’’ روح کے جنگل کی آگ: میرا داغستان جدید‘‘(2)-ناصر عباس نیّر

ابوطالب اپنے کمرے کی کھڑکی کے سامنے بیٹھ کر یاد کرتا کہ اسے پتھر ایک لگا تھا، زخم دو جگہ لگے۔
وہ ماتھے پر ہاتھ پھیرتا۔ اس زخم پر کھرنڈ جم گیا تھا۔ درد بھی جاتا رہا تھا۔بس اس کی یاد باقی تھی۔
اپنے ہمراہیوں کی بے حسی و احسان فراموشی کا زخم، اس کی روح میں اب بھی تازہ تھا ۔
وہ کھڑکی میں سے وادی کی طرف دیکھتا، سردیوں کے ٹھٹھرتے سورج کی کچھ سہمی کرنیں ، وادی کی ندی پر پڑتیں تو پوری وادی شیشے کا ڈولتا ، لرزتامحل بن جاتی۔ ابوطالب کو یہ شیش محل ٹوٹتامحسوس ہوتا اور اس کی کرچیاں اس کی روح کے زخم کو گہرا کرتی محسوس ہوتیں۔
وہ سوچتا، جن لوگوں سے آدمی نے بھلائی کی ہوتی ہے، ان کے دل اسی آدمی کے لیے، ٹھیک اس لمحے کیوں سخت ہوجایا کرتے ہیں، جب آدمی کو ان کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے؟ان کے دل ، اپنے دوستوں اور محسنوں کو فراموش کرنے میں کیوں طاق ہوتے ہیں؟
اے داغستان کی جنت نظیر وادی، تیرے باشندے، اپنے ہی خیر خواہوں کے لیے کٹھور کیوں ہیں ؟جنت میں کٹھور دل کیسے پہنچ جایا کرتے ہیں؟ ابوطالب، آہ بھرتا۔
ایک دن ابوطالب میرے باپ حمزہ کے پاس آیا۔اس وقت میرا باپ ، اپنی ایک نظم اپنے دوستوں کو سنارہا تھا۔ جس لمحے ابو طالب پہنچا،میرا باپ یہ لائنیں پڑھ رہا تھا۔
داغستان کی ایک روح ہے، روح عظیم !
جو داغستان کی ہوا میں سانس لیتا اور داغستان کا نمک کھاتا ہے
اور داغستان میں رہتے بستے ہوئے، داغستان ہی کے خواب دیکھتا ہے
اس کی روح میں شامل ہے
خواہ وہ کوئی زبان بولتا ہو
ابوطالب کو دیکھ کرمیرا باپ حمزہ رک گیا۔ کھڑے ہوکر ابوطالب کا استقبال کیا۔ اسے اپنے ساتھ چٹائی پر بٹھایا۔اس کے سامنے خشک میووں کا طشت بڑھایا۔ ابوطالب کی آنکھوں میں نمی آگئی۔میرے باپ حمزہ نے ابو طالب کی آنکھوں کی نمی کو اپنی روح میں محسوس کیا۔ ابوطالب کا ہاتھ پکڑا ، جس پر جھریاں تھیں اور جو کانپ رہا تھا،اور جس سے وہ نظمیں لکھا کرتا تھا۔ میرے باپ حمزہ نے اپنی نظم کی باقی لائنیں مکمل کیں۔
داغستان کی روح قدیم ہے
اس وقت سے ہے، جس وقت داغستان کا نام داغستان نہیں تھا
جب یہاں کوئی انسانی بستی نہیں تھی
اسی لیے ہر داغستانی کی روح میں ایک قدامت ہوتی ہے، مقدس قدامت
داغستان پر گزرے دن رات، گزرے موسم، گزرے لوگ ،ان گزرے لوگوں کے دکھ سکھ، گزری کہانیاں
ہر داغستانی کی روح میں
اس طرح شامل رہتی ہیں ،جس طرح داغستان کے بادلوں میں گرج
داغستانی آبشار وں میں پر شور موسیقی
داغستانی ہواؤں میں ،داغستان کے پھولوں کی مہک
اور داغستان کے پرندوں کی آوازوں میں داغستانی مٹھاس
میر اباپ حمزہ اپنی نظم مکمل کرچکا تو وہاں بیٹھے پانچ لوگوں نے ،جن میں، میں رسول حمزہ توف بھی شامل تھا، داد دی۔ ہم نے اپنی اپنی روحوں میں داغستان کی قدیمی روح کے آہنگ اور مٹھاس کو محسوس کیا۔
ہمیں لگا کہ ہم سب یہاں از ل سے ہیں۔ داغستانی روح نے ہم سب کو موت سے پناہ دے رکھی ہے۔ہمارے سارے آباؤ اجداد اور ہمارے آنے والے سب بچے ،یہاں ،ہمارے ساتھ موجود ہیں۔ہم ان کی سانسوں کی گرمی ، ان کے خوابوں ، تخیلات اور ان کی روحوں کے رنج وراحت میں شریک ہیں۔
اسی لمحے ہم سب نے دیکھا کہ ابوطالب کی آنکھوں کی نمی گریے میں بدل گئی۔اس نے اپنا سر ، اپنے گھٹنوں میں دیا ،اور رودیا۔
میرے باپ حمزہ نے ابوطالب کو گریہ کرنے دیا۔ ہم سب نے اس کے گریے کے احترام میں خاموشی اختیار کی۔ ہمیں لگا کہ ابھی ابھی جس قدیمی داغستانی روح کو ہم سب نے اپنی اپنی روحوں میں محسوس کیا تھا ، وہ بھی اس گریے میں شریک ہے۔ گریے میں ایک عجب تقدس پیدا ہوگیا ہے۔
ایک سچے شاعر ، جس کا دل واقعی دکھا ہوا،اس کا گریہ محض ایک شخص کا گریہ نہیں ہوتا۔ میرے باپ حمزہ نے کہا۔
تھوڑی دیر بعدابوطالب کی سسکیاں رکیں ،اور اس نے سراٹھایا۔ اس کی داڑھی کے سفید بال ،اس کے آنسوؤ ں سے چمک رہے تھے۔ اس کی نم آلود آنکھیں سرخ تھیں۔ میرے باپ حمزہ نے ، ابوطالب کے دونوں ہاتھ تھام لیے اور کہنا شروع کیا:
ابوطالب !میرے عزیز، تم دکھی ہو۔تمھاری روح میں زخم ہے۔ روح کے ہر زخم کو گریہ کرنے کا حق ہے۔ جب روح گریہ کرے تو سب پر لازم ہے کہ وہ اس کے احترام میں ، خاموشی اختیار کریں۔اور گریہ کرنے والی روح پر لازم ہے کہ جب گریہ کر لے تو گریے کے اسباب پر غور کرے۔
ابو طالب،جاننا چاہیے کہ ایک شاعر کب کب دکھی ہوتا ہے؟ اس کا ہر دکھ، آوار زبان کے ہر لفظ کی مانند، جدااور منفرد ہوتا ہے۔ہر دکھ کی اپنی صدا ہے، اپنا لہجہ ، اپنا آہنگ ہے ،اور اپناذائقہ اور اپنا معنی ہے۔
شاعرجب عام انسانوں کی مصیبت پر دکھی ہوتا ہے تو اس دکھ کاآہنگ احتجاج اور فریادکا ہوتا ہے اور اس کا ذائقہ ایک نہیں ہوتا؛ یہ تلخ ،ترش اورتیکھا ہوتاہے۔ اسی لیے شاعر اس کا شکوہ ، سیدھا فلک سے کرتاہے۔ دیکھ فلک،عین تیری آنکھوں کے نیچے، عام انسان کس طرح چکی کے دوپاٹوں میں پس رہے ہیں۔ ایک پاٹ ہوس پرست ،مقتد رلوگوں کا ہے،دوسرا تقدیر کا ہے۔
شاعر یہ کہنے کی جسارت کرتا ہے کہ بتا فلک تو کس کے ساتھ ہے؟ یا تو محض تماشائی ہے؟ فلک اگر محض تماشائی ہو تو ایک شاعر کے لفظوں میں وہ فلکِ ناانصاف ہے ۔
شاعر جب اپنے کسی عزیز کی موت پر دکھی ہوتا ہے تو اس کا آہنگ رثائی ہوتاہے۔اس دکھ کا ذائقہ الونا ہوتا ہے۔ وہ خود بھی روتا ہے اور دوسروں کو بھی رلاتا ہے۔ اس کی سوگ واری ، سب لوگوں کو اپنی سوگواری محسوس ہوتی ہے۔ابوطالب،غم منانا صرف اپنی روح کا بوجھ ہلکا کرنا نہیں ہے،غم منانے کے ذریعے، روح سیر ظلمات کا اہتمام کرتی ہے، اسی لیے غم منانے کی ایک تہذیب ہے۔ انسانوں پر شاعری کے احسانات میں سے ایک احسان یہ ہے کہ ا س نے یہ تہذیب پیدا کی ہے۔ شاعر، اپنے عزیزوں کے مرثیے لکھ کر، غم منانے کی تہذیب کی آبیاری کرتے ہیں۔ یہ تہذیب روحوں کو اپاہج اورمردہ ہونے سےبچاتی ہے۔ ابو طالب، پاہج روح ، بدن کا اور مردہ روح اس دھرتی کا سب سے بڑا بوجھ ہے۔
میرا باپ حمزہ اپنی بات جاری رکھتا ہے۔ ابوطالب !شاعر کا دل جب اپنوں کی سنگ دلی ، خود غرضی ، بے حسی پر ٹوٹتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ جیسے ،اس کی زبان آوار ہو کہ کومک،طباسارانی ہو ،چیچن یا روسی ، وہ اس سے چھن گئی ہے۔اس دکھ کاذائقہ پھیکا، سیٹھا ہوتا ہے۔آدمی نے جن سے بھلائی کی ہو، وہی اس سے برائی کریں تو نیک دل آدمی پہلے متحیر، پھر رنجیدہ ، بعد ازاں چپ اور خود میں گم ہوجاتا ہے۔
وہ خود کو ایک پاتال میں پاتا ہے، جہاں سائے، آسیب ، عفریت ہوتے ہیں،لیکن یہ سب اس کے اپنے پیدا کردہ نہیں ہوتے۔یہ سب اپنوں کی برائی کے پیدا کردہ ہوتے ہیں ۔ابو طالب، مجھے میرے باپ نے بتایاتھا ، میں نے آگے رسول کو بتایا ہے اور اب تمھیں بھی بتارہا ہوں کہ ہر برائی بالآخر ایک آسیب بن جاتی ہے۔ یہ آسیب ،ان سب کا پیچھا کرتا ہے جو کسی برائی کے وقت خاموش رہا کرتے ہیں ۔ یہ آسیب ان کا تعاقب تو مسلسل کرتا ہے، جنھوں نے اپنوں سے برائی کی ہوتی ہے اور ان کی روحوں کو اپاہج کردیا کرتا ہے۔
ابوطالب، تم اس آسیب سے ڈرو نہیں کہ یہ تمھارا پیدا کردہ نہیں ہے، اسے دیکھو ،ا س کی آنکھوں میں دیکھو، اس کو سر تا پا دیکھو اوراسے لکھو۔اس کے ایک ایک قہر اوراس کی ظلمت کی ایک ایک کتھا لکھو۔
تم ا س لیے چپ نہیں ہو کہ تم سے تمھاری آوار زبان چھن گئی ہے، بلکہ اس لیے چپ ہو کہ تم اس دکھ کے اظہار کے لیے آوار جیسی عظیم الشان زبان میں ، اپنے دکھ کے موافق لفظ تلاش نہیں کر پارہے ہو۔ اور اس لیے لفظ تلاش نہیں کرپارہے کہ ابھی تم نے اس آسیب کو پوری طرح دیکھا نہیں ہے۔ابھی اس آسیب کا سایہ دیکھا ہے۔ سایہ ، اصل سے زیادہ ہیبت ناک ہوا کرتا ہے۔
تم شاعر ہو، تم سمجھو کہ تمھارا دکھ آگ ہے۔یہ آگ تمھاری روح کے سارے جنگل میں ابھی نہیں پھیلی۔ جس روز تمھاری روح کا پورا جنگل ، اس آگ کی لپیٹ میں آجائے گا ، ابوطالب، تم اس روز اپنی روح کو بچانے کے لیے بے تابانہ لکھو گے۔ تم دیکھو گے کہ تم نے صرف اپنی روح کو نہیں بچایا، ان کی روحوں کو بھی بچایا ہے، جنھوں نے تمھاری روح کے جنگل کو آگ لگائی تھی!ابوطالب، تم دیکھو گے کہ جنھوں نے تم سے برائی کی، وہ جب کسی اپنے کی برائی سے دکھی ہوں گے اور برائی کا آسیب ان کا پیچھا کرے گا تو تمھاری انھی نظموں کو پڑھیں گے اور انھیں لگے گا کہ ان کی مجروح روح پر کسی نے پھاہا رکھ دیا ہے۔ان کے اپنے پیدا کردہ آسیب سے انھیں بچالیا ہے۔
یقین رکھو، ابوطالب کہ ایک سچا شاعر اپنے دشمنوں کی روحوں کو بھی بچایا کرتا ہے، اپنی روح کے سب آزار کو پورے وقار کے ساتھ برداشت کرکے!
ابوطالب نے میرے باپ حمزہ کے ہاتھ چومے اور خاموشی سے رخصت ہوگیا۔
( رسول حمزہ توف کی روح سے معذرت کے ساتھ)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply