یہ میرے لیے ایک بڑا اعزاز تھا کہ 2022 میں لاہور میں، معروف موٹیویشنل اسپیکر اور میڈیا پرسن جناب محسن نواز نے میرا انٹرویو کیا۔گزشتہ دنوں فیس بک کی یادداشت نے مجھے اس خوبصورت لمحے کی یاد دلائی، اور میں نے سوچا کہ اس گفتگو کا متن ہم سب کے ساتھ شیئر کروں۔
محسن نواز:
ہمارے ساتھ آج ایاز مورس موجود ہیں، جو کراچی سے تشریف لائے ہیں۔ وہ ایک ٹرینر اور موٹیویشنل اسپیکر ہیں اور اپنی فیلڈ میں شاندار کام کر رہے ہیں۔ ایاز مورس صاحب، یہ بتائیں کہ زندگی میں کامیابی کے خواہش مند افراد کے لیے آپ کا کیا پیغام ہے؟ ہم سب جانتے ہیں کہ کوئی بھی پیچھے رہنا نہیں چاہتا ہے۔ آپ نے اب تک کے تجربات سے کیا سیکھا اور سمجھا ہے؟ اور ایسے لوگوں کو، جو اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنا چاہتے ہیں، آپ کیا مشورہ دیں گے؟
ایاز مورس:
سب سے پہلے تو میں آپ کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے یہ اعزاز بخشا۔ آپ کے ساتھ بات چیت کرکے مجھے بیحد خوشی ہو رہی ہے۔ جہاں تک میرا تجربہ ہے، زندگی کے سفر میں مختلف لوگوں سے ملنے اور ان کے ساتھ وقت گزارنے کا، میں نے یہ سیکھا ہے کہ کامیابی کی تعریف ہمارے معاشرے میں بہت حد تک ادھوری سمجھی جاتی ہے۔ شاید اس کا معیار یا اس کے بارے میں لوگوں کی سوچ اور تصور کافی محدود ہے۔ میرے خیال میں ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم کامیابی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور اسے کس طرح بیان کرتے ہیں۔
محسن نواز:
اچھا، یہ تو واقعی ایک بہت ضروری پہلو ہے۔ تو آپ کامیابی کو کیسے بیان کریں گے؟
ایاز مورس:
میرے مطابق، کامیابی دراصل آپ کی مائنڈ فلنس (حقیقی کامیابی) ہے۔ یہ اس بات کا شعور ہے کہ آپ اپنی زندگی سے خوش ہیں اور آپ نے اپنی زندگی کے مقصد کو دریافت کرلیا ہے۔ جب آپ کو یہ یقین ہو کہ جو کام آپ کر رہے ہیں، وہ آپ کو خوشی دیتا ہے اور آپ کی ذات اس سے مطمئن ہے، تو یہی کامیابی کی بنیاد ہے۔ اس کے ساتھ، اگر آپ کے کام کی وجہ سے آپ کے ارد گرد کے لوگ، ادارے یا معاشرہ یہ محسوس کرے کہ ان کی زندگیوں میں کوئی مثبت اضافہ ہوا ہے، تو یہ کامیابی کا ایک مکمل معیار ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اصل کامیابی یہی ہے کہ آپ اپنی موجودگی اور کام کے ذریعے معاشرے میں ویلیو ایڈ کریں۔
محسن نواز:
بہترین، زبردست! یہ بتائیں کہ جو لوگ اپنے حالات بدلنا چاہتے ہیں، ان کے لیے آپ کیا مشورہ دیں گے؟ ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ کامیاب ہو، خوش رہے، پیسہ اور پیار اسے نصیب ہو، صحت مند رہے، اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرے۔ تو ان اہداف تک پہنچنے کے لیے چند عملی اقدامات کیا ہو سکتے ہیں جن پر وہ عمل شروع کر سکتے ہیں؟
ایاز مورس:
میرا تجربہ یہ ہے کہ جب میں نوجوانوں سے بات کرتا ہوں تو میں ہمیشہ ایک بات ضرور کہتا ہوں، کبھی بھی اپنے موجودہ حالات، ماضی یا بیک گراؤنڈ سے مایوس نہ ہوں۔ میری اپنی زندگی کی کہانی اس کی ایک مثال ہے۔ میں اپنے خاندان کا پہلا فرد تھا جس نے میٹرک پاس کیا، اور آج جب اپنی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے وہ لمحے یاد آتے ہیں جو میری رہنمائی کا سبب بنے۔پہلی چیز جس نے مجھے تقویت دی، وہ یہ تھی کہ میں نے کبھی بھی یہ سوچنے کی اجازت نہیں دی کہ جو منزل میں حاصل کرنا چاہتا ہوں اور جہاں میں اس وقت ہوں، اس کے درمیان فرق کو میں عبور نہیں کر سکتا ہوں۔ یہ یقین میرے لیے بنیادی کامیابی تھا۔میں نوجوانوں کو ہمیشہ یہ بتاتا ہوں کہ ہمارا دماغ ایک ”میجک باکس“ کی طرح ہے، اور ہماری سوچیں سب سے زیادہ طاقتور چیز ہیں۔ اگر آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ کوئی چیز ممکن ہے، تو یقیناآپ اسے عملی طور پر کر سکتے ہیں۔ یہی وہ پہلا قدم ہے جو آپ کو اپنی منزل کی طرف لے جاتاہے۔
محسن نواز:
پہلی بات ہو گئی یقین حاصل کرنا۔ آگے کیا؟
ایاز مورس:
آپ کی ذات کا اپنے خالق کے ساتھ رشتہ بہت مضبوط ہونا چاہیے۔ یہ یقین رکھیں کہ خُدا نے آپ کو ایک خاص مقصد کے لیے دُنیا میں بھیجا ہے۔ہماری زندگی میں دو اہم دن ہوتے ہیں، ایک وہ دن جب ہم پیدا ہوتے ہیں اور دوسرا وہ دن جب ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ آپ اس دُنیا میں کیوں آئے ہیں۔ اپنی زندگی کا مقصد تلاش کرنا اور اسے سمجھنا بہت ضروری ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ کبھی بھی ہمت نہ ہاریں۔ میں نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ کوئی بھی شخص جس نے زندگی میں کسی بھی شعبے میں کامیابی حاصل کی ہے، اس کے سفر میں ناکامیاں ضرور آئیں، لیکن وہ ناکامیاں اس کی سب سے بڑی طاقت بنیں۔ یہی ناکامیاں ہمیں سکھاتی ہیں، ہمیں مضبوط بناتی ہیں، اور ہمیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہیں۔یہ دو بنیادی اصول ہیں جو کسی بھی شخص کو زندگی کے سفر میں نہ صرف مدد دیتے ہیں بلکہ کامیابی کے قریب بھی لے جاتے ہیں۔میری اپنی زندگی ناکامیوں سے بھرپور ہے، اس لئے میں کبھی کتاب لکھوں گا تو اُس کا ٹائٹل ہوگا۔”ناکام ہونے کے کامیاب طریقے۔“
محسن نواز:
صحیح، تو یہ بتائیں کہ بہت سارے لوگ ناکام ہو جاتے ہیں یا زندگی میں کامیاب نہیں ہو پاتے، اور پھر لوگ ان کو مختلف طرح کے منفی ریمارکس دے دیتے ہیں۔ ماحول سے مختلف آوازیں آرہی ہوتی ہیں۔ آپ اس بارے میں کیا مشورہ دیں گے؟ دوسروں سے ملنے والا یہ فیڈبیک ہماری زندگی کے لیے کس حد تک اہم ہے؟ ہمیں کتنی اہمیت دینی چاہیے اور کتنے فیڈبیک کو نظر انداز کرکے آگے بڑھنا چاہیے؟
ایاز مورس:
میرے خیال میں یہ ایک بہت شاندار سوال ہے، اور آج کے دُور میں اس سوال کی اہمیت اس لیے بڑھ جاتی ہے کیونکہ اب ہم ڈیجیٹل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں، جہاں اتنی زیادہ معلومات آ رہی ہیں۔ یہ ایک سمندر کی طرح ہے، اور آپ نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آپ کس معلومات کو اپنا محوربنائیں گے۔ کبھی کسی کا مشورہ آ رہا ہوتا ہے، کبھی کسی کا۔میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ آج کے دُور میں آپ کی کامیابی اس بات میں ہے کہ آپ نے کس سے، کب، کیوں اور کتنا مشورہ لینا ہے، اور اس پر عمل کتنا کرنا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کس سے مشورہ لے رہے ہیں، اور اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ آپ اپنی دل کی آواز سنتے ہیں یا نہیں۔بہت سارے لوگ دوسروں کی باتوں کو سن کر یہ سمجھتے ہیں کہ جو لوگ کہہ رہے ہیں، وہ ان کی حقیقت ہو سکتی ہے، لیکن حقیقت میں وہ ان کی پرسنلٹی یا کسی خاص صورتحال کا نتیجہ ہوتا ہے۔ آپ کے اندر ایک آواز ہے جو آپ کو بتاتی ہے کہ آپ کا مقصد کیا ہے، اور یہ آواز صرف آپ اور آپ کے خالق کو معلوم ہے۔ اگر آپ اسے دریافت کر لیتے ہیں، تو پھر آپ ان آوازوں کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔
بھارتی کرکٹر ویرات کوہلی سے کسی نے پوچھا کہ جب آپ میدان میں داخل ہوتے ہیں اور اتنی آوازیں سننے کو ملتی ہیں تو آپ کیا کرتے ہیں؟ کوہلی نے کہا کہ جب میں میدان میں داخل ہوتاہوں، تو 80 ہزار کے قریب لوگ اسٹیدیم میں موجود ہوتے ہیں، اور اگر میں ان کی آوازوں پر دھیان دوں تومیں ایک بھی گیند بہتر انداز میں نہیں کھیل سکتا ہوں۔ چیمپئن لوگ اپنے ٹارگٹ پر اتنے فوکس ہوتے ہیں کہ انہیں پرواہ نہیں ہوتی کہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔خاص طور پر جب آپ مشکلات کا سامنا کر رہے ہوں، تو یہ بات یاد رکھیں کہ آپ کی اصل طاقت آپ کی محنت اور فوکس ہے۔ میں کبھی بھی کسی بھی کلاس میں فیل ہوئے بغیر پاس نہیں ہوا۔ لیکن اس کے باوجود میں نے تعلیم حاصل کی،یہ وہ جذبہ تھا جس نے مجھے آگے بڑھایا، اور آج میں اس مقام پر ہوں جہاں میں لوگوں کو اپنے تجربات سے سکھا رہا ہوں۔ ناکامی،کامیابی کا ایک حصّہ ہے، اور یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ ہمیں مزید محنت کرنی ہے تاکہ ہم اپنے مقصد کو حاصل کر سکیں۔
محسن نواز:
بہترین، زبردست! آپ کی باتوں سے میں نے یہ سمجھا کہ آپ یہ میسج دے رہے ہیں کہ ہم سب کو GOSPA پر عمل کرنا چاہیے، یعنی Goals، Objectives، Strategies، Plans، اور Activities۔ اگر یہ سب کچھ آپ کے لیے واضح ہو جائے، تو آپ اپنی ذہنی اور تہہ شعور کی طاقت کو بھی پہچان پائیں گے اورخود کو اور اپنے ماحول کو بہتر سمجھنے میں کامیاب ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ، آپ یہ بھی جان پائیں گے کہ آپ کو اپنے ارد گرد کس قسم کے لوگوں سے ملنا ہے اور کن سے کنارہ کشی کرنی ہے۔ شکریہ ایازمورس، آپ نے اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کیا۔
ایاز مورس:
آپ کا بھی شکریہ،آپ ہمارے معاشرے کے لیے ایک حقیقی مثال ہیں، بلکہ رول ماڈل ہیں کہ ناکامی کبھی بھی ہماری زندگی میں کوئی حتمی چیز نہیں ہوتی ہے۔ یہ ہمیں سکھاتی ہے اور ہمیں ہمت دیتی ہے کہ ایک دن آپ ضرور کامیاب ہوں گے۔ آپ کا عزم، جذبہ اور سوسائٹی کے لیے کام، واقعی ہی دوسروں کے لئے روشن مثال ہے، خاص طور پر نئی نسل کے لیے۔ آپ یہ سکھاتے ہیں کہ حالات سے کبھی نہ ڈریں، کیونکہ یہ دُنیا آپ فتح کرنے اور نئی چیزیں دریافت کرنے کے لے بھری پڑی ہے۔
محسن نواز:
کیا خوبصورت جملہ ہے! اور اسی جملے پر، آپ کے وقت اور خیالات کے لیے میں آپ کا بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں