بزدل پنجاب مزاحمت جوگا نہیں/ندیم اکرم جسپال

یہ جملہ اور اس طرح کے بے شمار طعنے کل سے سوشل میڈیا پہ چل رہے ہیں۔کوئی دوسری قوم کرتی تو اسے نسلی تعصب کہہ سکتے تھے اب کہہ بھی اپنے پنجابی رہے ہیں۔

پہلے یہ دیکھ لیں کہ آج کل کیوں اور کون کہہ رہے رہا،پھر اس ذہن سازی کا تاریخی پس منظر دیکھ لیتے ہیں۔عمران خان کی رہائی کی فائنل کال تھی جس میں پنجاب سے کم شرکت کی وجہ سے پی ٹی آئی کا عام کارکن یہ کہانی سن اور سنا رہا ہے۔یہ کہانی سُنانے والے جوئید چوہدری جیسے لوگ ہیں جنہوں نے یا تاریخ پڑھی نہیں یا احساسِ کمتری کے مارے بددیانت صحافی ہیں۔

اس جلسہ (دھرنا)میں پنجاب اور کے پی کی شرکت کی بات کریں تو پہلی بات یہ ذہن میں رکھیں کہ کے پی کے میں جماعت انصاف کی حکومت ہے۔وہ حکومتی مشینری سمیت کے پی اور پنجاب کی سرحد تک آئے ہیں۔پورے صوبے میں کہیں کوئی رکاوٹ نہیں،کہیں کوئی مسئلہ نہیں،ایک صوبے کے وسائل آپکی پُشت پہ ہیں،صوبے کا چیف منسٹر لیڈ کر رہا ہو تو کے پی سے تعداد کا زیادہ ہونا کوئی انوکھی بات نہیں۔البتہ انوکھی بات یہ ضرور ہے کہ کے پی کی لیڈرشپ غائب تھی۔اس بات کو قطعاً پنجابی پٹھان کا روپ نہ دیا جائے مگر بھاگنے والا گنڈاپور پنجابی نہیں ہے اور یہ پہلا موقع بھی نہیں وہ بھاگا ہے۔احتجاج کرتے کارکنان کو میدان جنگ میں چھوڑ کے پہلے بھی گنڈا پور صاحب بھاگے تھے اور کل پھر وہی بھاگے ہیں۔

یہ کہانیاں ہمارے ریاستی دانشوروں نے عوام کو سُنا رکھی ہیں کہ پنجاب نے تاریخی طور پہ کبھی مزاحمت نہیں کی۔حقیقت اس کے برعکس ہے۔لُوٹنے والے ابدالی،غوری سرحد کے علاقوں سے ہندوستان آتے تھے۔انہیں مزاحمت کہاں ہوتی تھی؟اب چونکہ لوٹیروں اور حملہ آوروں کو ریاست نے ہیرو بنا کے پیش کردیا تو آپ کو ریاست یہ کہاں بتاتی کہ انہیں مزاحمت پنجاب میں ہی ہوتی تھی۔افغانستان سے آئے دورانیوں کے خلاف بھی مزاحمت پنجاب کے بادشاہ رنجیت سنگھ ہی کرتا تھا۔

پھر برطانوی آئے،پورا ہندوستان مقبوضہ تھا،پنجاب آخری ریاستوں میں تھا جس پہ قبضہ ہوا تھا۔پنجاب لڑ کے انگریزوں کے ہاتھوں میں گیا تھا اور آج سو کالڈ مزاحمتی قومیں معاہدے کر کے گورے کی گود میں جا بیٹھیں تھیں۔احمد خان کھرل،ادھم سنگھ،اور بھگت سنگھ پنجابی ہی تھے۔خیر آپ کو غوری۔ غزنی پڑھانے والی ریاست نے کب احمد خان کھرل کا قصہ سنایا ہوگا۔آپ کی ریاست نے آپکو بتایا ہے کہ اٹھارہ سو ستاون میں بغاوت ہوئی تھی،یعنی محکوم قوم اپنے غاصب کے خلاف لڑے تو اسے بھی بغاوت پڑھایا جاتا ہے۔اسی “بغاوت” کو احمد خان کھرل نے جنگ آزادی سمجھ کے لڑا تھا۔

جب آپ کے اعظم اور مہاتما گورا سرکار سے ڈیل کرتے تھے تب بھی پنجاب میں ڈنڈے اور گولی کے ساتھ مزاحمت ہوتی تھی۔جب آپ “سیاسی” طور پہ لڑتے تھے پنجاب تب بھی گولی سے لڑتا تھا۔پنجاب نے گوروں سے لڑتے لاشیں دی ہیں پھر وہ جلیانوالہ باغ ہو،یا اجنالہ۔انیس تیرہ میں اُٹھنی والی غدر موومنٹ بھی پنجابیوں کی بنائی مزاحمتی تحریک تھی۔

پنجاب کے علاوہ وہ ریاستیں اور قومیں بھی بتا دیں جہاں گوروں کے خلاف اس سکیل پہ باقاعدہ مزاحمت ہوئی ہو؟جب آپ اپنی ہی قوم کو دھرم کے نام پہ بانٹ کے اقتدار کے خواب دیکھتے تھے تب بھی پنجاب میں مزاحمت چل رہی تھی۔

آج جس آزادی کو لے کے کسی کو مہاتما اور کسی کو اعظم بنا دیا گیا ہے اس آزادی میں انکا کیا حصہ ہے؟گورے نے لوٹا،جب من بھر گیا اور جنگ عظیم دوم کے بعد اپنی حالت پتلی ہوتی دیکھی تو ہندوستان چھوڑ دیا۔ان مزاحمتی قوموں کو کوئی یہ بتا دے کہ آزادی لڑ کے لی جاتی ہے،ٹرانسفر آف پاور کو آزادی لینا نہیں کہتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج میرے ورگے پنجابی پنجاب کی مزاحمت کی بات پہ طعنے اس لیے دے رہے ہیں کہ ان بیچاروں سے ریاست نے جبراً انکی زبان چھین لی،ان کی تاریخ چھین لی،ان پہ قابض رہنے والوں کو انکا ہیرو بنادیا۔اب نسل در نسل درسی جھوٹ پڑھ پڑھ کے انکا شعور مانتا ہی نہیں کہ پنجاب میں بھی مزاحمت ہو سکتی ہے۔پنجابیوں کو مزاحمت کے طعنے مارنے سے پہلے صرف اتنا سوچ لینا کہ ہندوستان کی ساری قومیں چھوڑ کے صرف پنجاب کی زبان کو کیوں ختم کیا گیا،پنجاب کو ہی کیوں تقسیم کیا گیا، پھر بھی پنجاب ان مزاحمتی ریاستوں سے ہر زاویہ سے آگے کیسے ہے؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply