شعروسخن کی تابندہ روایت کا متمنی/ڈاکٹر شاہد ایم شاہدد

تجسس انسانی فطرت کا انمول خاصا ہے۔ اس کی بدولت ہی دلچسپی کا محور بنتا ہے۔ سرگرمیاں جنم لیتی ہیں۔ تجربات و مشاہدات معرض وجود میں آتے ہیں۔اوصاف پیدا ہوتے ہیں۔ شعور و آگاہی ملتی ہے۔ تحقیق و جستجو کا چراغ جلتا ہے۔ قلم اٹھانے کی ہمت بڑھتی ہے۔یہ سب کچھ اسی لفظ کی مرہون منت پروان چڑھ کر تخلیق کی صورت میں سامنے آتا ہے۔پھر اسے محفوظ رکھنے کے لیے صفحہ قرطاس کا سہارا لینا پڑتا ہے۔قلب و ذہن سے صادر ہونے والے تصورات اور نظریات شعر و سخن کے آنچل میں ڈھل کر تابندہ روایت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ ایک فطری بہاؤ ہے جو نسل در نسل جاری و ساری ہے۔یوں کہہ لیجئے یہ نہ رکنے والا عمل کشید ہے۔ جو ہر رگ رگ اور نس نس میں عملی نفوذ کا کردار ادا کرتا ہے۔
جذبات و احساسات کو محفوظ رکھنے کا بہترین طریقہ کتاب ہی ہے جس کی قدر و قیمت کسی بھی دور میں کم نہیں ہوئی۔کیونکہ تخلیق ،تحقیق اور تنقید ادب کے تین بہترین زاویے ہیں جن پر ادوار کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ انہی کی بدولت اس دور کی بنیاد ، پختگی اور دلکشی واضح ہو جاتی ہے۔غزل شعراء کی مرغوب صنف رہی ہے۔انہوں نے اپنے احساسات اور جذبات کو قلم بند کرنے کے لیے غزل کو بام عروج تک پہنچا دیا ہے ۔ اگرچہ اردو غزل کی ابتدا فارسی غزل کے اتباع میں ہوئی اور یہ اعزاز بھی دکن کو حاصل ہے۔ اگر ہم غزل کے سنہری ادوار پر غور کریں تو ہمیں میر درد میر اور مرزا اسد اللہ کا دور اردو غزل کا بہترین زمانہ ہے۔ خواجہ میر درد بھی اس دور سے تعلق رکھتے تھے۔اسی طرح میر تقی میر کی شاعری سادگی، صاف گوئی اور روزمرہ حالات پر مشتمل تھی۔ان کی شاعری میں خارجیت کی بجائے داخلیت تھی جس میں قلبی واردات اور زمانوں کے اتار چڑھاؤ بدرجہ اتم موجود ہیں۔سودا کی غزلیات شکوہ الفاظ ، رنگینی رعنائی ، تخیل اور طرز ادا کے لحاظ سے منفرد ہیں ۔میر درد میر کی غزلیات میں متصوفانہ مضامین کہ کثرت پائی جاتی ہے۔
ان تین شعراء نے اردو غزل کے رحجان کو بدل ڈالا اور اپنے زمانے کے غم و حوادث اظہار کو عروج فن سمجھا۔اسی طرح اگر غالب اور مومن کے کلام کا ذکر کیا جائے تو انہوں نے غزل کو ایک نیا اسلوب بخشا۔ان کی تخلیقی عناصر میں ہر قسم کے مضامین کی جھلک شامل ہوئی جس نے اردو غزل کے تنکنائے غزل کو سفینہ بنا دیا۔1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مولانا الطاف حسین حالی نے غزل کے قدیم رنگ کو ترک کیا اور غزل سے حصول مقاصد کا کام لینا شروع کیا۔حسرت موہانی نے سیاسی مسائل کو غزل کی زبان میں ادا کیا ۔یہ جدید غزل کے رحجان کا زمانہ تھا۔
1936 میں ترقی پسند تحریک شروع ہوئی تو ابتدا میں غزل کو جاگیردارانہ معاشرے کی تفریق سمجھا گیا۔لیکن اس حقیقت کو فورا سمجھ لیا گیا کہ غزل میں اس تحریک کو سمو لینے کی طاقت موجود ہے۔ترقی پسند تحریک کے شعراء میں سحر لدھیانوی ، کیفی اعظمی ، احمد ندیم قاسمی اور فیض احمد فیض نے غزل کو سرخ انقلاب کے لیے استعمال کیا۔اسی طرح اردو غزل کی تقسیم کے بعد غزل کی بجائے نظم کو فوقیت دی گئی۔لیکن قیام پاکستان کے بعد فورا پھر توجہ غزل کی جانب بڑھ گئی۔فراق گورکھپوری نے غزل کے میدان میں خاصی شہرت پائی۔وقت کے ساتھ ساتھ عابد علی عابد ، حفیظ جالندھری ، حفیظ ہوشیار پوری ، جگر مراد آبادی، عبدالحمید عدم ، یوسف ظفر اور ناصر کاظمی نے اردو غزل کو نیا رنگ و روپ عطا کیا۔
اس کے علاوہ اردو غزل کے جدید رحجانات کے عکاس شعراء کی فہرست طویل ہے۔اختصار کے ساتھ چند نام جن میں ضمیر جعفری ، احمد فراز ، مظفر وارثی ، ریاض مجید ، جمیل یوسف ، قتیل شفائی ، شہرت بخاری ، اجمل نیازی ، امجد اسلام امجد کے نام شامل ہیں۔
مسیحی شعراء میں غزل کے میدان میں نذیر قیصر ، ڈاکٹر کنول فیروز ،ڈاکٹر مظطر کاکشمیری، بشپ ڈاکٹر جوزف ارشد ، پروفیسر ونسیٹ پیس عصیم، ڈاکٹر افضال فردوس ، ڈاکٹر عادل امین ،
ڈاکٹر نعیم سلیم ، پروفیسر یوسف نیر ، پروفیسر گل پرویز ، پروفیسر عامر زرین ، یوسف پرواز ،فادر مختار عالم ،فادر عمانوایل نذیر مانی ، فادر سہیل پیٹرک ، یوسف رند ، جیم فے غوری ، ساحل منیر، ندیم اجمل عدیم ، سمیر اجمل ، عارف نقیب ، سہیل ساجد اسٹونز آبادی، جاوید یار ، ساحل منیر ،خالد عمانوایل ، شہباز چوہان ،فخر لالہ ، سرفراز تبسم ، جیمز جان مخفی، جاوید ڈینیل ، پرویز ایم نذیر ، عرفان نشاط چوہدری ، پیٹر قیصر ، آرتھر برکی آرتھر ،
،الیشع ایاز ، میتھیومحسن ، سیمسن جاوید ، ارشد ثانی اور فرانس سائل ، بابر مسیح کے نام شامل ہیں۔
جبکہ خواتین میں پروفیسر ڈاکٹر پریا تابیتا، پروفیسر ڈاکٹر وکٹوریا پیٹرک امرت ، آئرین فرحت ، آسناتھ کنول ، زرین منور ، مہناز بنجمن، حنیہ غزل، کنیز منظور، ثمینہ گل وفا اور ہمیرا شفق کے نام قابل ستائش ہیں۔
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اردو غزل نے ہمیشہ عہد بہ عہد بدلتے ہوئے رحجانات کا ساتھ دیا ہے۔اس لیے یہ کہنا حق بجانب ہے کہ اردو غزل ایک زندہ صنف کی حیثیت سے عمر دوام پر محو سفر ہے۔تاریخ ادب میں تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر دور میں شعراء کا جنم ہوا ہے۔ انہوں نے اس تابندہ روایت کو قائم رکھا ہے۔ عصر عصر میں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ریورنڈ بشیر گل عاصم نے غزل لکھنے کی روایت جاری رکھی ہے۔کیونکہ شعر ایک زندہ قوت ہے جو ہر دور میں اپنی پہچان کرواتا آیا ہے۔ یہ قدرتی بات ہے کہ انسان کے اندر پہلے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔پھر وہ انہیں اپنے دماغ میں لا کر سوچ بچار کرتا ہے۔اسی وجہ سے ارتقائی تہذیب فروغ پاتی ہے۔ غزل ہمیشہ حسن و جمال جیسے موضوعات کی عکاس رہی ہے۔کیونکہ انسان نے اظہار کے لیے اپنی سوچ
کو محفوظ کیا ہے۔کیونکہ قلم اور ادب کا صدیوں پرانا رشتہ ہے۔ اہل ذوق کے درمیان یہ آج تک نہ ٹوٹا اور بکھرا ہے۔بلکہ نسل در نسل محفوظ اور مضبوط ہوا ہے۔ یقینا کسی بھی شاعری کو پرکھنے کے لیے اس کے فنی محاسن کا جاننا بہت ضروری ہے۔انہی کی بدولت وصف و وزن کی پیمائش ہوتی ہے۔ اگر میں بشیر گل عاصم کی شاعری کے چند محاسن کا تذکرہ کروں تو قائرین کی دلچسپی مزید بڑھ جائے گی۔مثلا ان کے کلام میں آتش نوائی کی عناصر موجود ہیں جو سیاسی خلفشار ، ذہنی انتشار اور کجروی کو ظاہر کرتے ہیں۔
صحت زبان ایک پرتاثیر کیفیت ہے جو قاری پر خوشگوار اثرات ڈالتی ہے۔خیال اور مضمون کو دھندلا نہیں ہونے دیتی بلکہ صاف موسم کی طرح پیش گوئی کرتی نظر آتی ہے۔ تخیل پروازی ایک عمیق عنصر ہے جس کی بدولت شاعری وہ چار چاند لگتے ہیں۔تخلیق کی عناصر عیاں ہوتے ہیں۔
جو شعر میں رنگینی پیدا کر کے سامع پر خوشگوار اثرات مرتب کرتے ہیں۔ کلام کی خوبصورتی ہمیشہ انفرادیت کے باعث بڑھتی ہے۔ انفرادیت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ شاعر کے کئی کئی اشعار اور مصرے روز مرہ زندگی میں شامل ہو جاتے ہیں۔عاصم نے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر ان تمام معاشرتی مسائل کو محسوس کیا ہے جو وقت کی ضرورت کے عین مطابق ہیں ۔ان میں بعض نفسیاتی کیفیتیں ایسی ہیں جن کا علاج ممکن نہیں۔ بہرحال انہوں نے اپنے اشعار کے ذریعے ان باتوں اور واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے جہاں دل جی بھر کر روتا ہے۔بے بسی کی تصویر پیش کرتی ہے۔جہاں اشک سیلاب میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ شاید ایسی کیفیت میں سکون ملنا دشوار ہے۔
فضل دوست عاصم کی مشق سخن نے قائرین کے دل میں جگہ بنا رکھی ہے۔ ان کی شاعری کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انہوں نے زمینی آوازوں سے ایک ایسی اواز تخلیق کی ہے جو ان کی ذہانت اور تخلیقی صلاحیت کی پہچان میں اضافے کا باعث بنی ہے۔انہوں نے اس آواز کے ذریعے تمام سیاسی و سماجی ، تہذیبی و روایتی تجربوں کو تخلیقی تجربے کی بھٹی سے گزارا ہے۔ان حقائق کے پس پردہ یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ ان کی شاعری میں احساس کا نیا پن اور زبان و بیان میں شگفتگی کے عناصر موجود ہیں۔ایسے لگتا ہے جیسے وہ قدیم کوکھ سے نئی بات کو جنم دینے کا سلیقہ جانتے ہیں۔نمونے کے طور پر ان کی ایک غزل پیش خدمت ہے۔
جیتے جی لوگ جو قبروں میں اتارے گئے ہیں
ان میں ہم جیسے تو بس پیار میں مارے گئے ہیں

تو نے سوچا ہی نہیں کوئی سبب تو ہوگا
ہم مسلسل جو مقابل ترے ہارے گئے ہیں

تو تو خوش ہے کہ چلو رات ڈھلی دن نکلا
میں پریشان ہوں کہاں چاند ستارے گئے ہیں

ہم نکل آئے دبے پاؤں ادھر سے اکثر
جس طرف خاک اڑاتے ہوئے سارے گئے ہیں

کیا یہ تائید ہے کم اپنی سرفرازی کی
نام لے کر ترے مقتل سے پکارے گئے ہیں

اس کو معلوم ہے رہبر ہے کہ راہزن کوئی
نت نئے روپ بہرگام جو دھارے گئے ہیں

تم جسے دور سے ہی دیکھ کے لرزیدہ ہو
ہم تو اس آگ سے سو بار گزارے گئے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors london

میں فاضل دوست ریورنڈ بشیر گل عاصم کو شعری مجموعہ “دل محبت کا استعارہ ہے” تخلیق کرنے پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
میں رب ذوالجلال سے پر امید ہوں کہ ان کی یہ کتاب
علمی و ادبی حلقوں میں بشرف نگاہ دیکھی جائے گی۔
ڈاکٹر شاہد ایم شاہد (واہ کینٹ)

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply