آپ کے ذہن پہ ایک ہی شخص مسلط ہے ، دماغ کے ہر گوشے کا ہر خلیہ اسی کی یاد، تڑپ اور خواہش سے گھرا ہوا ہے، تسلط کی یہ شکل کسی بھی حبس زدہ زندان سے زیادہ خطرناک اور تکلیف دہ ہے کہ زندان میں سانس لینے والے اعضاء ٹھیک کام کر رہے ہوتے ہیں بس ہوا کی کمی محسوس ہوتی ہے لیکن اس تسلط میں دماغ سے لے کر پھیپھڑوں تک اور سانس کی نالی سے لے کر نتھنوں تک ہر عضو سانس لینے سے انکاری دکھائی دیتا ہے ۔ اس ذہنی زندان کو ” لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا ” کے مصداق ہم خود ہی اپنے لئے تعمیر کرتے ییں، جس کی دیواریں توقعات اور سلاخیں سوچوں کے تکرار سے اٹھائی جاتی ہیں ۔
اس کیفیت کو محبت کا نام دینا غلطی ہے، یہ obsession ہے، ان دو کیفیات میں بنیادی فرق آزادی کا ہونا یا نہ ہونا ہے، اگر آپ کے دل و دماغ خود کو فطرتاً آزاد محسوس کرتے ہیں تو یہ محبت ہے، اگر ماہئ بے آب کی طرح خود کو جال میں پھنسا ہوا پاتے ہیں تو اسے obsession کہیں گے۔
انسانی دماغ جہاں حقیقت سے بھی زیادہ شفاف اور رنگین مناظر تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہیں یہ صلاحیت کوئی خود ساختہ زندان بھی تعمیر کر سکتی ہے، ہر بار سوچ کا دہرایا جانا دماغ پر زنجیر کی نئی تہہ چڑھاتا جاتا ہے، دماغ کو باغ سے تشبیہ دینا بالکل درست ہے کہ جیسے بیج آپ ڈالتے جائیں گے، ویسے ہی درخت اور جڑی بوٹیاں پھلتی پھولتی جائیں گی، عشق کا مارا فرد محبوب کو لے کر وسوسے، شکوک، امید، توقعات اور بے وفائی کے بیج بوتا ہے اور یہ بیج آکاس بیل میں بدلتے ہوئے فرد کی پوری شخصیت کو اپنے حصار میں جکڑ لیتے ہیں ۔ سوچوں کی تکرار نیورانز کے نئے کنکشنز بناتی ہے، عقل پہ، انگریزی محاورے کے مطابق ، گلابی عینک چڑھ جاتی ہے اور ہم ہر چیز اور ہر واقعے میں ایک ہی شخص کی تصویر دیکھتے ہیں، ریڈیو پہ کوئی گیت ہمیں تقدیر کا پیغام لگتا ہے، معمولی اتفاق کسی آفاقی علامت میں بدل جاتا ہے، کوئی عام سا اشارہ ہمیں محبت کا اظہار لگتا ہے۔ حقیقت کو مسخ کرتی یہ تمام علامات ذہنی زندان کی چغلی کھا رہی ہیں ۔
اس ذہنی کڑکی کی گرفت تین نفسیاتی مراحل سے گزرتی ہوئی سخت تر ہوتی جاتی ہے،
پہلے مرحلے میں ہمارے دماغ کا فوکس تنگ ہوتا ہوا محبوب کے مثبت خواص پہ جا کر اٹک جاتا ہے، اسے اب انسان سے بڑھا کر ہم دیوتا کا روپ دیتے ہیں، اس کی خامیوں، کجیوں اور منفی پہلوؤں کو دیکھنے سے عاشق قاصر رہتا ہے.
اس کے آگے والے مرحلے میں گرفت کی شدت بڑھتی ہے ، عاشق کی خوشی کا واحد منبع اب معشوق ہے، روح و وجود کے خالی پن کو بھرنے کی کنجی محبوب کے قرب کے علاوہ کچھ نہیں ۔
تیسرا جذباتی انحصار ہے، یہاں عاشق کے جذبات میں اتار چڑھاؤ محبوب کا رویہ طے کرتا ہے، نہ ملے تو کرب، دکھ اور غصہ، مل جائے تو اپنے آپ کو کوسنا کہ خواہ مخواہ اس دیوتا کو بے رخی کا الزام دیا، خود الزامی کی اس کیفیت سے آنکھوں میں آنسو اتر آتے ہیں ۔
کچھ ہی وقت میں اس زندان کا اثر جسم پر ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے، ہر وقت چوکس رہنا کہ محبوبِ جاں اس وقت کہاں اور کس کے ساتھ ہے، بار بار موبائل دیکھنا کہ شاید ان کا کوئی میسج آیا ہو، آن لائن تو ہیں لیکن مجھے میسج نہیں کر رہے، مجھے نہیں تو پھر کس کے ساتھ چیٹ کر رہے ہیں ؟، ایک طرف دل کو تسلی دینا اور دوسری طرف اسی دل کے وسوسوں پہ یقین کرنا، ایسے میں رقیب کے چہرے کا اطمینان بھی تن بدن میں آگ لگا دیتا ہے، نیند نہیں آتی ، کھانے کا من نہیں کرتا، آواز کی کھنک ختم ہو جاتی ہے، پلکیں بھاری پڑ جاتی ہیں ۔
یہ گھمبیر صورتحال ہر اس شخص کے ساتھ پیش آ سکتی ہے جو مادیت سے قدرے بلند ہے، بہت زیادہ مادہ پرستی جمالیاتی حس اور عشقیہ جذبات پہ پردہ ڈال دیتی ہے، لہذا اگر آپ ایسی کسی کیفیت سے دوچار ہیں تو مبارکباد کے مستحق ہیں۔
اس اذیت کی اصل بنیاد ان معاملات پہ قابو پانے کی کوشش ہے جو آپ کے قابو میں نہیں، جیسے محبوب کی پسند ناپسند کا فیصلہ اپنے ہاتھ لینا، اس کے کسی بھی انتخاب یا مصروفیت کو اپنی جانب موڑنا، یہ چاہنا کہ وہ بھی ہر لمحہ آپ کے بارے سوچے جیسے آپ اس کے بارے سوچتے ہیں، ہمارے توجہ دینے پر ہم محبوب سے من پسند ردعمل چاہتے ہیں، یہ چیز جاننا بہت اہم ہے کہ کچھ معاملات ایسے ہیں جن پہ ہم قابو پا سکتے ہیں یعنی کنترول کر سکتے ہیں اور کئی چیزیں ہمارے کنٹرول سے باہر ہیں، انہی ثانی الذکر کو اپنے کنٹرول میں لانے کی لاحاصل جستجو ہی کرب و اذیت کی حقیقی وجہ ہے۔ بے قابو پہ قابو پانے کی خواہش میں اس سے بھی جائیں گے جو قابو میں ہے ، کسی بھی دوسرے شخص کی سوچ یا جزبات پہ قابو نہیں پایا جا سکتا۔ دوسری طرف آپ کی شخصیت کی تکمیل اسی صورت ممکن ہے جب آپ کی پوری توجہ ان چیزوں پر ہو جن پر آپ کا کنٹرول ہے، اگر ایسا نہیں تو تکمیل کا عمل رک جائے گا ۔
اس کے بعد یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ جہان رنگ و بو کا اصول ہی تبدیلی ہے، روانی اور تغیر۔۔ احساسات اور جذبات بھی بدلتے ہیں، اور یہی زندگی کی گاڑی کو آگے لے جاتے ہیں، ہم ان احساسات کو جکڑ کر رکھنا چاہتے ہیں مگر بقول حافی
” پانی کون پکڑ سکتا ہے ”
ایسی کوئی بھی کوشش ناکامی سے دوچار ہوگی ، اور اس کوشش میں جتنا وقت صرف ہوگا ، وہ آپ کو گویا نکتۂ انجماد پہ یوں روکے رکھے گا کہ آپ اصحابِ کہف کی طرف کسی بھی پیشرفت سے معذور رہیں گے اور زمانہ غضب کی چال چل جائے گا ۔ جزبات وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں، مخصوص شخص کیلئے مخصوص جزبات دائمی نہیں، کل کو یہ بدل جائیں گے لیکن اس دوران آپ اپنا بہت نقصان کر چکے ہوں گے ۔
رواقیت کے بے تاج بادشاہ اور رومی سلطنت کے بادشاۂ تاجدار مارکس اوریلیئس نے اس ذہنی شکنجے سے نکلنے کی نصیحتوں میں ایک خوبصورت جملہ داغا ہے کہ
” ذہن کی یہ اذیتیں اس لئے ہیں کہ ہم خوشی کو باہر ڈھونڈھنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ وہ ہمارے اندر ہے، یہ اندر اور باہر کی کشمکش اس وجہ سے ہے کہ ہم اپنے جذبات میں تفریق نہیں کر پاتے کہ کونسے جذبات کی تسلی ہماری ذات سے منسلک ہے اور کن جزبات کی پیاس بجھانے کیلئے بیرونی مدد درکار ہوتی ہے، جذبات کی تربیت نہ ہوئی ہو تو فرد ہر جذبے کی تسکین دوسرے شخص میں ڈھونڈھے گا ”
ایک اور جگہ لکھتے ہیں ،
” کسی شخص کے انتخاب کو اپنے حق میں موڑنے کی کوشش دراصل اس شخص کا روحانی بلاتکار ہے، اگر آپ اپنی عزت کرتے ہیں تو دوسروں کو یہ حق دیں کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے اپنی مرضی سے کریں، اگر ان کا کوئی فیصلہ آپ کے خلاف جا رہا ہے تو اسے خندہ پیشانی سے قبول کرنے سے ہی آپ سامنے والے کو عزت دیتے ہیں “۔
ذہن پہ ایک ہی سوچ کا تسلط دراصل عقلی جمود کو جنم دیتا ہے اور یہ عقلی جمود پھر واپس سوچ کی تکرار کا باعث بنتا ہے، یوں یہ سلسلہ ایک دائرے کی صورت جاری رہتا ہے، پوری توجہ کا مرکز ایک ہی شخص ہوتو کائنات سکڑ کر ٹی وی سکرین جتنی رہ جاتی ہے، اس دائرے کو توڑنا لازم ہے، جزوی طور پر فطرت کے مناظر، جسمانی کثرت ، نئے سماجی تعلقات اور کسی بڑے مقصد کی جدوجہد اس دائرے کو توڑنے میں نہایت مددگار ہیں، اور ان سب سے بڑھ کر کلاسیکی ادب کا مطالعہ ہے، نفسیات کی پختگی صرف کلاسیکی ادب سے ہی ممکن ہے ۔ ویسے بھی تقدیر اگر آپ کو اس کربناک کیفیت تک لے آئی ہے تو یہ اس لئے کہ آپ کو کندن بنانا مقصود ہے، یہ اشارہ ہے ایک نئے جنم کا، آپ کیلئے ضروری ہے کہ کسی کو قصوروار ٹھہرائے بغیر اس کیفیت سے صبر وتحمل کے ساتھ نکلا جائے، نیطشے نے کہا تھا
” کرب کو صرف برداشت ہی نہیں کرنا بلکہ اسے اپنانا ہے ”
یاد رہے کہ ذہنی زندان ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم چہرے پہ ماسک چڑھائے رکھیں ، سماجی مطالبات کے زیر اثر اور محبوب کو بھائے جانے کیلئے ہم اپنا اصل چہرہ چھپانے پہ مجبور ہوتے ہیں، عزت نفس کی پرواہ کئے بغیر جی حضوری حتی کہ خوشامد تک پہ اتر آتے ہیں ، یہ غلامی کی بدتر شکل ہے، اس ذہنی تسلط سے نجات پاتے ہی فرد غلامی کے اس ماسک کو اتار پھینکتا ہے، یہ آزادی کی بلند ترین سطح ہے۔
یہ پورا عمل کسی ایک فرد کے تسلط سے نکلنے کا نام نہیں، نہ ہی یہ اس شخص بارے اپنی سوچوں کو لگام ڈالنے کا فعل ہے، یہ عمل اپنے رویوں کو پرکھنے ، اپنی شخصیت کے کمزور پہلوؤں کو طاقت میں بدلنے، نئے سرے سے دنیا کی اونچ نیچ کو سمجھنے اور انسانی فطرت کو گہرائیوں میں جاننے کا نام ہے، اندرونی کیمیاگری اسی کو کہتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں