• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • میرا داغستان جدید: رسول حمزہ توف کی روح سے معذرت کے ساتھ/ناصر عباس نیّر

میرا داغستان جدید: رسول حمزہ توف کی روح سے معذرت کے ساتھ/ناصر عباس نیّر

ابوطالب نے کہا:
جب مجھ پر ایک نیا پتھر پڑا، اور میں نے آس پاس دیکھا تو میں تنہا تھا۔
میں نے آس پاس اس لیے دیکھا کہ جب میں گھوڑے پر سوار آوار کی وادی میں گیت گاتا چل رہا تھا تو میرے ساتھ کئی لوگ تھے۔

وہ میرے گیت سن رہے تھے ، مجھے داد دے رہے تھے۔ مجھ سے کچھ گیتوں کے ٹکڑے بار بار سننے کی فرمائش کررہے تھے۔وہ گھوڑوں پر بیٹھے جھوم رہے تھے۔ ان میں کچھ نئے شاعر بھی تھے، جو مجھ سے اصلاح لیتے تھے۔ وہ اقرار کرتے تھےکہ اصلاح سے پہلے، وہ اپنی شاعری کے اکلوتے سامع ہوا کرتے تھے، مگر اصلاح کے بعد، ان کے مداحوں کا ایک بڑا حلقہ پیدا ہوگیا تھا۔ آوار کی پنہارنیں، ان کے گیتوں کے بول دہرانے لگی تھیں۔ آوار کی شام کی محفلوں میں بوڑھے کسان ،ان کے گیت سنانے لگے تھے۔

ابوطالب نے کہا کہ میں یہ نہیں دیکھ سکا تھا کہ پتھر کس سمت سے آیا۔میں تو اپنے شعر سنانے میں مگن تھا ۔ جمال ومسرت و نشاط میں کسی پتھر کی طرف دھیان جا بھی کیسے سکتا ہے؟ میں نے بس یہ دیکھا کہ پتھر میرے سر کے بائیں جانب لگا۔ میرا گھوڑا رک گیا۔ اس نے کنوتیاں اٹھائیں، اور پتھر کی آواز کا رخ پہچاننے کی کوشش کی۔ میں نے سر کے بائیں جانب دایاں ہاتھ پھیر ا تو وہ لہو سے تر ہوگیا۔ تب میں نے آس پاس دیکھا۔ میرے ساتھ کوئی نہیں تھا۔ایک بھی ذی نفس نہیں۔

ابوطالب نے سوچا: میں ضرور کسی وہم کا شکار ہوا ہوں۔ یاتو یہ وہم تھا کہ میرے ساتھ قافلہ تھا۔ یا یہ وہم ہے کہ میں اب قافلے کے بغیر ہوں۔ اس نے دوبارہ اپنے دائیں ہاتھ پر اپنے ہی خون کو دیکھا۔ اسے اپنی ایک پرانی نظم یاد آئی۔

’’آوار کے پہاڑوں میں ہزاروں ندیاں ہیں
ہر ندی کا سنگیت، دوسری ندی سے الگ ہے
ایک ندی جس راستے پر چلتی ہے
وہ راستہ الگ ہے
ہر راستے کے پیڑ، پھول ، پتھر، ببول ، چرند ، حشرات ، پرند الگ ہیں
ہر ندی کے سنگیت میں ،ان سب کا ننھا ، شیریں، چنگھاڑتا، کراہتا سنگیت بھی شامل ہوتا ہے
آوا ر کا شاعر ، ان سب ندیوں کے سنگیت کو اپنی شاعری میں سموتا ہے
ایک ندی ،آوار کے شاعر کے لہو میں بھی رواں ہوتی ہے
اس کا سنگیت ، آوار کی سب ندیوں کے سنگیت سے جدا ہے
آوار کے شاعر کے لہو کی ندی کے سب پتھر ، سب حشرات ، سب ببول
کہیں اور سے نہیں، آوار کے لوگوں کے ہاتھوں ، باتوں ، قہقہوں اور خاموشیوں سے اچھالے گئے ہوتے ہیں‘‘

ابو طالب نے اس نظم کو یاد کیا ، اور دکھی ہوا۔ اس نے دوبارہ آس پاس دیکھا۔ اسے ایک پرانا دوست اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔ ابوطالب سمجھا کہ ا س نے اس کے زخم سے بہتے خون کی بو محسوس کی ہے،اس لیے وہ دور سے دوڑتا ہوا آیا ہے۔ ابوطالب کے اس دوست نے اسے دور سے سلام کیا اور آگے بڑھ گیا۔

ابوطالب نے سوچا کہ ضرور ا س کے خون میں کوئی خرابی ہے کہ ا س کے پرانے دوست کو اس کی بو محسوس نہیں ہوئی۔ زخم سے بہنے والے خون کی بو ،اگر اپنے پرانے دوست کو بھی محسوس نہ ہو ،اور اسے مضطرب نہ کرے تو ا س کا ایک ہی مطلب ہے کہ خون میں کوئی خرابی ہے۔ اس کے یا اس کے دوست کے خون میں۔

ابوطالب نے اپنے گھوڑے کی بےچینی کو محسوس کرتے ہوئے ، سوچا کہ شعر کہنے اور شعر سننے والوں کے خون خراب ہوجائیں تو شاعری کی موت کا اعلان کردینا چاہیے۔ ابوطالب نے یہی بات چیخ کر کہنے کی منھ زور خواہش محسوس کی کہ پوری وادی ، اس سے لرزاٹھے، مگروہ رک گیا۔ ابوطالب مزید تنہا ہونے سے ڈر گیا۔
ابوطالب نے دیکھا کہ ایک مکھی ، اس کے سر اور ہاتھ کے خون پر منڈلا رہی ہے۔ اس نے مکھی کو مخاطب کرکے کہا:

’’اے آوار کی مکھی ، اے مجھے جان سے عزیز آوار،اس کی مکھی،تجھ پر سلامتی ہو
تیرے بنانے والے کے لیے تمجید وتحمید
آوار کے اس عظیم الشان کوہستانی سلسلے میں تو واحد مخلوق ہے
جس نے یقین کیا ہے کہ مجھے پتھر لگا ہے اور خون بہا ہے اور خون جمنے لگا ہے
اور یہ کہ
کوئی زبان اسے بیان کرنے اور کوئی ہاتھ اسے صاف کرنے کے لیے نہیں بڑھا‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

( میرا داغستان ِ جدید، رسول حمزہ توف کی روح سے معذرت کے ساتھ )
ناصر عبا س نیّر
۳ دسمبر ۲۰۲۴ء

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply