یہ کالم ان لوگوں کے لیے ہے جو بڑے بڑے خواب دیکھتے ہیں اور پھر تھک ہار کر چند ہزار کی نوکری تلاش کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اپنے کاروبار کا راستہ انھیں مشکل دکھائی دیتا ہے ۔ وہ ایک کام یاب انسان بننے کی آرزو کے باوجود بہت کم پر قناعت کر جاتے ہیں۔ ان کے اندر کا انٹر پر نیور نشو و نما ہی نہیں پاتا یہ تحریر سوچ کے نئے دروازے ان کے اوپر کھولے گی۔
میاں محمد منشا کو پاکستان کا امیر ترین شخص کہا جاتا ہے۔ بطور انٹر پر نیور بہت سی خوبیوں کے حامل میاں محمد منشا نے 1968 میں اپنے والد میاں یحییٰ کی وفات کے بعد انگلینڈ میں تعلیم کو خیر باد کہا اور خاندانی کاروبار میں شمولیت اختیار کر لی۔
میاں منشا کہتے ہیں ،زندگی میں فیصلہ کرنا سب سے اہم شئے ہے۔ جولوگ فیصلہ نہیں کر پاتے وہ پیچھے رہ جاتے ہیں تعلیم اور تجربہ۔ یہ دونوں فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو پروان چڑھاتے ہیں۔ فیصلہ کرنے میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ غور و فکر یا سوچ بچار اپنی جگہ لیکن فیصلے میں وقت کی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔ میں عام طور پر اپنے دوستوں کو مذاق میں یہ بات بتاتا ہوں کہ میں نے جتنے فیصلے جلدی میں کیسے وہ سب کام یاب ہوئے اور جن فیصلوں پر دیر تک غور فکر کیا وہ عموماً نا کام ٹھیرے۔ ہو سکتا ہے آپ کے بہت سے فیصلے غلط بھی ثابت ہوں لیکن فوری طور پر ہونے والا ایک اچھا فیصلہ تمام غلطیوں کا کفارہ بن سکتا ہے۔
ایک بڑا خواب کیسے دیکھا جاتا ہے اور پھر اس خواب کو تعبیر کیسے ملتی ہے۔ میاں منشاء کی جدوجہد اس کی زندہ مثال ہے۔مغربی پاکستان میں 1970 میں نشاط گروپ کے چھ صنعتی یونٹ تھے ۔ نشاط کارپوریشن، نشاط سرحد ٹیکسٹائل، نشاط ٹیکسٹائل فیصل آباد نشاط کیمیکل انڈسٹریز نشاط پولٹریز اور کریمی انڈسٹریز نوشہرہ سقوط ڈھاکہ کے بعد جب بنگلا دیش وجود میں آیا تو مشرقی پاکستان میں نشاط ایمپائر نشاط جوٹ مل، قادر یہ ٹیکسٹائل مل، تلگین کاٹن ملز اور کیمیکل انڈسٹریز آف پاکستان پر مشتمل تھی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد مشرقی پاکستان کی یہ ساری صنعتیں وہیں رہ گئیں۔ میاں منشاء کی ایک خوش قسمتی یہ ہوئی کہ 1969 میں جب خاندانی کاروبار تقسیم ہوا تو مغربی پاکستان کے صنعتی یونٹ ان کی ملکیت قرار پائے اور وہ سقوط بنگال کے صدموں سے محفوظ رہے۔
میاں منشاء کو بہت کچھ ورثہ میں ملالیکن انھوں نے اپنی محنت اور ذہانت کی بدولت 1970 سے لے کر 1990 تک بڑا نام پیدا کیا۔ تاہم ان کا اصل عروج 1991 کے بعد شروع ہوا۔ یہ وہ لحہ تھا جب انھوں نے مسلم کمرشل بنک خریدنے کا فیصل کیا۔ میاں منشاء ایک کام یاب انسان ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی پہچان بھی ہیں۔
میاں منشاء کی بزنس سکسیس سے اخذ کردہ کچھ اصول یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔
1-کہتے ہیں،ہر کا روبار کی ایک عمر ہوتی ہے۔ ایک نیا اور اچھا موقع ہمیشہ آپ کی تلاش میں رہتا ہے۔ میں نے زندگی ہمیشہ نئے مواقعوں کی تلاش میں گزاری ہے۔ میں نے کسی بھی نئے کاروبار کے شروع کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی ۔ کاروبار اور Ideas ڈھونڈ نے پڑتے ہیں۔ میں دنیا بھر میں گھومتا ہوں، مجھے کوئی نئی بات دکھائی دیتی ہے تو اسے مختلف طرح سے پرکھنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ اگر وہ دل پہ لگے تو اسے اپنانے میں ایک لمحہ لمحہ بھی گریز نہیں کرتا۔
2-وقت کے ساتھ ساتھ کاروبار کے افق بھی بدلتے رہتے ہیں۔میں ایک بنک کا مالک ہوں لیکن پاکستان میں صرف بارہ فیصد لوگوں کے بنک اکاونٹ ہیں۔دوسری طرف ٹیلی کمیونی کیشن کا اسکوپ آج ہر بندہ جانتا ہے۔ حال ہی میں نشاط گروپ نے ہوٹل انڈسٹری میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہم نے سیاحت کے وسیع میدان کو پوری طرح سمجھا ہی نہیں۔ پاکستان سیاحوں کی جنت بن سکتا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں امن اور سلامتی کا سورج طلوع ہوگا اور لوگ جوق در جوق ادھر کا رخ کریں گے۔ کیا ہم میں سے کسی نے خود کو اس موقعہ کے لیے تیار کیا ہے؟
3-مجھے کام سے زیادہ خوشی اور کسی شے میں نہیں ملتی ۔ بعض اوقات میں آدھی رات کو بے چین ہو کر اپنے بیڈ روم میں ٹہلنے لگتا ہوں کہ کب صبح ہو اور کب میں اپنے کام کا آغاز کروں۔ کاروبار کے اولین دنوں میں علی الصبح کام شروع کرتا اور شام چھ سات بجے کے بعد گھر لوٹتا۔ میری والدہ مجھ سے کہتیں کہ تم بہت محنت کرتے ہو۔ میرا یہی جواب ہوتا کہ مجھے کام میں خوشی ملتی ہے۔ کچھ عرصہ بعد میں پڑھنے کے لیے امریکہ گیا تو میں نے دیکھا کہ وہاں لوگ کام سے بے حد محبت کرتے ہیں۔
4-آج دنیا بھر کے کاروباری لوگ میرے دوست ہیں۔ مجھے ان میں ایسا کوئی بھی نظر نہیں آتا جو محنت کے بغیر کام یاب ہوا ہو۔ ان میں سے اکثر لوگ تو اپنے اہلِ خانہ کو بھی صرف Weekendپر ہی ملتے تھے۔
5-خوش قسمتی انسان کو آگے لے جاسکتی ہے لیکن محنت اور کام کا کوئی نعم البدل نہیں۔ میں اپنی زندگی سے بہت خوش ہوں ۔ ایک بار اور زندگی ملے تو یہی کچھ کرنا چاہوں گا۔ میری بیوی بچے بیٹے بیٹیاں سب کام کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے بزرگوں سے بھی یہی سیکھا تھا کہ محنت کے بغیر کوئی شخص کام یابی کی دہلیز پر قدم نہیں رکھ سکتا۔ امیر ہونے کے احساس میں شاید اس قدر لذت نہیں جتنی کام کرنے میں ہے۔
6- پاکستان کا مستقبل بہت روشن اور تابناک ہے۔ ہماری جغرافیائی لوکیشن، ہمارے وسائل اور سب سے بڑھ کر ہمارے محنتی لوگ ۔ یہاں انٹر پر نیورز کی جتنی بہتات ہے وہ دنیا بھر میں کہیں اور نظر نہیں آتی۔اتنے ذہین لوگ میں نے کہیں نہیں دیکھے۔ صرف اپنے آپ کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ خطہ مستقبل میں کاروبار کا اہم مرکز بننے والا نے والا ہے۔
7-آپ پاکستان کی مرکزی حیثیت کا اندازہ اس امر سے کر سکتے ہیں کہ چین، بھارت، ایران، دبئی، سنٹرل ایشیا اور مشرق وسطیٰ ہم سے صرف ایک سے دو گھنٹے تک کی مسافت پر ہیں۔ ہمیں انٹر پر نیور کی قدر کرنی چاہیے۔ یہ لوگ ہر ملک اور ہر معاشرے کو نہیں ملتے۔ مثال کے طور پر یورپ میں انٹر پر نیور باہر سے آتے ہیں جب کہ امریکا انٹر پر نیورز خود پیدا کرتا ہے۔ راک فیلر ہنری فورڈ بل گیٹس وارن بفٹ، سٹیو جابز ۔ امریکا میں کوئی ایسا ماحول اور ایسی فضا ہے جو انٹر پر نیورشپ کی نشوونما کے لیے بہت سازگار ہے۔ ہمیں اس جادوئی فضا کو جنم دینا ہے
8-کام میں انسان کو اس طرح ڈوب جانا چاہیے کہ پھر کوئی اور شے یاد نہ رہے۔ جنون کے بغیر کوئی بڑی منزل نہیں ملتی ۔
9-اصل مشکل کام کے آغاز میں ہے۔ جو لوگ پہلا قدم اٹھا لیں وہی آگے بڑھتے ہیں۔
10-میں جب بزنس کے کسی شعبہ میں جاؤں تو بہترین سے کم پر اکتفا نہیں کرتا۔ لوگ عام طور پر یہ کہتے ہیں کہ ہمیں پہلے دویا پہلے تین نمبر میں ہونا چاہیے لیکن میری منزل ہمیشہ پہلا نمبر ہوتی ہے۔ مجھے کاروبار میں مزا ہی اس وقت آتا ہے جب میں خود کو پہلی صف میں کھڑا ہوا پاتا ہوں۔
11-میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ انسان کو مشکلات کو قبول کرنا چاہیے۔ مشکلیں ہی انسان کو کام یابی کے لیے تیار کرتی ہیں۔ ہمارے کاروبار میں بہت سے نشیب و فراز آئے سیاسی معاشی . ہم نے بہت سے نقصانات بھی اٹھائے لیکن میں مشکلات سے بیزار نہیں ہوا کیوں کہ مجھے علم ہے کہ انسانی شخصیت کی تعمیر ہی مشکل وقت میں ہوتی ہے۔
12-ایک بات تو یقینی طور پر سمجھ لیجیے کہ ہر ایک ادارے میں کچھ لوگوں کے سر پر ہی ذمہ داریاں آتی ہیں اور آتی رہتی ہیں۔ یہ سب ذاتی دولت اور ترقی کی بات ہے۔ ذاتی صلاحیت اور ترقی کے بارے میں اچھا سا نظریہ بنا لیں، اور پھر اس پر عمل کرنا شروع کر دیں ۔
کیا ہم میاں منشاء بن سکتے ہیں؟
پاکستان کے سب سے امیر شخص کی کہانی اور باتیں شاید ہمیں بھول جائیں لیکن ایک بات نہیں بھولے گی۔
۔کبھی کبھار رات کو میری آنکھ کھل جاتی ہے اور میں بے چین ہو کر بیڈ روم میں گھومنے لگتا ہوں،اس انتظار میں کہ کب صبح ہو اور کب میں دفتر پہنچوں۔ مجھے کام سے عشق ہے ۔
کیا ہم کام سے اتنا عشق کر سکتے ہیں؟ کیا ہم میاں منشاء بن سکتے ہیں؟
نوٹ: اس کالم کو تحریر کرنے کے لیے “ڈاکٹر امجد ثاقب” کی کتاب “کامیاب لوگ” سے مدد لی گئی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں