حالیہ واقعے پر رنجور و دلبرداشتہ، بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا کہ ساورکر کی سوانح کا ایک حصہ یاد آیا۔ پلٹ کر آیا اور دوبارہ پڑھا تو خیال آیا کہ آپ لوگوں کے لیے بھی ترجمہ کروں(میں نے ترجمے سے پورے طور انصاف کی حتی المقدور کوشش کی ہے)!
حالیہ واقعہ یا اس جیسے واقعات کو سمجھنے، ان کے تدارک و انسداد، اور اس پہلو کوئی لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے لازم آتا ہے کہ ان کے پیچھے کارفرما لوگوں کی ذہنیت و نفسیات کو سمجھا جائے، اور ایسی ذہنیت و نفسیات کے منبع و ماخذ کا جہاں تک مقدور ہو تفصیلی جائزہ لیا جائے!
(مناسب لگے تو پلیز شیئر ضرور کریں کہ شاید اس پہلو مطالعے کے لیے کسی کا تجسس ابھارنے کا سبب بنے)
۶ فروری ۱۸۹۴ء کو, ایولہ، جو کہ ضلع ناشِک کا ایک چھوٹا سا بنُائی مرکز ہے، میں ایک خبر پر ایک تنازعہ اُبھرا، کہ ‘مقامی مسجد میں سور کا سر پھینکا گیا ہے’۔ خبر ملتے ہی ‘معاملاتدار’ مسجد کو گئے اور پایا کہ ایک نصف سے کٹے، مرے ہوئے سور کے دو حصے مسجد و احاطے میں پڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے جمع ہوئی بھیڑ کو ‘کسی انتقامی کاروائی’ سے باز رہنے کی تاکید کی۔ لیکن کچھ ہی دیر میں خبر آئی کہ ‘مسلمانوں نے ہندوؤں کے مندر میں گائے کاٹ کر انتقام لیا ہے’ اس سے فساد مزید بڑھا اور فوجی مداخلت کی نوبت آئی۔ بعد ازاں ‘معاملاتدار’ نے سنا کہ ‘ہندو جمعہ مسجد کو جلانے کی تیاریاں کر رہے ہیں’ جب تک کہ پولیس کے حفاظتی دستوں کا انتظام ہوتا، خبر آئی کہ ‘مسلمانوں نے مُرلی دھر مندر کو آگ لگا دی ہے’ باقی جگہوں پر دوسرے مسجد و مندر بھی ٹوٹے اور تباہ ہوئے۔ چار لوگ مارے گئے۔
حکومتی کارندوں نے اس تیزی سے پھیلے فساد کو ‘گائے کے تحفظ کی تحریک’ سے منسوب کر کے پیش کیا، جسے زیادہ قبول عام ملا۔ یہ ہندوؤں کے مصلح سوامی دیا نند سرسوتی کے قائم کردہ آریا سماج کے بالکل مرکزی اصولوں میں سے تھا۔ گایوں کے تحفظ کی سوسائٹیاں پنجاب میں ۱۸۸۲ء سے ہی قائم تھیں۔ بامبے میں، ۱۸۸۷ء کے قریب مویشیوں کے تحفظ و بقا کے لیے سوسائٹی کا قیام عمل میں آیا جس کے نیک مقاصد میں گئو شالائیں بنانا اور لاوارث اور بے گھر جانوروں کے لیے رہنے کی جگہ کا انتظام کرنا تھا۔ بعد ازاں ۱۸۹۰ء تک گائے کے تحفظ کی یہ سوسائٹیاں اطراف دکن کے کئی صوبوں میں پھیل گئیں جن میں احمد نگر، بیلگام، دھروار، پونہ، ستارا، ناشِک اور ایولہ وغیرہ شامل تھے۔
دونوں برادر یوں کے درمیان آئے دن جھڑپوں کی دوسری پریشان کن وجہ ہندو مذہبی موسیقی (بھجن) کا مسجدوں کے سامنے بجنا تھا۔ موسیقی اسلام میں ممنوع تصور کی جاتی ہے، مسلمانوں کے مذہبی رہنماؤں نے ان جلوسوں پر اپنی نفرت کا اظہار کیا جو ان کی عبادت گاہوں کے سامنے سے تیز موسیقی بجاتے ہوئے گزرتے تھے۔ وہیں ہندوؤں نے اس بات کا یہ کہہ کر مقابلہ کیا کہ وہ ایک عوامی جگہ استعمال کر رہے ہیں جہاں کوئی ان پر یوں حکم نہیں چلا سکتا۔۱۹۵۹ء کے قریب ‘بامبے صدر فوجداری عدالت’ نے یہ فیصلہ سنایا کہ مندروں میں موسیقی، جو مذہبی رسومات کا حصہ ہیں ان کا احترام کیا جانا چاہیے، جبکہ جلوس والی موسیقی جو ہندو مذہبی رسومات کا لازمی جزو نہیں ہیں، ان کی اجازت تب تک ہے جب تک کہ وہ دوسروں کی آزادی میں خلل نہ ڈال رہے ہوں۔ اسی طرح مسلمانوں کو ان کی مسجدوں میں عبادت کا حق محفوظ ہے جب تک کہ وہ دوسروں کے لیے پریشانی کا باعث نہ ہو۔ اور ہندوؤں کو موسیقی کے ساتھ جلوس نکالنے کی آزادی ہے جب تک کہ وہ دوسروں کے لیے پریشانی کا باعث نہ ہوں۔ لیکن جب بھی یہ پریشانی بنیں، ججوں کا خیال ہے کہ اس پر قدغن لگنا چاہیے۔
‘کیسری’ میں، تلک نے گائے کے قتل کے معاملوں میں حکومت پر ‘مسلمانوں کے جذبات کی تسکین’ کا الزام لگاتے ہوئے سخت مذمت کی، وہ معاملے کہ جس سے اتنے بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے۔
جلوس کی موسیقی کے معاملے نے بھی انہیں پریشان کیا، اور انہوں نے فیصلہ کیا وہ گنپتی کے جلوس کو پچھلے تمام تہواروں سے بڑا اور عالیشان کر کے بدلہ لیں گے۔ ان جلوسوں میں زور و شور کے ساتھ ہندوؤں کو جنگی معرکے کے لیے تیار رہنے اور ‘شیواجی کے طرز کی بغاوت’ کے نعرے لگے، وہ بغاوت جو انہوں نے جناتی طاقتوں کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے کی تھی۔
اس تہوار کا انتظام و اہتمام ایک ‘تحریکی میلے’ کے طور پر ہوا۔ میلے میں لاٹھی بردار طلبا اور نوجوانوں نے مختلف طرز کے لباسوں میں گانے، ناچنے، لڑنے اور تلوار بازی کی مشقیں کی۔ ہر میلہ ایک مخصوص گنپتی کے جشن کے ساتھ وابستہ تھا جو تہوار کے پہلے اور بعد کے دس دنوں میں علاقے و اطراف میں گردش کو نکلتا۔ انہوں نے مختلف شلوک اور نغموں کے مظاہرے کیے جن میں موجودہ سیاسی حالات کے حوالہ جات مضمر تھے۔ وہ یہی نغمے تھے کہ جن پر مسلمانوں نے اعتراض جتائے اور نتیجتا فرقہ وارانہ غیر محفوظ صورت حال بنی۔ ‘ونایک’ اور ان کے دوست ‘کیسری’ ‘پونے ویبھو’ اور دیگر اخبارات سے اُن خونی فسادات اور مہاراشٹر کی متضاد و منقسم، سلگتی ہوئی صورت حال کا باریکی سے جائزہ لے رہے تھے۔ جب جب بھی وہ ہندوؤں پر حملے سے متعلق سنتے، طیش میں آ جاتے اور سوچتے کہ آخر ہندوؤں کا آپس میں اتحاد کیوں نہیں ہوتا اور آخر یہ جبر سہنے کے بجائے بدلہ کیوں نہیں لیتے۔
فسادات کا بدلہ لینے کے لیے ونایک اور ان کے دوستوں نے بھاگور کی ایک مسجد پر خفیہ حملے کا منصوبہ بنایا، جو کہ دہائیوں سے متروک تھی۔ پَو پھٹے، اندھیرا چھٹنے سے پہلے لڑکوں کے اس گروہ نے اپنے ہتھیاروں کے ساتھ مسجد پر حملہ کیا، بہت سے حصے مسمار کیے اور فورا بھاگ نکلے۔ یہ خبر جب ان کے مسلم ہم جماعتوں کو پہنچی تو وہ بھڑک اٹھے اور اسکول میں مد بھیڑ ہوئی۔ جس میں اپنے ‘ہتھیاروں’ سے لیس ‘ہندوؤں’ نے ونایک کی رہنمائی میں ‘مخالفین’ پر قابو پا لیا۔ بعد میں عارضی صلح ہوئی اور طرفین کی رضامندی سے یہ طے پایا کہ بات اساتذہ کی توجہ میں نہیں آنی چاہیے۔ جبکہ کچھ مسلم بچے طیش سے کھول رہے تھے، اور بدلہ چاہتے تھے اس قَسَم کے ساتھ کہ کسی برہمن لڑکے کے منہ میں گوشت ڈالیں گے۔
حالانکہ یہ سانحات بچوں کے جھگڑے کے طور نظر انداز کیے جا سکتے ہیں لیکن
ونایک نے اپنی سرگزشت میں اظہار تشکر کیا ہے کہ اِنہیں تجربات نے اُنہیں سکھایا کہ ہندو قوم کس قدر بٹی ہوئی اور غیر منظم تھی، اور انہیں پابند و محکوم کرنا کس قدر آسان تھا۔ ہندو ہمیشہ سے کچھ فرضی لکیروں کے ساتھ آپس میں بٹّے ہوئے تھے، خصوصا ذات کی بنیاد پر، اور یہ پہلو انہیں کسی بھی حملے کے لیے دُگنا غیر محفوظ بناتا تھا۔
وہ اپنی ذات میں عدم اعتمادی اور دوسروں کی ذات سے بدگمانی سے یکسر بھرے ہوئے تھے، اور ان میں خال خال ہی “مقصد” کو لے کر عہد بستہ تھے۔ ونایک نے اپنے گروہ کے لوگوں میں نظم و ضبط کا شعور، کرختگی و عزائم جیسے خواص کی ترسیل کے لیے ایک “ملٹری ٹریننگ اسکول” کے قیام کا فیصلہ کیا۔
لڑکوں نے خود کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر لیا۔ کچھ ان میں ہندوؤں کا کردار ادا کرتے جبکہ بقیہ دوسرے، مسلمانوں یا انگریزوں کا۔ نیم کے بیج کو فرض کر کے گولیوں کے طور پر استعمال کرتے۔ وہ لوگ جو نیم کے بیج کے حملوں سے نہ ڈرتے اور مخالفین کے ہتھیار پر قبضہ جماتے ہوئے میدان کے بیچ سے ہندو جھنڈا یا ‘بھگوا’ جھپٹ کر کسی طور لے آتے، وہ فاتح قرار پاتے۔
تقریبا ہر دفعہ ونایک ہی “ہندوؤں” کی قیادت کرتے اور جیت تک لے جاتے۔ اگر کبھی ‘مسلم یا انگریز’ جیتتے ہوئے معلوم ہوتے تو وہ معاملہ فہمی کے ساتھ انہیں مجبور کرتے کہ ایک بڑے ‘قومی مفاد’ کے تحت وہ شکست تسلیم کریں (آخر کو وہ صرف کھیل رہے تھے)۔ بہر حال ان کے ڈرامے میں ہندو کبھی بھی ہار نہیں سکتا تھا۔ ان کھیلوں کے بعد لڑکے فتح والے گیت گاتے اور پورے بھاگور میں پیریڈ کرتے۔ باباراو تیراندازی میں مہارت رکھتے تھے اور ونایک نے یہ فن ان سے سیکھنا شروع کیا۔ دامودر پنت کے اپنے گھر پر تلوار اور بندوق تھی، جسے ونایک بڑی حسرت سے دیکھتے، انہیں چھوتے اور محسوس کرتے، اور کوشش کرتے کہ اُن کا بھی استعمال سیکھ لیں۔
ذکی احمد کی فیسبک وال سے کاپی کیا گیا
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں