کہاں گیا وہ دریا/شہزاد ملک

جہلم کینٹ کی چھوٹی سی پوسٹل کالونی اور دریائے جہلم کا فاصلہ ذیادہ نہیں تھا چھوٹے چچا جان کو کسی دن پڑھائی سے فراغت ہوتی تو وہ دریا کے کنارے جا کر بیٹھ جاتے اور گھنٹوں دریا میں اٹھتی لہروں کو دیکھا کرتے اکثر میں بھی ان کے ساتھ ہوتی اور دریا کنارے اگے جنگلی پھول توڑتی یا خوبصورت سنگریزے اکٹھے کرتی رہتی ان دنوں دریائے جہلم کا پاٹ بہت چوڑا اور پانی کا بہاؤ بہت تیز ہوا کرتا تھا عام دنوں میں دریا کی روانی بڑی پرسکون اور اس کا ہلکا سا شور کانوں کو بھلا لگتا تھا مگر برسات کے دنوں میں تو دریا غصیلے شیر کی طرح دھاڑنے لگتا آہستگی سے قلقل کر کے بہتی لہریں جھاگ اڑانے لگتیں رات کو کینٹ کا پرسکون علاقہ دریا کے شور سے گونجتا رہتا ان دنوں دریا کو دیکھنا خوفزدہ کردیتا اور میں ڈر کے مارے چچا جان کو بھی نہ جانے دیتی
اس سال برسات میں کچھ ذیادہ ہی شدت تھی کئی کئی دن موسلادھار بارش ہوتی رہتی شہر کے نشیبی علاقوں میں پانی بھر گیا تھا مگر کینٹ کا علاقہ بچا ہوا تھا دریا کناروں تک بھرا ہوا بڑی سرکشی سے بہہ رہا تھا اس کی غضب نا کی عروج پر تھی دریا میں چھوٹی چھوٹی جھاڑیوں کے ساتھ درخت بھی بہہ کر آنے لگے ایک دن شور مچ گیا کہ دریا میں پانی کا بہت بڑا ریلا آرہا ہے اور جہلم شہر کو سیلاب کا خطرہ لاحق ہے دریا کے کنارے پر آباد ملاح محلہ اور دوسری بستیاں خالی کرا لی گئیں کینٹ کا علاقہ اگرچہ خطرے کی زد میں نہیں تھا تاہم لوگوں کو انتظامیہ کی طرف سے چوکنا رہنے کی تاکید کردی گئی پوسٹل کالونی اور آرمی کی پریڈ گراؤنڈ کو ایک چھوٹی سی دیوار الگ کرتی تھی دن گذر گیا رات بڑی بھاری تھی دریا کناروں سے باہر نکلنے کو بیتاب تھا چیختی چنگھاڑتی لہروں کا شور کالونی تک یوں سنائی دے رہا تھا جیسے پانی ابھی اپنی حدیں توڑ کر آبادی کو نگل جائے گا کالونی کے لوگ ڈر کے مارے سو نہیں رہے تھے کہ پانی ان کی غفلت سے فائدہ نہ اٹھالے گھروں سے نکل کر مرد اور لڑکے دیوار پر چڑھ کر دریا کی نگرانی کر رہے تھے اندھیرے میں دکھائی تو کچھ بھی نہیں دے رہا تھا مگر پانی کا مہیب شور بتا رہا تھا کہ سیلابی ریلا پہنچ چکا ہے ہماری امی سمیت کالونی کی خواتین گھروں میں سیلاب سے بچاؤ کے لئے دست دعا بلند کئے ہوئی تھیں رات کا گذرتا ہوا ایک ایک پل کربناک تھا اللہ اللہ کر کے بالآخر اس دہشت ناک رات کی صبح ہوئی فجر کی اذان کالونی کی مسجد سے بلند ہوئی لوگوں نے نماز کے بعد رات خیریت سے گذر جانے پر اللہ کا شکر ادا کیا اور آئندہ کے لئے آفت ٹلے رہنے کی دعائیں کرتے ہوئے گھروں کو چلے گئے شہر کے کچھ علاقے جو بالکل دریا کے قریب تھے وہاں تک پانی کناروں سے اچھل کر آگیا مگر گھروں کے اندر داخل نہیں ہوا تھا
جب بھی ملک میں سیلابی کیفیت ہوتی ہے مجھے اپنے بچپن کی وہ رات یاد آجاتی ہے جو سیلاب کے صرف خوف سے ہی اتنی ہیبت ناک تھی سوچتی ہوں کہ جن لوگوں کو حقیقت میں اس قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ کتنے خوف بے بسی اور صدمے سے گذرتے ہیں گھربار مال اسباب کی تباہی کے ساتھ اپنے پیاروں کے بچھڑنے کا دکھ انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply