کتاب: أیام مع جھیمان
زبان: عربی
مؤلف: ناصر الحزیمی
ایک نظر: زید محسن
دیکھیں جی اسلام میں عمل کی انجام دہی کے حوالے سے صرف دو اقسام پائی جاتی ہیں:
1- عزیمت
2- رخصت
عزیمت کیا ہے؟
عزیمت اس چیز کا نام ہے کہ آپ اصل پر قائم رہیں ، یعنی جو اصل دین ہے وہ عزیمت ہے جیسے خنزیر کو حرام ہونے کی وجہ سے چھوڑ دینا، یہ اصل ہے ، اب اگر آپ پر کوئی احوال آ جائیں اور کسمپرسی یا بالفاظِ شرعی مخمصہ کی صورت آن کھڑی ہو، تو بھی اس حرام کو حرام ہی سمجھنا اور نہ کھانا عزیمت گردانا جائے گا ، بصورتِ دیگر آپ اگر اس گوشت کا استعمال کر لیتے ہیں تو یہ آپ نے رخصت پر عمل کیا۔
اور یاد رکھیے گا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے مطابق “اللہ کو بوقتِ حاجت رخصت پر عمل کرنا زیادہ محبوب ہے۔”
لیکن یاد رکھیے گا رخصت ایک خاص اصطلاح ہے ، جس کی بہت سخت حدود وقیود ہیں ، اور جوں ہی ان حدود کو سَر کیا جائے گا تو وہ عمل بالفاظِ قرآنی رخصت سے بڑھ کر “عدوان” یعنی زیادتی ہو جائے گا۔
اس کو کہتے ہیں کہ:
الحوائج تقدر بقدرھا
یعنی جتنی ضرورت اتنی اجازت۔
بات ذرا طویل ہو گئی ، اصل مدعا تھا کہ:
“اسلام میں رخصت اور عزیمت کے علاوہ کچھ نہیں۔”
جس طرح رخصت میں تساہل برتنے اور زیادہ ڈھیل دینے سے صورتحال “عدوان اور زیادتی” والی ہو جاتی ہے ، عین ایسا ہی حال عزیمت کا ہے۔
یعنی جب آپ اصل میں زیادہ اضافی سختی کریں گے تو یہ بھی عدوان ہی ہوگا ، جیسا کہ نصاریٰ کے بارے میں خود قرآن فیصلہ کرتا ہے کہ جس رہبانیت کو انہوں نے اپنایا وہ تو ان پر لازم ہی نہیں کی گئی تھی ، سو جس کسی نے لازم کردہ چیز سے آگے بڑھنا چاہا ،اس نے قرآن کے الفاظ کے مطابق “ابتدعوھا” ایک بدعت کی ، یعنی وہ کام کیا جو دین ہی نہیں تھا۔
لیکن اگر کوئی “ادخلوا فی السلم کافة” پر کار بند ہونا چاہتا ہے تو اس کا یہ عمل ہر گز بھی زیادتی ، شدت ، دقیانوسیت یا سختی نہیں تصور کیا جائے گا ، جیسا کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کا با وجود رخصت ہونے کے “أحد ، أحد” کہ: وہی یکتا ہے’ کے نعرے بلند کرنا اس بات پر شاہد ہے۔
اب آتے ہیں زیرِ نظر کتاب کی طرف ، یہ ان کتابوں میں سے ایک ہے جس پر کوئی تبصرہ بحیثیتِ کتاب کے لکھنا مشکل کام ہے ، البتہ اس کتاب میں جس فکر کو موضوع بنایا گیا اس موضوع پر بات کی جا سکتی ہے۔
گو کہ یہ سانحہ اور اس کے پیچھے کے محرکات ایک اہم تاریخی حیثیت رکھتے ہیں لیکن اس حوالے سے مواد نہ ہونے کے برابر ہے ، چند ایک کتابیں عربی میں تو مل جاتی ہیں لیکن اردو میں آرٹیکلز ، اخباری تراشوں اور میرے علم کے مطابق ایک کتاب جو کیپٹن رشید اقبال مرحوم نے مرتب کی اس کے علاوہ کچھ نہیں ملتا ، اور اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس مسئلہ پر ہم میں سے اکثر تو گفتگو کرنا ہی نہیں چاہتے اور گفتگو ہوتی بھی ہے تو ہم ان وادیوں میں بھٹک جاتے ہیں کہ:
کیا ہماری فوج اس مہم میں شریک ہوئی تھی؟
کیا سعودیہ نے شراب پینے کی اجازت دی تھی؟
کیا غیر مسلموں کو حرم میں داخل کیا گیا تھا؟
کیا پانی چھوڑ کر اس مہم کو کچلا گیا یا کرنٹ کے ذریعہ یا کس طرح؟
سچ پوچھئے تو ان میں سے ایک سوال بھی کام کا نہیں ، اور معنی خیز نہیں ، شاید کوئی سوال مہم جو لوگوں کیلئے اہمیت کا حامل ہو یا کسی صحافی کے کام آ سکے مگر ایسے سوالات سے اصل بات کافی پیچھے چلی جاتی ہے ، اور وہ ہے:
اس سانحے کے محرکات!
اور جب ہم ان محرکات کو سمجھ جائیں گے تو ایسی جذباتیت سے خود کو دور کر سکیں گے ، یہ کتاب اس حوالے سے کافی تسلی بخش ہے کہ صاحبِ کتاب نے جہیمان کے ساتھ ایک عرصہ گزارا اور بڑے قریب سے اس تحریک کے مد و جزر اور ابتداء و انتہا کو دیکھا ہے۔
ابتدائی مقدمہ میں نے اسی لئے قائم کیا کہ ہم اس بات کو سمجھ سکیں کہ اس تحریک کے حوالے دے کر جو اعتراض کیا جاتا ہے کہ:
“یہ خالصتاً ان لوگوں کی تحریک تھی جو نا صرف اسلامی پسِ منظر رکھتے تھے بلکہ پیشِ منظر میں بھی اسلام کی سر بلندی چاہتے تھے ، اور یوں ثابت ہوا کہ اسلام کے حقیقی ڈھانچے پر رہ کر زندگی گزارنا اس زمانے میں مشکل ہے”۔
یہ ایک بھونڈا اعتراض ہے ، جس کی قلی کھولنا بے حد ضروری ہے۔
اب آئیے ذرا نظر ڈالیں، تو سچ یہ ہے کہ پسِ منظر میں یہ تحریک واقعتاً ایک خالص اسلامی اور سلفی تحریک تھی ، جس کی بنیاد گو کہ چند نوجوانوں نے رکھی لیکن سر پرستی ان کو مفتی اعظم سعودیہ عرب عبد العزیز بن باز رحمہ اللّٰہ کی حاصل تھی ، اور اس حد تک تائید حاصل تھی کہ تحریک کے نام کا ایک جزو “المحتسبة” بھی شیخ بن باز رحمہ اللّٰہ نے ہی رکھا تھا بلکہ اس سے بڑھ کر جہیمان کی پہلی کتاب پر ایک اضافہ بھی کیا جسے حاشیہ میں اسٹیمپ کے ذریعہ ہر ہر نسخے پر لگایا گیا ، پھر اس تحریک کے مرشد ومربی محدثِ زماں امام البانی رحمہ اللّٰہ بھی رہے جو باقاعدہ سعودیہ تشریف لاتے اور ان کی مجالس میں وعظ و نصیحت کرتے رہے ، وہیں ایک سرپرست کے طور پر مفسرِ قرآن شیخ ابو بکر الجزائری کا نام بھی مل جاتا ہے ان کے علاؤہ دیگر کبار علما اور فضلاء اس کے سرپرست یا مربی و مرشد تھے پھر خود اس تحریک میں محرک ترین نو جوانوں میں بڑے بڑے فضلاء اور علما بھی شریک ہوئے۔یوں یہ تحریک مختلف علمی شخصیات کے زیرِ سائے پنپتی رہی اور اپنا رسوخ بڑھاتی رہی ، ان کی تعلیمات واقعتاً اسلامی اور ان کا طریقہ حقیقتاً پر اثر رہا۔
اور آپ اس دور میں اس تحریک کو دیکھیں تو عش عش کر اٹھیں گے ، کہ کیا ہی عمدہ لوگ تھے یعنی اصل الاسلام پر کار بند ، عزیمت کو تھامے ہوئے اور اس حد تک ان کے ساتھ علمابھی ساتھ رہے ، پھر اس تحریک نے ہچکولے کھانا شروع کئے ، اور سب سے پہلی تبدیلی پتا ہے کیا واقع ہوئی؟
امام ابن باز رحمہ اللّٰہ سے دور رہنے کی تلقین کی جانے لگی ، امام البانی رحمہ اللّٰہ کے دروس کی کیسٹیں مسخ کی جانے لگیں اور جزائری رحمہ اللّٰہ کی باتوں کو ہواؤں میں اڑایا جانے لگا۔یہ ہے نقطہِ انحطاط ، یہ ہے وہ لمحہ جہاں پر بہت سوں کو کھٹک محسوس ہوئی اور اکھاڑ پچھاڑ کا نیا عمل شروع ہوا ، مصنف خود متزلزل ہو کر رہ گئے۔
اور ان سب علما کو کیوں چھوڑا گیا ،اس کی وجہ بھی سمجھ لیجئے ، کیونکہ یہی اس تحریک کا پیشِ منظر تھا جو یوں تو اسلامی کہا جا سکتا ہے کہ اس کی بنیادیں کہیں نا کہیں اسلام سے ملتی جلتی تھیں لیکن طریقہِ کار ہر گز اسلامی نہ تھا ، اس کی وجہ وہی ہے کہ یہ لوگ آہستہ آہستہ “عزیمت” میں زیادتی کرنے لگے اور یوں ایک نئے عدوان نے جنم لیا ، جب علما نے ان کو اس عدوان سے روکا کہ دیکھو رخصت نہ لینا اور عزیمت پر گامزن رہنا مستحسن عمل ہے لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ اصل الاسلام سے بڑھ کر سختیاں کی جائیں تو ان کو یہ باتیں بالکل بھی نہ بھائیں ، اور یوں یہ آہستہ آہستہ ایک الگ شکل اختیار کر گئے۔
جس کا بالآخر نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے خود ہی اپنوں میں ایک مہدی بھی تلاش کر لیا اور اس کی بیعت کیلئے تیاریاں شروع کر دیں ، جس کیلئے یہ طریقہ اپنایا کہ جو نہ مانے گا مار دیا جائے گا۔۔یہ ہے شدت یعنی اصل سے بڑھ جانا ، جس کو ہمارے ہاں تــکــفـــيـر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ، اب آپ ہی بتائیں کہ جمیع مسلمین کی تــکــفـــيـر کی تعلیم کون سا اسلام دیتا ہے؟
اس کو کہتے ہیں اصل الاسلام میں زیادتی کرنا ، اور یہاں یہ تحریک شدت پسندی کی تحریک کہلائے گی نہ کہ اس وقت جب یہ صرف دعوتی کام کرتے تھے!
کچھ لوگ کا نقطہِ نظر ہے کہ:
“یہ ردِ عمل کی تحریک تھی”
اسی نتیجے پر رفعت سید احمد بھی نظر آتے ہیں اور یہ بات کیپٹن رشید نے بھی لکھی ہے۔
اس بات کو اگر تسلیم کر بھی لیا جائے تو کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ رخصت کے نام پر جتنا بھی تساہل برتا جائے برتنے دینا چاہیے اور اس کے مقابلے میں اصل کو سرے سے چھوڑ دینا چاہیے؟
یقیناً جواب “نہ” میں ہی ہوگا ، تو پھر اتنی بڑی تحریک اور اس کے اتنے خطرناک اثرات پر بہتر رائے کیوں نہیں قائم کی جاتی؟
جہاں تک مجھے معلوم ہو سکا ہے تو یہ “ردِ عمل” کی نہیں بلکہ “زیادتی” کی تحریک بن چکی تھی ، جس نے بہت سے مسلماتِ اسلام پر بھی کاری ضرب لگائی ، اور یوں اس تحریک نے اسلام پسندی میں اندھے ہو کر اسلام میں ہی ایک نیا اسلام بنا لیا اور پھر نتیجہ کیا نکلا؟
بقول ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ:
“لا للاسلام خدموا ، ولا للکفر ھدموا”
نہ اسلام کی خدمت کہ ، نہ کفر کا نقصان!
اس پر مزید بات بھی کی جا سکتی ہے لیکن فی الحال کیلئے اتنا ہی ، البتہ میں خاص کر طلباء کرام اور متخصصینِ مدارس کیلئے اس کتاب کو ایک بار پڑھنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ جہاں ان کیلئے توسع کی اہمیت واضح ہو وہیں تحریکی اندھیر نگری میں آنکھیں کھولے رکھنے کا گُر بھی نصیب ہوئے ، ورنہ صرف جذبات کی پیروی انسان کو کہاں کھڑا کر دیتی ہے اس کیلئے یہ تحریک اور اس کا انجام ایک عبرت ہے ، پڑھیے اور اپنی تربیت کیجیے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں