پاکستانی سیاست پچھلی ایک دہائی میں تیزی سے تبدیل ہوئی ہے۔ جلسے جلوسوں کی بنیاد پر ہونے والے الیکشن ڈیجیٹل کمیونیکیشن کے سر پر لڑے جانے لگے ہیں۔ اب نوے کی دہائی کا سیاسی مزاج نظر نہیں آتا۔ شیخ رشید نے اپنی جماعت بنائی تو جلسے جلوسوں کی استعداد نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے ٹی وی چینلز کا سہارا لیا۔ فرد واحد کس طرح پرائم ٹائم میں جگہ بنا کر اپنی پہچان برقرار رکھ سکتا ہے یہ فارمولا انہوں نے بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ ایک سیٹ کی سیاسی جماعت ہونے کے باوجود وہ ملکی سیاست میں اپنی جگہ برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ اس کے بعد اگلے مرحلے میں تحریک انصاف ایسی سیاسی جماعت کے طور پر نظر آئی جس نے منظم انداز میں سوشل میڈیا پر اپنا نیٹ ورک بنایا اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنی کمیونیکیشن سٹریٹیجی ترتیب دی۔ یہاں تک کہ زیر عتاب ہونے کے باوجود تحریک انصاف نے ڈیجیٹل میڈیا کی بنیاد پر الیکشن کمپین ڈیزائن کی اور ووٹرز کو آزاد لڑنے والے اپنے امیدواروں کی پہچان کرائی۔ پاکستان کی الیکشن سٹریٹیجی میں یہ بہت کامیاب اور جدید سٹریٹیجی ہے جس نے باقی جماعتوں کو بھی باور کرا دیا کہ اب الیکشن نوے کی سیاسی سٹریٹیجی کے بجائے کسی اور انداز میں ہی لڑے جائیں گے۔ یہ بھی درست ہے کہ اگر کارکردگی کی بنیاد پر الیکشن لڑا جاتا تو تحریک انصاف کے پاس قابل ذکر کام نہیں تھا۔ حقائق تو یہی ہیں کہ بانی تحریک انصاف اپنے دور حکومت کے آخری دنوں میں مقبولیت کھو رہے تھے، مہنگائی تیزی سے بڑھ رہی تھی، تحریک انصاف کے قائدین ٹی وی چینلز پر ملک دیوالیہ ہونے کی اطلاع دے رہے تھے، ہمسایہ ممالک سے تعلقات خراب ہو چکے تھے، پنجاب میں عثمان بزدار اور ان کی ٹیم کی ناقص کارکردگی نے لوگوں کو ناراض کر رکھا تھا، پارٹی کے متعدد اہم ساتھی الگ ہو رہے تھے اور رہی سہی کسر فرح گوگی اینڈ کمپنی پوری کر رہی تھی۔ سرکاری افسران کی ٹرانسفر پوسٹنگ تک میں رشوت لینے کے الزامات عروج پر تھے۔ ان حالات میں حکومت چلے جانا کبڑے کو راس آنے والی لات کے مترادف تھا۔ حکومت ہاتھ سے جاتے ہی عمران خان اور تحریک انصاف کا بیانیہ انہیں انقلابی اور باغی کے روپ میں سامنے لایا۔ اس کے علاہ سب سے اہم کام مارکیٹنگ اور کمیونیکیشن سٹریٹیجی تھی۔ یہی سٹریٹیجی الیکشن اور اب 24 نومبر کے احتجاج کے دوران بھی نظر آئی۔ ایک احتجاج ڈی چوک میں تھا اور دوسرا سوشل میڈیا پر تھا۔ پنجاب سے تحریک انصاف عوام کو باہر لانے میں ناکام رہی۔ ملک گیر جماعت سمٹ کر ایک صوبے کے احتجاج تک محدود ہو گئی۔ یہ کسی بھی سیاسی جماعت کی بڑی ناکامی ہے کہ وہ ملکی سطح سے صوبائی سطح پر آ جائے لیکن ڈیجیٹل میڈیا اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی مدد سے تحریک انصاف دیگر جماعتوں پر بھاری نظر آئی۔ یہاں بات تحریک انصاف کی کامیابی یا ناکامی کی نہیں ہے بلکہ بعض دیگر سیاسی جماعتوں کی ناکام سٹریٹیجی کی ہے اسی سال مجھے صحافیوں کے ایک وفد کے ساتھ سندھ جانے کا اتفاق ہوا وہاں ہم نے حکومت سندھ کی جانب سے شروع کیے گئے متعدد پروجیکٹس کا وزٹ کیا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ جس سندھ کو ہم سوشل میڈیا، اخبارات یا ٹی وی چینلز پر دیکھتے تھے وہ بدل چکا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے توانائی اور صحت کے عالمی سطح کے منصوبے کامیابی سے متعارف کرائے ہیں۔ تھرکول پاور پلانٹ پر چائنیز کام کر رہے ہیں، اندرون سندھ جن علاقوں کے بارے میں ہمیں بتایا جاتا تھا کہ وہاں پینے کا پانی دستیاب نہیں اور زندگی انتہائی مشکل ہے وہاں کارڈیالوجی ہسپتال قائم کیے جا چکے ہیں۔ دوسری جانب کینسر کا روبوٹک علاج بھی سندھ میں مفت کیا جاتا ہے۔ یہ سہولت شوکت خانم میں بھی دستیاب نہیں۔ سیلاب زدگان کے تباہ ہونے والے ہزاروں گھروں کو دوبارہ تعمیر کرنے کا منصوبہ ہو، بجلی سستی کرنے کے لیے قدرتی ذخائر کا استعمال ہو یا پھر کینسر سمیت دیگر بیماریوں کے علاج کے لیے جدید مشینری لگانے کا کام ہو، سندھ حکومت مجھے ہر حوالے سے کامیاب نظر آئی۔ اسے پیپلز پارٹی کی بدقسمتی کہا جائے یا پھر دیگر جماعتوں کی خوش قسمتی کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے ان پروجیکٹ کو اس طرح سے مارکیٹ نہیں کیا جیسا کہ ضرورت تھی۔ خاص طور پر پنجاب میں تو عوام کو ان کا علم ہی نہیں ہے۔ یہی صورتحال مسلم لیگ ن کے یہاں بھی نظر آتی ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن نے اپنے پچھلے دور حکومت میں جدید ترین پراجیکٹس متعارف کرائے لیکن عوامی سطح پر انہیں متعارف کرانے میں ناکام رہی اور اب بھی وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔ وہ کئی بڑے ترقیاتی پراجیکٹس مکمل کرا چکی ہیں لیکن عوامی حلقوں تک ان کی پروجیکشن نہیں ہو رہی۔ مجھے یاد ہے کہ الیکشن سے پہلے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو نے ایک سال میں لاہور کے درجن بھر سے زائد دورے کیے۔ بلاول ہاؤس بحریہ ٹاؤن تھا لیکن کارکنوں سے رابطے بہتر بنانے کے لیے ماڈل ٹاؤن میں دفتر بنایا گیا۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی کا نیٹ ورک پنجاب میں اس طرح سے نہیں بن سکا جیسا کہ ہونا چاہیے۔ جب میں سندھ میں ہونے والے پروجیکٹس کو دیکھتا ہوں تو مجھے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی پروجیکشن میں ناکامی اور بھی زیادہ لگنے لگتی
ہے۔ حکومت میں موجود دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کا مضبوط کمیونیکیشن نیٹ ورک نہیں ہے۔ آج کے دور میں میڈیا مینجمنٹ صرف اخبارات میں خبر چھپوا کر پریس کلپنگ تک محدود نہیں رہی۔ تحریک انصاف نے اپنی کامیابی کے لیے جو ٹولز استعمال کیے ابھی تک دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اس تک نہیں پہنچ پائیں۔ جو سیل بنائے سن میں بھی زیادہ تر سیاسی اور سفارشی بھرتیاں نظر آئیں۔ اس وقت پنجاب میں پیپلز پارٹی کے پاس ایک ہی ایسی بڑی سیٹ ہے جو اس حوالے سے فعال کردار ادا کر سکتی ہے۔ اگر گورنر ہاؤس کو مرکز بنا لیا جائے اور پیپلز پارٹی ایک ایسا میڈیا و سوشل میڈیا سیل بنانے میں کامیاب ہو جائے جس میں سیاسی یا سفارشی بھرتی کے بجائے ایکسپرٹ شامل کیے جائیں تو اگلے الیکشن تک پارٹی اور میڈیا ورکرز کا نیٹ ورک بن سکتا ہے۔ لوگ کارکردگی دیکھتے ہیں۔ تحریک انصاف کچھ نہ کر کے بھی اپنا کمیونیکیشن نیٹ ورک قائم رکھے ہوئے ہے جبکہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں ہی اپنے اپنے صوبوں میں بے پناہ ترقیاتی کام کرانے کے باوجود اپنی پروجیکشن میں کامیاب نہیں ہو پائے۔ ابھی شاید کچھ وقت ہے جس میں انٹرنل اور ایکسٹرنل کمیونیکیشن ماڈلز بنائے جا سکتے ہیں کہ پورے صوبے میں پارٹی ورکرز اور عوام سے ایک کلک پر رابطہ ہو اور پارٹی بیانیہ فوراً سب تک پہنچ سکے۔ اگر اس بار بھی ان بڑی جماعتوں نے اس معاملہ میں لاپروائی کی تو اگلے الیکشن میں انہیں تمام تر ترقیاتی کاموں کے باوجود مشکلات کا سامنا ہو گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں