رانڈ کارپوریشن کی پالیسیوں کے اثرات:

“RAND _Corporation”آمریکہ کا سب سے بڑا تھینک ٹینک کارپوریشن ہے جس کا امريكن پاليسى كى تشكيل ميں بہت بڑا كردار ہے اور یہ ادارہ ہر سال پوری دنیا بالخصوص اسلامی ممالک کے حوالے سےامریکہ کے لئے اپنی تحقیقی رپورٹوں اور مقالات کے ذریعے سفارشات اور پالیسی تیار کرتا ہے۔مسلم ممالک اور مسلمانوں کے حوالے سے اس ادارے کی تیار کردہ ایک رپورٹ
;CIVIL DEMOCRATIC ISLAM- PARTNERS, RESOURCES & STRATEGIES;
کے نام سے ایک تحقیقی مقالے کی صورت میں 2003 میں پیش کی گئی۔ جس میں مسلمانوں کو چار طبقوں میں تقسیم کیا گیا اور ہر طبقے کے لئے الگ الگ سفارشات اور حکمت عملی پیش کی گئی۔
اس رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کا پہلا گروہ بنیاد پرست (Fundamentalist)کاہے۔یہ وہ طبقہ ہے جو اسلام کو صرف مذہب نہیں بلکہ ایک عالمگیر دین اور کامل نظام حیات سمجھتا ہے۔ اس طبقے کے مطابق اسلام صرف چند عقائد، عبادات اور رسومات کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک اجتماعی،سیاسی و معاشرتی نظام بھی ہے۔یہ اسلامی نظام کو تمام نظاموں پر ترجیح دیتا ہے۔ یہ گروہ پوری دنیا میں ایک ایسی اسلامی ریاست کا خواہاں ہے جہاں وہ اسلامی قوانین اور شریعت کے اصولوں کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ ان میں سےایک (Scriptural Fundamentalist) یہ گروہ اسی طریقہ کو اختیار کرتا ہے جو اسلامی مآخذ کے مطابق ہے۔ جہاد ان کے منشور میں شامل ہے۔ البتہ خودکش حملہ کو صحیح نہیں قرار دیتا۔ اور دوسرا گروہ (Radical Fundamentalist) یہ گروہ سب سے خطرناک گروہ ہے جو خودکش حملوں کو جائز سمجھتا ہے ۔ یہ دونوں گروہ تمام مغربی افکارکےمنکر ہیں۔ يہ مغرب کےبالعموم اور امريكہ کے بالخصوص دشمن ہيں۔یہ ہمارے اولین دشمن ہیں اور ان کو ہر قیمت پر ختم کرنا ہے۔ یہی ہماری تہذہب ، ہمارا کلچر اور سسٹم کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔
رپورٹ کے مطابق دوسرا طبقہ قدامت پسند/ روایت پسند (Traditionalist)مسلمانوں کا ہے۔ یہ وہ علماء ہیں جو صرف قال اللہ و قال الرسول پڑھ رہے ہیں۔ جن کی پہنچ مسجد و مدرسہ تک اپنے اپنے فرقے تک محدود ہے۔ پڑھنا پڑھانا اور امامت تک محدود ہیں اور روایتی اسلامی رسوم و رواج تک محدود ہیں۔ یعنی ملا کی دوڑ مسجد تک۔ یہ مسلمانوں میں سب سے زیادہ قابلِ اعتماد اور بڑا گروہ ہے۔ یہ علماء، مدارس اور دیندار لوگوں پر مشتمل ہے۔ یہ بذات خود تو ہمارے لئے زیادہ خطرناک نہیں البتہ ہمارے لیے چیلنج ضرور ہیں کیونکہ یہ افراد اگر Fundamentalist سے مل گئے تو ہمارے لیے بہت ذیادہ خطرناک ثابت ہوں گے کیونکہ عوام تک رسائی کا ان کے پاس بہت بڑا ذریعہ ہے اس لئے کہ مساجد و مدارس کے اندر ان کے پاس بہت زیادہ افرادی قوت موجود ہے۔ لہٰذا ان کو ہر صورت اپنے مسلکی اور فرقہ ورانہ اختلافات کے اندر اس طرح مصروف رکھنا ہوگا کہ Fundamentalist سے ہر گز نہ مل سکے بلکہ آپس میں باہم مسلکی اور فرقی اختلافات میں دست گریباں رہیں۔ آپس میں مناظرے بازی میں رہیں۔
تیسرا طبقہ موڈرنسٹ (Modernist)مسلمانوں کا ہے۔یہ وہ لوگ جو اسلام کی جدید تعبیر کرکے اس کو ہماری تہذیب کے ساتھ ہم اہنگ بناتے ہیں تاکہ نئی نسل کو آسانی سے اپنی جال میں پھنسا سکیں۔ یہ اسلام کی پرانی تعلیمات کے خلاف اور زمانہ سے ہم آہنگ اور جدید اسلام کے لیے کوشاں ہیں۔ لہذا یہ ہمارے لئے ذیادہ اہم ہیں۔ان کو اگے لانے کے لئے ان کی ہر ممکن مدد اور حوصلہ افزائی کرنی ہے۔ خصوصا الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر ان کے لئے جگہ بنائی جائے اور نظریات اور تصنیفات کی اشاعت اور اسلامی ممالک کے تعلیمی نصاب میں ان کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے تاکہ عوام تک ان کے نظریات کی رسائی آسانی سے ممکن ہو۔
چوتھا طبقہ سیکولرسٹ (Secularist)کا ہے۔ان کے لئے مذہب بالخصوص اسلام ایک پرائیوٹ معاملہ ہے لہذا موڈرینسٹ کو ان کے ذیادہ قریب لانے کے لئے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اور ان دو طبقوں تک وسائل اور امداد کی فراہمی کوہر صور ت یقینی بنایا جائے ۔ اور رپورٹ میں ان دو طبقوں کو آمریکہ کے زیادہ قریب جبکہ پہلے کے دونوں گروہوں کو سب سے ذیادہ خطرنات قرار دیا گیا ہے۔
اس رپورٹ کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم پوری دنیا بالخصوص پاکستان کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اس رپورٹ اور اس کے ساتھ پیش کی گئی سفارشات اور پالیسیاں عملی طور پر ہوتے نظرآتے ہیں۔ جو لوگ اسلام کی بالادستی اور شریعت کے نفاذ کی بات کرتے ہیں ان کی شخصیت اور تاریخ کو اس ایک متشدد اور غاصب کی صورت میں پیش کیا گیا۔ اور اس مقصد کے لئے Modernist کا خوب سہارا لیا گیا۔ اس مقصد کے لئے ان کو الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا پر خوب پزیرائی دی گئی ہے۔ یہ حضرات آج کل نہ صرف میڈیا کے اوپر چھایا نظر آتے ہیں بلکہ مقدس ایوانوں اور پارلیمنٹ تک ان کی رسائی ہے۔ ان کے بقول علامہ اقبال دو ٹکے کا شاعر ہے جن کے کلام اور خودی کے پیعام کو خوامخواہ مسلمان سرپہ چڑھا رکھا ہے۔ قائد آعظم ان کے بقول سیکولر نظریات کے حامی تھے۔چادر اور چاردواری کا رواج عرب کے بدوؤں کا کلچر ہے اور اسلام کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اسلامی تحریکیں ، مولوی، مدرسہ اورمنبر و محراب ہیں۔ ویلنٹائن اور دیگر فحش تہواروں پر پابندی کا مطالبہ صرف منبر کا مولوی ہی کر سکتا ہے عدالت کا جج نہیں۔سائنس اور ٹیکنالوجی میں مسلمانوں کا کوئی کردار نہیں وغیرہ۔وغیرہ ۔یہ حضرات اسلام پر براہ راست حملہ نہیں کر سکتے اس لئے ہر بات کو مولوی سے تعبیر کر کے اسلام پر حملہ کرتے ہیں۔ ان میں سے کوئی اسلامک سکالر کا لبادہ اوڑھ کر میڈیا کا سہارا اس انداز میں لے رکھا ہے کہ رمضان میں سنی، محرم میں اہل تشیع، ربیع الاول میں بریلوی بن کر اسلام کی جدید تعبیر کرتے ہیں تاکہ ہر طبقے میں ان کے نظریات کے حامی لوگ بن جائے۔ کوئی دفائی تجزئہ نگار بن کر اسلام اور ملک کا دفاع جدید تعبیرات میں مصروف عمل ہیں۔ ان کے نظریات کی خوب تشہیر ہو رہی ہے اور نصاب تعلیم تک ان کو جگہ ملی ہے۔
دوسراگروہ (قدامت پسند/روایت پسند) ان کو مسلکی اور فرقوں میں ایسا مشعول رکھا گیا ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف فتویٰ بازی اور تقاریر سے ان کو فرصت نہیں ملتی کہ بنیاد پرستوں سے مل کر اسلامی ریاست اور شریعت کے قیام کا بھی سوچ سکیں۔ہر مسلک کی اپنی الگ مسجد اور منبر ہےایک طبقہ دوسرے طبقے کی مسجد میں نماز کی ادائیگی کو جائز نہیں سمجھتا ہے اور نہ ہی اس کو اجازت ہے۔ ایک فرقہ دوسرے فرقے کو اپنا اصل دشمن سمجھتا ہے ۔ اس کی ذندہ مثال حالیہ دربار لعل قلندر میں دھماکہ ہوا تو بجائے دشمن کی چال کو سمجھنے یہاں بریلوی اور دیوبندی کی اک سرد جنگ چڑ چکی تھی۔ ہر ایک اپنے کو حق پر اور باقی سب کو نہ صرف اپنے بلکہ اسلام کے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ یوں ہاتھ اوپر یا نیچے باندھے، اذان سے پہلے درود پڑھنے یا نہ پڑھنے اور طرح کے چھوٹے چھوٹے اختلافات کو بنیاد بنا کر الجھے ہوئے ہیں۔ اب ایک نئی لہر صوبائیت اور لسانیت کی بھی چل رہی ہے۔

Facebook Comments

عبدالحلیم شرر
اک سنگ بدنما ہے بظاہر میرا تعارف ۔۔ کوئی تراش لے تو بڑے کام کا ہوں میں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply