یہ لگ بھگ سات برس پُرانا قصّہ ہے، جب گورنمنٹ کالج لاہور میں عاصم کلیار کا ظہورِ ثانی ہوا. میں ۲۰۱۷ء تک نہ اِن صاحب کے نام سے واقف تھا اور نہ ہی کبھی سرِراہ یا کسی ادبی محفل میں اِن سے ملاقات ہوئی تھی۔ پروفیسرز روم میں انھیں آتے جاتے اور چہکتے دیکھا تو پتا چلا کہ یہ حضرت آج کل شعبہ اردو کے تحقیقی رسالے سے وابستہ ہیں اور ساتھ ہی انھیں انٹرمیڈیٹ کی کچھ کلاسز پڑھانے کی ذمہ داری بھی دی گئی ہے۔
عاصم جو بہ ظاہر اُکھڑے اور تیکھے مزاج کا حامل تھا ایک بار اتفاقاً کسی شعر کا دوسرا مصرع پوچھنے کے لیے میرے آفس میں داخل ہوا تو اُس مختصر سی نشست میں یہ اندازہ ہوا کہ اِن صاحب کی زندگی میں توجہ کا مرکز محض کتابیں اور مصنف ہیں۔گردوپیش کی باقی چیزیں اضافی ہیں۔ بعد کی ملاقاتوں نے میرے اِس خیال کی توثیق کی خصوصاً غالبؔ سے عاصم کا شغف جنون کی حد تک تھا اور اُس کے گھر میں بنی دیوارِ غالبؔ میں غالبیات کی ایسی ایسی نادرو نایاب کُتب موجود تھیں، جن کا فی زمانہ ملنا ناممکن نہیں تو دُشوار ضرور تھا۔
اُس زمانے کے گورنمنٹ کالج کی مسموم فضا میں جہاں علم دوستی، کتابیں پڑھنے اور لکھنے والوں کو بہ طورِ خاص ہدف بنایا جاتا تھا، عاصم کا ہونا غنیمت تھا کہ اُس نے اردو ادب کے حوالے سے وہاں علمی مکالمے کی ایک نئی فضا قائم کی اور بہت سے مصنف، عاصم کے توسط سے مجلسِ اقبال کی ادبی نشستوں کا حصہ بنے۔ ہم سب عاصم کے ذوقِ مطالعہ کے تو قائل تھے ہی مگر اُس وقت اُسے مزید رَشک بھری نظروں سے دیکھتے، جب وہ ہمیں فہمیدہ ریاض اور انتظار حسین سے لے کر زاہد ڈار، شمیم حنفی، اکرام اللہ، مسعود اشعر اور ایسے کتنے ہی نابغہء روزگار معاصرین سے اپنی قُربت اور بے تکلفی کے قصے سُناتا، اُن کے مابین ہوئے ادبی مباحث کی رُوداد بیان کرتا اور ساتھ ہی تازہ کتابوں اور تحریروں پر اتنے بے لاگ تبصرے کرتا کہ اکثر احباب اُسے اپنی کتاب پیش کرنے کے بعد ہمیشہ کے لیے ناراض ہو جاتے۔
اُن بھلے دنوں میں عاصم ہر ہفتے ایک نئی کتاب بغل میں دابے گورنمنٹ کالج آتا اور پھر اِس کتاب کے مشمولات پر نہ صرف کُھل کر گفتگو ہوتی بلکہ وہ طالب علموں کو بھی یہ کتاب پڑھ کر سوال کرنے کی ترغیب دیتا۔ ایک دن بیٹھے بٹھائے عاصم نے یہ فیصلہ صادر کیا کہ اِس برس میں اُردو کی کوئی کتاب نہیں پڑھوں گا، لہذا وہ تواتر سے انگریزی کتابیں پڑھتا اور بعض کتب کو اُردو دنیا سے متعارف کروانے کے لیے ایک تعارفیہ بھی لکھ دیتا۔ اِس تعارفی تحریر کی سب سے بڑی خوبی وہ بے ساختگی اور دل گُداختگی ہوتی جس پر تصّنع اور کسی بناوٹ کا گمان بھی نہیں ہوتا تھا۔
زیرِ نظر کتاب “تنہائی میں گفتگو” کے دوسرے حصے “کتابیں” میں شامل آخری پندرہ تحریریں اسی زُمرے میں آتی ہیں جن میں عاصم نے پکاسو، آسکر وائلڈ، صادقین، گوہر جان اور ملکہء ترنم نور جہاں جیسے نابغوں پر لکھی انگریزی کتب سے خوشہ چینی کر کے ہمیں اِنتہائی سہولت سے اپنے مطالعے میں شریک کیا ہے۔ یہ تحریریں محض تبصرے نہیں ہیں بلکہ اِن میں اسلوب کی روانی اور خیالات کی شگفتگی بآسانی محسوس کی جاسکتی۔
“تنہائی سے گفتگو” کا پہلا حصہ اِس عالمگیری عہد میں سانس لیتے ہر اُس حسّاس فرد کا نوحہ ہے جو اپنے اِردگرد بکھرتے رشتوں، مِٹتی قدروں اور دَم توڑتی تہذیب پر آنسو بہاتا ہے، لیکن اِن آنسوؤں کو لفظوں کے کوزے میں بند کرنے کے ہُنر سے ناآشنا ہے۔ عاصم نے اپنی تحریروں سے اِس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ اِس میں کافی حد تک کامیاب بھی رہا ہے۔ “یادیں” کے عنوان سے مجتمع کی گئی اِن تحریروں کا اسلوب نہ تو آرائشی ہے اور نہ ہی فرمائشی۔ زیادہ تر تحریریں اُن دوستوں کے نوحے ہیں جو اِس دنیا سے تو رخصت ہوگئے، مگر مصنف کے ذہن و دل پر ایسے اَن مِٹ نقوش چھوڑ گئے کہ یہ تحریریں پڑھتے ہی قاری بھی اُن کرداروں سے موانست کا رشتہ اُستوار کر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پڑھنے والے کو اِس حصے میں کہیں خاکہ نگاری کی چاشنی ملتی ہے تو کہیں انتہائی کُھردری سچائیوں کی تلخی، کہیں افسانوں جیسی نزاکت ہے اور کہیں رپورتاژ جیسی معروضی صداقت۔ “اُداس راتوں کی تنہا مسافر”، “زاہدِ خشک”،”فہمیدہ ریاض کی یاد میں”، “ناخن پہ قرض اُس گرہِ نیم باز کا” اور “دُنیا سے دل نہ لگے” ایسی ہی تحریریں ہیں جنھیں کسی ادبی زُمرے میں شمار کرنے کی بجائے یادوں کی کتابِ مقدس میں رکھے اُن خشک پھولوں سے تعبیر کرنا چاہیے، جن کی خُوشبو میں گُندھی اُداسی اپنا ایک الگ ذائقہ تخلیق کر لیتی ہے ۔ میں اُردو دنیا کی جانب سے عاصم کی اِس کتاب کا تہِ دل سےخیرمقدم کرتا ہوں!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں