میرؔ کی وحشت پر ایک نوٹ/ناصر عباس نیّر

’’کھینچتا ہے دلوں کو صحرا کچھ’’
تنہائی کا ایک اپنا ، جداگانہ آہنگ ہوا کرتا ہے۔ یہ آہنگ، ان اشعار میں خاص طور پر ہے، جن میں میر نے جنون اور وحشت پر لکھا ہے۔میر کہتے ہیں: ’’آگے ہمارے عہد سے وحشت کو جاہ نہ تھی ‘‘ اور بجا کہتے ہیں۔ میر نے کم از کم اردو دنیا کو پہلی بار وحشت کی مدد سے بیابان ِ وجود کی حقیقت سے آشنا کیا۔
غالب سمیت کئی شعرا نے وحشت پر لکھا ہے۔ وحشت کوشاعری کے محض ایک مضمون کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے جو لیلیٰ مجنوں کی کہانی کی نسبت سے پہلے فارسی ،پھر اردو میں آیا۔ کلاسیکی شاعری کو محض مضامین کی شاعری سمجھنے سے ، اس شاعری کی پوری حقیقت سامنے نہیں آتی۔ وحشت کو بھی محض ایک مضمون سے بڑھ کر، انسانی ہستی کے ایک گہرے اور بنیادی مسئلے کے ترجمان کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
وحشت (یا جنوں ) کیا ہے؟ یہ کوئی نفسی عارضہ نہیں ہے۔ یہ ایک قطعی انحراف ہے، مزاحمت ہے، انکار ہے،اور گریز ہے۔معمول سے ہر انحراف کو مقتدر طبقے عارضہ کہا کرتے ہیں، اس لیے یہ طب کی لغت میں ایک عارضہ بھی ہے، مگر کلاسیکی اردو شاعر ی میں وحشت،انسانی ہستی کے اس بنیادی اضطراب کا مظہر ہے جو سکڑی ،سمٹی ہوئی دنیا (finitude) میں آدمی کے گھرے ہونے کے باعث پیدا ہوتا ہے۔ آدمی کا دل ِ وحشی ، مسلسل و بے انتہا اضطراب کی زد پر آئے ہونے کااستعارہ ہے۔
چناں چہ وحشت، اس سب کا انکار ہے جو آدمی کو مخصوص طرزوں، ہیئتوں، پیٹرن،درودیوار میں قیدکرتا ہے۔ یہ آدمی کی ہستی پر ، آدمی کی منشا کوپیش نظر رکھے بغیر،مسلط کی گئی خانگی وتمدنی زندگی کی نافر مانی کا استعارہ ہے۔یہ مخصوص ومسلط ہیئتوں کے مقابلے میں، بے کنار و بے ہیئت دنیا میں قدم رکھنے کی معنیات ہے۔
وحشت، جگہوں کی سیاست (Politics of spaces ) کو بھی طشت از بام کرتی ہے ،اور انسان کی اپنی شخصی جگہ کی بازیافت کی علامتی نمائندگی کرتی ہے۔ بلاشبہ ، جگہ آدمی کے کسی بھی تجربے کا بنیادی حصہ ہے،مگر یہ حقیقت بھی آدمی کے تجربے میں آتی ہے کہ اسے کوئی جگہ ، خالی ، بے داغ نہیں ملتی۔ ہر جگہ پر کسی نہ کسی کی نہ صرف نظر ہے، ا سے اپنے تصرف میں لانے کے عزائم سمیت،بلکہ اس جگہ کے معنی ومقصد پر بھی ایک جنگ جاری ہوتی ہے۔
وحشت، اس جنگ کو شکست دینے کا ایک حربہ ہے۔ دشت وصحرا، ایک طرح کے ہیٹر وٹو پیا ہیں، جہاں گھر ،مسجد ، مندر،خانقاہ،مدرسہ ،بستی ،شہر کے برعکس، معنی وشناخت سے تہی ہیں۔ میر کو آخر گھر بار سے کیوں وحشت تھی ؟:
وحشت تھی ہمیں بھی وہی گھر بار سے اب تک
سر مارے ہےاپنے درودیوار سے اب تک
’’گھر بار‘‘ سے وحشت اس لیے ہے کہ گھر اور اس کے جملہ متعلقات ،آدمی کو مطابقت (conformity) پر مجبور کرتے ہیں۔بجا کہ گھر میں آدمی ’رہنے بسنے ‘ کے تجربے سے آشنا ہوتا ہے،اس کا ذہنی ونفسی انتشار، طمانیت آمیز وحدت اور کچھ صورتوں میں تخلیقی ارتکاز میں تبدیل ہوتا ہے، مگر اسی گھر کا ایک تاریک پہلو بھی ہے۔ یہ کہ آدمی کے لیے گھر میں قیام ، ایک خا ص وقت کے بعد،مطابقت اوریکسانیت کےسبب، قید ، بلکہ قید ِ وجود میں بدل جاتا ہے۔انجم خیالی نے کہا تھا :
ہرگھر میں ایک ایسا کونا ہوتا ہے
جہاں کسی کو چھپ کررونا ہوتا ہے
وحشت، گھر میں کونا تلاش نہیں کرتی۔ گھر کا کونا، بالآ خر گھر ہی کی ایک سکڑی ہوئی جگہ ہوتی ہے۔یوں بھی چھپ کر رونا،گھر ہی کے جبر کی ایک علامت ہے کہ آپ گھر والوں پر ، گھر ہی کے تاریک رخ کو ظاہر کرنے سے گھبراتے ہیں۔ کونے میں رودھو کر واپس گھر ہی کی مطابقت پسند جبری فضا میں لوٹ آتے ہیں۔ دوسری طرف وحشت، ہر طرح کی قید، جبر اور تسلط سے آزادی ہے۔ بہ قول میر:
ہم جنوں میں جو خاک اڑاویں گے
دشت میں آندھیاں چلاویں گے
ہم جانتے ہیں کہ آدمی علامتیں بسر کرنے والی مخلوق ہے۔ گھر اور شہر کی علامت کے مقابلے میں دشت وصحرا وبیاباں کی علامتیں،وسعت و بے کناریت کی بازیافت کی علامتیں ہیں۔سیر وسفر و گردش، وحشت کے اہم ذیلی استعارے ہیں۔کسی خاص سمت میں سفر نہیں، بلکہ یہ سیربیابان ِ وجود ہے۔’’فلک نے گر کیا رخصت، مجھے سیربباباں کو ‘‘۔ یہ میر ہی نے کہا تھا۔اور یہ بھی میر نے کہا تھا :
کھینچتا ہے دلوں کو صحرا کچھ
ہے مزاجوں میں اپنے سودا کچھ
سیر بیابان ِ وجود، ان سب کے خلاف ایک طرح کی مزاحمت ہے جو انسانی وجود کو کسی ایک جہت ،کسی ایک معنی ، کسی ایک مقصد ،کسی ایک شناخت کے تحت لانا چاہتے ہیں۔ انیسویں صدی کے بعد سے گھر اور شہر انسانی تجربے کی کلیدی علامتیں بنی ہیں،خصوصاً شہر وں کو اپنی ثقافتی شناخت کے اہم جز کے طور پر پیش کیا جانے لگا ہے،مگر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس کی ایک قیمت بھی ہے۔
اس سے انسانی تخیل کا دائرہ ہی نہیں سمٹا،انسان اپنے باطن میں وسعت وبے کناریت اور اس میں سیر وسفر کی آزادی سے بھی محروم ہوا ہے۔شہروں کی ثقافتی سرگرمیاں بھی بالاآ خر ایک اور طرح کی conformityکو وجود میں لاتی ہیں۔ گھر اور شہر کی سب سہولتیں، آسائشیں ، نعمتیں اپنی جگہ مگر یہ انسان کی ازلی وحشت کو لگام دینے کی مہذب کوشش ہیں۔ قائم چاند پوری نے تو بہت پہلے کہا تھا:
وحشت دل کوئی شہروں میں سماسکتی ہے
کاش لے جائے جنوں سوئے بیاباں مجھ کو
میر نے بھی ایک جگہ شہر میں ہونے کے تجربے کو لکھا ہے۔ اس کا تعلق بھی وحشت ہی سے بنتا ہے:
شہر میں حشر کیوں نہ برپا ہو
شور ہے میرے سر میں کیسا کچھ
سر کے جس شور سے ،شہر میں حشر برپا ہوسکتا ہے، اسے صرف دشت وبیاباں سہار سکتے ہیں۔ حالی نے انسان کے دل کی اس حالت کو کس عمدگی سے پیش کیا تھا:
کون ومکاں سے ہے ،دل وحشی کنارہ گیر
اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں
میر اور غالب اپنی وحشت کو بچالے گئے، مگر حالی کو اسے قومی شاعری کی قربان گاہ کی نذر کرنا پڑا۔ مجھے میر کے یہ اشعار اپنے دل کے بہت قریب محسوس ہوتے ہیں۔
آگے ہمارے عہد سے وحشت کو جاہ نہ تھی
دیوانگی کسو کی بھی زنجیر پا نہ تھی
شور میرے جنوں کا جس جا ہے
دخل عقل اس مقام میں کیا ہے
عالم عالم عشق وجنوں ہےدنیا دنیا تہمت ہے
دریا دریا روتا ہوں میں صحرا صحرا وحشت ہے
چھوڑا جنوں کے دور میں رسم ورہ اسلام کو
تہ کر صنم خانے چلاہوںجامہ احرام کو
یوں جنوں کرتے جو ہم یا ں سے گئے
تو میاں مجنوں بیاباں سے گئے
(پروفیسر سرورالہدیٰ کے میر سے متعلق سوالات کے جواب میں لکھی گئی تحریر سے اقتباس، جو ان کی مرتبہ کتاب میں شامل ہے۔ سرور صاحب نے مجھ یہ سوال بھی پوچھا کہ مجھے میر کی شاعری سے کیا ذاتی تعلق محسوس ہوتا ہے۔ اس سوال کا میں نے تفصیل سے جواب لکھا۔ مذکورہ بالا تحریر، اس جواب کا ایک حصہ ہے۔)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply