میں خواجہ سراؤں کی جانب سے خواجہ سراؤں کے دلوں کی اتھاہ گہرائیوں سے اس کائنات کے رنگ و بو میں بسنے والے ہر ایک فرد کو دیپا والی کی شب کامنائیں پیش کر رہی ہوں، بعد از شب کامنائیں یاد رہیں کہ جس طرح ہر سال ہندو ایک خاص تہوار ”دیپا والی“ میں دیپ جلاتے یعنی چراغ روشن کرتے ہیں، ایسے ہی خواجہ سراؤں کی روایات میں ایک روایت دیپ جلانے کی پائی جاتی ہے جس کو ”چراغ بتی دا سلام“ بھی کہتے ہیں اور خواجہ سرا یہ روایت غروب آفتاب یعنی سورج ڈھلنے کے وقت ایک دوسرے کو شام کا سلام کرتے وقت پوری کرتے ہیں!
اور سب سے خاص بات یہ ہے کہ ہندو تو سال بعد اس کا اہتمام کرتے ہیں جبکہ خواجہ سراؤں میں یہ رسم روزانہ بڑے ہی اہتمام سے دوہرائی جاتی ہے اور سلام دیپ یعنی چراغ جلانے کے بعد کیا جاتا ہے، چراغ جلانے والا سلام کرتا ہے اور باقی ماندہ خواجہ سرا سلام کرنے والے کو سلام کا جواب دیتے ہیں!
آج پوری دنیا میں ہندو دھرم کو ماننے والے دیپا والی منا رہیں ہیں اور ہر طرف دیپ یعنی چراغ روشن کر رہے ہیں یہاں تک کہ مملکت پاکستان میں لاہور اور کراچی میں دیپا والی تہوار کی تقریبات منعقد کی گئی، جہاں شرکاء نے پلھجڑیاں جلا کر خوشی کا اظہار کیا، وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے اس موقع پر تقریر بھی کی اور آخر میں کیک کاٹا گیا اور ہندو اس دیپا والی یا چراغوں کے تہوار کو ہر سال مناتے ہیں ان کا ماننا ہے کہ سیتا کو راون کی قید سے آزاد کرواتے ہوئے ہنومان نے ان کے لیے دیپ یعنی چراغ روشن کئے تھے جو ہندوؤں کا تہوار بن گیا اور آج تک مسلسل دیپا والی منائی جارہی ہیں کہ یہ دن اندھیروں پر روشنی جہالت پر علم کی ناامیدی اور مایوسی پر فتح و کامیابی کی علامت ہے!
ارسلان صدیقی (آن لائن جرنل ازم) کہتے ہیں کہ دیپا والی یعنی چراغوں کا تہوار ہندوستانی معاشرے کی روایت اور مذہبی رنگ اختیار کر چکا ہے، ماضی میں یہ تہوار اس لیے منایا جاتا تھا تاکہ ہر رنگ و نسل کے انسانوں مختلف نسل کے چرند پرند حتیٰ کہ کائنات پر غور و فکر کیا جائے، یہ تہوار اس وقت شروع ہوا جب بنی نوع انسان علم کی روشنی تک نہیں پہنچا تھا، لہذا اس زمانے کے متلاشیان حق نے دیپا والی کے نام سے دن مخصوص کیا تاکہ اس دن یہ شعور بیدار کیا جائے کہ غور و فکر کے ذریعے کائنات کی ہر شے کا مشاہدہ کیا جائے، احساسات کو سمجھا جائے، کمزوروں کی مدد کی جائے، معاشرتی تعلقات میں بہتری لائی جائے اور دنیا کو محبت کی روشنی سے بھر دیا جائے، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ تہواروں پر مقاصد کے بجائے رسمیں غالب آتی گئیں اور آج ہندوؤں کی نئی نسل بھی دیوالی کی اصل روح نہیں جانتی، یہ ایک المیہ ہے کہ ہم بحیثیت انسان علم سے دور ہوتے جارہے ہیں!
لہذا آن لائن جرنل ازم شعور کی بیداری کے لیے ہر موقع پر کردار ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے، میری تمام ہندو برادری سے اپیل ہے کہ اس دیوالی کو اس کی اصل روح کے تحت منانے کی کوشش کی جائے، اللہ ہمیں حق سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے اور رحمۃ اللعالمین کی سیرت اخلاق سمجھنے کی توفیق دے! آمین
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں