فرخ سہیل گوئندی کا نگار خانہ /عمر سلیم

فرخ سہیل گوئندی کے بارے میں ایک بات تو وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے، یہ آدمی امریکہ کے سفر پر ہو یا دنیا کی کسی سرزمین پر جہاں گردی کرتا ملے اس کا دل اپنے آبائی شہر سرگودھا کے لئے دھڑک رہا ہوگا، آنکھیں لاہور کی شاموں و سیاسی محفلوں کی راہ دیکھ رہی ہونگی، اور ذہن رفتگاں کی یاد سے خالی نہ ہوگا۔

فرخ سہیل گوئندی کی اس کتاب کے بارے میں فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ یہ کتاب کس زمرے میں آتی ہے۔ اسے صرف خاکوں کی کتاب کہہ دینا مصنف کے ساتھ زیادتی ہے کیونکہ یہ محض خاکے ہی تو نہیں ہیں۔ مصنف کی زندگی کے کم و بیش تمام گوشے جس میں اس کا بچپن، شہر، محبتیں، صحبتیں اور صعوبتیں شامل ہیں یہاں اپنی تمام آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہیں۔

فرخ سہیل گوئندی کا اولین حوالہ سیاسی کارکن کا ہے جس نے جیون کی کئی دہائیاں ایک عملی سیاسی ورکر بن کر گزاری ہیں اور نظریات کے لئے جدوجہد کی ہے مگر اس کار ہائے سیاست میں دیکھیے تو کیسی کیسی قد آور شخصیات سے ان کا سابقہ رہا ہے، کیسے کیسے نابغوں سے انہوں نے کیا کیا سیکھا۔ صرف سیاسی شخصیات ہی نہیں، انہیں ملکی اور غیر ملکی لیڈروں، ادیبوں، اداکاروں، اور یہاں تک کہ ہندوستان کے سب سے بڑے ڈان حاجی مستان مرزا کی صحبت بھی میسر رہی ہے۔

شیخ محمد راشد، حنیف رامے، ڈاکٹر انور سجاد اور راو رشید نہ صرف میدان سیاست میں انکے ساتھی تھے بلکہ عمروں کی تفاوت کے باوجود وہ مصنف کے نہایت گہرے دوست بھی تھے۔ یہ کتاب عشق کی داستان ہی تو ہے۔

کتاب کا آغاذ ہی ایک قصہ عشق سے ہے۔ ایک نو عمر لڑکا اپنے باپ اور بھائی کیساتھ کمپنی باغ سرگودھا میں ذوالفقار علی بھٹو کو اسٹیج پر بولتے سنتا ہے تو فدا ہو جاتا ہے۔ اسی عشق میں وہ لاہور کی سڑکوں پر اپنے محبوب سیاستدان کو دیکھتا ہے، اس کے خیالات سنتا ہےاور سیاست کو دل دے بیٹھتا ہے۔ سترہ برس کی عمر میں جب لڑکے حسینوں کے وہم و خیال و عشق میں مگن ہوتے ہیں وہاں سترہ برس کے گوئندی صاحب محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہمراہ ضیاء امریت کے خلاف جدوجہد میں مصروف تھے۔

آدمی شہر کا چہرہ ہے، سرگودھا جیسے تاریخی شہر کا چہرہ فرخ سہیل گوئندی ہیں۔ لاہور شہر جہاں انہوں نے 1977 میں سکونت اختیار کی، سرگودھا شہر مصنف کا بنیادی حوالہ ہے، ان کی جم پل خاص اسی شہر کی ہے۔ سرگودھا شہر کو برٹش نے از سرنو آباد کیا، اس شہر کا نام یہیں کے رہنے والے ایک سادھو بابا گودھا کے نام پر رکھا جس کی ملکیت میں ایک تالاب تھا۔

مصنف کے اجداد سیالکوٹ کے گاوں مترانوالی میں آباد ہوئے۔ اسی گاوں کے دو بھائی داسوندھی اور ساربندھی گوئندی جنھوں نے اسلام قبول کیا اور شہر سرگودھا کی بنیاد رکھی۔ یہی ساربندھی گوئندی مصنف کے پرنانا تھے۔ سرگودھا ہی وہ شہر تھا جسے برٹش نے جدید بلاک سسٹم پر تعمیر کیا۔

جنگ 1965 کی دوران، شہر کی کیا حالت تھی اس کا تذکرہ بھی کتاب میں ملتا ہے۔ ستائیس بلاک اور اسی ہزار پر مشتمل شہر، جنگ کے لمحات میں خالی تھا، فقط دس سے بیس ہزار لوگ شہر میں رہ گئے تھے۔ وہ خوبصورتی جو اس شہر کا کبھی خاصا تھی، اب مفقود ہے، جس پر مصنف نالاں ہے اور جذباتی ہو کر شہر کا انتظام چلانے والوں سے شکوہ کناں بھی ہے۔

جائے پیدائش سے عشق انسان کے خون میں سرائیت کرتی ہے اور اگلی نسل میں منتقل ہوتی ہے۔ یہ بات کتاب پڑھتے ہوئے دو بار منکشف ہوئی۔ اول کتاب میں ایک باب Marina Wheeler پر پڑھتے ہوئے۔ یہ مشہور و معروف خاتون سابقہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی اہلیہ اور بطور پیشہ وکیل اور لکھاری ہے۔ مرینہ وہیلر کی ماں ایک پنجابی سکھ خاتون دیپ کور ہے۔ اپنی ماں کا بچپن، اسکی جنم بھومی تلاش کرتے مرینہ پاکستان آتی ہے۔ مصنف کے دوست نجم لطیف، مرینہ وہیلر کی اس مدد کے لئے سرگودھا کے سپوت فرخ سہیل کا انتخاب کرتے ہیں۔ مرینہ وہیلر سرگودھا پہنچتی ہے وہ مقام دیکھتی ہے اور جذباتی ہو جاتی ہے جہاں اسکی ماں نے بچپن گزارا تھا۔

دوسرا مقام آنے تک بیچ راہ میں کتاب کے سو صفحات آتے ہیں۔ ایک باب ہربھجن سنگھ کھاربنڈا پر ہے۔ یہ ہندوستان میں مقیم مصنف کے دوست ہیں۔ اس باب کے آغاذ پر ایک فقرہ ہے:

If you have one Sikh friend in the 1.32 billion population of India, then you don’t need any more friends.

دہلی میں ایک عالمی نمائش جاری ہے، دوسرے ممالک کے اسٹالز ہیں، انکی دستکاری و خاص مقامی اشیاء اسٹال پر دھری ہیں۔ پاکستانی اسٹال پر فرخ سہیل موجود ہیں، سبز ہلالی پرچم اسٹال پر ہے، کچھ پنجابی ہندوستانی جن میں بیشتر سکھ اور ہندو ہیں جو 1947 میں ہجرت کر گئے تھے پاکستانی پرچم دیکھ کر اس اسٹال پر آتے ہیں، مصنف سے پوچھنے لگتے ہیں:

لکشمی چوک اب کیسا ہے؟ کیا لاہور کی مال روڈ اب بھی خوبصورت ہے۔ سندر داس روڈ کیسی ہے؟ راوپنڈی کے بازار کا احوال سناو؟ کیا سرگودھا والے اب بھی سفید دھوتی اور تربن پہنتے ہیں؟ یہ سوالات کرتے ہوئے بہت سے ہندوستانیوں کی آنکھیں نم ہوتی ہیں۔

یہ قصہ پڑھتے ہوئے میں جذباتی بھی ہوا اور آنسو آنکھوں سے رواں، 1947 کی ہجرت کا مجھے کوئی تجربہ نہیں، میرا اور میرے والدین کا جنم پنڈی میں ہوا مگر میرے دادا اور نانا نے 1947 میں پٹیالہ اور امرتسر سے ہجرت کی تھی۔ یہ ہجرت کا درد کیا ہے؟ پٹیالہ اور امرتسر کا سن کر میں جذباتی کیوں ہو جاتا ہوں؟ ایسا لگتا ہے کسی پچھلے جنم میں میری روح و وجود نے ہجرت کی تھی، ہجرت کے بعد میرے اجداد اپنی جنم بھومی دیکھنے کو ترسے تو ہونگے، یہی وہ ارمان و جذبے ہیں جو خون تک مجھ میں منتقل ہوگئے ہیں۔

فرخ سہیل گوئندی کے پاس پاکستان کی شہریت کے علاوہ ایک اور دیس کی شہریت بھی ہے۔ مگر یہ شہریت انہوں نے اپنے دل کو دے رکھی ہے۔ ترکی سیاست، سماج اور تاریخ سے ان کا عشق نرالا ہے۔ وزیر اعظم کے عہدے پر چار مرتبہ براجمان رہنے والے ترک لیڈر Bülent Ecevit انکے یار عزیز ہیں۔ مصنف کی ذاتی دعوت پر وہ پاکستان آتے ہیں اور کسی پروٹوکول کا تقاضا نہیں کرتے۔ Bülent Ecevit کے کہنے پر ہی فرخ سہیل 1993 میں ترکی میں بیاہ کرتے ہیں اور لبنانی شاعر اور سیاستدان کمال عبداللہ کی دختر ریما عبداللہ سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتے ہیں۔

وہ انقرہ جاتے ہیں، ایک خاتون Alime سے ملتے ہیں، سیاسی نظریات کی ہم آہنگی سخن کو بڑھاتی ہے اور وہ مکیش کا شہرہ آفاق گیت آوارہ ہوں انہیں سناتی ہے اور بتاتی ہے کہ ہم ترکوں کی ایک صفت آوارگی بھی ہے اور یہ گیت ترکی میں آج بھی بہت مقبول ہے۔

مصنف نے یہ راز عیاں کیا کہ بحیرہ اسود کے ساحلوں پر بسنے والے ترک اپنے حسن میں یکتا و بے مثال ہیں، یہیں انہوں نے ذکر Nazan Saatci کا چھیڑا ہے۔ یہ حسین ترک اداکارہ کئی برس تک پاکستانی فلم انڈسٹری میں کام کر چکی ہیں، دیکھیے تو ایک ایسا وقت بھی ہماری فلمی صنعت میں رہا ہے۔

بمبئی اور انڈیا کے سب سے بڑے ڈان حاجی مستان مرزا کے بارے میں جو خوفناک تاثر ہندوستانی فلموں کے ذریعے میں ابھرتا ہے، اس کتاب میں مستان مرزا کا احوال پڑھ کر وہ زائل ہو جاتا ہے، فرخ سہیل کیسی سہولت سے ایک بڑے ڈان سے ملتے ہیں، اور وہ کیسی مہمان نوازی اور سادگی سے مصنف سے برتاو کرتا ہے، اس کتاب میں خاصے کی چیز ہے۔

فرخ سہیل گوئندی ترکی کی تلاش میں نکلتے ہیں تو مولانا عبید اللہ سندھی کو دریافت کرتے ہیں، عبید اللہ سندھی کا ذکر ہمارے ہاں کم لوگوں نے کیا ہے، برطانوی راج کے خلاف مولانا عبید اللہ سندھی کی جدوجہد مثالی ہے۔ وہ کابل میں راجہ مہندر پرتاپ کی حکومت کے منسٹر رہے، مصطفی کمال جب ایک جمہوریہ کی بنیادیں رکھ رہا تھا عبید اللہ سندھی کا قیام ترکی میں تھا۔ عثمانیوں نے اپنے دور میں ہندوستان سے آنے والے صوفیوں کے لئے ایک سرائے ہند بنا رکھی تھی، مولانا نے بھی اپنا قیام کچھ عرصہ وہاں کیا۔ کہا جاتا ہے کہ علامہ اقبال نے 1930 میں جو خطبہ الہ آباد دیا اس پر مولانا عبید اللہ سندھی کے اثرات کا اثر ہے جو انہوں نے ایک دستاویز کی صورت میں 1924 میں اپنے استنبول قیام کے دوران تشکیل دیا۔

سن 1997 کا قصہ ہے، فرخ سہیل اقوام متحدہ کے پروگرام کے تحت مشرق وسطی جاتے ہیں۔ وہاں دوسرے ممالک کے نمائندے بھی موجود ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم Shimon Peres جنھیں 1994 میں نوبل امن انعام سے نوازا گیا وہاں سکیورٹی کے ساتھ موجود ہیں، سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، فرخ سہیل اسرائیلی وزیراعظم کے سامنے مسئلہ فلسطین پر تقریر کرتے ہوئے ان سے بے باک سوالات کرتے ہوئے مجمع کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں اور وہاں موجود بیس فلسطینی فرخ سہیل گوئندی سے کہتے ہیں:

“You are more Palestinian than we are.”

مصنف نے 2006 میں عملی سیاست کو خیر آباد کہا اور جہاں میدان سیاست ایک مخلص سیاسی ورکر سے محروم ہوا وہیں ادب اور کتاب کی فروغ کے حصے میں گوئندی صاحب آئے۔ فرخ سہیل گوئندی کو دیکھ کر اکثر خیال آتا ہے کہ ایسے سیاسی کارکن اب کہاں جو نظریات پر قائم رہ سکیں، لگی لپٹی رکھی بنا اپنی پارٹی اور لیڈر کے سامنے سچ بول سکیں، اختلاف رائے رکھ سکیں، گوئندی صاحب ایسی طرز سیاست کے آخری آدمی ہیں، ایسے سیاسی ورکرز بے رنگ زمانے نے پیدا کرنا اب چھوڑ دیے ہیں اور وہ سانچہ توڑ دیا جن سے ایسے اشخاص بنتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply