دو دن، دو لیجنڈز، دو ملاقاتیں /ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

آسمانِ سیاحت کے دو درخشاں ستاروں سے ملاقات کا احوال

جمعہ،11 اکتوبر 2024
شام پاچ بجے
لاہور

گزشتہ سفرِ لاہور اس لیئے بھی خاص تھا کہ اس دورے پر میرے دو پسندیدہ سیاحوں اور محققین سے ملاقات ممکن ہوئی۔ ایک سلمان رشید صاحب اور دوسرے مستنصر حسین تارڑ صاحب۔
سلمان رشید اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے تحقیقی سفرنامہ نگار ہیں جن کے قدموں کے نشانوں سے وطن عزیز کا شاید ہی کوئی گوشہ محفوظ ہو گا۔ آپ دس سے زائد انگریزی کتب کے مصنفین ہیں جن میں آپ کے کئی بہترین اخباری مضامین شامل ہیں۔ یہ کتابیں یونیورسٹیوں سے لے کر سفارت خانوں تک ہر جگہ نظر آتی ہیں۔
آپ نے شمال کی وادیوں سے لے کر پنجاب کے دریاؤں، سندھ کی درگاہوں اور بلوچستان کے ویران ریلوے اسٹیشنوں تک کا سفر کیا اور انہیں اپنی خوبصورت تصاویر کے ساتھ کتب کی صورت میں ہمارے سامنے رکھا جو آُپ کی تحقیق کا نچوڑ ہیں۔

سلمان رشید صاحب کی مشہور کتابوں میں درج ذیل انگریزی کتب شامل ہیں:

Deosai: Land of the Giant
The Apricot road to Yarkand
Jhelum: City of the Vitasta
From LandiKotal To Wagah
Sea Monsters and the Sun God: Travels in Pakistan
Salt Range and Potohar Plateau
Gawadar: Song of the Sea Wind
Prisoner on a Bus: Travels Through Pakistan
Between Two Burrs on the Map: Travels in Northern Pakistan Gujranwala: The Glory That Was
Riders on the Wind : Travels through Pakistan
Mithi : Whispers in the sand
Ziarat
سلمان رشید صاحب کو کئی ملکی اور غیر ملکی پلیٹ فارمز پر سراہا گیا ہے اور آپ اب بھی کچھ تعلیمی اداروں میں لیکچر دے رہے ہیں۔

آپ سے ملنے کی خواہش بہت پرانی تھی کیونکہ جب میرے جیسے پالنے میں جھول رہے تھے، تب سلمان رشید صاحب سفر کر رہے تھے۔ سو وہ میرے لیئے ایک بہت بڑی آئیڈیل شخصیت ہیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے مصنف اور میرے بہت اچھے دوست جناب ظفر عباس نقوی صاحب نے اس ملاقات کا اہتمام کیا جو سلمان رشید صاحب کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ٹھیک پانچ بجے ہم اُن کے گھر پہنچے تو نیلی شرٹ اور شارٹس میں ملبوس سلمان صاحب ہمیں اندر اپنی لائبریری میں لے گئے جو بات کرنے کے لیئے میرے نزدیک سب سے بہترین جگہ تھی۔
جگہ جگہ کتابیں اور پیپر بکھرے پڑے تھے، میں نے کچھ وقت لیا اور تمام کتب کو سکین کر کے دو چار چھانٹ لیں جن پہ میری نیت خراب تھی۔
وقت کم تھا سو میں نے تمام تکلفات بالائے طاق رکھتے ہوئے گفتگو شروع کی اور ان سے کچھ سوالات کیئے جن کے جوابا انہوں نے کسی دوست کی طرح ہنسی خوشی دیئے۔
پہلا سوال تھا کہ اُس دور میں آپ نے بلوچستان اور دور دراز کے سفر کیئے جب کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، کیا مشکلات پیش آئیں۔؟؟
انہوں نے بتایا کے یہ جو کتابیں لکھی ہیں، یہ سب ایک ہی سفر میں ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے لیئے کسی بھی جگہ دو چار بار جانا پڑتا ہے۔ کچھ دفعہ چیزیں ملتی ہیں کچھ دفعہ نہیں۔ وقت نکال کے دوبارہ یا تسری بار بھی جانا پڑتا تھا۔ ہر قسم کی سواری استعمال کرنی پڑتی تھی کہ ہر جگہ پکی سڑک نہیں تھی۔ اور موبائل کا تو زمانہ ہی نہیں تھا، گھر والوں سے رابطہ کبھی کبھی ہوتا تھا۔

میرا سوال تھا کے انڈس کوئین کو آپ نے سب سے پہلے تب دریافت کیا جب وہاں راستے بھی کچے تھے اور اس کی تاریخ بھی آپ ہی کے توسط منظرِ عام پر آئی، تو یہ سب آپ تک کیسے پہنچا۔؟؟
انہوں نے بتایا کے اس کا مجھے ایک دوست نے بتایا تھا کے ایک بیڑی چلتی ہے اس علاقے میں۔ میں وہاں پہنچا اور پوچھنا شروع کیا کے کہاں سے آئی ہے۔؟؟
تو پھر پتہ چلا کے یہ پہلے ستلج کوئین تھا جو ریاست بہاولپور کے نوابوں کی ملکیت تھا۔ اسی طرح مقامی لوگوں سے کافی معلومات ملیں۔ لیکن ہم چوکیداروں یا مقامیوں سے تو تاریخ نہیں سیکھ سکتے، ان کو اگر مستند تاریخ کا علم ہوتا تو وہ اب تک محکمہ آثارِ قدیمہ کے ڈائریکٹر لگ جاتے۔ اس کے لیئے پھر میں نے پڑھا اور آج سے چالیس سال پہلے مجھے سارا سارا دن لائبریری میں پڑھنا پڑتا تھا تب جا کے معلومات ملتی تھیں، اور آج یہ سب ایک کلک سے مل جاتا ہے۔

میں نے بتایا کہ آُپ کا بلوچستان کی چھپر گھاٹی کا سفر میرا پسندیدہ ہے اور میں نے بھی اس پر لکھا ہے۔ میری جین اور اس پورے علاقے پر آپ کی زبردست تحقیق ہے۔ انہیں سبی ہرنائی ٹریک کے حوالے سے آگاہ کیا کہ بحالی کے بعد پھر وہاں بارشوں نے تباہی مچائی تو وہ بند کرنا پڑا۔ اس دور کے بارے میں پوچھا تو سلمان صاحب
کہتے؛
میں بھی ٹرین پہ گیا تھا خوست تک اور یہ بات ہے 1987 کی، مارچ 1987 کی۔
وہاں اسٹیشن ماسٹر مانسہرے کا تھا۔
مجھے کہتا جی کے تھوڑا آگے زردالو ہے اور چھپر رفٹ ہے۔ میں نے پڑھا تو ہوا تھا اس کے بارے، پوچھا کے کیسے جا سکتا ہوں۔۔۔؟
کہتا ٹھہرو جیپ کروا کے آپ کو لے چلتا ہوں۔ خیر بیٹھ بیٹھ بیٹھ کے بس ہو گئی جیپ نہ ملی۔ میں نے کہا میں واپس ٹرین تے جانا اے جی رات نئیں میں رہ سکدا، او کرنل صاب پریشان ہو جاون گے جِنہاں مینوں سبی توں روانہ کِتا سی۔۔
وہ مجھے کہنے لگا کہ نہیں نہیں اَسی ٹرین روک لَواں گے، تہانوں لے کے جائے گی ٹرین۔
تو بندہ بھیجا خوست میں اور پتہ چلا کے ایک ہی جیپ تھی کسی کوئلے کے ٹھیکیدار کی جو وہ لے کر فلاں جگہ گیا ہوا ہے۔ وہ نہیں آ سکا، تو چھپر رفٹ رہ گئی۔
وہاں سے سولہ سترہ کلو میٹر تھی بس، میں نہ دیکھ سکا۔
پھر 1993 میں، میں دوسری طرف سے آیا زیارت والی سڑک سے۔ اس زمانے میں کوئی خطرہ نہیں تھا، پرسکون علاقہ تھا۔ میں تو ایویں ہی پھرتا رہتا تھا، بیگ پیک اٹھایا اور نکل گیا۔
یہاں میں نے پوچھا کے وہاں کہیں آُپ کی پوسٹنگ ہوئی؟ تو بتلایا کے میری ساڑھے چھ سالہ فوج کی نوکری صرف پشاور اور کھاریاں تک محدود رہی ہے، اس کے علاوہ کہیں پوسٹنگ نہیں ہوئی۔
پھر میں نے انہیں کچھ تصاویر دکھائیں اس گھاٹی کی اور اس دوران انہوں نے پوچھا کے آپ نے تصویریں دیکھنی ہیں خوست کی۔۔۔۔؟؟؟
سر نیکی اور پوچھ پوچھ ، میں اور نقوی صاحب دونوں خوشی سے کِھل اٹھے۔
میرا جواب سن کے انہوں نے لیپ ٹاپ پہ اپنے پرانے البم کھول لیئے۔ مجھے ریلوے اسٹیشن ”خوست” کی تصویر دکھاتے ہوئے بولے کہ اب یہ عمارت ختم ہو چکی ہے لیکن اس کی کئی تصاویر میرے پاس محفوظ ہیں۔ ایک اور بلوچی بابے کی زبردست سی تصویر دکھائی جن کے چہرے پر عمر رفتہ کی کہانیاں پڑھی جا سکتی تھیں، کہنے لگے کے اس بندے نے ہمیں چھپررِفٹ اور دور و نزدیک کے بارے میں کافی کچھ بتایا تھا۔
چھپر گھاٹی پر بنے لوئیس مارگریٹ پل اور سرنگوں کی تصاویر دکھا کر ہم نے اس پر تبادلہ خیال کیا۔ یہ جگہ بھی کسی عجوبے سے کم نہیں ہے۔
ان کے ذخیرے میں کافی ایسے مقامات کی تصاویر محفوظ ہیں جو اب صفحہ ہستی سے بھی مٹ چکے ہیں۔ یہ واقعی اپنے آپ میں ایک اعزاز ہے۔

لکھنے کے حوالے سے میں نے پوچھا ”آج کے دور میں تحقیق کے بہت سے ذرائع دستیاب ہیں لیکن آپ کے شروعاتی دور میں یہ سب نہیں تھا، پھر آپ معلومات کیسے حاصل کرتے تھے۔۔۔َ؟؟؟”
انہوں نے بتایا کہ ہر دستیاب ذرائع سے معلومات لیتا تھا ( اور آج کل کا ہر اچھا لکھاری ایسا ہی کرتا ہے)۔ انگریزی کتب جو یہاں کمیاب تھیں وہ باہر سے منگواتا تھا۔ لوگوں باہر سے منگوا لیتا، پُرانے لوگوں سے ملتا، ان کی کہانیاں سنتا اور لائبریری میں بیٹھ کے کتابوں کی ورق گردانی کرتا تھا۔ بہت سی کتابیں پڑھتا تو پھر کہیں جا کے کچھ مواد اکٹھا ہوتا تھا۔
دوسرا یہ کے سُنی سنائی پہ بھی اندھا یقین نہیں کرنا چاہیئے اسے کنفرم کرنے کے لیئے مطالعہ ضروری ہے۔

پھر ذکر چھڑ گیا میری پسندیدہ جگہ ٹلہ جوگیاں کا۔
سلمان رشید صاحب ان چند لوگوں میں سے ہیں جو اس دور میں ٹِلہ پہنچے جب کوئی اس کے بارے میں جانتا بھی نا تھا۔ انٹرنیٹ پہ ٹلہ کی اولین تصاویر میں سے چند تصاویر اُن کی بھی ہیں۔
میرے اس سوال پر کے ٹِلہ جیسی جگہوں، جن کے بارے میں بہت سی سچی جھوٹی کہانیاں مشہور ہیں، کے بارے میں مستند تاریخی حقائق ڈھونڈنا مشکل نہیں ہو جاتا تھا۔۔۔۔۔۔۔؟
اُن کا جواب تھا کہ ”اکبر نامے” میں اس کا ذکر ہے، ”تزکِ جہانگیری” میں بھی ہے اور انگریزوں نے بھی کچھ لکھا کے کیا حالات تھے وہاں کے اس سے کچھ نہ کچھ پتہ چل جاتا ہے۔
اور ایک بات بتاؤں، جب تک یہاں ٹی وی نہیں پہنچا تھا تو لوگوں کے پاس واقعی سینہ گزٹ موجود تھا۔ مثلاً 1973 یا 74 کی بات ہے جب میں کھاریاں میں پوسٹڈ تھا (موصوف پاک فوج میں بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں)، تو ہم دو لفٹین ٹلہ جوگیاں اور روہتاس گئے۔ ہم وہاں قلعے پر پہنچ کے بونگیاں مار رہے تھے کیونکہ تب ہمیں بھی کچھ نہیں معلوم تھا۔ ان پڑھ تھے۔ تب وہاں ایک بابا آیا جس نے سر پہ پَنڈ اٹھائی ہوئی تھی لکڑی کی اور کہتا ؛
منڈیو کی پَئے کردے ہو ایتھے۔۔۔؟؟؟
اسی کہیا جی قلعہ ویکھن آئے آں۔۔۔۔
کہتا کِتھوں آئے او۔۔۔؟
اسی کیا کھاریاں توں۔
فوجی او۔۔۔؟؟؟
اسی کیا جی۔
تو ہم سے پوچھا کے ہمارا رینک کیا ہے۔ باتوں باتوں میں پتہ چلا کے وہ خود بھی فوج میں تھے اور پہلی جنگ عظیم لڑی ہوئی تھی۔
اس بابے نے دو باتیں ہمیں بہت کمال کی بتائیں کے قلعہ روہتاس کا مرکزی دروازہ اصل میں ”زحل دروازہ” ہے جسے اب سُہیل دروازہ کہتے ہیں۔ اور اس کانام زحل اس لیئے ہے کہ جب یہ تعمیر ہو رہا تھا تو زحل سیارہ بالکل اوپر تھا۔ آج کل زحل صبح کے وقت اوپر ہوتا ہے۔ اب وہاں دفن کسی پیر کا نام سہیل شاہ ہے تو دروازے کا نام بھی وہی رکھ دیا ہے۔ کسی ایک نے سہیل لکھا تو باقیوں نے بھی تحقیق کیئے بغیر یہی لکھ دیا۔ مکھی پہ مکھی مارنے کی عادت ہے یہاں پہ۔ ریسرچ نہیں ہے۔
میں نے اپنی کتاب ”واہگہ سے لنڈی کوتل تک” میں اس بات کا ذکر کیا ہے۔
ابھی حال ہی میں یہ چیز جب میں نے ٹوئٹر پر ڈالی تو ایک بھارتی حساب دان نے تحقیق کر کے مجھے بتایا کے1543 میں اُن مہینوں میں زحل واقعی اوپر تھا، اور یہ وہی وقت ہے جب یہاں تعمیرات کی جا رہی تھیں۔
تو آپ دیکھیں کے بابے کو چار، ساڑھے چار سو سال پرانی بات بھی یاد تھی۔
دوسری بات یہ بتائی کے جسے اب شاہ چاند ولی گیٹ کہتے ہیں یہ اصل میں ”اِندرکوٹ دروازہ” ہے اور پہلے قلعہ صرف اسی کے اندر والا تھا، اور آپ تاریخ پڑھ لیں کہ شیر شاہ سوری جب اسے بنانے کا حکم دے کر گیا تھا تو ایک بار ہی یہاں آیا اس کے بعد مر گیا۔ جِسے بڑے میاں اندرکوٹ دروازہ کہ رہے تھے وہی مرکزی دروازہ تھا اصل میں۔ چونکہ شیر شاہ نے یہاں بیس ہزار فوج رکھنی تھی تو اسے یہ چھوٹا محسوس ہوا سو اس نے اسے وسیع کر دیا تاکہ بیرکیں بنائی جا سکیں۔ پر تعمیر کے بعد وہ مر گیا۔
آپ یہ دیکھیں کے یہ پیر (چاند ولی) کدھر سے آ گیا۔۔۔؟؟؟ یہ تو گیریژن تھا، ایویں ہی کوئی اندر کیسے آ گیا۔
یہ سب ان لوگوں کی قبریں ہیں جو وہاں کرنل یا میجر لیول کے لوگ تھے۔ تعمیر کے دوران کسی پہ پتھر گر گیا تو کوئی بیمار ہو کے مر گیا اور انکو ہم نے پیر ولی بنا لیا۔ یہ بہت ساری چیزیں خود سوچنے سے پتہ چلتی ہیں۔

اس بیچ مجھے خیال آیا کے اپنے شہر خان پور میں موجود بی بی مائی صاحبہ (دادی نواب صادق محمد عباسی پنجم) کے تعمیر کروائے اس لاوارث مقبرے کے متعلق پوچھ لوں جس کی تعمیر کا سال وہاں کسی کو نہیں معلوم ۔ انہیں تصاویر دکھائیں اور کچھ تاریخ بتائی۔ کہنے لگے کے یہ تو انیسویں صدی میں تعمیر کیا گیا لگتا ہے اور یہ 1850 کے آس پاس بنایا گیا ہو گا۔ اتنا تو مجھے اندازہ تھا کے وہ مقبرہ لگ بھگ ڈیڑھ سو سال پرانا ہو گا، لیکن سلمان صاحب کی ماہرانہ رائے سے فائدہ اٹھانا بھی ضروری تھا۔
ملاقات کے بعد آپ ہمیں گیٹ تک رخصت کرنے اٸے اور یوں ایک شام کا اختتام ہوا۔
ایک بہترین شام، جس کی یادیں میرے ساتھ دیر تلک رہیں گی۔

۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 12 اکتوبر 2024
صبح آٹھ بجے،
ماڈل ٹاؤن پارک،
لاہور۔

مُستنصر حسین تارڑ صاحب کے بارے میں لکھنا ایسا ہی ہے جیسے سورج کو چراغ دکھانا۔ آپ نے نہ صرف ایک بہترین ناول نگار اور سفرنامہ نگار، بلکہ نقاد اور ٹی وی کے مشہور ترین میزبان کے طور پہ بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ اب تک “کارواں سرائے” کے نام سے آپ پروگرام پیش کر رہے ہیں۔
چند ناولوں اور خاکوں کے علاوہ زیادہ تر آپ نے سفرناموں میں طبع آزمائی کی جن میں بہاؤ، نکلے تیری تلاش میں، اندلس میں اجنبی، پیار کا پہلا شہر، قربتِ مرگ میں محبت، غارِ حرا میں ایک رات، جپسی، ہُنزہ داستان کے ٹو کہانی، یاک سرائے، سفر شمال کے، نانگا پربت، لاہور آوارگی، لاہور دیوانگی، جوکالیاں، شہر خالی کُوچہ خالی،کیوبا کہانی، تارڑ نامہ، منطق الطیر جدید، شامل ہیں۔ آپ کا زیادہ تر کام اردو زبان میں ہے اس لیئے آپ کے چاہنے والوں میں سیاح، کوہ نورد، خانہ بدوش، طلباء، استاد، محقق اور آرٹسٹ شامل ہیں۔

مُستنصر حسین تارڑ صاحب کے چاہنے والوں اور دوستوں کا اِکٹھ روزانہ صبح ماڈل ٹاؤن پارک میں ایک گھنے پیڑ کی چھاؤں تلے ہوتا ہے جِسے یار لوگوں نے ”تکیئہ تارڑ” کا نام دیا ہے۔ بھئی کیا خوب نام ہے۔ یہ تکیئہ بہت سوں کے لیئے اپنے روزمرہ کے جھمیلوں اور دفتری پریشانیوں سے فرار کی بہترین جگہ ہے۔

گزشتہ چند سالوں سے اب میرے لیئے یہ ایک رواج بن چکا ہے کہ جب بھی لاہور جاتا ہوں ایک یا دو دن تکیہ تارڑ پہ حاضری لازمی ہے۔ لاہور رہتے ہوئے تو اکثر و بیشتر چکر لگتے رہتے تھے۔ خیر اُس دن بھی میں اپنے شہر خان پور کی سوغات گجک لے کر پہنچا تو سب دوست بہت خوش ہوئے۔
تارڑ صاحب کو ہمیشہ کی طرح بتلایا گیا کے ”مچھلی والا ڈاکٹر” ہے (گزشتہ سال جب وہ رحیم یار خان تشریف لائے تو میں نے دریائے سندھ کی خاص توا فرائی مچھلی انہیں پیش کی تھی، جو اب میری پہچان بن چکی ہے)،
بغور دیکھ کر کہتے ”ہڑں تے او دریا وی سُک گیا ہونا اے جِتھوں دی مچھی سی”۔
اور پھر انہوں نے بتایا کے میں نے دو بار ہی اتنی لذیز مچھلی کھائی ہے، ایک تمہاری والی اور دوسری جو طارق عزیز لے کر آتا ہے (بلال گنج کی سرسوں کے تیل میں تلی ہوئی)۔
گجک دیکھ کے مزاقاً بولے ؛
توں اَے جان بوجھ کے لے آناں اے، تینوں پتہ اے میں سخت شیواں نئیں کھا سکدا۔۔۔۔۔
پھر پوچھا کے سندھ سفر کیسا رہا ۔۔۔؟
ان دنوں میں تھر پارکر اور نزدیکی علاقوں کا سفر کر کے لوٹا تھا۔ کچھ تفصیل بتائی تو سب سے مُخاطب ہوئے۔۔۔۔
یہ سفر میں مُجھے تصویریں بھیجتا رہا ہے، ساتھ تاریخ بھی تھی، بہت دلچسپ جگہیں تھیں۔ کچھ کا مجھے بھی نہیں معلوم تھا۔
مجھے کہتے تم اس پر کتاب لکھو۔
پہلے کچھ لکھا ہے۔۔۔؟؟
جی ۔۔۔
کیا۔۔۔؟؟
اخبارات و جرائد میں لکھتا رہتا ہوں۔
اسے چھوڑو، کوئی کتاب لکھی ہے۔۔َ؟؟؟
جی دو کتب ہیں۔ آپ کو بھی ایک دی تھی۔
کہتے میں پانچ دن کے بعد بھول جاتا ہوں کہ کس نے کون سی کتاب دی۔
بحرحال، تم کچھ وقت لو اور ریسرچ کر کے لکھو اس پر۔ اسے کتاب کی شکل میں شائع کرواؤ۔
اب مرشد کا حکم کوئی کیسے ٹال سکتا ہے۔ اس کے بعد وہ دیگر مہمانوں میں مصروف ہو گئے۔
تارڑ صاحب کی رفاقت میں بیٹھنے کے کئی فائدے ہیں۔
ایک تو بندہ بور نہیں ہوتا، دوسرا معلومات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، تیسرا نئی باتیں اور محاورے سننے کو ملتے ہیں، چوتھا لاہور کے دیسی ناشتے اور دیگر شہروں کی سوغاتیں بھی یہاں پہنچ جاتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دوستو !
موجودہ دور میں یہ اَشد ضروری ہے کہ انسان مختلف فیلڈز کے بہترین لوگوں کے ساتھ گفت و شنید کرتا رہے تاکہ اسے ہر قسم کی معلومات ملتی رہیں اور انسانی دماغ کی گرہیں کھلتی رہیں۔ اور کچھ نہیں تو اپنے گھر میں موجود بزرگوں کے پاس لازمی کچھ وقت گزارا کریں، یقین کریں بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply