بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو /محمد ہاشم خان

یہ ہم کہاں آ گئے ہیں؟ یہ کس معاشرے میں زیست کرتے ہیں؟ یہ کون لوگ ہیں جو بات بات پر اپنی گھٹن اور فرسٹریشن کا اظہار کرتے ہیں؟ یہ کون لوگ ہیں جنہیں بات کرنے کا سلیقہ نہیں، اختلاف کرنے کا کوئی قرینہ نہیں اور کن لوگوں نے ان کی تربیت کی ہے۔ مدارس کے فارغين، تعلیم یافتہ دہریے، روشن خیال جمہوریے، مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کے کارکنان اور متابعین، سرکردہ شخصیات کے معتقدین جن کو بھی دیکھو سب کا ایک ہی حال ہے ۔علامہ  الدہر ہیں،قوت برداشت سے محروم، برخود غلط اور ہذیانی نرگسیت میں مست ہیں، درون و بیرون ننگے لچے، فسادی اور موالی ہیں۔اپنے علاوہ کسی اور کو اسپیس نہ دینے والے یہ لوگ کہاں سے آتے ہیں، کون ان کی تربیت کرتا ہے؟

مزاج میں یہ تشدد، یہ کرختگی، یہ اینٹھن اور یہ محرومی کہاں سے آتی ہے۔ کون ہے جو ان کے دماغوں میں یہ بھوسا بھر رہا ہے کہ تم سے زیادہ درست، معصوم، مقدس اور منزہ اس کائنات میں کوئی اور نہیں ہے۔ کون ہے جو انہیں بتاتا ہے کہ یہ جو تمہاری جہالت اور لا علمی ہے، یہ جو تمہاری کوتاہ مغزی اور کور بینی ہے یہ دراصل مالک کون و مکان کا عطا کردہ وہ وجدان ہے جو ہر ایک کا مقدر نہیں ہوتا۔ اور کون ہے وہ جو انہیں اخلاقیات سے بے بہرہ کرتا ہے؟ یہ جو اٹھارہ، بیس، بائیس سال کے بچے ہیں، مدرسوں کے پڑھے ہوئے بچے، نوخیزیے یا مُغبچے یہ ایسے کیوں ہیں؟

انہیں غیر مینڈکی دنیا میں رہنے کی تمیز کیوں نہیں سکھائی جاتی، انہیں یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ جب یہاں سے باہر جاؤ گے تو تمہیں یاجوج ماجوج جیسی ایک مخلوق ملے گی جو تمہارے باپ کی غلام نہیں ہوگی، آزاد منش اور آوارہ فکر ہوگی، ان کے اور اپنے درمیان تمہیں دیوار تعمیر نہیں کرنا ہے۔ انہیں یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ باہری دنیا کے لوگوں کے ساتھ کس طرح تعامل کرنا ہے، کس طرح اپنی بات رکھنی ہے، کس طرح نفس مضمون سے پیوستہ رہنا ہے، کس طرح ذاتیات سے گریز کرنا ہے اور کس طرح اپنی مجموعی اخلاقیات کا مظاہرہ کرنا ہے؟

انہیں یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ یہ تمہاری بحث و مباحثے کی عمر نہیں ہے، سیکھنے کی عمر ہے، مشاہدہ کرنے، تجربہ کرنے اور کچھ حاصل کرنے کی عمر ہے اور جب ان عمروں کی مجموعی عمر جوان ہوجائے تو پھر اس کے بعد کہیں جا کر زبان کھولنے کی عمر آئے گی۔ انہیں یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ جب تمہاری ساری دلیلیں اور سارے فلسفے بے کار چلے جائیں تو غم نہ کرنا، رنجیدہ مت ہونا کہ تم نے اپنے طور پرپوری کوشش کی تھی، تم اس وقت ہتھیار ڈال دینا اور معاملہ اللہ کے حوالے کر دینا اور اپنے مخاطب سے کہنا کہ مجھے بس اتنا ہی معلوم تھا اور جو معلوم تھا اسے بے کم و کاست ایمانداری سے آپ تک پہنچا دیا، بدتمیزی کرنے، ہذیان بکنے،ایران توران کرنے یا اپنی نسل بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ یہ تو بس توفیق کا معاملہ ہے کہ اللہ نے تمہیں عقل سلیم دی اور مخاطب کو نہیں دی۔ دل میں کوئی رنجش نہیں، کوئی میل اور کوئی ملال نہیں۔ یہ کہنا کہ تمہیں نہیں معلوم یہ جرات تو بس پاک نفوس کو حاصل ہوتی ہے اور پھر جب یہ کہنا تو اس وقت یہ ضرور سوچنا کہ محسن انسانیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انتظار کر رہے ہیں کہ ابھی جبریل امین وحی لے کر آئیں گے۔ جب یہ کہو گے کہ تم کو اس سے زیادہ نہیں معلوم تو یہ تمہاری شکست نہیں یہ تمہاری فتح ہے اور یہ وہ فتح ہے جو تمہارے حسن اخلاق کی وجہ سے تمہیں میسر ہوئی ہے اور یہ کسی بھی شخص کو متاثر کرنے کے لیے کافی ہے اور کسی شخص کا متاثر ہونا آپ کے لیے در کھولنے جیسا ہے۔

یہ جو مذہبی تنظیموں، جمعیتوں اور تحریکوں کے نمائندے ہیں، ان سے وابستہ کارکنان اور متابعین ہیں یہ جو معاشرے میں چلنے پھرنے والے بم ہیں، اور جب اور جہاں چاہتے ہیں پھٹ جاتے ہیں، جنہیں کوئی ڈِفیوژ کرنے والا نہیں، یہ کہاں سے آتے ہیں؟ مدارس کے نوخیز مغبچوں کا معاملہ تو یہ ہے کہ ان کے معصوم ذہنوں کو مولویوں نے اکارت کر دیا ہے سو ان کی مرمت میں کچھ وقت لگے گا لیکن یہ تم روشن خیالوں کو کیا ہو گیا ہے؟ تمہاری قوت برداشت کہاں مر گئی اور سوال یہ ہے کہ تم اتنا غم لے کر کیوں چلتے ہو؟ کس نے کہا ہے اتنا فرسٹریشن پالنے کے لیے؟ اور اب جب تم نے پال ہی لیا ہے تو اس کی حفاظت خود کرو۔ تمہیں تو گفتگو کرنے کا سلیقہ بتایا جاتا ہے، تمہیں مخاطب کو اسیر کرنے کی تربیت دی جاتی ہے، پھر ایسا کیا ہو جاتا ہے کہ تمہاری زبان مغلظات بکنے لگتی ہے، نیتوں پر سوال معقول طریقے سے بھی اٹھا سکتے ہو لیکن یہ ذاتیات پر کیوں اُتر آتے ہو۔ کوئی تو ہوتا جو مجھے مایوس نہ کرتا۔ سب کی زبان ایک ہے، سب نے ایک ہی حشر اٹھا رکھا ہے۔ کیا مولوی اور کیا دہریہ، کیا روشن خیال اور کیا تشکیکیا، کیا قدامت پسند اور کیا جمہوریہ۔ سب نے غلاظت بکنے کی انتہا کر دی ہے۔ کہیں تو کوئی فرق رکھو، کوئی طرہ امتیاز ہو کہ مولوی یہاں تک تو گر سکتا ہے لیکن اس سے زیادہ نہیں گر سکتا، دہریہ یہ تو کر سکتا ہے لیکن اتنا گیا گزرا نہیں ہو سکتا۔ جماعتیہ ذلیل تو ہو سکتا ہے لیکن اتنا ذلیل نہیں ہو سکتا۔ یہ متشکک اور یہ جمہوریے، یہ روشن خیال لبرل اور یہ قدامت پسند یہ ذلیل اور غلیظ ہو سکتے ہیں لیکن اس کی ایک حد ہے۔ فی الحال تو کوئی حد ہی نہیں ہے۔ یہ تمام لوگ کہیں بھی کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتے ہیں، کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں۔کہیں تو کوئی ایک لکیر کھینچو اللہ کے بندو۔ مابہ الامتیاز والی ایک لکیر۔

اس وقت ذہنی تشنج، کثافت اور کرختگی کے معاملے میں سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ جماعت اسلامی سے کوئی ایک سوال پوچھ لو اور پھر دیکھو۔ تربیت یافتہ کارکنان کی ساری روشن خیالی خاک آلود ہو جاتی ہے۔ حسن کلام کے ایسے ایسے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ دل سیراب اور آنکھیں فرط مسرت سے اشکبار ہو جاتی ہیں۔حنفیوں، دیوبندیوں اور ندویوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے۔

سلفیوں اور منہجیوں سے تھوڑا سا اختلاف کرو اور پھر ان کی اذیت پسندی دیکھو کہ یہ سیدھا بہشت ہی حرام کر دیتے ہیں۔ مودی بھکتوں اور مولوی بھکتوں کے رویوں میں کوئی فرق نہیں ہے سوائے اس کے کہ گالیوں کا مذہب بدل جاتا ہے۔ ان کی گالیاں ہندو اور ہماری گالیاں مسلمان ہوتی ہیں۔

اگر جماعت اسلامی سے ہم نے پوچھ لیا کہ 76 سال کی تاریخ میں آپ کا کوئی امیر بہار کا کیوں نہیں ہوا تو اس میں غلط کیا تھا؟ اگر پوچھ لیا کہ 76 سال میں آپ کے 6 ہی صدور کیوں ہوئے تو اس میں برگشتہ ہونے والی بات کیا تھی؟ یہ کون سی آپ کی جمہوری انتخابی شفافیت یا قائدانہ صلاحیت ہے کہ 76 سال میں سے 55 سال صرف یوپی کے تین امرا کے نام کر دیئے جائیں۔ اور یہ کون سی مخصوص قائدانہ صلاحیت مطلوب تھی جو یوپی کے علاوہ کہیں اور نہیں پائی جاتی تھی؟ در اصل یہ انتخابی آمریت ہے اور یہ سوال اس لیے بنتا ہے کہ جب کوئی تنظیم پین اسلامزم (Pan-Islamism) کا نعرہ لگائے تو اس سے پوچھیں کہ یہ پین اسلامزم کیا ہے اور اس کا اطلاق یوپی کے چند اضلاع کے علاوہ اور کہاں ہوتا ہے؟ میرے دوست! بات اتنی سادہ نہیں ہے جتنی باور کرا دی گئی ہے۔

اور اگر ہم نے جماعت اسلامی سے جزوی موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ دوسری طرف مرکزی جمعیت اہل حدیث ہے جہاں ہر طرف بہار ہی بہار ہے تو کیا برا کہا۔ 23 سال سے ایک ہی صاحب مقدس بنے ہوئے ہیں تو یہ کون سا انصاف ہے؟ یہ کون سی جمہوریت ہے اور کون سا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے؟ جب آپ عدل فاروقی کی بات کرتے ہیں تو آپ کو شرم نہیں آتی کہ قیصر و کسریٰ کی سطوت و شوکت اور جاہ و جلال کو چکنا چور کرنے والا ممبر پر کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے لوگو بیت المال میں ایک پیالہ شہد ہے اگر تم اجازت دو تو حلال ہے اور نہیں تو پھر حرام ہے۔ سو اگر پوچھ لیا کہ 23 سال سے ایک ہی شخص ہمارا امیر کیوں ہے تو کون سی قیامت آ گئی تھی؟

اور پھر منہج کی سند بانٹنے والے سے اگر پوچھ لیا جائے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مطعون کرنے والے کو صدارت کا اعزاز بخشنا کہاں تک درست ہے تو پھر اس کے متبعین یاوہ گوئی پر کیوں اتر آتے ہیں؟ اور اگر یہ پوچھ لیا جائے کہ محمد رحمانی کون ہے اور کس نے اس شخص کو منہجی اور غیر منہجی ہونے کا فتویٰ دینے کا حق دیا ہے تو پھر یہ توہین کیوں ہے؟ یہ توہین ہے کیوں کہ ہم نے صاحب کا لاحقہ نہیں لگایا؟ کس اسلامی شریعت میں یہ مذکور ہے کہ محترم اور صاحب جیسے الفاظ استعمال نہ کرنے سے توہین لازم آ جاتی ہے؟ لہجہ سخت ہو سکتا ہے اور احتساب میں لہجہ سخت ہی ہونا چاہیئے۔ اور پھر یہ محمد رحمانی کون ہیں بھائی؟ باپ کا قائم کردہ ادارہ چلانے کے علاوہ اور کون سی ایسی قابلیت ہے جس کا احترام لازم قرار پاتا ہو؟ کوئی محدث ہیں؟ مفسر قرآن ہیں؟ عالم بے بدل ہیں؟ مصنف ہیں؟ اگر عبقری شخصیت ہیں تو کس بنیاد پر ہیں؟ کوئی چیز تو ایسی سامنے آئی نہیں ہے جو ان کے عظیم ہونے کی گواہی دیتی ہو۔ لے دے کر ایک تقریر کرتے ہیں اور وہ بھی علم سے خالی انتہائی بھونڈی تقریر۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کے قابل ہونے سے دوسرا جاہل تو نہیں ہو جاتا سو ہمارے ممدوح منہج کی سند بانٹنا بند کردیں ہم ان سے پوچھنا بند کر دیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

واپس یہی سوال کہ یہ کون سا معاشرہ ہے؟ یہ ہم کس معاشرے میں رہتے ہیں؟ کیا معاشرہ ایسا ہی ہوتا ہے، اینٹھا ہوا، گُھٹا ہوا، غصے اور غضب سے بھرا ہوا، قوت برداشت سے عاری، ہمہ وقت مرنے مارنے پر آمادہ؟ اور واپس یہی جواب کہ ہم معاشرے میں نہیں معاشرہ ہم میں رہتا ہے سو جیسے ہم ہیں ویسا ہی ہمارا یہ معاشرہ ہے، مجروح، کنفیوژڈ اور منتشر۔ ایک مجروح معاشرہ مبارک ہو۔

Facebook Comments

محمد ہاشم خان
لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں (مصنف افسانہ نگار و ناقد کے علاوہ روزنامہ ’ہم آپ‘ ممبئی کی ادارتی ٹیم کا سربراہ ہے) http://www.humaapdaily.com/

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply