بے چارے لبرل اور ایران نواز شام میں اقتدار کی تبدیلی پر اس اس طرح سے تبصرہ کر رہے ہیں جیسے کہ بشارالاسد شامی مسلمانوں کا مسیحا تھا ۔کوئی کہہ رہا ہے کہ
امریکہ اسرائیل ترکی اور شام کے باغی سب ایک ہیں اور اب اسرائیل کے لئے گریٹر اسرائیل کا راستہ صاف ہو گیا ہے تو کوئی یہ بھی کہہ رہا کہ اسد کی حکومت ختم ہوتے ہی اسرائیل گولان کی پہاڑیوں کی طرف سے بیس کلو میٹر اندر گھس آیا ہے اور شام کے علاقوں پر بمباری کر رہا ہے ۔سوال یہ ہے کہ جب امریکہ اسرائیل اور شام کے باغی ایک ہیں اور بہت سارے ممالک سے کراۓ پر لاۓ گئے ہیں تو اسرائیل کو اتنی جلدی کیا ہے شام کی سرحدوں میں مداخلت کرنے کی ۔جب دونوں ایک ہیں تو اسرائیل تھوڑا اور صبر کر لے ایک دو سال میں باغی خود پورے شام کو اسرائیل کے حوالے کر کے اپنے اپنے ملکوں کو لوٹ جائیں گے۔ہمیں بہرحال نئے انقلابیوں سے اچھا گمان کرنا چاہیے ۔اس طرح کے پروپگنڈے افغانستان میں ملاؤں کے بارے میں بھی کئے گئے تھے اور بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے تعلق سے بھی افواہیں پھیلائی گئی تھیں ۔ویسے باون سال سے شام کے نصیریوں نے وہاں کے سنی مسلمانوں پر جو ظلم ڈھاۓ ہیں وہ اسرائیل سے بھی کہیں زیادہ ہیں ۔آخر یہ لوگ ستر لاکھ ان شامی مسلمانوں کے بارے میں بات کیوں نہیں کرتے جنھیں ایران روس حزب اللہ اور اسدی فوج نے گھر سے بے گھر کر دیا اور لاکھوں کی تعداد میں شہید کئے گئے ۔اس کے علاوہ تیس تیس چالیس چالیس سال سے شام کی جیلوں میں قید شامی مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا ۔ان قیدیوں میں سیکڑوں نوجوان جو اب بوڑھے ہو چکے ہیں حماس کے بھی ہیں ۔انہیں آزاد کس نے کروایا ؟
سوال یہ ہے کہ جس اسد نے اسرائیل کے مفاد میں خود فلسطینیوں کو بھی اپنی جیلوں میں قید کر رکھا تھا وہ فلسطینیوں کا ہمدرد کیسے ہو سکتا تھا جبکہ ایران نواز دانشور یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بشارالاسد اسد حزب اللہ کی مدد کرکے غزہ کی مدد کر رہا تھا ۔یہ لوگ بھول رہے ہیں کہ اہل غزہ نے ایک سال تک اپنی جنگ تنہا لڑی ہے ۔اس دوران کوئی حزب اللہ اور عرب ملک ان کی عسکری مدد کرنے کے لئے سامنے نہیں آیا ۔ایران اور حزب اللہ بھی اس وقت حرکت میں آئے جب اسرائیل نے شام میں ایران کے سفارتخانے پر حملہ کیا اور پھر اسرائیل نے لبنان پر حملہ کرکے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کو شہید کر دیا ۔
کوئی بتاۓ کہ اسرائیل کی سرحد پر رہ کر اسد کی فوج نے غزہ والوں کی حمایت میں اسرائیل پر کتنے میزائل داغے ۔اسد کو اس وقت بھی شرم نہیں آئی جب اسرائیل نے ایرانی سفارتخانے پر حملہ کر کے ایران کے دو بڑے جنرل کو ہلاک کردیا ۔حزب اللہ ایک سال کے بعد میدان میں آیا جبکہ اہل غزہ آج بھی اپنی لڑائی لڑ رہے ہیں ۔جو یہ کہتے ہیں کہ شام میں اقتدار کی تبدیلی سے گریٹر اسرائیل کا راستہ صاف ہو گیا ہے وہ بھول رہے ہیں کہ جو اسرائیل ایک سال بعد بھی معمولی غزہ کی آبادی پر قابو نہیں پاسکا ہے اور ابھی بھی اس کے ٹینک تباہ ہو رہے ہیں وہ اگر گریٹر اسرائیل کا خواب لے کر شام میں داخل ہوگا تو اس کی کیا حالت ہوگی ۔خواب دیکھنے میں اور پورا کرنے میں صدیاں گزر جاتی ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شام کے انقلابیوں کے لئے یہ فتح اتنی آسان نہیں ہے اور یقینا ًامریکہ اور اسرائیل شام کے کرد باغیوں کا استعمال کرکے ان کے مقابلے میں اتار کر بدامنی پھیلانے کی کوشش کریں گے لیکن جو لوگ ایک باقاعدہ حکومت کی فوج کو شکست دے کر ایک خاندان کی باون سالہ اجارہ داری ختم کر سکتے ہیں وہ آگے کا بھی منصوبہ اور حوصلہ ضرور رکھتے ہوں گے ۔فی الحال ہمیں شامی عوام کے لئے نیک خواہشات کی ہی تمنا رکھنا ہے ۔ ویسے شام کا نیا محاذ اسرائیل کے لئے بھی کسی سردرد سے کم نہیں ہوگا ۔
بشکریہ فیس بک وال
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں