ریت کا دروازہ/مبصر:مسلم انصاری

کتاب : ریت کا دروازہ
لیکھک : طاہر بن جیلون (موروکو)
مترجم : خورشید عالم
تبصرہ و انتخاب : مسلم انصاری

“دن پتھر ہوگئے ہیں اور ایک دوسرے پر جمع ہوتے جارہے ہیں”، “جس دن میری موت ہوگی ٹھیک اس دن تمہیں میرے بارے میں پتہ چلے گا وہ ایک شاندار بھرا ہوا دن ہوگا ایسا دن جب میرے اندر کی چڑیا گیت گائے گی”
صفحہ نمبر 50-51

بیانیہ :
اس کے پستان باندھ دئے گئے
تاکہ وہ کبھی نا ابھریں اور وہ بیک وقت عورتوں کے حمام میں چھوٹی بچیوں کی صورت اور مسجد میں چھوٹے بچوں کے طور پر جا سکتا تھا، اس کے ختنے کے روز، اس کا آلہ تناسل جو سرے سے ہی موجود نہیں تھا ایک انگوٹھا کاٹا گیا تاکہ خون اور ماس دکھے

کسی حد تک پلاٹ :
دراصل ایک بوڑھا قصہ گو جو چوک چوراہوں پر لوگوں کو جمع کرتا ہے اور کہانیاں سناتا ہے
لوگ اس کے گرویدہ ہو جاتے ہیں اور اس کی کہانی لوگوں کو جکڑ لیتی ہے، کہانی جو ایک ڈائری سے اخذ شدہ ہے
اور ڈائری ایک احمد نامی انسان کی ہے
احمد، جس کی پیدائش سے قبل اس کی سات بہنیں جنم لیتی ہیں اور اس کے باپ کو ڈر ہوتا ہے اگر اگلی بار بھی لڑکی پیدا ہوئی تو اس کی بیٹیوں کے چچا ساری جائیداد پر قبضہ کرلیں گے، تب وہ ایک پرزور دعویٰ کرتا ہے اور کھلی دعوت کے ساتھ چیخ کر کہتا ہے
اب کی بار اسے بیٹا ہوگا
حمل کھلنے کا دن سر پر ہے
اور دائی کچھ رقم کے عوض بچے کے باہر آنے میں مدد کرتی ہے، اعلان پورا اترتا ہے اور پھر ایک لڑکا جنم لیتا ہے
حالانکہ جب اس سے کپڑا ہٹایا جاتا ہے وہ اس جوڑے کہ آٹھویں بیٹی ہوتی ہے
احمد اسی بیٹی کا نام ہے، یہ کتاب احمد کی داستان ہے
جو کسی روز پھر سے لڑکی بن کر زاہرا ہو جاتا ہے
داستان گوئی چلتی رہتی ہے مگر پھر ایک روز جب حکومت چوک چوراہوں سے بھیڑ، ریڑھیاں اور قصہ گو کا ہجوم ہٹا لیتی ہے تب قصہ گو گم ہو جاتا ہے اور کہانی سامعین کے دلوں اور ذھنوں پر منڈلاتی ہے پھر بھی کہانی چلتی رہتی ہے

مزید برآں :
یہ کتاب خالد جاوید صاحب کے ناول “موت کی کتاب” سے قریب قریب بھیانک، توڑ پھوڑ دینے والی اور کربناک کھلی چیخ ہے ایسے ہی ایک موضوع پر انڈین اداکار عرفان خان مرحوم ایک فلم بنام “قصہ” بنا چکے ہیں مگر یاد رہے فلم کا اور کتاب کا اجمالی پلاٹ بہت زیادہ حد تک الگ ہے!

Advertisements
julia rana solicitors london

تجزیہ :
موروکو مصنف طاہر بن جیلون کی اس کتاب کو پڑھتے ہوئے کہیں ایسا محسوس ہوا کہ مذکورہ موضوع بمشکل ہی ترتیب سے اختتام تلک لے جایا جائے گا یا پھر یہ کہ مصنف بہت سے سوالات پڑھنے والوں کے سر تھوپ کر کہانی کو قصہ گو کی طرح کھو دیں گے (کہیں نہ کہیں اختتام کی سمت جاتے ہوئے یہ بات درست ہوتی گئی، اس لئے کہ جتنا بڑا یہ موضوع ہے سو دو سو صفحات میں سمیٹنا جلد بازی سا معلوم ہوتا ہے)
اس سب کے باوجود یہ کوئی عام فہم کہانی، ناول یا کتاب نہیں ہے یہ دبی ہوئی یا دبائی ہوئی بات ہے جس پر کوئی منہ نہیں کھولنا چاہتا
160 صفحات کی کتاب بالآخر صفحہ نمبر 123 پر آکر ختم ہوجاتی ہے مگر اس کے بعد وہ گم شدہ بوڑھا قصہ گو بھی لوٹ آتا ہے اور مصنف اس کا نپا تلا استعمال کرتا ہے
مگر یہ سب بے سود ہے
کیونکہ یہ کتاب آخر یا شروع میں ہی پڑھنے والے کو افسوس اور سچ کی پیپ سے منہ تک بھرنے کر مار چکی ہوگی!
صفحہ نمبر ایک سو سات آپ کو چیر دیگا
وہ ایک صفحہ تسلسل سے اس کتاب کو پڑھنے والے انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑنے والا وہ صفحہ سب پر بھاری اور ماخذِ موضوع ہے، میں اس کتاب سے کوئی اور اقتباس شیئر نہیں کرنے والا، میں چاہتا ہوں ہر کوئی یہ کتاب خود پڑھے نا کہ کسی قصہ گو سے سنے
دوستو ! یہ کتاب پڑھنی چاہئے
یہ ایک منفرد اور نیا تجربہ تھا جو کارگر ثابت ہوا ہے!

Facebook Comments

مسلم انصاری
مسلم انصاری کا تعلق کراچی سے ہے انہوں نے درسِ نظامی(ایم اے اسلامیات) کےبعد فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب بعنوان خاموش دریچے مکتبہ علم و عرفان لاہور نے مجموعہ نظم و نثر کے طور پر شائع کی۔جبکہ ان کی دوسری اور فکشن کی پہلی کتاب بنام "کابوس"بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ مسلم انصاری ان دنوں کراچی میں ایکسپریس نیوز میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply