• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سوا تین باتیں اور ناچتی ہوئی کذابیت/ حیدر جاوید سید

سوا تین باتیں اور ناچتی ہوئی کذابیت/ حیدر جاوید سید

تحریک انصاف کی 24 نومبر کی فائنل کال (حتمی احتجاج) کے خاتمے پر انصافی خواتین و حضرات اپنے ایمان کے درجہ اولیٰ پر جلوہ افروز ہوکر جو جھوٹ کشید کررہے ہیں اس نے گوئبلز و ہٹلر اور مسیلمہ کذاب کے پروپیگنڈے کو بھی مات دے دی ہے۔ ایک گزشتہ کالم کے جواب میں کذابی مزاج انصافیوں نے ایسے ایسے کوسنے دیئے کہ ہنسی روکنا مشکل ہوگیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کہا یہ جارہاہے کہ ڈی چوک میں سیدھی گولیاں ماری گئیں لیکن تحریک انصاف نے اپنے ابتدائی اعلامیہ میں 8 کارکنوں کی شہادت کا دعویٰ کیا مستعفی ہوجانے والے اس کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے بھی ابتداً 8 کارکنوں کے مارے جانے کی خبر دی بعدازاں انہوں نے بتایا کہ 12 کارکن شہید ہوئے ہیں ، ماڈل ایان علی کے سابق وکیل (کبھی انصافی اسے بروکر کہا کرتے تھے) اور پی ٹی آئی کے موجودہ رکن قومی اسھمبلی سردار عبداللطیف کھوسہ نے ایک ٹی وی پروگرام میں دعویٰ کیا کہ اڑھائی سو سے زیادہ کارکنوں کو سینے میں گولیاں ماری گئیں جس سے وہ جاں بحق ہوگئے ان سے صرف آٹھ مرحومین کی تفصیل دریافت کی گئی تو آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔
قومی اسمبلی کے ہی ایک اور رکن شیراز افضل مروت کہتے ہیں 50 افراد مارے گئے۔ اموات کی تعداد 8 سے شروع ہوئی پھر 38 تک پہنچی جبکہ تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم کے مطابق 25 نومبر کو فائرنگ سے موقع پر 12 کارکنان شہید ہوئے اگلے مرحلے میں مرنے والوں کی تعداد محبوبہ خان نامی خاتون کے سوشل میڈیا اکاونٹ پر 623 بتائی گئی جبکہ زخمیوں کی تعداد 1200 کچھ لوگ ہزاروں اموات کا دعویٰ بھی کررہے ہیں ۔
حتمی احتجاج کے شرکاء کے خلاف جب پولیس نے بلیو ایریا اور جناح ایونیو سمیت ملحقہ علاقوں میں کارروائی شروع کی تھی تو کارکنوں کے پسپا ہونے سے قبل پتلی گلی سے بیگم عمران خان کے ہمراہ فرار ہوجانے والے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے 27 نومبر کو مانسہرہ میں سپیکر صوبائی اسمبلی کی قیام گاہ پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا ’’ہمارے سینکڑوں کارکنوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا ہے ”
ان سے سوال ہوا، کتنے کارکن جاں بحق ہوئے؟ ” بولے جاں بحق ہونے والے کارکنوں کی نعشوں سے بھرے ٹرک آرہے ہیں‘‘۔
کذابی برانڈ انصافی اپنے ناقدین و مخالفین کے سنجیدہ سوالات کو تضحیک ہی قرار نہیں دیتے بلکہ اپنے پیشوا کی تربیت کا حق ادا کرتے ہوئے ننگی گالیوں بددعائوں اور کوسنوں پر اتر آئے ہیں۔ ادھر وزارت داخلہ دعویٰ کررہی ہے کہ گرفتار احتجاجی کارکنوں میں 80 سے زائد افغان شہری بھی شامل ہیں ان میں سے متعدد سے جدید اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے سوال یہ ہے کہ اگر یہ دعویٰ درست ہے تو افغان شہریوں کو میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے لانے میں امرمانع کیا ہے ؟ ۔
ایک بات طے ہے کہ تشدد پر ریاست کرے یا کوئی گروہ تشدد غلط ہے صریحاً غلط اور اس کی تائید نہیں کی جاسکتی۔
البتہ 2007ء میں لال مسجد کے باہر فسادیوں کی فائرنگ سے کرنل ہارون اسلام اور چند جوانوں کے جاں بحق ہونے کےبعد ریاست کو الماس بوبی ہونے کا طعنہ دے کر لال مسجد اور ملحقہ مدرسے میں چھپے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لئے آسمان سر پر اٹھالینے اور آپریشن کےبعد ریاست کو مجرم کے طور پر دہشت گردوں کے کٹہرے میں لے جاکر کھڑا کرنے والے چند سیاپا فروش اینکر، کالم نگار اور صحافی پچھلے چند دنوں سے 2007ء والے طرزعمل کو اپنائے ہوئے ہیں۔
ابتداً یہ قانون کی حاکمیت اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے شہر میں احتجاج نہ کرنے دینے والے فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عمل کے لئے گلے پھاڑ پھاڑ کر شور مچارہے تھے اب کہہ رہے ہیں کہ ’’ڈی چوک میں جو ہوا میڈیا بتا نہیں رہا عوام سب جانتے ہیں‘‘۔
ایک مرحوم صحافی اطہر مسعود کے خلاف جو اس وقت ایک بڑے اخبار میں اہم منصب پر تھے اخبار کے مالک کو ’’سستا جنسی تقاضے سے بھرا ‘‘ خط لکھ کر شہرت کی پہلی سیڑھی چڑھنے والے مجاہد اعظم صحافی سے ہم نے عرض کیا
’’آپ ایک بہادر صحافی اور انسان ہیں ویڈیو بیان کے ذریعے تفصیلات عوام کے سامنے رکھ دیجئے‘‘۔ تادم تحریر ان کا جواب آیا نہ انہوں نے اپنے مبہم ارشاد کی وضاحت کی۔
ڈی چوک کے گردونواح میں 2 کارکن جاں بحق ہوئے یا اس تعداد میں جو ایک دوسرے کے دعوے سے نہیں ملتیں قابل افسوس ہے۔ اتنا ہی قابل افسوس پولیس اور رینجرز کے جوانوں کا جاں بحق ہونا ہے یاد رہے کہ مرنے والے پولیس اہلکار کے سر اور گردن پر گولیاں ماری گئی تھیں ۔
تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ اس ساری افسوسناک صورتحال کی ذمہ دار عمران خان کی تیسری اہلیہ بشریٰ بیگم ہیں اس ناتجربہ کار گھریلو خاتون کی سستی جذباتیت سے فساد برپا ہوا اور خود وہ کارکنوں کو جہنم میں جھونک کر پتلی گلی سے گنڈاپور کے ہمراہ نکل گئیں۔
جہاں تک کذابی ٹولے کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ ان کے ’’مرنے والوں ” پر مخالف خوش ہورہے ہیں تو عین ممکن ہے ایک آدھ بوزنے نے سطحی حرکت کی ہو لیکن دوسری طرف پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں کی اموات پر انصافیوں نے جو ارشادت کذابیہ سوشل میڈیا پر لکھے وہ ریکارڈ پر ہیں ستم یہ کہ انصافی اپنے گریبان میں جھانکنے پر آمادہ نہیں۔
تازہ تازہ کچا پکا اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوئے ان انصافیوں کو جنہوں نے مسیلمہ کذاب کی پیروی کو اپنی فتح سمجھ لیا ہے یاد نہیں رہا کہ ان کا لیڈر تو اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ کی گود میں بیٹھ کر اقتدار میں آیا تھا۔ سی پیک کو بریک اور مقبوضہ کشمیر پر پسپائی سے اس نے حکومت میں لائے جانے کا حق ادا کردیا جاتے جاتے آئی ایم ایف معاہدے کے بم کو لات مارگیا نتیجہ پاکستان بھگت رہا ہے۔
ان کذابیوں میں نومولوں کے ساتھ پرانے پپلے بھی ہیں اور کچھ چار پانچ جماعتوں کے نلکوں سے سیراب ہوکر انقلابی بنے بھی ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی قیادت کو چاہیے 8 . 38- 272۔623یا 1000 ہزار سے زیادہ ہلاکتوں کے ثبوت سامنے لائے مان لیا ان کے اس دعوے کو کہ حکومت نے نعشیں غائب کردی ہیں لیکن مرنے والوں کی شناختی دستاویزات اور خاندان تو حکومت نے غائب نہیں کئے خیبرپختونخوا حکومت ہوائیاں چھوڑنے کی بجائے مقتولین کے ورثا کو سامنے لائے ۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حتمی احتجاج میں 98 فیصد لوگ خیبر پختونخوا سے آئے تھے 2 فیصد کا تعلق کراچی، پنجاب اور آزاد کشمیر سے تھا۔ خیبر پختونخوا کی حکومت کسی تاخیر کے بغیر مقتولین کے ورثا کی فی کس ایک کروڑ امداد کے اعلان پر عمل کرتے ہوئے غمزدہ خاندانوں کو سامنے لے آئے اس سے وفاقی وزارت داخلہ وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ تینوں کے قدموں کے نیچے سے زمین کھسکنے لگے گی اور محسن نقوی وعدے کے مطابق مستعفی ہوجانے پر مجبور ہو جائیں ویسے ماضی میں یہ انصافی فوجی آپریشنوں میں مرنے والوں کو جن ناموں سے یاد کرتے تھے وہ نام یہاں لکھے نہیں جاسکتے۔
تیسری بات یہ ہے کہ حتمی حتجاج کے افسوسناک انجام کے بعد پی ٹی آئی کہ اندر سے عمران خان کی اہلیہ کے سطحی جذباتی و غیر سیاسی طرزعمل اور پی ٹی آئی قیادت کے فیصلے (اس کا حوالہ بیرسٹر سیف، شوکت یوسفزئی اور چند دیگر بھی دے رہے ہیں) کے برعکس بہرصورت ڈی چوک جانے اور یہ دعویٰ کرنے کہ میں آخری عورت ہوں گی جو عمران خان کو لے کر ڈی چوک سے واپس جائوں گی جیسی باتوں نے صورتحال کو پیچیدہ بنایا
26 نومبر کو خود انصافیوں نے سوشل میڈیا مجاہدین (کذابیوں) نے صبح سے شام تک انقلابی ترانے بجائے فتح مبین کی نویدیں دیں، سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں سے گلے ملنے کی ویڈیوز شیئر کرتے ہوئے کہا بس انقلاب چند قدموں کی مسافت پر ہے اور ملک کے ایک درجن ہوائی اڈوں پر درجنوں جہاز سٹینڈ بائی ہیں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے اہم کرداروں کو ملک سے فرار کرانے کے لئے۔
خیر اب صورت یہ ہے کہ عمران خان کی تیسری اہلیہ بشریٰ بیگم کی جانب سے تحریک انصاف کے رہنمائوں پر عامیانہ زبان دانی سے بھری تنقید کے جواب میں پارٹی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ اسی طرح سنی اتحاد کونسل کے سربراہ حامد رضا نے پی ٹی آئی کی کور کمیٹی اور سیاسی کمیٹی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا مزید استعفے آنے کی توقع ہے۔
تکبر، نخوت، انانیت سے چور بشریٰ بیگم کو بیگم نصرت بھٹو کی طرح پیش کرنے والے سابق پپلوں کو یاد رہے کہ ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران قذافی سٹیڈیم لاہور میں پولیس کے بے رحمانہ تشدد کی وجہ سے خون میں لت پت ہوجانے کے باوجود بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو میدان چھوڑ کر نہیں گئیں
بلکہ آخری وقت (گرفتاری تک) استقامت سے ڈٹی رہیں۔
چوتھائی بات یہ ہے کہ کذابی ٹولے کو کسی سے ہمدردی کی توقع نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ اپنی بدزبانیوں سے انہوں نے جو ماحول بنایا اب انہیں اسی میں جینا ہوگا الحمداللہ اب بھی ان کی جانب سے پھٹے چک بدزبانی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ نومولود انصافی تو چلیں ففتھ جنریشن وار کے تربیت یافتہ ہیں قدیم پپلے اور حاضر انصافی تو ایسا ایسا ٹکا کے جھوٹ بولتے ہیں کہ اللہ توبہ۔
پس نوشت:
ملکی حالات کے باعث آزاد کشمیر میں آٹھ روزہ قیام کے سلسلے کے تیسرے کالم کی جگہ یہ کالم ہے ایک آدھ دن میں اس موضوع پر مزید لکھوں گا اس سلسلے کی ضرورت کے پیش نظر مظفرآباد سے ” تاریخ جموں کشمیر ” عہدِقدیم سے دورِ جدید تک / مصنف پروفیسر محمد ادریس احمد اور ” کے ایچ خورشید ” حیات و خدمات مصنف محمد سعید اسعد خرید کر لایا ہوں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply