جب میں چھوٹی تھی تو اکثر اپنی دادی کو اپنے چچا سے یہ کہتے سنتی تھی کہ “ مجھ سے جھوٹ ہی بول دو میرا بیٹا مل گیا ہے۔ مجھے کم ازکم جھوٹی تسلی ہوجاۓگی”۔ اس وقت مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی کہ دادی کیوں ہر وقت روتی رہتی ہے اور چاچا سے کیا جھوٹ سننا چاہتی ہے۔ ایک بار میرا چاچا کراچی سے آیا تو دادی بار بار پو چھتی تھی۔ کوئی تو خبر ہوگی تیرے پاس اچھی نہیں ہے تو کچھ جھوٹ ہی بول دے۔
چاچا نے کوئی جواب نہیں دیا تو دنوں روتی رہی۔ جب کھانے کو کہتے تو کانپتے ہوۓ کہتی پتہ نہیں اس نے روٹی کھائی ہے یا نہیں۔
موسم بدلتا تو دادی کو سب سے زیادہ فکر اس بات کی ہوتی”میرے بیٹے نے کیا پہنا ہوگا؟کیا اوڑھا ہوگا؟ٹھنڈ میں کہاں سویا ہوگا؟”
ہم چھوٹے ضرور تھے لیکن اس بات کی سمجھ آنے لگی تھی کہ ہماری زندگی میں کچھ ایسا ہے جس کے سبب دادی ہر وقت روتی اور ماں ہمیں دروازے تک نہیں جانے دیتی۔ میرے بچپن کی ساری عیدیں پریس کلبوں کے سامنے ہاتھوں میں تصویریں تھامے کھڑے یا بیٹھے گزری ہیں۔ اس وقت وہ تصویریں لگتی تھیں لیکن اصل میں تو اپنے باپ کو تھامے ایک مظلوم بچی کی شکل میں کھڑی ہوتی تھی۔ راہ گیرو ں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے۔
بہت جلد یہ بات میری سمجھ میں آگئی جب میری ہم عمر، ہم محلہ بچیاں صبح سویرے اسکول جا رہی ہوتی تھیں اور ہمارے گھر میں کسی پریس کلب یاکسی سڑک پر بیٹھنے کی تیاری ہورہی ہوتی تھی۔ اگر احتجاج ہوتا تو ہم شام کو دادی ،چچا اور دیگر بہت سے لوگوں کے ساتھ شام گۓ واپس آجاتے اگر دھرنا ہوتا تو کئی کئی دن ہم سڑکوں پر اپنے پیاروں کی تصویریں تھامے آتی، جاتی دنیا کو دیکھتے رہتے۔ ان کے ہنستے مسکراتے چہرے ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے تھے لیکن اس وقت ہمارے پاس اظہار کی طاقت اور شعور نہیں تھا۔ ہم نے کئی کئی دن موسم کی سختیوں کے ساتھ ایک وقت کے کھانے کے ساتھ گزارے ہیں۔
وقت نے ہمیں شعور دیا، بولنے کی طاقت دی، اپنے حق کی پہچان دی اور آج اسی شعور اور طاقت کے بل بوتے پر میں یہاں کھڑی ہوں۔
یہ چیدہ ، چیدہ جذبات ہیں بلوچستان کی بیٹی “ سیمی بلوچ” کے،دبلی پتلی،معصوم چہرہ لبوں پر دھیمی سی مسکراہٹ ،سر پر کالی چادر کا پلو درست کرتی ، اپنی منحنی سی آواز میں سلام کرتی جب وہ میرے پاس سے گزری تو مجھے ایک لمحے کو احساس نہ ہوا کہ یہ وہ شوریدہ لہر ہے جس میں طوفان پنہاں ہے اور طوفان کی اپنی تو کوئی شکل نہیں ہوتی وہ تو لہروں ہی کا مرہون منت ہوتا ہے۔
سیمی بلوچ ! بول رہی تھی، بنا رکے، بنا کسی خوف کے،بن داس، ہال وقفے، وقفے سے تالیوں سے گونج رہا تھا۔
یہ چند دن پہلے گزری ۲۵ نومبر کی شام کی بات ہے۔۔ دنیا اس دن کو “ بٹر فلائی سسٹرز” کے نام سے منا رہی تھی۔ لاطینی امریکہ کی ان تین بہنوں نے اس وقت کے جبر واستعداد، ظلم اور بربریت کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائی تھی انھوں نے قیدوبند کی صعوبتوں سمیت ظلم کے نام پر ہونے والے سارے دکھ بھی جھیلے تھے۔
اس شام بولنے والے اپنے اپنے تجربے کی روشنی میں “ بٹر فلائی سسٹرز کو خراج پیش کر رہے تھے۔
ان ہی بولنے والوں میں سے ایک “ سیمی بلوچ “ بھی تھی۔ وہ اپنی منحنی آواز میں کہہ رہی تھی”میں بلو چستان کی مظلوم بیٹی ہوں، بلوچستان کی ہر ماں،بیٹی اور بہن مظلوم ہے۔ ہم بلو چستان کی مظلوم تتلیاں ہیں،ہمارا بچپن سڑکوں پر دھکے کھاتے،آنسو گیس کے شیل برداشت کرتے،اپنے باپوں،بھائیوں،شوہروں کو خون میں نہاتے،سڑکوں پر گھسٹتے دیکھتے گزرا ہے”۔
بلو چستان میں کوئی بلوچ گھر ایسا نہیں ہے جس نے یہ دکھ نہ سہا ہو۔
ہم سب کو اس خوش فہمی سے باہر نکلنے کی ضرورت ہےکہ ہم آزاد ہیں۔ ہم آج بھی colonial system میں ہیں، صرف آقا بدل گۓ ہیں۔
سیمی بلوچ کی اس بات میں وزن تھا۔ میں نے سوچا آقاؤں کا رنگ بدل گیا ہے۔ پہلے گورے تھے اب مٹیالے ہوگۓ ہیں۔
پہلے دور دیس سے آتے تھے، جینے کے اپنے اصول قواعد کے ساتھ، ایسے بیٹھو،یوں کھڑے ہو،یہ کھاؤ ،یہ نہ کھاؤ،سوچو مت، بولو مت،لکھو مت۔۔خود تو چلے گۓ ایک عذاب ہمارے سروں پر چھوڑ گۓ۔
سیمی بلوچ ! کہہ رہی تھی” ہم کبھی آزاد ہوۓ ہی نہیں، ہم ظلم اور آزادی کو جنسی بنیادوں پر نہیں دیکھتے، ہماری لڑکیوں، لڑکوں کے باتھ رومز میں کیمرے لگے ہیں، ان کے کمرے محفوظ نہیں ہیں “۔ وہ جب جس کو چاہتے ہیں گھسیٹتے ہوۓ لے جاتے ہیں۔ سالوں ان کو گم نام رکھتے ہیں۔ ان کا دل چاہتا ہے تو کبھی کبھار کسی ویرانے سے،پہاڑ کی اوٹ سے، سڑک کنارے سے لاش مل جاتی ہے۔
اپنی بھرائی ہوئی آواز پر قابو پاتے ہوۓ اس نے کہا” لاش ملتی ہے تو ہم شکر ادا کرتے ہیں پیدا کرنے والے کا کہ اس نے اپنے پاس بلا لیا ،ظالم سے نجات مل گئی۔ لاش نہ ملے تو ہماری زندگیاں انتظار کی الگنی پر ہی لٹکی رہتی ہیں”۔
وہ کہہ رہی تھی کہ اب ہر شخص پو چھتا ہے” بلو چستان کی لڑکیوں ،عورتوں کو کیا ہوگیا ہے۔ ہر وقت سڑکوں پر کھڑی ہوتی ہیں” ہم کہتے ہیں “ وقت نے ہمیں یہ سبق سکھایا ہے ،اب ہم اپنے بھائیوں،باپوں اور شوہروں کو بے یارو مدد گار نہیں چھوڑیں گے، ہم آواز اٹھائیں گے، شور مچائیں گے ،”
آپ سوچیں جو عورتیں کبھی گھر سے نہیں نکلی تھیں جب وہ گھر کے مردوں کی گمشدگی کی رپورٹ کرانے آتی تھیں تو انھیں تاریخ دن ،مہینہ کچھ پتہ نہیں ہوتا تھا۔ وہ کہتی تھیں” شاید رمضان شروع ہونے والا تھا، شاید ماتم کا مہینہ تھا، شاید انگور کا موسم تھا”
ہماری اس معصومیت اور بے خبری کو ظلم کرنے والوں نے ہماری کمزوری سمجھ لیا لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔ ہمارے دکھوں کا حساب کتاب ہوگا۔
اس منحنی سی لڑکی کی بہت ساری باتیں میرے دل وذہن میں گونجیں جا رہی ہیں۔ لہریں اٹھ رہی ہیں، بیٹھ رہی ہیں،گم نام راہوں میں مارے جانے والے باپوں، بھائیوں اور بیٹوں کا خیال دل کو اُتھل پوتل کئے جارہا ہے۔ دکھ کی ایک لمبی لکیر میرے اندروں ، اندر گہری ہوئی چلی جارہی ہے۔
دکھ کی یہ لمبی رات۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں