• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اسپیشل سی ایس ایس کا نتیجہ- تحریک شناخت کے رضاکاروں کے لئے خراج تحسین اور مسیحیوں کے مذہبی ورکروں/راہنماؤں کے لئے لمحہ فکریہ/اعظم معراج

اسپیشل سی ایس ایس کا نتیجہ- تحریک شناخت کے رضاکاروں کے لئے خراج تحسین اور مسیحیوں کے مذہبی ورکروں/راہنماؤں کے لئے لمحہ فکریہ/اعظم معراج

فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے سی ایس ایس خصوصی امتحان 2023 کے تحریری امتحان کے نتائج جاری کر دیئے ہیں،519 امیدوار کامیاب ہوئے،فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی جانب سے جاری کردہ نتائج کے مطابق سی ایس ایس (خصوصی امتحان) 2023 کے تحریری امتحان میں 519 امیدوار کامیاب قرار پائے ہیں، 21 ہزار 947 امیدواروں نے تحریری امتحان کیلئے رجوع کیا تاہم 15ہزار 245 امیدواروں نے تحریری امتحان میں شرکت کی جبکہ تحریری امتحان میں کامیابی کا تناسب 3.40 فیصد رہا ہے۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے مطابق حتمی کامیابی کے لئے امیدواروں کا سی ایس ایس امتحان کے چاروں حصوں یعنی تحریری، میڈیکل، نفسیاتی اور زبانی ٹیسٹ میں حاضر ہو کر تمام امتحانات پاس کرنا لازم ہے، واضح رہے کہ سی ایس ایس (سینٹرل سپیریئر سروسز) ایک اہم مسابقتی امتحان ہے جس کا انعقاد ہر سال فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی جانب سے کیا جاتا ہے، سی ایس ایس امتحان پاس کرنے والے امیدواروں کو 17 گریڈ کے آفیسر کے طور پر سرکاری ملازمت میں بھرتی کیا جاتا ہے، امیدوار سی ایس ایس امتحان میں کامیابی کے بعد سول سروس آف پاکستان میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔

آج شام سی ایس ایس خصوصی(اسپیشل ) کے تحریری امتحان کا نتیجہ آگیا، اس میں پاس ہونے والے جن بچوں کے نام پر شک ہے،کہ وہ اقلیتی شہری ہیں۔ مندرجہ ذیل ہیں۔۔

عروسہ اعظم، انیل کمار، کرن بشیر، جئے کمار، مریم، پوجا،ذیشان اولویر پرویز، سنیل کمار، ڈینل خلیل،روپا متی،جیون یشوب یوسف،رابیل،شین تاج،ثمرون افراہیم

519 میں سے یہ صرف 13 نام ہیں۔شائدان ناموں میں سے چند اور بھی کم ہوجائیں۔ یا شائد چند مذید اضافہ بھی ہوں۔ کسی کے پاس اور اقلیتی پاس ہونے والے امیدواروں کے نام کنفرم ہوں تو ضرور بتائیں ۔ تیرہ کے 17 بھی ہوجائیں تو بھی یہ فہرست 519 میں بہت کم ہے۔ جبکہ یہ امتحان منعقد ہی صوبوں اور اقلیتوں کی کوٹہ پر ہر سال بچ جانے والی اسامیوں کو پُر کرنے کے لئے  کیا گیا تھا۔۔ یہ اقلیتی نشستیں محتاط اندازے کے مطابق 100 کے قریب تھیں۔ اقلیتوں کا یہ کوٹہ دوہزار دس میں شہباز بھٹی شہید کی کوشش سے مخصوص کیا گیا تھا۔۔لیکن میری تحقیق کے مطابق اقلیتی امیدواروں کے پاس ہونے کی تعداد اس سے پہلے ایک آدھ بار ہی تین ہوئی ہے۔ہندو کمیونٹی کی کارکردگی اس سال بہت بہتر رہی کیونکہ اس سے پہلے 77 سال میں ہندؤوں کی تعداد بہت کم رہی ہے،لیکن برصغیر میں تعلیم کا استعارہ سمجھی جانے والی کمیونٹی (مسیحی )جن کے پاس لگ بھگ ملک بھر میں تین ہزار اسکولوں /تعلیمی اداروں کا نظام ہے۔ اسکے سماجی، اور خصوصاً مذہبی ورکروں/راہنماؤں کے لئے اتنی کم تعداد ایک لمحہ فکریہ ہے۔  خدار ا کچھ سوچیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

تحریک شناخت کے رضا کاروں کے لئے ڈھیروں مبارک بادیں اور خراج تحسین ،جنہوں نے 2020 سے اس امتحان کی آگاہی مہم چلائی ہوئی تھی ۔ 2020 میں اس امتحان کےانعقاد کا  اعلان ہونے کے بعد جب تحریک شناخت نے اس امتحان کی آگاہی مہم کو منظم انداز میں شروع کیا تو  اکثر مسیحی زعماء کہا کرتے تھے کہ اس آگاہی مہم کا زیادہ فائدہ ہندو  بھائی اٹھائیں گے ۔ نتائج یہ ہی بتا رہےہیں ۔ جو خوشی کی بات ہے  ۔ اُمید ہے ان ناموں میں شیڈول کاسٹ ہندو  بھی ہونگے ۔اگر ان کا تناسب کم یا نہ ہونے کے برابر ہوا تو یہ دکھ کی بات ہوگی ۔۔یقیناً اس آگاہی مہم کے اثرات نسل در نسل منتقل ہو نگے   ،بس خدا کرے مسیحیوں  کے ان حقیقی محسنوں (تحریک شناخت کے رضاکاروں)کی آگاہی کا اثر اولذکر مسیحی شخصیات پر بھی ہو۔ جن کے زیر انتظام ہمارے تعلیمی ادارے اور گرجے کا نظام ہے۔ کیونکہ شیڈول کاسٹ ہندوز کی تعداد کم ہونے کی وجہ ان کی روایتی تاریخی پسماندگی ہوگی جبکہ مسیحیوں کے کیس میں عام مسیحی کی اس تاریخی پسماندگی کے ساتھ ان کے سماجی سیاسی اور مذہبی راہنماؤں کی شعوری پسماندگی ایک بڑی وجہ ہے ۔۔ تھوڑا سا غیر روایتی سوچنے کی ضرورت ہے۔ پھر جب ایک سیاسی راہنما  نے یہ راستہ بہت آسان کر دیا ہے تو سماجی راہنماؤں اور مذہبی راہنما  تو تھوڑی سی محنت سے اس کام سے نیک نامی اور دولت  بھی بہت کما سکتے ہیں ۔اس کام کے لئے چندے اور ڈونیشن بھی بڑے مل سکتے ہیں بس
بس بقول اقبال
طرز کہن پر اڑنا اور آئین نو سے ڈرنے کی عادتیں ترک کرنی پڑیں گی ۔۔

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔ 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply