ٹوٹے پھوٹے لوگوں کی فیکٹری/مسلم انصاری

کتاب : ٹوٹے پھوٹے لوگوں کی فیکٹری
مصنف : محترم نیّر مصطفیٰ صاحب
تبصرہ و انتخاب : مسلم انصاری
مذکورہ ایڈیشن : میٹر لنک پبلشرز، لکھنؤ

“اکثر وہ اسے بتاتی کہ شاہ رخ خان کی آواز میرون ہے اور سردی کی بارشوں کا رنگ فالسے جیسا ہوتا ہے، اسے پورا یقین تھا کہ پیراسیٹامول معدے میں جانے کے بعد گلابی ہوجاتی ہے اور کشمیری چائے سے اٹھتی بھاپ بالکل بھی سبز نہیں ہوتی، وہ راک میوزک سے نفرت کرتی تھی کیونکہ اس کا خیال تھا پیلے رنگ کی آوازیں ڈیپریشن پیدا کرتی ہیں، اسے لڑکیوں پر فحش جملے کسنے والے مردوں کے آس پاس سرمئی رنگ کے بلبلے پھوٹتے نظر آتے ہیں، وہ ہمیشہ بڑے وثوق سے کہتی کہ تیز ہوا کا شور ڈارک بلیک اور بچوں کی ہنسی آف وائٹ ہوتی ہے!”
صفحہ : 42
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“بے باکی جنون سے جنم لیتی ہے، جیسے ایک تخریب کار ذھن ہی سب سے زیادہ کار آمد تعمیری کردار ادا کرسکتا ہے عین اسی طرح جان بوجھ کر ہنسی مزاح کے جملے کہنے، لکھنے والا ادیب زیادہ سنجیدگی کو جنم دے سکتا ہے!”

اور یہ ہے میری قریب چار سطری رائے اس کتاب کے بارے میں جو “ٹوٹے پھوٹے لوگوں کی فیکٹری” کا نام رکھتی ہے!

میں پوری کوشش میں ہوں کہ اس کتاب پر بات کرتے ہوئے مصنف اور اپنے رواسم و روابط کا ذکر نہ کروں، مبادا میں جو جملے کہوں وہ فقط تعلق کے جیب سے نکالے ہوئے سمجھے جائیں
نئر مصطفیٰ کے جملے بناوٹی اور اسادھارن نہیں ہیں، 2020 میں بیٹھ کر 2003 کے کسی نوکیا کی پیڈ موبائل میں موجود انباکس سے افسانے کرید لینا، دفتری اور بازاری زبانوں سے مکالمہ، کوٹھے اور سڑک پر بکھرے جملوں سے کہانی نکال لینا، کالج یونیورسٹیوں کی راہداریوں سے کردار اچک لینا، بات میں لپیٹ کر بات کہ دینا، بنا کسی لیپا پوتی کے، ریت رواج سے پرے رہ کر ایسی بُنت بنا دینا جو خود ہی اپنے قاری کی تلاش میں سرگرداں رہے۔
قلم کار کو فرق نہیں پڑتا کہ اس کے جملے کسی کو حلق تک بھر دیں اور وہ الٹی کرتا پھرے یا پھر “نو انٹری”، “ٹوٹے پھوٹے لوگوں کی فیکٹری”، “رقیب سے”، “عبدالغنی جیکسن”، “نا مردانگی کے لئے ایک فینٹسی” اور “عمران مینگو، بہشتی زیور اور مادام بواری کی کہانی” نامے افسانے پڑھ کر تہ در تہ اپنے آپ میں ملیامیٹ ہوتا چلا جائے، سوچے، دوبارہ سطریں پڑھے پھر ہوکیں بھرے اور ہنسنے لگے یا مر جائے!
مصنف نیّر مصطفیٰ اس کی ذمہ داری سے سبکدوش ہے، بے نیاز اور دور کھڑا ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“اُس کا جی چاہا وہ اتنے زور سے چلّائے کہ اس کا گلا پھٹ جائے مگر اس نے صرف مسکرانے پر ہی اکتفا کیا”
صفحہ : 14
“خاندانی لوگوں کی زندگی میں زیادہ نشیب و فراز نہیں ہوتے اور ہلچل صرف نیچ ذات کے لوگوں کو ہی زیب دیتی ہے”
صفحہ : 18
“لیکن جوں جوں وقت گزرا وہ صابن کی ٹکیا کی طرح گھلتی گئی”
صفحہ : 51
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیّر مصطفیٰ کے جملے کسیلے ہیں، بات رواں اور بہتی ہوئی ہے، اَن فِلٹرڈ ہیں، استعارے جاری ہیں مگر بہت نرمی بھرے ہیں، کم جگہ پر زیادہ جگہ گھیر لینا جسے اچھے سے آجائے وہ زمینی ہوتے ہوئے سطح سے اٹھ جاتا ہے، میلوں جھمیلوں میں اس کی بات دھرائی جاتی ہے، اس کتاب اور اس کتاب کے مصنف کے جملے تیکھے ہو سکتے ہیں پھیکے نہیں ہو سکتے!
افسانہ “رنگوں میں سوچنے والی لڑکی” نے جاری برس 2024 میں یو بی ایل کا ایوارڈ جیتا تو پڑھ کر کہیں نہیں لگا کہ حقدار سے کمی برتی گئی ہے!
کتاب بھی تو تین الگ الگ “یونٹ” میں اتاری گئی ہے اور پھر انتساب بھی “ایک روشن آنکھوں والے لڑکے کی راکھ کے نام” ہے، 24 افسانوں کی اس کتاب کے آخری افسانے کا آخری جملہ ایسا تھپڑ ہے جو کان اور گال پر بجتا تو نہیں ہے مگر دونوں عضو بیک وقت گرم ضرور کردیتا ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

“یہ لاعلمی بھی بہت کمال کی چیز ہے میرے دوست! دنیا میں جتنی بھی خوشی اور اطمینان ہے سب اسی کی بدولت ہے، آدمی مسکرا سکتا ہے، خواب دیکھ سکتا ہے، محبت کر سکتا ہے، دھوکا کھا سکتا ہے، امید اور یقین جیسی فحش اور بے ہودہ لگژری افورڈ کر سکتا ہے، زندگی محض لا علمی کے سہارے گزاری جا سکتی ہے! جان کر صرف متلی کی جا سکتی ہے، لہو تھوکا جا سکتا ہے اور راکھ اڑائی جا سکتی ہے بس!!”
صفحہ : 63

Facebook Comments

مسلم انصاری
مسلم انصاری کا تعلق کراچی سے ہے انہوں نے درسِ نظامی(ایم اے اسلامیات) کےبعد فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب بعنوان خاموش دریچے مکتبہ علم و عرفان لاہور نے مجموعہ نظم و نثر کے طور پر شائع کی۔جبکہ ان کی دوسری اور فکشن کی پہلی کتاب بنام "کابوس"بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ مسلم انصاری ان دنوں کراچی میں ایکسپریس نیوز میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply