکہ پولیس مجرموں کو گرفتار کرنے کے بجائے معزز شہریوں کو ہراساں کر رہی ہے۔ قبائلی جرگوں میں خواتین کو کاری قرار دے کر قتل کرنا معمول بن گیا ہے۔
شہید صحافی جان محمد مہر اور نصراللہ گڈانی کے قاتلوں کو پکڑنے کے لیے سندھ پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ ہم عدالت سے بالاتر قتل کے واقعات کی مذمت کرتے ہیں۔ سکھر، کشمور-کندھکوٹ، گھوٹکی اور خیرپور سمیت ان اضلاع میں، جہاں سے معدنی وسائل نکلتے ہیں، ان کمپنیوں میں سندھ کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے دروازے بند کیے گئے ہیں۔ اروڑ اور بکھر کے قلعوں سمیت سندھ کے تاریخی مقامات پر کیے گئے قبضے ختم کیے جائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ چھ نئے کینال، بڑھتی ہوئی لاقانونیت، اور سندھ کی زمینوں پر قبضے اور ڈاکوؤں کے راج کے خلاف 22 دسمبر کو سکھر میں زبردست ریلی نکالی جائے گی۔ ہم صحافی بھائیوں کے ذریعے سندھ کے غیرت مند عوام کو اس ریلی میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں