رشتے اور رشتہ داریاں/ڈاکٹر اظہر وحید

انسان اس دنیا میں اکیلا آیا ہے اور اکیلے ہی اس نے چلے جانا ہے، لیکن یہاں اسے انسانوں کی سنگت میں رہنا ہے، اور بسر کرنا ہے۔ انسان کی تمام اخلاقی تربیت کا محور و مرکز یہی نکتہ ہے کہ وہ کسی طرح انسانوں کی بستی میں بسنے کا کوئی خوبصورت ڈھنگ، کوئی خوب سیرت ترتیب سیکھ لے۔ اس جہانِ رنگ و بو میں اگر انسان کا کسی دوسرے انسان سے کوئی واسطہ اور تعلق نہ ہو تو اسے کسی تہذیب ِ اخلاق کی تعلیم کی ضرورت ہی نہ ہو، لیکن انسانوں کی بستی میں بسنے کا پہلا آئین طاقت کی بجائے اخلاق کے سامنے سرنگوں ہونے سے عبارت ہے۔ اخلاق کا پہلا سبق مذہب دیتا ہے۔ قدیم فلسفی مذہب کو فلسفے کی ماں کہتے تھے۔ جدید لہجے کا دانشور اگر غور کرے گا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ مذہب اخلاق کا باپ ہے۔ اخلاقی اقدار کا اوّلین سبق ہمیں مذہب ہی سے ملتا ہے۔ اگر ہابیل نے قابیل پر ہاتھ نہ اٹھایا تو وہ اسی اخلاقی قدر کا نتیجہ تھا، کہ تمہارا جو بھی انسان کش رویہ ہو، اس کے ردِ عمل میں میرا رویہ کبھی ضرر رساں نہ ہو گا۔ وہ اپنی جان کا نقصان کر لیتا ہے لیکن جواباً اخلاقی حدود کی پامالی کا مرتکب نہیں ہوتا۔ خیر وشر کے حوالے یہی تقسیم آج تک قائم ہیں۔ ہابیل کی اخلاقی ذرّیت اپنا مالی و مادّی نقصان برداشت کر لے گی، لیکن کسی کے نقصان پر آمادہ نہ ہو گی۔ یہ لوگ الہامی ہدایت کے زیرِ اثر ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس قابیل کے فکری قبیلے سے تعلق رکھنے والے اپنی انا کی تسکین چاہتے ہیں، وہ اپنی انا کی بالادستی قائم کرنے کے لیے کسی بھی مقدس رشتے کو قطع کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
انسان کے بیشتر گناہ و ثواب انسانو ں ہی سے متعلق ہیں۔ چوری انسان کے مال ہی کی ہوتی ہے۔ انسان کی ملکیت پر ڈاکہ زنی کا نام ہی قذاقی ہے۔ جنگل میں کسی درخت سے پھل توڑنا کوئی گناہ نہیں، کسی کے باغ سے اس کی اجازت کے بغیر پھل توڑنے والا چور کہلاتا ہے۔ مسکین کو کھانا کھلانا بہترین صدقہ ہے، اور مسکین انسان ہی کی صورت میں نظر آئے گا۔ یتیم کو دھکے دینا گناہ ہے، اتنا بڑا گناہ کہ عبادتوں اور نمازوں کو برباد کر دیتا ہے۔ ایک دوسرے کو مانگے تانگے کی چیزوں نہ دینا، یعنی بروقت ایک دوسرے کی ضرورت پوری نہ کرنا بھی ایسا ہی گناہ ہے … انسانوں کے ساتھ اس گناہ کے مرتکب کے لیے، خواہ وہ نمازی ہی کیوں نہ ہو، ویل (تباہی) کی وعید ہے۔ صدقہ بھی کسی انسان ہی کو دیا جاتا ہے، اور مال پامال بھی کسی انسان ہی کا کیا جاتا ہے۔ بہترین صدقہ غریب اعزا و اقارب کو دیا جاتا ہے۔ یہی اصول زکوٰۃ میں ہے۔ زکوٰۃ کے اولین مستحق پہلے اپنے غریب رشتہ دار ہیں، پھر اہلِ محلہ اور پھر کوئی اور!
ہمارا دین تمام ادیان و مذاہب کا تتمہ ہے۔ الہامی ہدایت کے باب میں یہ خدا کا حاصلِ کلام ہے۔ کسی مذہب اور کسی معاشرے میں پایا جانے والا کوئی اخلاق ایسا نہیں جس کی جامع تعریف و تعارف دینِ اسلام میں نہ ہو۔ اسلام دینِ اخلاق ہے۔ پیغبرِ اسلام ، خاتم المرسلین، رحمت للعالمینؐ … پیغمبرِ اخلاق ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ مجھے مکارمِ اخلاق (اخلاقی اقدار) کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘۔ اسلام میں اخلاق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فرمایا گیا: ’’بروزِ حشر میزانِ عمل میں سب سے بھاری چیز حسنِ اخلاق ہو گا‘‘۔ یہاں تک فرمایا گیا کہ جنت میں میرے قریب ترین شخص وہ ہو گا جس کے اخلاق بہترین ہوں گے۔ اخلاق کے باب میں یہ بھی فرمایا گیا کہ تم میں سے بہتر اخلاق اس کے ہیں جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ خوش اخلاق ہے۔ گویا اخلاق ایسی نیکی بھی گھر سے شروع ہوتی ہے۔ کسی کے اخلاق کا بہترین امتحان یہ ہے کہ وہ اپنے زیرِ نگر، زیر دست لوگوں کے ساتھ اخلاق سے پیش آئے۔ گھر والے بالعموم زیر دست ہوتے ہیں۔ زیر دست کے ساتھ زبردست نہ ہونا، اخلاق ہے۔ اخلاق صرف اچھے الفاظ ہی کی نشست و برخاست کا نام نہیں، بلکہ خوش کن کردار اور خوشبودار عمل کا بھی نام ہے۔ تحمل، بردباری، درگزر اور معافی اخلاق کی عمارت کے بنیادی ستون ہیں۔ غصہ اور غرور اخلاق سے دور ہے۔ ایک لمحے کا غصہ ساری عمر پر محیط ہو جاتا ہے۔ کوئی ایک غصیلہ جملہ اخلاق کی مکمل مضمون برباد کر دیتا ہے۔ اپنے اہلِ خانہ سے ایک بڑا خانہ، رشتہ دار ہوتے ہیں۔ رشتوں کی ترتیب میں خونی رشتہ دار سب سے پہلے آتے ہیں، باقی رشتہ دار بعد میں ترتیب میں آتے ہیں۔ خونی رشتوں کے ساتھ خونخوار نہ ہونا چاہیے۔ ان کے عمل سے بے نیاز ہو کر اپنا نرم ملائم رویہ جاری رکھنا، اخلاق ہے۔ اخلاق اپنی ہیئتِ اصلیہ میں اخلاص ہے۔ اخلاص کا مطلب ہی یہ ہے کہ کسی صلے اور ستائش سے بے نیاز ہو کر اچھا عمل جاری رکھا جائے۔ اخلاق کے جواب میں اخلاق برتنا آسان کام ہے، یہ ایک نوع کی تجارت اور باہمی تعاون کا طریق ہے۔ اصل کام یہ ہے کہ کسی کی بداخلاقی کے جواب میں اخلاق سے کام لیا جائے۔

رشتہ داروں کی ترش روئی ان سے قطع تعلقی کا جواز نہیں۔ قطع تعلقی بھی ایک درجے کا قتل ہے … یعنی جذبات کے ہاتھوں کسی تعلق کا قتل اور پھر بطور سزا عمر بھرکی قیدِ تنہائی! کسی کی بدخلقی اپنے اخلاق سے دستبردار ہونے کا قطعاً جواز نہیں۔ غالب رویہ ہی ہے، وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں۔ یہ طے ہے کہ رشتہ دار ہم مزاج نہیں ہوں گے۔ رشتہ دار ہم مرتبہ بھی نہ ہوں گے۔ ہم مزاج اور ہم مرتبہ لوگوں کے ساتھ رفاقت کیا مشکل کام ہے؟ حقِ رفاقت یہ کہ اپنے مزاج کے برعکس لوگوں کے ساتھ، بدمزاج لوگوں کے ساتھ اپنی خوش مزاجی برقرار رکھی جائے۔ ایک دوسرے کی ناروا توقعات پر پورا اترنا اگرچہ مشکل کام ہے، لیکن خوش اخلاقی کا تقاضا یہ ہے کہ حرفِ انکار کو تلوار نہ بنایا جائے۔ کوئی فرمائش پوری کرنے سے حرفِ انکار کے لیے الفاظ کا چناؤ ہمارے درجہِ اخلاق کو متعین کرتا ہے۔ کم مرتبہ رشتہ داروں کے سامنے اپنے مرتبے کا اظہار بد اخلاقی بھی ہے اور بد ذوقی بھی! اگر کوئی زمین پر بٹھا کر کھانا کھلائے تو یہ نہ کہنا چاہیے کہ گھر میں میز کرسی پر کھاتے ہیں، بلکہ یہی کہنا جچتا ہے کہ زمین پر بیٹھنے میں جو مزہ ہے، وہ کرسی میز میں کہاں۔ شہر والے جب گاؤں والوں کے ہاں جائیں تو اپنے شہر کی سہولیات کے تذکرے نہ کریں، بلکہ گاؤں کے گن گائیں۔ یہاں تحدیثِ نعمت اور تکرارِ اسباق کی خاطر بطور مثال بیان کر رہا ہوں … یہ ان دنوں کی بات ہے جب بچے سکول میں پڑھتے تھے، میں انہیں لینے کے لیے گاڑی میں جاتا تھا۔ واپسی پر ان کے چند کلاس فیلوز اپنے والد کے ساتھ موٹر سائیکل پر جا رہے ہوتے تھے۔ بچوں کی فرمائش ہوتی: بابا! ذرا گاڑی تیز کریں، ہم نے اپنے دوستوں کو ہاتھ ہلا کر بائے بائے کہنا ہے، لیکن میں اپنی گاڑی دھیمی رفتار میں چلاتا اور ان موٹرسائیکل سوار بچوں سے پیچھے ہی رہتا۔ مجھے یہ خوف دامن گیر رہتا کہ کہیں ایسا نہ ہو، میرے بچوں میں کسی قسم کی احساسِ برتری یا دوسرے بچوں میں احساسِ کمتری پیدا ہو جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

القصّہ دوستوں اور رشتہ داروں میں اپنے مرتبے اور دولت کی نمائش کمزور اخلاق کی علامت ہے۔ غریب رشتہ دار کا پروٹوکول اور احترام اَمیر رشتہ دار وں سے زیادہ کریں۔ غریب کی دعوت اَمیر سے پہلے قبول کریں۔ اگر آپ کے رشتہ دار آپ سے کمزور ہیں، تو ان کو یہ حق دیں کہ وہ آپ کے ساتھ ناروا گلے، ناحق شکوے اور ناجائز فرمائشیں بھی کر سکیں۔ آپ کا فرض ہے کہ فرمائشیں پوری کریں یا پھر اپنی اَنا کو دھیما کرتے ہوئے، سر جھکاتے ہوئے، ان کے شکوے برداشت کریں۔ عجز و انکسار اخلاق کی روح ہے۔ برداشت اخلاق کی خشتِ اوّل ہے۔ برداشت کے روحانی پہلو کو صبر کہا جاتا ہے۔ صبر ایک طاقتور انسان ہی کر سکتا ہے … دینی و روحانی اعتبار سے طاقتور انسان!! دولتِ اخلاق سمیت ہماری دولت اور کسی روحانی مرتبے سمیت ہمارا ظاہری مرتبہ سب سے پہلے اپنے اہلِ خانہ اور پھر رشتہ داروں کے کام آنا چاہیے۔ اوّل خویش بعد درویش!۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply