سرحد کے اس پار(افسانہ) -محمد عامر حسینی

نوٹ: حارث بٹ نے ایک سچا واقعہ بیان کیا جسے میں کچھ تبدیلیوں کے ساتھ افسانے کی شکل دی ہے –

محمد بوٹا کی زندگی میں وقت کا پہیہ رک سا گیا تھا۔ مریال کے کھیت، پرانے درخت، اور کچے راستے سب ویسے کے ویسے تھے، مگر اس کے دل میں ایک شخص کی یاد ہمیشہ تازہ تھی: شانت سنگھ۔ وہ شخص جو اپنی بے باکی، ضد، اور بغاوت کے لیے مشہور تھا، اور جس کی کہانی گاؤں کے بزرگ آج بھی سرگوشیوں میں سناتے تھے۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب مریال گاؤں کا سکون تقسیم کے طوفان میں بکھر رہا تھا۔ جہاں ہندو، سکھ، اور مسلمان ایک ساتھ رہتے تھے، وہاں اب شک اور نفرت کی دیواریں کھڑی ہو رہی تھیں۔ مگر اس ہنگامے میں شانت سنگھ اور محمد بوٹا کی دوستی ایسی تھی جیسے خشک زمین پر بارش کا پہلا قطرہ۔

شانت سنگھ، گاؤں کا سب سے بے چین نوجوان تھا۔ وہ گاؤں بھر میں اپنی شرارتوں کے لیے مشہور تھا، مگر اس کا دل بڑا تھا۔ محمد بوٹا، جو مالی طور پر کمزور تھا، ہمیشہ شانت کی مدد پر بھروسہ کرتا تھا۔ مگر شانت کی زندگی میں ایک اور راز تھا: چودھری کی بیٹی نعمت بی بی۔

نعمت بی بی، گاؤں کے سب سے بااثر شخص کی بیٹی تھی۔ وہ خوبصورت، سمجھدار اور اپنے والد کی سختیوں سے بیزار تھی۔ گاؤں کے رسم و رواج نے اس کے خوابوں کو قید کر رکھا تھا۔ شانت سنگھ کی بے باکی اور آزاد رویہ اسے اپنی طرف کھینچ لایا۔ شانت کے لیے شروع میں یہ تعلق محض ایک شرارت تھا، لیکن وقت کے ساتھ ان دونوں کے بیچ ایک گہری قربت پیدا ہو گئی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے رازدار بن گئے تھے۔

نعمت بی بی جانتی تھی کہ شانت کے دل میں چودھری کے خلاف غصہ ہے۔ اس کے والد نے بوٹے کے خاندان کے زیورات گروی رکھ کر ان کی زندگی مشکل بنا دی تھی، اور یہ بات شانت کے دل میں کانٹے کی طرح چبھی ہوئی تھی۔ ایک دن شانت نے نعمت بی بی سے اپنی دل کی بات کہی۔

“نعمت، میں چودھری سے حساب برابر کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے پاس بوٹے کے زیورات ہیں، جو وہ واپس نہیں دے رہا۔ کیا تم میری مدد کرو گی؟”

نعمت بی بی نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد کہا، “شانت، میں تمہاری مدد کروں گی۔ لیکن یہ سب بہت خطرناک ہے۔”

رات کی تاریکی میں، جب گاؤں کے لوگ سو رہے تھے، شانت اور نعمت بی بی چودھری کے گھر کی طرف بڑھے۔ نعمت بی بی کے پاس گھر کے اندر جانے کا راستہ تھا۔ وہ اپنے والد کے کمرے کی چابیاں لے کر آئی تھی۔ دونوں دبے قدموں گھر کے اندر داخل ہوئے۔ نعمت نے دروازہ کھولا، اور شانت نے الماری سے زیورات نکال لیے۔ وہاں کچھ اور قیمتی چیزیں بھی تھیں، جو شانت نے اٹھا لیں۔ ان دونوں کے دل زور زور سے دھڑک رہے تھے، مگر وہ کامیاب رہے۔

جب وہ دونوں باہر نکلے، تو شانت نے نعمت کا ہاتھ تھام کر کہا، “نعمت، تم نے میرے لیے بہت بڑا کام کیا ہے۔ میں یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گا۔”

نعمت بی بی نے شانت کی طرف دیکھا اور دھیمی آواز میں کہا، “شانت، مجھے بس اتنا یاد رکھنا کہ میں تمہارے لیے کچھ بھی کر سکتی ہوں، لیکن اب یہ راستہ بہت خطرناک ہے۔ تمہیں یہاں سے جانا ہوگا۔”

یہ واقعہ گاؤں میں ایک بڑے طوفان کی طرح پھیل گیا۔ چودھری کے گھر چوری کی خبر ہر طرف پھیل گئی، مگر کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ کام شانت سنگھ اور نعمت بی بی نے مل کر کیا ہے۔ چودھری غصے میں تھا، مگر وہ اپنی بیٹی کے کردار پر کوئی شک ظاہر نہیں کر سکتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر یہ راز کھل گیا، تو اس کی عزت خاک میں مل جائے گی۔

کچھ دن بعد، شانت نے بوٹے کو رات کے وقت جاگتے ہوئے بلایا۔ “بوٹے، یہ زیورات ہیں۔ یہ تمہارے مائی باپ کے ہیں۔ میں انہیں چودھری کے گھر سے لے آیا ہوں۔”

بوٹا حیران تھا۔ “شانت، تُو نے یہ کیسے کیا؟ یہ تو بہت خطرناک تھا۔”

شانت نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، “بوٹے، یہ میرا فرض تھا۔ اب میں یہاں سے جا رہا ہوں۔ حالات اب مزید ٹھیک نہیں رہیں گے۔ نعمت نے میری مدد کی، مگر اب میں اسے مزید مشکل میں نہیں ڈال سکتا۔ میں اپنے مائی باپ کے پاس گرداسپور جا رہا ہوں۔ اگر میں وہاں پہنچ گیا، تو تمہیں خط لکھوں گا۔”

رات کے اندھیرے میں شانت سنگھ گاؤں چھوڑ کر چلا گیا۔ بوٹا نے اسے جاتے ہوئے دیکھا، مگر اسے روکنے کی ہمت نہ ہوئی۔ صبح گاؤں میں شور تھا، مگر شانت کا کوئی نشان نہ ملا۔ کچھ دن بعد، بوٹے کو گرداسپور سے خط ملا۔ شانت نے لکھا تھا کہ وہ اپنے مائی باپ کے پاس پہنچ گیا ہے۔

بوٹا آج بھی شانت کو یاد کرتا ہے۔ نعمت بی بی کے بارے میں گاؤں میں کبھی کوئی بات نہ ہوئی، اور وہ چپ چاپ اپنے والد کے گھر میں رہتی رہی۔ لیکن بوٹے کو یقین ہے کہ نعمت بھی شانت کو نہیں بھولی ہوگی۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ کہانی مریال کی مٹی میں دفن ہو گئی، مگر محمد بوٹا کے دل میں آج بھی زندہ ہے۔ اور شاید کسی دن، جب سرحد کی لکیر مٹ جائے، شانت سنگھ واپس آئے اور بوٹے کے ساتھ وہی دن دوبارہ جیے۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply