سفرنامہ دہلی (2)- محمد ہاشم خان

اس کی بستی بھی نہیں کوئی پکارا بھی نہیں

 شام کے سرمگیں سوراخ سے چھن کر آنے والی شفق درون ذات کو روشن کر رہی تھی۔ قبل اس کے کہ یہ شفق آتش افروز ہوتی ہم ملال کے ملگجے میں کوئے ملامت سے لوٹ آئے حسرت بھری آنکھیں وہیں کسی چاک پر دھر آئے، اس امید کے ساتھ کہ غم دہر کے جھگڑوں نے زندگی کی زلف سیاہ کو پریشاں کرنے کا موقعہ دیا تو ان آنکھوں کو واپس دیکھنے آؤں گا۔ یہ دیکھنے آؤں گا کہ جو خواب ہم دیکھتے تھے، ایک بے نام سی خوشبو والے خواب، سفید چنبیلی کو چوم کر آنے والی سمن اندام کے خواب، وہ روح پرور سراب آور خواب کوئی اور بھی دیکھتا ہے، عشرت تمنا کے وہ خواب جو عسرت و محرومی کی عطش انگیز بھٹی میں جل بھن کر بھسم ہو گئے ⏤ کوئی اور بھی ہے جو دشت میں دور کہیں بہت دور، وادی ذی ذرع میں کوئی حرماں نصیب فاختہ چھوڑ کر آیا ہے، زمانے سے ایک گم گشتہ محبت کی منتظر، اپنے پروں میں مسترد ہونے کے پَر افشاں زخم چھپائے، حزن کے مضراب پر زمزمہ خواں ہے، وصال کی حسرت میں، فراق کے شعلے پی کر، اپنے لیل و نہار کی ارزانی پر، کوئی منتظرِ کن مجھ سے پوچھ رہی ہے ’تم آؤ گے؟ تو تم نہیں آؤ گے؟ اچھا تو پھر کب آؤ گے؟ حسنِ حیرت یہ ہے کہ اگر کوئی دیکھے گا بھی ⏤ گمنام جزیرے سے دھانی رنگ زہرہ بدن کو چوم کر آنے والی صبا خرام خوشبو کے خواب ⏤ تو کیا اتنے ہی پیار سے؟ ’مگر وہ آنکھیں ہماری کہاں سے لائے گا‘؟ شاید نہیں! اسی لیے اپنی آنکھیں چھوڑ آیا ہوں وہیں کف پائے یار پر۔ہم میں قوت ہے بچھڑ جانے کی، ہم ہجر نصیب ہار آئے ہیں کئی لعلِ یمن تم جیسے!
یہ کوئے ختن یہ سرو چمن ، یہ کہسار و شاخسار اور کوہ و دمن، یہ بام و در اور دریچے، یہ کوچہ و بازار اور چوبارے ہمارے قیام کرنے کے لیے نہیں ہیں۔ یہ تو بس اس لیے ہوتے ہیں کہ اپنے آبادگان و رفتگان کی شوخیوں، آرزوؤں، محرومیوں اور نا رسائیوں کی کترنیں اپنے کونوں کھدروں میں چھپاتی رہیں تا آنکہ ایک زنجیر بن جائے اور جب کوئی رم خوردہ اپنے غزال کے تعاقب میں واپس آئے تو اسے اسیر کر لیں۔ یا پھر یہ اس لیے ہوتے ہیں کہ جب کوئی وحشت و سودائے خام کا مارا، زمانے سے در بدر بنجارا، کہیں کہیں سے اپنی زندگی رفو کرنا چاہے تو اسے حسب خواہش اور ضرورت پیوند ملتے جائیں۔ پس ہم اس گلی سے نکل آئے جو اب یوں نظر آ رہی تھی جیسے نیم خشک کپڑے کو نچوڑ دیا گیا ہو یا جیسے سبز گیلی لکڑی کو نیم سوختہ چھوڑ دیا گیا ہو۔
زندگی بھر مجھے جلنے کے لیے چھوڑ دیا
سبز پتوں میں یہ کیا آگ لگا دی تو نے
وہاں سے نکلتے ہوئے واپس دو تین بار پلٹ کر دیکھا جیسے پیچھے سے کوئی آواز دے رہا ہو ⏤ کوئی صندلی آواز، کافور سے لہجے میں⏤ کون سا موڑ ہے کیوں پاؤں پکڑتی ہے زمیں۔ اس کی بستی بھی نہیں کوئی پکارا بھی نہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ دیواریں بھی چوکھٹ پر پڑی اور آنگن میں پسری اداسی اٹھائے ساتھ لیے چلی آ رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں ’مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے‘۔ ابھی چند قدم ہی دور گیا ہوں گا کہ ان کی طنزیہ ہنسی سنائی دی ’کہیں خرابۂ جاں کے مکیں نہیں جاتے۔ درخت چھوڑ کے اپنی زمیں نہیں جاتے‘۔ یہ بات میں انہیں پہلے بھی کئی اور موقعوں پر بتا چکا ہوں کہ ہم درخت نہیں پَت جَھڑ کے وہ پتے ہیں جو اپنی شاخ سے جدا ہونے کا غم نہیں بھولتے لیکن بھلا اس آباد خرابے نے کب کسی کی سنی ہے جو میری سنتا۔ میں نے محسوس کیا کہ کوئے بتاں ناراض اور شکوہ کناں ہے، ہماری ہستی کو عافیت بخشنے والی وہ مخدوش دیواریں پاؤں پکڑ رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ ہم تمہاری تنہائیاں، تمہارا سودا، تمہارا خبط اور تمہارا ہیجان چُنتے چُنتے کھوکھلی ہو گئی ہیں۔ تم ہم سے اپنے خواب کشید کرتے ہو، ہمیں کُرلاتے ہو اور بھول جاتے ہو، ہمیں بھی صوت و لفظ دو، زبان و بیان دو، اس گھٹن سے باہر نکالو اور آب حیات دو ⏤ پس یہ وحشت آباد اور ویرانی کی خشت سے تعمیر ہونے والی اس کی دیواریں، لاحاصلی کی اذیت سے دیواروں میں کُرلاتی تنہائیاں اور اس منتہائے تنہائی میں عطر میں لپٹی ہوئی انگڑائیاں ⏤ سب کی اپنی اپنی کہانیاں ہوتی ہیں لیکن ان کو سننے والے کان، دیکھنے والی آنکھ اور محسوس کرنے والا دل کسی اور چاک پر کسی اور تغار میں کسی اور خمیر سے بنا ہوتا ہے۔ یہ نہ تو ہر ایک سے کلام کرتی ہیں اور نہ ہر ایک پر منکشف ہوتی ہیں۔ دراصل یہ وہ محشر خیال ہے جسے غالبؔ خواب میں بھی دیکھنے کے روادار نہیں تھے۔
یا رب ہمیں تو خواب میں بھی مت دکھائیو
یہ محشر خیال کہ دنیا کہیں جسے
پس ہم وہاں سے جگر فگار پلٹ آئے۔ رات بہت اندر تک اتر چکی تھی، کٹ نہیں رہی تھی، کاٹ رہی تھی، سو ہم بھی اسے کاٹ رہے تھے۔ بسان کرمک نیم شب جلنے کے لیے شمع ڈھونڈ رہے تھے، کہیں سے کوئی شمع روشن نہیں ہوئی تو جلنے کی آگ اندر ہی اندر خود بخود بجھ گئی۔
رات بہت ہوا چلی اور شجر بہت ڈرے
میں بھی ذرا ذرا ڈرا پھر مجھے نیند آ گئی
جاری ہے

Facebook Comments

محمد ہاشم خان
لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں (مصنف افسانہ نگار و ناقد کے علاوہ روزنامہ ’ہم آپ‘ ممبئی کی ادارتی ٹیم کا سربراہ ہے) http://www.humaapdaily.com/

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply