شام کے حالات کو دیکھتے ہوئے اور پہلے عراق میں جو حالات رہے، اس کی وجہ سے کم از کم زندہ انسانوں کو عقیدت کی دلدل سے باہر آنا چاہیے۔ ایک زمانے میں متوکل نے امام حسین کے روضے پر ہل چلوا کر پانی چھوڑ دیا تھا۔
امام حسین کی فکر کو کوئی گزند نہیں پہنچا وہ اسی طرح سے حریت پسندوں کے لیے استعارہ بنے رہے۔
آج کل شام میں باغیوں کے ہاتھ اقتدار آنے کے بعد سے مقدس مقامات کی فکر عقیدت مندوں کو کھائے جارہی ہے۔ ان کو کوئی غرض نہیں ہے کہ وہاں عوام کھانا پینا کیسے کررہی ہوگی۔ سب سے بڑھ کر تعلیم کا کیا ہوگا۔ وہاں ٹرکوں میں اسلحہ بھر کر لایا جارہا ہے اور مفت تقسیم کیا جارہا ہے۔ جوان لڑکے اور بچے تک اسلحہ اٹھائے گھوم رہے ہیں۔
اسلحہ کا سویگ ہی الگ ہوتا ہے۔ ایک نشہ محسوس ہوتا ہے۔ تین فٹ کا انسان چھ فٹ کے انسان کو جھکنے پر مجبور کردیتا ہے۔ جوان خون ویسے بھی گرم اور تھرل کا شوقین ہوتا ہے، اسکے لیے تو یہ ایک نیا ایڈوینچر ہے۔ اسلحہ کے ساتھ اگر کھانا پینا اور تھوڑا پیسہ ملنے لگے تو کیا ہی بات ہے۔
پاکستان میں سنی خوش ہیں کیونکہ ایران کی حمایت یافتہ حکومت گر گئی ہے۔ کچھ دن بعد یہ اسی طرح سے اس کو بھول جائیں گے جیسے لیبیا کو بھول گئے جہاں آج بھی خانہ جنگی کی کیفیت ہے۔
افغانسان میں روس کے جانے کے بعد طالبان کے اقتدار کو ہمارے علمانے رسول اکرم کی مدنی ریاست کے قیام کے مشابہ قرار دیا تھا اور اس جنگ میں روس کی شکست کو اللہ کی نصرت سے (جو اتفاق سے امریکہ کے ذریعے طالبان کو ملی) اسلام کی فتح کہا تھا۔
بعد میں دنیا نے دیکھا کہ وہاں دھڑے بندیاں ہوئیں، لوگ نماز پڑھ کر ایک دوسرے سے لڑتے تھے اور گلے کاٹ کر قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔ نتیجتا بیس سال کے عرصے میں افغانستان موہنجو دڑو کے زمانے میں پہنچ گیا جہاں استنجاء کرنے کے لیے پتھر وافر مقدار میں میسر ہیں۔
عراق کا حال جب بدتر ہوگیا تو امریکہ نے معذرت کرلی کہ ہمیں ہتھیاروں کی غلط رپورٹ ملی تھی۔ صدام کے جانے کے بعد لوگ “ابد واللہ یا زہرا ما ننسا حسینا” کہتے ہوئے مزارات کی طرف دوڑ پڑے۔ ابھی بھی عقیدت مند وہاں جانے کے لیے مچلتے رہتے ہیں۔ ان کو دنیا کی کوئی فکر نہیں ہوتی، فکر ہے تو دنیا سے گئے ہوئے انسان کے مزار کی۔
کمال تعجب ہے کہ جو انسان اپنی قبر کی خود سے حفاظت نہیں کرسکتا وہ آپ کی حاجات کیسے پوری کرے گا؟
سنی تمناء کرتے ہیں کہ ایران کی گورنمنٹ بھی اسی طرح گرے جس طرح سے شام میں بشار کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ ایران کا پڑوسی سعودی عرب ہے۔ وہ مانگے تانگے کی فوج پر گزارا کرتا ہے۔ وہاں اگر ایسی صورت حال ہو اور شیعہ بغلیں بجائیں تو کیسا لگے گا؟
یہ سب سرمایہ دارانہ ذہن کا کھیل ہے جس میں اسلحہ بکتا ہے، لوگ مرتے ہیں، جنگیں ہوتی ہیں اور کچھ لوگ کھربوں پتی بن جاتے ہیں۔
شیعہ سنی تو صرف ایک بہانہ ہے۔ بس یہ دیکھتے رہیے کہ کس کی باری پہلے آتی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں