سموگ اور فوگ میں موٹروے کی بندش نہ صرف ظالمانہ فیصلہ ہے بلکہ فرائض سے غفلت کے مترادف ہے۔ موٹروے پولیس کچھ نہ کرکے تنخواہ لینے کی عادی ہے اس لیے محنت والا کام کرنا ان کو آتا ہی نہیں۔ دنیا کے تمام ممالک میں شہریوں کو سہولیات دی جاتی ہیں، انکی حفاظت کی جاتی ہے نہ کہ ان سب فرائض سے جان چھڑوا کر موٹروے بند کر دو۔ سموگ اور فوگ میں زبردستی موٹروے بند کرکے تمام گاڑیوں کو موٹروے سے نیچے اتار دیا جاتا ہے۔ موٹروے سے جو سفر منٹوں میں طے ہوسکتا تھا وہ گھنٹوں میں چلا جاتا ہے۔ اضافی سفر اور اضافی پیٹرول کی اذیت کے ساتھ ساتھ ویران شاہرائوں پر جان و مال بھی دائو پر لگ جاتا ہے۔ موٹروے پولیس کو صرف اپنی ایمج سازی کی فکر ہوتی ہے کہ ان کے کھاتے میں کوئی ٹریفک حادثہ نہ آجائے لیکن اس بات کی ذرا فکر نہیں کہ مسافر کو کتنی لمبی مسافت اور خواری اٹھانی پڑے، چاہے وہ انجان راہوں میں لٹ جائے۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح بہت آسان حل ہے کہ آپ ہیوی وہیکل کو بیک سائڈ پر سرخ رنگ کی ہائی فوگ لائٹس لگا کر آہستہ آہستہ کانوائے کی صورت مسافر گاڑیوں کو سکواڈ کرتے ہیں نہ کہ اپنی جھوٹی خود ساختہ ’’گڈوِل‘‘ کی خاطر زبردستی موٹروے سے اتار دیتے ہیں۔ حکومت اور چیف جسٹس آف پاکستان سے گزارش ہے کہ بھاری بھرکم ٹال ٹیکس کے بدلے عوام کو سہولیات بھی فراہم کی جائیں۔ موٹروے پولیس کو پابند کیا جائے کہ سموگ اور فوگ میں موٹروے کی جبری بندش کی بجائے انکو کانوائے کی صورت سکواڈ کیا جائے۔ ایک اور اہم بات بلا نمبر پلیٹ، مبہم، مشکوک اور غیر نمونہ نمبر پلیٹ گاڑیوں کو موٹروے سمیت کسی بھی شاہراہ پر داخلے کی اجازت نہ دی جائے۔ وزیراعظم اور وزارت داخلہ کے حکم کے باوجود بغیر نمبر اور غیرنمونہ پلیٹ کے خلاف موٗثر کارروائی نہ کرکے نہ صرف پاکستان کی شہریوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے بلکہ غیرملکی سرمایہ کاروں کو بھی تحفظ کی بجائے لائف تھریٹ دیا جارہا ہے۔ گاڑیوں اور موٹرسائیکل کی ایکسٹرا فلیش لائٹ نہ صرف دوسروں کی آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے بلکہ ٹریفک حادثات اور لڑائی جھگڑوں کا باعث بن رہی ہے۔ میں حیران ہوں کہ ٹریفک پولیس اور دیگر ادارے فلیشرلائٹ بنانے، لگانے اور لگوانے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کر رہی۔ میں روٹین میں لاہور سے اسلام آباد سفر کرتا ہوں اور شدید کڑھتا ہوں کہ ہماری موٹروے پولیس کمرشل ٹرانسپورٹ کو یہ تمیز نہیں سکھا سکی کہ وہ فاسٹ لین کا استعمال نہیں کرسکتے۔ یہی حالات پورے ملک میں ہیں کہ کمرشل ٹرانسپورٹرز فاسٹ لین میں گاڑی چلا کر سب کا راستہ روک لیتے ہیں۔ ٹریفک پولیس غیرقانونی پارکنگ سٹینڈ کی سرپرستی کرتی ہے چاہے عوام راستوں کے بندش سے خوار ہوجائے ٹریفک پولیس کو اپنی ریگولر منتھلی کی سوا کسی سے کوئی غرض نہیں۔ گزشتہ دنوں دبئی ٹریفک پولیس چیف کے پی آر او سراج پاکستان آئے تو مجھ سے ملنے گھر آئے اور کہا کہ اوورسیز گروپس میں آپ کے آرٹیکل پڑھتا رہتا ہوں آپ مسائل کو بہت اچھے انداز سے ہائی لائٹ کرتے ہیں آپ کی وجہ ہمیں امید ہوجاتی ہے کہ شاید کوئی آپ کی مخلصانہ باتوں پر عمل کرلے اور پاکستان میں بھی لاقانونیت کا خاتمہ ہوجائے۔ پی آراو دبئی ٹریفک پولیس کا کہنا تھا کہ دبئی حکومت اپنے اخراجات اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا 90فیصد پیسہ صرف ٹریفک چالانوں سے اکٹھا کرتی ہے۔ میں نے کہا کہ ہماری ٹریفک پولیس بھی اتنا ہی پیسہ اکٹھا کرتی ہے مگر اپنے لیے حکومتی خزانے کیلئے نہیں۔ سراج حیران تھا کہ ہماری ٹریفک پولیس خود پبلک ٹرانسپورٹرز کو ای چالان سے بچنے کیلئے نمبر نہ لگانے کا مشورہ دیتی ہے جبکہ دبئی میں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا کہ بن نمبر پلیٹ گاڑی شوروم سے بھی نکل سکتی ہے۔ سراج نے بتایا کہ دبئی میں بغیر نمبر پلیٹ گاڑی کو تین ماہ کیلئے بند کیا جاتا ہے اور دس ہزار درہم یعنی ساڑے سات لاکھ روپے جرمانہ کیا جاتا ہے جبکہ مبہم، غیر نمونہ اور فیک نمبر پلیٹ والے کو پچاس ہزار درہم یعنی اڑتیس لاکھ روپے جرمانہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اشارہ توڑنے والے کیلئے بھی پچاس ہزار درہم جرمانہ ہے۔پاکستان میں سرکاری اور بااثر کن ٹٹوں نے بغیر اجازت گاڑیوں کے شیشے کالے کیے ہوتے ہیں جبکہ دبئی میں چاہے سرکاری ہو یا پرائیویٹ بغیر این او سی کالے شیشوں والی گاڑی کو دس ہزار درہم جرمانہ ہے۔ سڑک کنارے یا کارنر روڈ پر گاڑی روکنے والے کو ایک ہزار درہم جرمانہ جبکہ ہمارے ہاں ٹریفک پولیس رکشوں اور کمرشل گاڑیوں کو بیچ سڑک سواریاں اتارنے اوربٹھانے سے نہیں روکتی۔ سراج نے میری بات سے اتفاق کیا کہ جب پولیس اور سرکاری ملازمین خود قانون پر عمل نہیں کریں گے، بنا نمبر پلیٹ اور راڈ لگا کر نمبر پلیٹ چھپا لیں گے تو عام شہریوں سے قانون کی پاسداری کی امید کیونکر کرنی۔ انکا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات سمیت بیرونی سرمایہ کار انہی وجوہات سے خود کو پاکستان میں غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ آخر پر سراج کا کہنا تھا کہ انکی طرف سے چیف آف آرمی سٹاف اور چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کردوں کہ سر آپ دونوں پاکستان کے بڑے اور ہماری واحد امید ہیں ۔ خدارا پاکستان کو بربادی اور لاقانونیت سے بچائیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ سورسز اور قدرتی خوبصورتی ہونے کے باوجود ہم بیرونی دنیا سے صرف اس لیے پیچھے ہیں کہ ہمارے ہاں کسی کو قانون اور احتساب کا ڈر نہیں ہے۔
بشکریہ 92 نیوز
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں