عمران خان کیساتھ کون کھڑا ہے؟-شرافت رانا

پی ٹی آئی کا کوئی مستقبل نہیں۔ اس کا آخری ٹارگٹ عمران خان کی رہائی اور مقدمات ختم کروانا ہے۔ اس کے بعد شاید عمران خان کبھی سیاست نہ کرے۔

جس روز عمران خان کی حکومت ختم ہوئی تھی ۔ اسی روز لکھا تھا کہ جسٹس بندیال اور سپریم کورٹ عمران خان کے ساتھ زیادتی کر رہی ہے۔ عمران خان کے خلاف مقدمات میں حکم امتناعی بلاجواز اور ناجائز طور پر دیے گئے اور عمران خان کو تھوک کے حساب سے ضمانتیں دی گئیں۔ اس وقت تک عمران خان کے خلاف چار یا پانچ مقدمات تھے ۔ اگر عمران خان کو گرفتار کر لیا جاتا تو تین سے چھ مہینے کے اندر عمران خان کی ضمانتیں ہو جاتی اور ممکن ہے کہ الیکشن سے قبل یا الیکشن کے بعد وہ بری بھی ہو جاتا۔
لیکن ججوں کے دماغ میں کچھ اور چل رہا تھا۔ جج سمجھتے تھے جس طرح وہ پیپلز پارٹی کو شکست دے سکتے ہیں ۔ نواز شریف کو جیل بھجوا سکتے ہیں ۔ اسی طرح ایسٹیبلشمنٹ کو بھی اگے لگا کر نچا لیں گے۔

اسٹیبلشمنٹ کے اندر موجود عمران خان کے ہمدرد ججوں سے براہ راست رابطہ میں تھے اور جج چونکہ تاریخ ، پولیٹیکل ڈائنامکس سے بالکل ناواقف اور احمق قسم کے دفتری لوگ ہوتے ہیں ۔ انہیں یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ وہ پاکستان کی ریاست میں سب سے بڑے پاور پلیئر ہیں ۔
ججوں نے عمران خان کے حق میں قانون اور آئین سے بڑھ کر فیصلے دینے شروع کیے اور عمران خان کو بغاوت پر آمادہ کیا۔ ججوں اور فوج کے اندر اپنی لابی کی انگشت پر عمران خان نے باغی بننے کا فیصلہ کیا۔

عمران خان بذات خود  تاریخ اور سیاسی عمل سے ناواقف کٹھ پتلی قسم کا شخص ہے۔ اس کی اپنی تجزیہ کی صلاحیت زیرو ہے ۔ وہ کان میں پڑنے والی ہر آواز کے پیچھے لبیک کہنا جانتا ہے اور اسے عقلمندی سمجھتا ہے ۔

میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سے مسلسل لکھ رہا ہوں کہ ججوں اور جرنیلوں کے اس گٹھ جوڑنے نہ صرف عمران خان کا راستہ کھوٹا کیا عمران خان کا مستقبل برباد کیا بلکہ انہوں نے عمران خان کے لیے مسائل پیدا کیے۔

10 اپریل 2022 کو عمران خان کی حمایت عدالتی نظام اور فوج کے اندر بے مثال تھی۔ لیکن جب حافظ عاصم منیر کو آرمی چیف لگا دیا گیا۔ اور عمران خان نے اس کے آرمی چیف لگنے اور اس ایک شخص کے خلاف جدوجہد شروع کی تو آرمی چیف کو اپنے تحفظ کے لیے اپنی لابی کو مضبوط بنانے کے لیے مختلف قدم اٹھانا ہی تھے ۔ جن میں سب سے بڑا قدم یہ تھا کہ سب سے پہلے فیض اور باجوہ کے اعتماد والے افسروں کو نکالا جائے۔
حافظ عاصم منیر نے صبر اور تحمل کے ساتھ آہستہ آہستہ صفائی کا یہ عمل شروع کیا۔

چونکہ عمران خان کسی بھی سیاسی قوت کو ساتھ لے کر نہیں چلنا چاہ رہا تھا ۔ پارلیمان کے اندر بیٹھ کر اپنی حمایت میں اضافہ کی ہر کوشش کے مشورہ کو اس نے انکار کیا اور ریاست کو یرغمال بنا کر ریاست پر فتح پانے کی جدوجہد میں مصروف ہو گیا ۔ اس لیے پارلیمان کے اندر کی حمایت حافظ عاصم منیر کو ملی اور جواب میں پیپلز پارٹی نے 26ویں آئینی ترمیم حاصل کی۔

اب آج کی صورتحال یہ ہے کہ عملی طور پر فوج کے اندر سے عمران خان کے ساتھ مضبوطی سے منسلک تمام آفیسرز کو ریٹائر کیا جا چکا ہے یا کھڈے لائن لگایا جا چکا ہے۔ آج فوج کی قیادت ایک نئی قیادت ہے جس نے عاصم منیر کے ایک پیغام پر دھرنا کو 25 منٹ کے اندر اجاڑ کر رکھ دیا۔

عدالتی نظام کے اندر عمران خان کے وفادار ساتھی اور مہربان ججوں کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔ ان سے اختیارات چھین لیے گئے ہیں۔ نواز لیگ کی مدد سے حافظ عاصم منیر نے کچھ ایسی قانون سازی بھی کر لی ہے کہ آنے والے وقت میں عمران خان کی رہائی کا کوئی بندوبست دکھائی نہیں دیتا۔

یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ عمران خان اور اس کی جماعت نے خوشامد کو اپنا وطیرہ بنائے رکھا۔ ہم جیسے ناقص عقل کے طالب علم پی ٹی آئی کو ہمیشہ سمجھاتے رہے کہ اسے سیاسی عمل میں شریک ہونا چاہیے ۔ پارلیمان کے اندر بیٹھنا چاہیے اور پارلیمانی ڈائیلاگ کے ذریعے راستے بنانا چاہیے۔
لیکن عمران خان کے گرد جو حصار ہے ۔ ان میں کوئی بھی شخص تو سیاستدان نہیں ہے اور اگر اچھے برے بھلے تجربہ کار سیاستدان کچھ پی ٹی آئی میں سیکنڈ رو میں موجود تھے  تو انہیں لونڈے لپاڑے وکیلوں کی ایک بڑی تعداد نے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔

یہ سب لوگ عمران خان کے اس لیے قریب ہیں کہ وہ عمران خان کی ہر خواہش کو قانونی شکل دے کر پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ عمران خان نے جو کہا ہے ، اس سے اچھی قانونی حکمت عملی تو ممکن ہی نہیں ہے۔ حالانکہ عمران خان ایک اوسط سے کم عقل انسان ہے اور وہ کبھی بھی سیدھے راستہ پر چلنا نہ سیکھ سکا ہے اور نہ چل سکتا ہے۔

اس ساری صورتحال میں آنے والا وقت عمران خان اور پی ٹی آئی کے لیے کڑا ہے۔ ہم ناچیز تو روز اوّل سے پی ٹی ائی کو ایک پانی کا بلبلہ قرار دیتے ہیں جو اپنے مصنوعی سہاروں کی مدد سے موجود تھا۔
آنے والا وقت پی ٹی آئی پر بطور جماعت کڑا ہے عمران خان اور اس کے وفادار کارکنان پر کڑا ہے ۔ دیکھتے ہیں کہ عمران خان کے ساتھ کون کون کھڑا ہوتا ہے عمران خان کی سیاست عملی طور پر اس وقت ختم ہو چکی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

پھر وضاحت کر دوں کہ جو کچھ عمران خان کرتا ہے اسے ہم سیاسی عمل یا سیاست مانتے ہی نہیں ہیں۔ عمران خان صرف ریاست سے بغاوت کر کے فوج اور عدالتی نظام کے اندر موجود اپنے دوستوں کی مدد سے آرمی چیف کے ساتھ تعلقات کو نارمل کر کے دوبارہ نوکری کی درخواست دینا چاہتا ہے اس کے علاوہ اس کی عقل اور فہم میں کچھ آتا ہی نہیں ہے ۔
بشکریہ فیسبک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply