اہم عہدوں پر تعینات افسران چاہیں تو اپنے محکمے کے افسران کیلئے ہر طرح کی سہولیات، ایگزیکٹو الاؤنس، اچھی رہائش اور مناسب گاڑیوں کی منظوری کروا سکتے ہیں لیکن بدقسمتی کہہ لے یا نامعلوم مجبوریاں (نامعلوم حسن ظن رکھتے ہوئے لکھا ورنہ سب کو معلوم ہے کہ یہ مجبوریاں اچھے عہدے، لگژری سہولیات اور پیسے کی ریل پیل ہے) یہ ان سیٹوں پر آتے ہی اپنے قبیل(دیگر بیوروکریٹ) سے اعلانیہ تو نہیں لیکن پریکٹیکلی لاتعلقی کا اظہار کرکے خود کو مین سٹریم افسران والی کیٹاگری میں لے جاتے ہیں جہاں سوائے حکمرانوں کی جی حضوری اور فرمانبرداری کے کچھ نہیں کرتے۔ اہم سیٹوں پر تعینات مذکورہ افسران حکمرانوں کی ہرطرح کی جائز و ناجائز خواہشات پوری کرکے اپنی زندگی کی ساری محرومیاں دور کرنے کا موقع ضائع نہیں کرنا چاہتے ہوتے۔ جن عہدوں پر بیٹھ کر یہ بندر بانٹ کر رہے ہوتے ہیں وہاں اتنا مال اکٹھا ہوجاتا ہے کہ ان کیلئے تنخواہ کی اہمیت ہی ختم ہوجاتی ہے۔ اس لیے ان کرپٹ بد بختوں کی وجہ سے ایماندار افسران ناکافی سرکاری تنخواہ کے ساتھ بامشکل گزر بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ بزدار اور فرح گوگی کے بینیفشری ہونے کی وجہ سے بہت سارے افسران پنجاب بدر ہوجائیں گے لیکن وزیراعلیٰ اور تگڑے وزراء کے درباری بنے ”باس از آلویز رائٹ“ کی تسبیح کرتے افسران جی حضوری کے چیمپئین ہونے کی وجہ سے ہر حکومت میں ”فٹ“ ہو جاتے ہیں اور نہ صرف من چاہی پوسٹنگ لیتے ہیں بلکہ فیصلہ سازوں کی آنکھ کا تارہ بن کر صوبے اور ڈیپارٹمنٹ کے لئے ”اچھے افسران“ سلیکٹ کرنے کی ٹھیکیداری بھی حاصل کرلیتے ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے ناممکن کو ممکن کردکھایا اور بیوروکریسی کی ٹرانسفر پوسٹنگ میں سیاسی مداخلت کا مکمل خاتمہ کر دیا۔ اس پالیسی کی وجہ سے جہاں مسلم لیگ ن کے پارلیمینٹرین خفا ہیں تو وہیں اتحادی جماعت پیپلز پارٹی بھی شدید ناراض ہے۔
وزیراعلیٰ نے ٹرانسفر پوسٹنگ کیلئے چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کو مکمل اختیارات دے کر تاریخی کارنامہ تو کر دیا لیکن مذکورہ صوبائی سربراہان نے”میرٹ“ کا وہ قتل عام کیا جس کی نظیر پنجاب کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ سنئیر اور قابل افسران کھڈے لائن جبکہ جونئیر اور من پسند افسران پر عہدوں کے ایسی نوازشات ہوئی کہ ہر کوئی حیران و پریشان ہوگیا۔
کچھ ماہ تک تو یہ تماشا پورے زور و شور سے چلا لیکن جب وزیراعلیٰ تک چیف سیکرٹری اور آئی جی کی ذاتی پسند اور ناپسند پر تقرریوں کے حقائق پہنچے کہ میرٹ کے نام پر “پک اینڈ چوز” کا بازار لگا ہوا ہے۔
تو انہوں نے چیف سیکرٹری اور آئی جی کی ہر تقرری کو “ایز اٹ از” کی بجائے تین افسران کے پینل کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا۔
اس فیصلے سے بہتری ہوئی۔ آج سپہر سروسز ونگ ون کے ٹرانسفر پوسٹنگ آرڈرز کافی حد تک میرٹ کے قریب سمجھے جا سکتے ہیں۔ پولیس کے ٹرانسفر پوسٹنگ آرڈرز میں ابھی تک میرٹ کی شدید کمی ہے۔
ابھی بھی بیوروکریسی میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ پہلے تو صوبائی انتظامی سربراہ کسی کو جواب دہ نہیں تھے اس لیے پوری من مرضی چل رہی تھی جب سے پینل سسٹم شروع ہوا تو انہوں نے”سر یو آر مائی انسپائریشن“ کے نعرے لگاتے چاپلوس اور ”کنسیپٹ کلئیر“ افسران کو ”ملٹی ٹاسک اچیور اور ڈوئیر“ کا نام دے کر حکمرانوں کے دربار میں پیش کرکے اہم پوزیشن دلوانا شروع کر دی۔وزیراعلیٰ کو اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ الیکشن آپ نے لڑنا ہے چیف سیکرٹری اور آئی جی نے نہیں۔ عوام کو جواب آپ نے دینا ہے انتظامی افسران نے نہیں۔ میڈم وزیراعلیٰ آپ کے ایم پی اے سچے روتے ہیں کہ افسران انکی کالز رسیو نہیں کرتے۔ شدید کرپٹ افسران کی سب سے بڑی نشانی ہے کہ کال رسیو نہیں کرتے کہ کہیں کسی سفارشی کال پر مفت میں کام نہ کرنا پڑ جائے۔ سوائے دس بد دماغ اور کرپٹ ڈپٹی کمشنرز کے اکثریت اچھے اور کام کرنے والے افسران ہیں۔ پنجاب کی 160تحصیلوں میں بامشکل 40 اسسٹنٹ کمشنرز کے بارے کہا جاسکتا کہ تھوڑے بہتر یا نیم کرپٹ ہیں ورنہ ان نئےنویلے افسران پر پیسہ کمانے اور لاقانونیت کی وحشت طاری ہے۔ نئے آنے والے افسران کی اکثریت کا مائنڈ سیٹ ہے کہ دونوں ہاتھوں سے اور جھولیاں بھر بھر کے سمیٹنا ہے۔ یہی وجوہات ہیں کہ دیانت دار افسران ناپید ہوتے جا رہے ہیں اور بیوروکریسی گالی بنتی جا رہی ہے۔
اہم جگہوں پر تعینات جونیئر کرپٹ افسران اپنے سنئیر ایماندار افسران کو تحقیر آمیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہتے ہیں ”مسکین بندہ“ اے۔
پہلے پہل افسران کی پوسٹنگ کا یہ معیار ہوتا تھا کہ دیکھا جاتا کہ یہ اخلاقی یا مالی لحاظ سے اکسٹریم کرپٹ تو نہیں، عوام کے ساتھ رویہ کیسا ہے؟ لیکن اب معیار صرف مجھے کتنا فائدہ دے گا رہ گیا ہے اس لیے ایماندار افسران کی اہم جگہوں پر یہ کہہ کر تقرری نہیں کی جاتی کہ”اسکو افسری نہیں آتی اسے رہنے دو“۔ ”بندہ کمپیٹنٹ ہے لیکن زیادہ ایماندار ہے“۔ بندہ ٹھیک ہے مگر سسٹم کے ساتھ چلنے والا نہیں۔ ”بندہ ٹھیک اے لیکن بڑا کتابی اے“۔ اس لیے اب ایماندار افسران کو یہی مشورہ ہے کہ اگر آپ نے اچھی پوسٹنگ لینی ہے تو پھر آپ کو سمجھنا ہوگا کہ سسٹم پر گرپ رکھنے سنئیر افسران اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ وہ ایمانداری کو “نااہلیت” سمجھنے لگے ہیں۔
وزیراعظم اور وزیراعلی کے واضح احکامات کے باوجود ابھی تک بیوروکریسی اور سرکاری ملازمین سیلف پروجیکشن اور ٹک ٹاک ایکٹنگ سے باز نہیں آ رہے۔ عوامی فلاح و بہبود کے کام کرنے کی بجائے سیلف پروجیکشن جیسی واحیات حرکات کرنے والے افسران قطعی معافی کے حقدار نہیں۔ شو آف اور سیلف پروجیکشن کرنے والے افسران کو فی الفور عہدوں سے ہٹایا جائے۔
میڈم وزیراعلیٰ سے گزارش ہے کہ ٹک سٹارز اور لینڈ مافیا کے ایجنٹس کی بجائے اچھے اور ایماندار افسران کو آگے آنے کا موقع دیا جائے تاکہ آپ کے ویژن کے مطابق پنجاب کی عوام کو حقیقی فلاح و بہبود اور خوشحالی مل سکے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں