ویسے تو کسی بھی ملک کی اندرونی صورتحال کا ادراک کرنے کے لیے تیس دن کا وقفہ نہایت ہی قلیل ہے اور وہ بھی جب اس میں بیشتر وقت خانگی مصروفیات کی نذر ہوجائے۔ مگر کسی صحافی کے لیے اس قلیل وقت میں حالات کا مشاہدہ کرنا ایسا ہی ہے، جیسے ڈاکٹر مریض کی نبض چند منٹ دیکھ کر مرض کی نوعیت کا اندازہ لگاتا ہے۔ اکتوبر کے پہلے ہفتے دیر رات گئے انقرہ سے دوحہ اور پھر پاکستانی دارلحکومت اسلا م آباد کے ایر پورٹ پر پہنچتے ہی اس ملک کی سیاسی صورتحال کا ادراک ہوگیا۔
پاکستانی امیگریشن اہلکار نے ہندوستانی پاسپورٹ دیکھتے ہی پاس کے کیبن میں بٹھاکر، دیگر مسافروں کو فارغ کرنے کے بعد پاکستان آمد کے بارے میں غرض و غایت جاننے کے لیے سوالوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ بیان کو نوٹ کرنے کے علاوہ وہ کسی سے فون پر ہدایات بھی لے رہا تھا۔ آخر آدھے گھنٹے کے سوال و جواب کے اس سیشن کے بعد نہایت ہی ادب کے ساتھ اس نے جانے کی اجازت دےدی۔
امیگریشن سے فارغ ہونے کے بعد کرنسی ایکسچینج کاؤنٹر ڈھونڈا تو معلوم ہو ا بند ہے۔ چونکہ رات کافی بھیگ چکی تھی، گیٹ کے دروازے کے پاس ہی ریڈیو ٹیکسی کا بورڈ نظر آیا۔ سوچا کہ رات کے وقت اس میں شہر کی طرف سفر کرنا محفوظ ہوگا، مگر وہاں موجوداہلکار نے بتایا کہ یہ سروس معطل ہے، کیونکہ شہر کی طرف جانے والی سڑکوں پر کینٹینر لگا کر ان کو بلاک کر دیا گیا ہے۔ معلوم ہو اکہ شہر کی ناکہ بندی کی گئی ہے، اس لیے شاید ہی کوئی ٹیکسی بھی ملے۔
سامان لےکر جو باہر نکلا، تو واقعی کسی ٹیکسی کا نام و نشان نہیں تھا۔ حیران و پریشان، فون بھی کام نہیں کر رہا تھا کہ دس پندرہ منٹ بعد ایک ٹیکسی وارد ہوگئی۔ ڈرائیور کو جب ایڈریس بتایا، تو اس نے کہا کہ یہ ایر پورٹ سے بس 20 منٹ کی ہی دوری پر ہے، مگر سڑکوں کے بند ہونے کی وجہ سے لمبا روٹ لینا پڑے گا اور تب بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔
پتہ چلا کہ اگلے روز اپوزیشن پاکستان تحریک انصاف کا مارچ پشاور سے اسلام آباد وارد ہو رہا ہے۔ اس مارچ کی قیادت صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کر رہے ہیں۔ اس لیے اسلام آباد کو قلعہ بند کر دیا گیا ہے۔ نیٹ، سوشل میڈیا وغیر بھی بند ہے، بس وائی فائی چل رہا ہے۔ ایر پورٹ جانے اور آنے والے مسافروں پر اس ناکہ بندی سے کیا بیتی ہوگی، شاید حکام کو احساس نہیں تھا۔ معلوم ہوا کہ کئی افراد کی فلائٹس چھوٹ گئی ہیں اور کئی افراد جو باہر سے آئے تھے، ایر پورٹ پرہی رات بھر سو گئے تھے۔
سرینگر میں بھی جب ناکہ بندی ہوتی تھی، توایر پورٹ جانے والے مسافروں کی ٹکٹ اور آنے والوں کے بورڈنگ پاس کو کرفیو پاس تصور کرکے جانے دیا جاتا تھا۔ اسی طرح پچھلے سال دہلی کی طرف مارچ کرتے ہوئے کسانوں کوروکنے کے لیے پولیس نے رکاوٹیں کھڑی کر دی تھیں، مگر ان کے ساتھ پولیس کے جوان خود بھی کھڑے ہوتے تھے، جو کسانوں یا کسان جیسی شبیہ والے افراد کو روک کر دیگر مسافروں اورٹرانسپورٹ کو راہداری دیتے تھے۔
ایر پورٹ سے نکلتے ہی دیکھا کہ سڑکوں کو بلاک کرنے کے لیے بھاری بھرکم کینٹنیرز رکھے گئے ہیں، جن سے بحری جہازوں کے ذریعے مال برداری کا کام لیا جاتا ہے۔پولیس کا کہیں کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ لگتا تھا کہ کینٹینر کھڑے کرکے وہ اپنے گھروں کو چلے گئے تھے۔ ان کینٹروں سے بچتے ہوئے سڑک سے ہٹ کر کھیتوں، کھلیانوں اور اسلام آباد کے نواح کے دیہاتوں سے گزرتے ہوئے 20منٹ کا سفر ساڑھے تین گھنٹوں میں طے ہوگیا۔
ایسی جگہوں سے ٹیکسی کا گزر ہوا، جہاں بجلی بھی نہیں تھی۔ کئی مقامات پر انتہائی کچی راہداریوں پر ٹیکسی کو دھکا بھی لگانا پڑا۔ کئی مقامات پر تو اپوزیشن کے مارچ کو روکنے کے لیے پکی سڑکوں کی کھدائی کرکے خندقیں بنائی گئی تھیں۔ لگتا تھا کہ جیسے بیرون حملہ آوروں کی فوج کو روکنے کے انتظامات کیے گئے تھے۔
ڈرائیور سے بات چیت کرتے ہوئے پتہ چلا کہ وہ جہلم قصبہ کا رہائشی ہے۔ میں نے جب کہا کہ میرا بھی جہلم کے ساتھ قریبی رشتہ ہے۔ پہلے تو وہ مجھے بھی جہلم قصبہ کا ہی باسی سمجھا اور محلے کے بارے میں پوچھنے لگا۔ میں نے کہا کہ جہلم قصبہ کے ساتھ نہیں بلکہ دریائے جہلم کے ساتھ میرا رشتہ ہے اور شمالی کشمیر کے سوپور قصبہ میں اسی دریاکے کنارے میرا گھر تھا اور اسی دریا کی لہروں سے اٹھکھیلیاں کرتے ہوئے جوان ہو گئے ہیں۔
اس کا کہنا تھا کہ ہاں جہلم تو اس کے گھرسے ذرا دوری پر بہتا ہے، مگر یہ نہیں معلوم پیچھے کہاں سے آتا ہے۔’شاید بلوچستان یا سوات سے آتا ہوگا۔’ دریائے جہلم پر جو مضمون بچپن میں اسکول میں رٹہ لگاکر یاد کیا تھا وہ میں نے اس کو پورا سنادیا۔’دریائے جہلم جنوبی کشمیر کے چشمہ ویری ناگ سے نکل کر وادی کشمیر کو سیراب کرکے پنجاب کی میدانی علاقوں کو سرسبز و شاداب بنادیتا ہے۔’
جب اس کو معلوم ہوا کہ میں کشمیر کے انڈیا والے حصہ سے ہوں، تو پر تجسس لہجے میں ممبئی کے بارے میں استفسار کرنے لگا۔ کون سے فلم اداکار اور اداکارئیں آجکل مشہور ہیں اور کس کی فیس کتنی ہے؟ بالی ووڈ کے بارے میں میری ناقص معلومات پر اب ماتم کرنے کی اس کی باری تھی۔
خیر تین گھنٹہ کی مسافت کے بعد اس نے اطلاع دی کہ اب منزل آنے والی ہے اور آگے اب کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ سڑک پر اب کچھ ٹریفک بھی دکھ رہا تھا اور اسلام آباد کے جی15 سیکٹر کے بورڈ بھی نظر آرہے تھے۔ منز ل پر پہنچ کر جب کرایہ معلوم کیا تو بتایا کہ پانچ ہزار روپے بنتے ہیں۔ رات کے وقت اور پھر تین گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد لگا کہ کرایہ معقول ہی ہے۔ یہی کچھ کم کہ صحیح سلامت منزل پر پہنچا دیا۔
میں نے اس کو میری بیٹی ڈاکٹر ابیض کا نمبر دےکر کہا اس نمبر پر کال کرکے بتاؤ کہ ایک کشمیری کو ایرپورٹ سے پکڑ کر ہم نے بندھی بنادیا ہے اور اس کو چھڑانے کے لیے پانچ ہزا ر روپیہ لےکر نیچے آجاؤ۔ وہ پہلے تو جز بجز ہوگیا، مگر جلد ہی اس کو احساس ہوا کہ بس ایک مذاق ہے۔ خیر ابیض جو میرے انتظار میں جاگ رہی تھی، نے نیچے آکر کرایہ دےکرمجھے چھڑوا لیا۔ جاتے ہوئے ڈرائیور نے کہا کہ راستے بھر آپ کی باتوں سے تو نہیں لگ رہا کہ آپ کی وقعت بس پانچ ہزار کی ہی ہے۔
چونکہ ہمارا فلیٹ، جو میری بیٹی نے ہماری عارضی رہائش کے لیے کرایہ پر لیا تھا، شیر شاہ سوری کے تعمیر کردہ پشاور کو کولکاتہ سے جوڑنے والے گرینڈ ٹرنک روڑ یعنی جی ٹی روڑ کے کنارے ہی تھا، تو اگلے روز معلوم ہوا کہ حکومت نے اس طرح کی پیش بندیا ں کیوں کی تھیں۔
مارچ کیا تھا ایک طرح سے لگ رہا تھا کہ چڑھائی کرنے والے حملہ آورں کی جیسے کوئی فوج تھی۔ کارواں کے آگے بلڈوزوں کا ایک دستہ تھا، تو کینٹنیروں کو ہٹا کر سڑک کے کناروں پر پھینک دیتا تھا۔ اس کے پیچھے مٹی اور کنکریٹ لیے ٹرکوں کا دستہ تھا، جو سڑکوں کے بیچو ں بیچ خندقوں کو پاٹ رہے تھے، تاکہ اس کے اوپر ٹریفک گزر سکے۔ اس کے بعد وزیر اعلیٰ کا قافلہ رواں تھا۔
زمانہ وسطیٰ میں افغانستان یا وسط ایشیاء سے اسی سڑک کے ذرریعے حملہ آور وارد ہوکر پانی پت میں دم لیتے تھے۔ جہاں ان کو دہلی سلطنت کے ساتھ پہلا معرکہ درپیش ہوتا تھا۔ مگر یہ فوج جو اس وقت اس سڑک کو روند رہی تھی کی منزل اسلام آباد کا شہر تھا۔ پولیس اس دوران نمودار ہو چکی تھی، مگر دور سے ہی ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس کے گولوں کی بارش کر رہی تھی۔ پوری کالونی دھوئیں سے بھر گئی تھی۔ مارچ کرنے والے بھی جوابی ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس کے گولے پھینک رہے تھے۔
معلوم ہوا کہ مارچ میں وزیر اعلیٰ کے ساتھ اس کے گارڈ اور صوبہ کے پولیس کے دستے بھی شامل ہیں، جوساز و سامان سے لیس ہیں۔ یاد آیا کہ جنوری 2014کو اس وقت دہلی کے نو منتخب وزیر اعلیٰ اروند کیجروال اور ا ن کی پوری وزارت نے پارلیامنٹ ہاؤس کے سامنے سڑک پر قبضہ کرکے کئی روز تک دہلی پولیس پر کنٹرول حاصل کرنے کے مطالبہ کو لےکر دھرنا دےکر شہر کو درہم برہم کر دیا تھا۔
اس وقت مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی، جو اس طرح کے دھرنوں وغیرہ کو کسی قدر خاطر میں لاتی تھی۔ مگر چند ماہ بعد جب وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت اقتدار میں آئی، تو کیجریوال کو بھی لگا کہ محاذ آرائی کے بجائے تعاون پر مبنی سیاست کر کے ہی مرکز سے مراعات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
خیریہ اس پاکستان کی ہلکی سی جھلک تھی، جو اس وقت حکومت اور اپوزیشن کی محاذ آرائی سے جھوجھ رہا ہے۔اپوزیشن عمل کرتی ہے، تو حکومت رد عمل۔ دو روز بعد اسلام آباد شہر کھل گیا تھا، توس کو دیکھنے کا موقع ملا۔ محسوس ہوا کہ ملک رواں و دواں ہے۔
جو تاثر پاکستان کے باہر اس ملک کا ملتا ہے، اس کا تو ہلکا سا شائبہ بھی نہیں ہے۔ شاپنگ مال، ریستوراں بھرے پڑے ہیں، تل رکھنے کو جگہ نہیں ہے۔ مہنگے برانڈ کی دکانوں پر گاہکوں کا اژدھام ہے۔ اسلام آباد انقرہ کی ہو بہو کاپی ہے اور کئی معنوں میں اس سے بھی بہتر اور خوبصورت دارلحکومت ہے۔ شہر میں میٹرو ٹرین کی جگہ میٹرو بس ہے، جس کے لیے استنبول شہر کی طرح علیحدہ کوریڈور ہے۔ اس کے اسٹیشن صاف و شفاف اور دہلی میٹرو اسٹیشنوں کی طرح ہی ہیں۔
پاکستان کے باہر اس ملک کے افلاس اورڈوبنے کے تصور کو پھیلانے میں پاکستانی تارکین وطن کا خود بڑا رول ہے۔ یہ تاثر اس قدر عام ہے کہ ہندوستان میں جو جگہ ضروریات زندگی سے عاری ہو، جہاں سیور، اور گندے نالے بہہ رہے ہوں اور گندی بستیاں منہ چڑھا رہی ہوں کو عرف عام میں پاکستان کہا جاتا ہے۔ ہندوستان کی طرح پاکستان میں بھکمری سے شاید ہی کوئی اموات ہوتی ہوں، مگر پاکستانی تارکین وطن اپنے ملک کا تاثر اس طرح دیتے ہیں کہ لگتا ہے ابھی نہیں تو کل ڈوبنے کو ہے۔
ان حالات میں جب وہ اپنے ملک کا موازنہ 1.4بلین والے ملک ہندوستان سے کرتے ہیں، تو ان پر ہنسی ہی آتی ہے۔ اگر موازنہ کرنا ہے، تو شمالی ہندوستان سے کرو، کیونکہ ہندوستان کی پوری جی ڈی پی پانچ صوبوں یعنی تامل ناڈو، تلنگانہ، کرناٹک، گجرات اور کسی حد تک مہاراشٹرہ پر ٹکی ہوئی ہے اور ان علاقوں کی ترقی اور خوشحالی کی تاریخ 1947سے قبل کی ہے۔ اگر پاکستان کی اوسط گھریلو آمدن 1758ڈالر ہے، تو اتر پردیش کی 1112ڈالر اور بہار کی 710ڈالر ہے۔
لگتا ہے کہ عوام کے بجائے حکومت اپنے کرتوتوں کی وجہ سے غریب ہے۔ اس لیے آئی ایم ایف کی دست نگر ہے۔ اس ادارے کو اس لیے ترتیب دیا گیا تھا کہ ممالک کو عارضی مدد فراہم کرے، تاکہ اقتصادی اصلاحات نافذ کرکے وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوں، نہ کہ ہر وقت روز مرہ کے خرچوں کے لیے اس کے دروازوں پر دستک د ے دی جائے۔
یہ صورتحال کم وبیش ایسی ہی ہے، جیسی ہندوستان میں 1990میں تھی۔ جب نرسمہا راو وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہو گئے تھے، تو ملک کا پورا سونا بینک آف انگلینڈ میں گروی رکھا جا چکا تھا۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط نے ملک کو جکڑ کر رکھا تھا۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے نرسمہا راو نے ایک ٹیکنو کریٹ منموہن سنگھ کے حوالے وزارت خزانہ کی اور ان کو نہ صرف کھلی چھوٹ دی، بلکہ ان کو اپنی پارٹی اور اپوزیشن کے وار سے بھی بچایا۔
منموہن سنگھ نے خود ایک بار یہ واقعہ سنایا کہ جب ان کے ہر قدم پر اپوزیشن واویلا مچاتی تھی اور کانگریس پارٹی کے اندر سے بھی مخالفت ہوتی تھی، تو انہوں نے استعفیٰ لیٹر ٹائپ کرکے اپنی جیب میں رکھا ہوا تھا، اور کئی دفعہ وزیر اعظم کو پیش کیا۔ ایک بار کھاد پر سبسڈی کم کرنے کی وجہ سے اپوزیشن نے نو دن تک پارلیامنٹ کو جام کر دیا تھا۔ اس بار انہوں نے وزیر اعظم سے استعفیٰ کومنظور اور ان کو فارغ کرنے کی سختی سے درخواست کی۔
نرسمہا راؤ نے ان کو قائد اپوزیشن اٹل بہاری واجپائی سے ملنے کی صلاح دی۔ بقول سنگھ کے جب وہ پارلیامنٹ میں لیڈر آف اپوزیشن کے چیمبر میں داخل ہوئے، تو واجپائی نے چھوٹتے ہی کہا کہ،’اب تم ایک ٹیکنوکریٹ نہیں، بلکہ سیاستدان ہو، اس لیے کھال موٹی رکھو۔ مخالفت برداشت کرنے کی عادت ڈال دو۔ بار بار وزیر اعظم کو استعفیٰ پیش کرکے اس کی مشکلات اور نہ بڑھاؤ۔ ہمیں معلوم ہے کہ جو کچھ اقدامات اٹھائے جار ہے ہیں وہ ملک کی اس وقت ضرورت ہیں۔ مگر ہم اپوزیشن ہیں اور ہم کو تنقید تو کرنی ہی ہے۔’
معلوم ہو کہ وزیر اعظم نے قائد حزب اختلاف کو وزیر خزانہ کو سیاست کا پاٹھ پڑھانے کی درخواست کی تھی۔ کھاد کی سبسڈی پر شاید دو روپے بڑھائے گئے تھے، تو واجپائی نے پوچھا کہ کس قدر گنجائش ہے۔ منموہن سنگھ نے کہا کہ ایک روپے کا بوجھ اٹھایا جاسکتا ہے۔ واجپائی نے صلاح دی کہ ایک روپے کم کرنے کا اعلان کرو، ایک روپے خزانہ کو مل ہی رہا ہے۔ اس کے اگلے روز پارلیامنٹ کا جام ختم ہوگیا۔واجپائی نے بھی ایک بار اتفاق کیا کہ نرسمہا راؤ کے دور کی اقتصادی اصلاحات نے کانگریس پارٹی کی لٹیا ڈبودی اور اس کے بعد وہ کبھی بھی اپنے بل بوتے پر بر سر اقتدار نہیں آئی، مگر اس نے آنے والی حکومتوں کے لیے تعمیر اور ترقی کے دروازے کھول دیے۔
خود واجپائی حکومت کے دور میں پھر من موہن سنگھ کی وزارت اعظمیٰ کے پہلے پانچ سال ہندوستان میں جو ریکارڈ گروتھ درج ہوئی، اس کی جڑیں نوے کی دہائی کے معاشی اقدامات تھے، جو دس سال بعد اپنے افادیت دکھا رہے تھے۔ ہوسکتا ہے پاکستان کی موجودہ حکومت معاشی اقدامات کی وجہ سے غیر مقبولیت کی حد کو چھو لے، مگر آئندہ کی حکومتوں کی راہ ہموار کرسکتی ہے۔
مگر پاکستان اور ہندوستان میں فرق یہ ہے کہ اسلام آباد میں حکومتی اتحاد اور اپوزیشن کسی طرح کی میانہ روی کے قائل نہیں ہیں۔ اس طر ح کا اشتراک مفقود ہے۔ دونوں کی رگوں میں نفرت کا زہر سرایت کر گیا ہے اور ایک دوسرے کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ سن 50کی دہائی میں عبدالماجد دریابادی نے پاکستان کے ایک ماہ کے دورے کے بعد لکھا تھا کہ ،’بڑے دکھ اور کرب کے ساتھ یہ محسوس ہوا کہ جس اتحاد امت اور کلیدی یکجہتی کو وجود میں لانے اور اس کو ترقی دینے کے لیے پاکستان وجود میں آیا تھا، وہ خود ہی مفقود ہے۔’ ستر سال بعد بھی صورتحال کم و بیش ایسی ہی ہے۔
پاکستان میں بیتے ایک ماہ کے دوران ٹوئٹر جس کو اب ایکس کہا جاتا ہے سے رشتہ ٹوٹ گیا تھا۔ حکومت نے اس کو استعمال کے قابل ہی نہیں چھوڑا ہے۔ یا تو رسائی بند ہے، یا اس کو اتنا سست کردیا گیا ہے کہ اس کو کھولنا ہی درد سر ہے۔ اس سے رابطہ کرنے کے لیے وی پی این ہونا ضروری ہے۔
دلچسپ بات یہ کہ اس کا استعمال غیر قانونی ہے۔ اس پر اب طرہ کہ نظریاتی اسلامی کونسل نے وی پی این کے استعمال کو غیر شرعی بتایا ہے۔ اس سے بہتر تھا کہ ایکس پر پابندی اٹھائی جاتی، تاکہ کسی کو غیر قانونی یا غیر شرعی کام نہ کرنا پڑے۔ یہ پابندی کتنی تکلیف دہ ہے کہ حکومت اپنے سبھی اعلانات اسی کے ذریعے کرتی ہے، مگر عوام تک اس کی رسائی بند ہے۔ تحریک انصاف کے مارچ کے دوران جس طرح کی ناکہ بندی کی گئی تھی ابھی اس کی تکلیف باقی ہی تھی، کہ معلوم ہو اکہ شنگھائی کوپریشن آرگنائزیشن یعنی ایس سی او کا سربراہی اجلاس ہونے والے ہے، اس لیے اس کے پانچ روز قبل ہی شہر کو بند کرنے کا حکم ٹوئٹر کے ذریعے دیا گیا۔ شہر اور اس کے نواح کے تمام شادی ہالوں کو بند کرنے کا حکم آگیا۔
اس نادر شاہی فرمان کے دور روز بعدمیری بیٹی کی شادی طے تھی اور اس کے لیے شادی ہال ایک ماہ قبل بک کیا ہواتھا۔ تمام دعوت نامے جاچکے تھے۔ رات بھر پوری فیملی کے افراد سر جوڑ کر بیٹھے تھے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ لڑکے والوں کی تجویز تھی کہ وہ اگلے روز ایک مختصر سی بارات لےکر ہمارے چاچا ڈاکٹر مشتاق گیلانی کے گھر آجائیں گے،نکاح اور رخصتی ہوجائےگی اور پھر جب شہر واپس کھلے گا، تو پھر باقی تقریبات ہوں گی۔
اب اگلے روز مدعوین کو فون کرکے ایک ایک کرکے فرداً فرداً معذرت کرنی تھی۔ آدھی رات کے بعد شادی ہال کے منیجر نے فون پر نوید سنائی کہ ابھی حکومت کی طرف سے ٹوئٹ آیا ہے کہ سربراہ اجلاس کے دن یعنی چار دن بعد اب شہر میں آمد و رفت بند ہوگی۔ اس لیے اب گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ راحت کی سانس لےکر ہم پھر تیاریوں میں جٹ گئے۔
اگر حکومت خود اعلانات کے لیے ٹوئٹر یا ایکس کا سہار ا لیتی ہے، تو عوام کو اس سے دور رکھنے کی کیا تک ہے۔ ان اعلانات تک رسائی کے لیے عوام کو وی پی این کا سہارا لینا پڑتا ہے، جس کا استعمال غیر قانونی اور اب نظریاتی کونسل کے بقول غیر شرعی ہے۔ جائیں تو جائیں کہاں!!!
پھر ایس سی او کے اجلاس کی تاریخ اور مقام کے بارے میں سال بھر قبل ہی معلوم ہوتا ہے، اس لیے ایسی پابندیا ں ایک ماہ قبل ہی مشتہر کی جاسکتی تھی، تاکہ اس دوران کوئی شادی ہال کی بکنگ کرے نہ کوئی اور پروگرام رکھے۔ایس سی او اجلاس کے دوران کئی ہندوستانی صحافی اسلام آباد وارد ہو گئے تھے۔ ان میں کئی کو پتہ چلا تھا کہ میں بھی اسلام آباد میں ہوں اور ملاقات کے متمنی تھے، مگر شہر میں رکاوٹیں اور ٹرانسپورٹ بند ہونے کہ وجہ سے وہ ہمارے ٹھکانے پہنچ پائے نہ مجھے ان تک رسائی ہوسکی۔
پاکستان میں آجکل جہاں دو لوگ آپس میں بیٹھے ہوں، موضوع گفتگو عمران خان اور اس کی رہائی ہے اور سوال کیے جاتے ہیں کہ کیا نئے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سابق وزیر اعظم کو رہا کروا پائیں گے۔ اس ایک ماہ کے دوران ایک آدھ پاکستانی بھی نہیں ملا، جو موجودہ حکومت سے کسی قدر خوش ہو یا عمران خان کے خلاف اس کے اقدامات کو جائز سمجھتا ہو۔
روزنامہ 92 میں ملک محمد سلمان کے کالم اور انقرہ میں ابرار بیگ صاحب کے علاوہ کوئی پاکستانی نہیں ملا، جو شہبا ز شریف، مسلم لیگ یا پیلز پارٹی کے حوالے سے حسن ظن رکھتے ہوں۔لاہور میں ایک شاہراہ سے گزرتے ہوئے ٹیکسی ڈرائیور نے ایک جگہ رکاوٹوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ زمان پارک ہے اور رکاوٹوں کے پیچھے عمران خان کا مکان ہے۔لاہور سے واپسی پر بس میں پاس کے مسافر نے اونچی آواز میں عمران کے ایک حامی یو ٹیوبر کا پروگرام لگایا تھا، جو باقی مسافر بھی دلچسپی کے ساتھ سن رہے تھے۔ بڑی مشکل اور منتوں کے بعد ہی اس نے اس کی آواز کم کی۔
عام آدمی سے جب پوچھا جائے کہ آخر اس کو موجودہ حکومت سے کیا پریشانی لاحق ہے؟ تووہ اس حکومت کو مہنگائی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ کاروباری افراد کساد بازار ی اور سست معاشی صورتحال کے لیے اس کو ذمہ دار گر دانتے ہیں۔ ان کو یقین ہے کہ عمران خان اور حکومت کے درمیان کسی امن مساعی کے بعد ہی مارکیٹ کی رونقیں لوٹ آئیں گی۔
مہنگائی کے حوالے سے جب ان کو بتاؤ کہ پوری دینا کساد بازاری کا شکار ہے، ترکیہ میں تو منگائی اس قدر بڑھی ہے کہ چار سال قبل پانی کا جو کین چودہ لیرا کا آتا تھا وہ اب سو سے اوپر تجاوز کر گیا ہے، تو وہ یقین نہیں کرتے ہیں۔حکومتی افراد مصر ہیں کہ انہوں نے حالات سنبھالے ہیں اور ملک بہتری کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں جہاں پچھلی حکومت کے دوران آئے دن افسران کے تبادلے ہوتے تھے، وزیر اعلیٰ مریم نواز نے اس کو روک دیا ہے۔
لوگ تسلیم تو کرتے ہیں کہ تقرریاں اب میرٹ پر ہوتی ہیں، مگر اس حکومت کا اقبال کہیں نظر نہیں آیا۔حکومتیں تو اقبال پر ہی چلتی ہیں۔ گو کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد تو عمران خان کے دور میں ہی شروع ہوا تھا، مگر کاروباریوں نے یقین کر کے رکھا ہوا ہے کہ خان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد ہی ان کا بزنس بیٹھ گیا ہے۔ فیصل مسعود کے بقول لوگ الیٹ چہروں یعنی اشرافیہ سے بے زار ہیں۔ یہ جنوبی ایشیا کا سچ ہے۔ہندوستان میں نفرت کی سیاست کے علاوہ جس چیز نے نریندر مودی کو مڈل کلاس میں مقبول بنایا وہ اس کا اشرافیہ کے گروہوں کے گٹھ جوڑ کو بے اثر بنانا ہے۔
ایک ٹیکسی ڈرائیور نے پتے کی بات کہی کہ عمران خان کی حکومت کوئی ماڈل نہیں تھی،وہ انتہائی غیر مقبول ہو چکے تھے۔ ان کو شاید انتخابات میں بری طرح شکست ہو جاتی۔ مگر ان کو ہروانے اور اقتدار سے باہر کرنے کا کام عوام کو کرنا تھا۔ ویسے تو پاکستان کسی بھی لیڈر کو منصب پر قائم رکھنے کے قائل نہیں ہیں۔ ہر لیڈر میں بشری کمزوریاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس کی تشہیر کی جاتی ہے۔
لوگ بھی جلد ہی حکمرانوں سے اوب جاتے ہیں۔ اس لیے ایک بار دہلی میں ہمارے سینیر ایڈیٹر پارسا وینکٹیشور راؤ نے مشورہ دیا تھا کہ پاکستان کی حکومت کی معیاد تین سال ہونی چاہیے، ایک سال ہنی مون میں، ایک سال کام کرنے میں اور ایک سال اس کو لپیٹنے میں صرف ہو۔
خیر میرے ویزا پر دو شہروں اسلام آباد اور لاہور جانے کی اجازت تھی۔ اس بار میں نے لاہور دیکھنے کی ٹھانی تھی۔ اس سے قبل دہلی سے پاکستان کسی کانفرنس، وفد یا صحافتی مصروفیت کی وجہ سے آنا ہوتا تھا۔ دوبار ہندوستانی وزرائےخارجہ ایس ایم کرشنا اور سشما سوراج کے ہمراہ پاکستان وارد ہو گیا تھا، مگر ہر وقت لاہور میں چندگھنٹے بتا کر آگے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوجاتے تھے، اور وہاں بھی ہوٹل کا کمرہ اور کانفرنس روم ہی دیکھ پاتے تھے۔
لاہور میں ہی روزنامہ 92کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے، اس لیے گروپ ایڈیٹر ارشاد عارف، اور ادارتی صفحہ کے انچارچ اشرف شریف سے ملاقات کی شدید خواہش تھی۔شادی کی تقریبات سے فراغت کے بعدرات کو فیصل موروز کی آرام دہ بس سے لاہور کی طرف روانہ ہوگیا۔ بس میں سیٹیں اور کلاس بالکل ہوائی جہاز کی طرز کی تھیں۔ آگے کی چندنشستیں وسیع اور کھلی جہاز کے بزنس کلاس کی طرح اور پھر پیچھے اکانومی کلاس کی سیٹیں تھیں۔ بس میں خاتون کنڈکٹر کا کام کر رہی تھی۔ موٹر وے پر کسی حادثہ کی وجہ سے جام لگ گیا تھا۔ اس لیے دیررات گئے لاہور پہنچ گئے۔
انٹرنیٹ سے شہر کے قلب میں گلبرگہ کے علاقے میں ایک ہوٹل بک کیا ہوا تھا، تاکہ شہر دیکھنے میں آسانی ہو۔ ہوٹل پہنچ کراستقبالیہ کلرک کو نام بتایا کہ اس نے کہا کہ اس نام پر ریزورویشن ہے اور ویٹر کو کمرہ کھولنے اور میرا سامان کمرے میں لے جانے کے لیے کہا۔ رجسٹر پر اندراج کے لیے اس نے جب میری آئی ڈی مانگی، تو ظاہر ہے کہ میں نے اپنا پاسپورٹ اس کے حوالے کردیا، جس کو دیکھ کا اس کا منہ لٹک گیا۔ اس کی ساری مہمان نوازی کافور ہوگئی اور کہا کہ وہ ہندوستانی شہریوں کو کمرہ نہیں دیتے ہیں۔
اس دوران اس نے ویٹر کو بھی بلاکر کمرے سے میرا سامان واپس لانے کی ہدایت دی۔ آدھی رات سے بھی زیادہ کا وقت ہو چکا تھا۔میں اس کو بتانے کی کوشش کر رہا تھا کہ میں پاسپورٹ اور پاکستانی ویزا پر آیا ہوں، غیر قانونی طور پر کوئی بارڈر کراس کرکے نہیں آیا ہوں۔ پر اس کا ٹکا سا جواب تھا کہ اس کے مالکان کا حکم ہے کہ کسی ہندوستانی شہری کو کمرہ نہیں دینا ہے۔ خاصے بحث ومباحثے کے بعد میں نے درخواست کی کہ مجھے لابی میں صوفے پر بیٹھنے دے، علی الصبح کوئی انتظام کروں گا۔ صبح ہونے میں چند گھنٹے ہی رہ گئے تھے۔
مجھے یاد آیا کہ چند سال قبل ممبئی میں ایک پاکستانی فیملی کو بھی اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ وہ شاید سورت سے ممبئی دیکھنے آئے تھے اور رات گزارنے کے لیے محمد علی روڑ اور بھنڈی بازار کے کسی ہوٹل نے ان کو کمرہ نہیں دیا۔ جس کی وجہ سے ان کو پورے خاندان سمیت جس میں معمر افرا اور بچے شامل تھے، فٹ پاتھ پر گزارنی پڑی۔ شاید میرے ساتھ بھی اس رات لاہور میں یہی ہونے والا تھا۔ میں نے استقبالیہ کلرک کو پاسپورٹ پر میرے کشمیر میں پیدا ہونے کا واسطہ بھی دیا، مگر اس کا کہنا تھا کہ پاسپورٹ انڈین ہے اس لیے معذرت ہے۔
مگر اس نے صوفے پر چند گھنٹے گزارنے کی اجازت دے دی۔ اسی دوران اس کو کیا الہام آگیا کہ اس نے دوبارہ میرا پاسپورٹ مانگا اور اس کے اور ویزا کے فوٹو لےکر کسی کو بھیجے۔ چند منٹ بعد اس نے پوچھا کہ پولیس کی سرٹیفیکیٹ کہا ں ہے؟ میں نے دوبارہ اس کو ویزا دکھا کر بتایا کہ یہ پولیس جانچ سے مستثنیٰ ہے۔ اس نے اس کو پڑھ کو دوبارہ کسی کو بھیجا۔ چند ساعت کے بعد اس نے بیرے کو مجھے اور سامان کو واپس کمرہ میں پہنچانے کی ہدایت دی اور اگلے دو روز تک جب تک وہاں مقیم رہا معذرت کرتا رہا۔پاکستانی حکام کو اس معاملہ سے نپٹنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر اس طرح کا کوئی حکم ہے تو اس کا تدارک کرنا چاہیے۔
لاہور اور دہلی بالکل جڑواں بہنیں لگتی ہیں۔ اگر دہلی میں کسی شخص کو نیند کی گولی کھلا کر لاہور میں جگایا جائے، تو شاید ہی اس کو پتہ چلے کہ وہ کسی دوسرے شہر میں ہے۔ دہلی سے انقرہ منتقلی کے بعد سموگ بھول گیا تھا۔ شہر نے گر د اور دھوئیں کی چادر اوڑھ لی تھی۔ آنکھوں میں جلن اور نزلہ کی آمد کے آثار نظر آرہے تھے۔ اگلے روز بادشاہی مسجد، مزار اقبال، داتا گنچ بخش کے مزار کی زیارت کرنے کے بعد مصنف اور برطانیہ میں مقیم میڈیکل ڈاکٹر عامر بٹ صاحب نے پر تکلف لنچ کروایا اور اپنی کتاب لاہور،پلیس ، پیپلز،اسٹوریز تحفتاً دی، جو بہت کام آئی۔
ان سے رخصت لےکر میں ٹیکسی لےکر دہلی گیٹ پہنچ گیا، جہاں انہوں نے میرے لیے ایک گائیڈ کا انتظام کیا ہوا تھا۔ گائیڈ سید ذولفقار علی کاظمی نے بتایا کہ ان کی کنیت لڈی شاہ ہے، اور اسی نام سے ان کو سب جانتے ہیں۔ میں نے کہا کہ کشمیری میں لڈی شاہ روایتی مزاحیہ لوک گیت کار کو کہتے ہیں، تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے تو پنجابی کے لاڈلا کو لڈی بنا کر لڈی شاہ نام رکھ دیا تھا۔دہلی گیٹ کی اوپری منزل پر 1849 میں لاہو ر پر قبضہ کے بعد انگریزوں نے برصغیر کی پہلی عدالت بنائی تھی، جہاں انگریز جج قضا و قدر کے فیصلے کرتے تھے۔
خیر لڈی شاہ کی معیت میں لاہور کی تنگ مگر نسبتاً صاف ستھری گلیوں کے پیدل سفر کا آغاز ہوا۔ اس طرح کی گلیاں دہلی میں بھی ہیں۔ جب میں دہلی آیا تھا، تو کئی ماہ گلی قاسم جان میں ہی مقیم تھا۔ اس کے بعد بھی ایک بار چند ماہ ترکمان گیٹ کے پہاڑی بھوجلہ میں مقیم رہا ہوں۔ مگردہلی اور لاہور کی گلیوں کا فرق ان کی دیکھ ریکھ اور صاف صفائی میں ہے۔ اس علاقے میں مصالحوں کی بڑی مارکیٹ بھی ہے۔
بادشاہی مسجد اور داتا دربار کے آس پاس کے علاقوں میں بھی صاف ستھرائی کا نظم ہے، جو جامع مسجد دہلی اور بستی نظام الدین میں مفقود ہے۔ گلیاں اتنی تنگ کہ بقول مشتاق احمد یوسفی کہ اگر مرد اور عورت مخالف سمت میں آرہے ہوں، تو نکاح کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچتا ہے۔ سر گنگا رام یا دینا ناتھ کی حویلی ان کو محفوظ اور اصل حالت میں رکھا گیا ہے۔ لڈی شاہ نے اپنا اوطاق بھی دکھایا، جہاں ان کا دس سالہ بیٹا ایک میوزیم جیسے شوروم کی رکھوالی کر رہا تھا۔ اس کی آواز کا جادو اس قدر ہے کہ اس میں مستقبل کے فنکار کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
کہتے ہیں کہ لاہور جس نے نہیں دیکھا، اس نے دنیا ہی نہیں دیکھی، مگر جس نے لاہور میں وزیر خان مسجد نہیں دیکھی، اس نے کچھ نہیں دیکھا۔مسجد کی نمایاں خصوصیت باہر اور اندر دونوں طرف چمکدار موزیک ٹائلز اور فریسکوز کا استعمال ہے۔ عامر بٹ کہہ رہے تھے کہ یہ ایران اور وسطی ایشیا میں مساجد اور مقبروں کی مشترکہ خصوصیت ہے۔ لیکن برصغیر میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ کچھ فن تعمیر اسے برصغیر پاک و ہند میں لاہور کا مخصوص فن تعمیر کہتے ہیں اور اس خطے میں وزیر خان مسجد سے بہتر مثال کہیں نہیں مل سکتی۔
اس مسجد کی دیواروں کا آرٹ اس قدر اہم ہے کہ میو کالج آف آرٹ کے ڈائریکٹر جان لاک ووڈ کپلنگ نے اپنے تمام طلباء کو اس کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ ان کے مطابق یہ دنیا میں حقیقی فریسکو آرٹ کی چند مثالوں میں سے ایک ہے۔ کاشی کاری کے نام کا آرٹ پتلی ٹائلوں کی تیاری کا ایک وسیع عمل ہے۔ اس میں پہلے ریت، چونے اور پاؤڈر گلاس کو چاول کے پانی میں ملا کر پیسٹ تیار کیا جاتا ہے۔ انہیں سائز میں کاٹ کر خشک کیا جاتا ہے۔ چونے اور سیسہ یا پاؤڈر گلاس کے مائع مکس کے بعد کچھ پودوں کے نچوڑ کے ساتھ مکس کیا جاتا ہے اور اسے پھیلایا جاتا ہے۔ اس ٹائل کو پھر بیک کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ شیشہ فیوز ہو جائے اور پھر پلستر والی دیوار سے منسلک ہو جائے۔1947سے قبل کئی کشمیری لیڈروں نے اپنی یاداشتوں میں اس مسجد اور اس کے اند ر مدرسے کا ذکر کیا ہے۔
اپنی آپ بیتی ولر کنارے میں مرحوم سید علی گیلانی رقم طراز ہیں کہ انہوں نے اس مسجد کے مدرسے میں داخلہ لیا تھا، جہاں قاری محمد لطیف سے انہوں نے تجوید اور تعلیم حاصل کی تھی اور انہوں نے ان کو قرآن کی کئی پارے بھی حفظ کروائے تھے۔ اس مسجد کے آس پاس رہنے والے باہر کے طالب علموں کو کھانا کھلاتے تھے۔ مسجد کے پاس ہی مہاراجہ رنجیت سنگھ کے وزیر خزانہ دینا ناتھ کی حویلی اور کنواں ہے، جس کے چار دروازے چار مذاہب کے ماننے والوں کے پانی پینے کے لیے بنائے گئے ہیں۔
دہلی شہر کی طرح لاہور کے بارہ گیٹ ہیں، جن میں موچی گیٹ، کشمیری گیٹ، شیراوالی گیٹ، موری گیٹ قابل ذکر ہیں۔ موری گیٹ پر اردو بازار آب و تاب کے ساتھ کھڑا ہے۔ دہلی میں جامع مسجد سے متصل اردو بازار کا اب جنازہ اٹھ چکا ہے۔ کتابوں کی دکانوں کی جگہ کباب بنانے والوں نے لی ہے۔ مگر یہاں اس بازار میں 500 سے زائد کتابوں کی دکانیں ہیں۔
اس بازار میں ایک پرانا پرنٹنگ پریس بھی ہے جو کبھی گلاب سنگھ کی ملکیت تھا اور اب اسے پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان پریس چلاتا ہے، جو حکومت کے زیر انتظام ایک ادارہ ہے۔ اس گلی کے اختتام پر ہری گیان مندر ہے، جو ایک زمانے میں لاہور کے سب سے شاندار مندروں میں سے ایک تھا۔
یہ مندر سکھ دور میں شری پرساد کاستھ نے تعمیر کیا تھا، اور مورخ کنہیا لال ہندی کے مطابق، مذہبی استاد پنڈت سردھا رام پھلواری یہاں لیکچر دیا کرتے تھے۔ویسے تو اسلام آباد میں بھی سعید بک بینک اور مسٹر بکس کی وسیع کتابو ں کی دکانیں ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ان دونوں دکانوں پر لوگ کتابوں کو عزت بخشتے ہوئے دکھائی دیے۔
لاہور کی آوارہ گردی اور ارشاد عارف کی وساطت سے ڈنر پر کئی مشہو ر و معروف کالم نویسوں سے ملاقات کرنے کے بعد اسلام آباد کی طرف واپسی ہوئی۔اس دوران انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نے ہندوستانی مسلمانوں پر لکھے میرے اردو کالموں کا انتخاب کرکے ”اکیسویں صدی کا بھارت اور مسلمان۔سیاست اور سماج کے آئینے میں“ کے نام سے کتاب شائع کی۔
پاکستان کا سفر بھی اختتام کو پہنچ رہا تھا۔اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی میں تو بالکل دہلی کی جواہر لال نہرویونیورسٹی جیسا احساس ہوتا ہے۔ کینٹین میں چائے پیتے ہوئے برابر کی میز پر بلوچستان کے طلبہ کی میٹنگ چل رہی تھی۔معلوم ہوا کہ جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے طلبہ یونین پر پابندی عائد ہے، اس لیے ہر صوبہ کے طلبہ کی اپنی کونسل ہے، جو اسی کینٹین میں میٹنگیں کرتی رہتی ہیں۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ جس طرح مصر، ملائشیا یا ترکیہ نے گزرگاہ ہونے کا فائدہ اٹھایاہے، پاکستان، جنوبی اور وسط ایشیاء کے درمیان ایک لنک ہونے کے باوجود اپنے لیے بھی اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکاہے۔ ملک کے قیام کے بعد ہی اس کے حکمرانوں کو ایران اور افغانستان کے ساتھ ملکر ایک کنفیڈریشن بنانی چاہیے تھی اور بعد میں اس کا دائرہ وسط ایشائی ممالک تک بڑھانا چاہئے تھا۔ہندوستان کے ساتھ کشیدگی کی وجوہات تو ہیں، ایران اور افغانستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی سمجھ سے بالاتر اور سفارتی اور سیاسی ناکامی کے علاوہ کیا ہوسکتی ہے۔
سب اس بات پر متفق ہیں کہ حالات تبھی درست ہوسکتے ہیں، جب پاکستان میں کسی قدر اندرونی استحکام ہو۔مگر اس کے لوازمات کے بارے میں اختلافات ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ ایک بار دہلی میں وزیر اعظم ہاؤس میں کسی تقریب کے بعد ڈنر کے موقع پر نرسمہا راؤ کی مدت حکومت کے دوران کے دو چیف جسٹس صاحبان کے ساتھ میں کھانے کی میز پر شریک تھا۔ شاید جوڈیشل ایکٹیوازم کا موضوع زیر بحث تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ نہیں سمجھتے ہیں کہ ان کی مداخلت اور نرسمہا راؤ کے خلاف ریفرنسز کو سماعت کے لیے منظور کرنے سے بابری مسجد مسماری سے بچ سکتی تھی اورمالی بد عنوانی کے لیے بھی آئندہ کسی بھی وزیر اعظم کے لیے ایک تنبیہ ہوتی؟
آخر انہوں نے نرسمہا راؤ کو بے لگام کیوں چھوڑا، جب کہ وہ ان پر قد غن لگا سکتے تھے؟تو ان میں سے ایک سابق چیف جسٹس صاحب نے گلا صاف کرتے ہوئے، کہا ”کہ وزیرا عظم جمہوری نظام کا ایک اہم ستون ہوتا ہے۔
حکومت دھونس، دباؤسے زیادہ وزیرا عظم کے اعتماد و اقبال پر چلتی ہے۔ اب اگر آئے دن اس کو کورٹ میں گھسیٹ کر قانونی تقاضوں کے نام پر اسکی بے عزتی کرانی مقصود ہو تو وہ حکومت کب کریگا؟ اور کیا کوئی افسر، سکریٹری یا دیگر ادارے، اس کو قابل اعتنا سمجھیں گے؟ کیا وہ اسکے احکامات بجا لائیں گے؟ کیا وہ اس انتخابی منشور کو، جس کی وجہ سے عوام نے اسکو مینڈیٹ دیا ہے، عملی جامہ پہناپائے گا؟“ دوسرے سابق چیف جسٹس نے بحث میں شامل ہوتے ہوئے کہا کہ اداروں کا احتساب لازمی امر ہے مگر استحکام کو اس کے لیے قربان نہیں کیا جاسکتا۔دونوں میں ایک طرح کا توازن رکھنا لازمی ہوتا ہے۔
انہوں نے یا د دلایا کہ وزارت عظمیٰ سے ہٹتے ہی نرسمہا راؤ ٗ کو اراکین پارلیمان کی خرید و فروخت کے الزام پر عدالت کا سامنا کرنا پڑااور انہیں سزا بھی سنائی گئی۔
ہندوستان کی آئین ساز مجلس میں آئین کا مسودہ پیش کرتے ہوئے معروف دلت لیڈر ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے کہا تھا کہ دنیا کا کوئی آئین کامل نہیں ہوسکتا ہے۔ اس کو مؤثر اور قابل استعداد بنانا اداروں اور اس کو چلانے والی کی ہیت اور نیت پر منحصر ہوتا ہے۔ ایک اچھے سے اچھا آئین بھی اگر ناہل اور بے ایمان افراد کے ہتھے چڑھ گیا، تو بد سے بد تر ہوسکتا ہے۔ اگر ملک کو چلانے والے فراخ دل اور با مروت ہوں، تو خراب سے خراب تر آئین بھی اچھا ثابت ہوسکتا ہے۔
مگر پاکستان کی مٹی میں پتہ نہیں کیا ہے کہ جس بھی کسی ادارے کو چاہے وہ سول حکومت ہو یا عدلیہ، صدر یا فوج طاقت ملتی ہے، تو وہ بے لگام ہو جاتا ہے۔ اتنی سی بات پاکستان کے حکمرانوں اور اس کے عوام کی سمجھ میں آجائے، تو وہ نہ صرف اپنے ملک کا بلکہ خطے کا بھلا کرسکتے ہیں۔
بشکریہ فیس بک وال
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں